کـــمّــــــــــی کـــــمّیـــــــن
لیکن یہ صرف حقارت آمیز دو لفظ نہیں ہیں ان دو لفظوں میں پنجاب کی تاریخ اور تہذیب کا برباد ہونا چُھپا ہوا ہے چلیں آپ کو بتاتے ہیں جب کمّی "کمین" نہیں بنا تھا تو کیسا تھا اور جب کمّی "کمین" بن گیا تو کیا ہوا؟
یہ دو الفاظ ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے
سے ایسے چِمٹے ہوئے ہیں کہ آپ چاہ کر بھی انہیں الگ نہیں کرسکتے لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ یہ دونوں لفظ دو الگ الگ قوموں کے لفظ ہیں لیکن کمال مہارت سے ان دو قوموں کے دو الگ زبانوں کے الفاظ کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا اور پھر یہ کبھی الگ نا ہوسکے
یہ دونوں الفاظ دو زبانوں کے الگ الگ لفظ "کم" سے نکلے ہیں
لیکن رُکیے
یہ دونوں "کم" دو الگ الگ زبانوں اور قوموں کے لفظ تھے
کمّی والے "کَم" کا مطلب "کام" یا انگریزی والا ورک ہے
کمین والے "کم" کا مطلب "چھوٹا"/"تھوڑا" یا انگریزی والا لیس یا لیسر ہے
کمّی کا مطلب کام کرنے والا یا ورکنگ کلاس کا فرد
کمین کا مطلب کمینہ یا چھوٹا انسان ہے
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ لفظ "کمّین" پنجابی کا لفظ ہی نہیں ہے یہ ہندی/فارسی کے لفظ "کم" سے نکلا ہے جس کا متضاد "زیادہ" ہوتا ہے, اس غیر پنجابی ـفظ کم سے کئی اور الفاظ بھی نکلے ہیں
جیسے "کمینہ", "کمتر"
جبکہ پنجابی میں کسی چیز کی کمی کے لیے لفط "کم" استعمال ہی نہیں ہوتا جبکہ اس کی جگہ "گھٹ" لفظ استعمال ہوتا ہے اسی "گَھٹ" سے پنجابی لفظ "گھٹیا" نکلا ہے جو بعد میں اُردو نے بھی اپنا لیا
اسی طرح قدیم پنجابی لفظ "کَم" سے لفظ "کمائی" نکلا اور "کماؤ" نکلا جیسے میری "کمائی" میرا "کماؤ پُوت" خیر "کمّی" تو پنجابی میں ہی رہا جبکہ کمائی اور کماؤ پُوت ایسے الفاظ تھے جو ہندی اور اُردو دونوں میں گئے,
کہنے کا مطلب پنجاب کا "کمّی" وہ طبقہ تھا جسے
ورکنگ کلاس کہتے تھے یعنی وہ "کاما" طبقہ جو "کماؤ" تھا اور سیپی یعنی اجرت سے "کمائی" کرتا تھا یعنی کام سے کماتا تھا سمجھ آئی؟
"کــــــــــــــــــــــــمّــــــــــــــــــــــی" لفظ اپنے آپ میں ایک ٹائٹل ہے یہ ہر اُس انسان کا ٹائٹل ہے جو "کم" یعنی کام کرتا ہے, اس لحاظ سے آپ کا وزیراعظم بھی "کمّی" ہے آپ کا جج بھی "کمّی" ہے کھیت میں ہل جوتنے والا, جہاز اُڑانے والا, ہوٹل چلانے والا, ورکشاپ, کلینک, سکول,
دوکان چلانے والا بھی "کمّی" ہے مطلب اس لفظ کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ جتنا وسیع "کم" یا پھر "کمائی" کا دائرہ ہے جب آپ اس لفظ کی سرزمین پنجاب اور اس کی زبان پنجابی تک محدود رہ کر اس لفظ کا نتارا کریں گے تو آپ کو یہ لفظ "خوبصورت" لگنے لگے گا
لیکن یہ "کمّی" آخر "کمین" کب بنا؟
تو جواب ہے صرف کُچھ صدیاں پہلے کمّی کے ساتھ کمین جوڑا گیا چونکہ لفظ کمین پنجابی کا لفظ ہی نہیں ہے اور آج تک بھی پنجابی میں لفظ "کم" تھوڑے کے معنوں میں فِٹ ہی نہیں ہوتا جیسے
یہ جُملہ
"آ سالن کم اے ودھ پا"
یا
"میرا صاب مینوں کم تنخواہ دیندا اے"
آپ خود غور کریں ان دو جُملوں میں لفظ "کم" فٹ ہی نہیں ہو رہا اُس کی وجہ ہی یہ ہے کہ یہ پنجابی کا سرے سے لفظ ہی نہیں اب دوبارہ جُملہ پڑھیں
"آ سالن گھٹ اے ودھ پا"
یا.
"میرا صاب مینوں گھٹ تنخواہ دیندا اے"
کیونکہ پنجابی میں بالکل اسی آواز کے لفظ "کم" کا مطلب کام تھا اور یہ پنجابی میں مستعمل تھا اس لیے فارسی/ہندی کا لفظ "کم"( یعنی تھوڑا) پنجابی میں جگہ نا بنا پایا
جیسے پنجابی کے لفظ "کم" یعنی کام کی جگہ عربی لفظ "شُغل" جگہ نا بنا پایا جبکہ عربی لفظ شُغل کا مطلب
"کام" ہے لیکن چونکہ پنجابی میں اسی آواز کا ایک اور مقامی لفظ "شُغل" بہت قدیم دور سے رائج تھا جس کا مطلب مزاح ہے اس لیے عربی شُغل یعنی کام پنجابی لفظ شُغل یعنی مزاح/مستی کی موجودگی کی وجہ سے پنجابی میں جگہ نا بنا پایا جبکہ پنجابی میں ڈھیروں دوسرے عربی لفظ اور فارسی لفظ اپنی جگہ
بنانے میں کامیاب ہوئے
اسی طرح چونکہ کاف اور میم سے بنا یہ لفظ کم یعنی کام پنجابی میں پہلے سے تھا اس لیے صرف فارسی/ھندی لفظ "کم" جسکا مطلب تھوڑا ہوتا ہے ہی نہیں بلکہ اسی آواز کا عربی لفظ "کم" جسکا عربی میں مطلب "کتنا" ہوتا ہے بھی پنجابی میں جگہ نا بنا پایا
یعنی کسی دوسری زبان کا
لفظ بھی اُسی وقت آپ کی زبان میں امپورٹ ہوتا ہے جب اسکے معنی کا تو ایک طرف اسکی آواز کا بھی لفظ آپ کی زبان میں نا ہو,
پھر یہ کمّی کے ساتھ کمین کہاں سے آیا جب یہ کمّین لفظ پنجابی کا ہے ہی نہیں؟
تو جان لیں یہ لفظ کمّین بھی فارسی و عربی کی طرح باہر سے آیا اور پنجاب میں بھی
کمّیوں یعنی ورکنگ کلاس کو "کمین" یعنی کمینہ کا ٹائٹل بھی باہر سے آنے والوں نے دیا,
کیونکہ اُنکی تہذیبوں میں پیشے تھے ہی نہیں جبکہ پنجابی تہذیب کا حسن ہی یہ پیشے تھے ان باہر سے آنے والے غیر متمدن لوگوں نے ان پیشوں سے منسلک لوگوں کے "کمّی" جیسے مقامی با عزت ٹائٹل کے ساتھ
"کمین" جیسا حقارت آمیز لفظ جوڑ دیا کیونکہ انہیں انکو دیکھ کر خود سے گِھن آتی تھی عربوں, افغانوں, فارسیوں, تُرکوں کے پاس جولاہے, موچی, تیلی, کمہار, ترکھان, نائی تو تھے نہیں انکی تہذیبیں ان پیشوں سے لا علم تھیں اس لیے انہوں نے ان غیر عسکری پیشوں کو "کمین" کا ٹائٹل دیا جبکہ مقامیوں
کا تو معاشرہ ہی انکے بغیر نا چلتا تھا اس لیے مقامی انکو اُس حقارت کا نشانہ نا بناتے تھے جس حقارت کا نشانہ انہیں غلامی کے سات سو سال تک بنایا گیا اور ظاہر ہے پھر ان کے ٹائٹل "کمّی" کے ساتھ "کمین" جُڑ گیا اور مقامی برادریوں نے بھی انہیں کمّی کمین کہنا شروع کردیا اور ظاہر ہے
سات سو سال میں ان باہر کے مسلمانوں کا اثر تو ان مقامی کنورٹڈ مسلمانوں پر بھی پڑا ہی تھا انکی کچھ عادتیں توں باہر سے آنے والوں جیسی ہو ہی گئی تھیں,....
📝راناعلی
کیا ہریانے کے رنگڑھ اور جاٹ جو ہریانوی بولتے ہیں لیکن اب پاکستان میں رہتے ہیں کیا وہ پنجابی ہیں؟
ایک بات سب سے پہلے کلئیر کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ پنجاب آخر تھا کہاں تک اور پنجابی کہاں تک تھے تو آئیں پہلے پنجاب کے بارڈر کا احاطہ کر لیتے ہیں
پنجاب کی تاریخ یا امیج جو پاکستانی اردو کتابوں میں یا مطالعہ پاکستان میں دکھایا گیا ہے وہ گویا پنجاب کی تاریخ کا ایک بہت ہی مختصر حصہ یا کہہ لیں ایک چھوٹا سا باب ہے پنجاب کی تاریخ کا احاطہ کرنے کے لیے آپ کو ہندوؤں کی مذہبی کتابیں پڑھنا ہوں گی جن کے مطابق بھارت و پاکستان میں
پھیلے ہوئے کروڑوں آرئینز میں سے ایک بھی آریہ النسل انسان ایسا نہیں جسکا اصلی وطن پنجاب نہیں تھا
اب سمجھ لیں موہنجوداڑو اور ہڑپہ اور ہریانہ کے کھنڈرات تو ابھی کل دریافت ہوئے ہیں لیکن ہندوؤں کی قدیم ترین مذہبی کتابوں میں ہڑپہ و موہنجوداڑو کے دریافت ہونے سے ہزاروں سال قبل لکھی گئیں
کیا رانا فراز نون اور اس کے قبیلے کے نام نہاد "رانے" جو سرائیکی تحریک کا حصہ ہیں وہ راجپوت ہیں؟
نون قبیلے کا بہت ہی عجیب معاملہ رہا ہے حالانکہ کہ یہ قبیلہ بہت جدید دور میں اپنے مدر قبیلے سیال و ٹوانہ سے الگ ہوا انگریز دور کے اندر اسکی زیادہ پہچان بنی لیکن پھر بھی سرگودھا کے نون
اور ملتان کے نونوں میں خونی رشتے کے باوجود مُلتان کے نون راجپوت نہیں کہلواتے جبکہ سرگودھا کے نون راجپوت کہلواتے ہیں لیکن اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ سرگودھے کے نون راجپوت کہلوا کر بھی "رانا" ٹائٹل اپنے نام سے نہیں لگاتے جبکہ مُلتان کے نون جو خود کو راجپوت نہیں کہتے وہ اپنے کے
ساتھ رانا لگواتے ہیں,
تو اس کی وجہ نونوں, کھرلوں اور کلیاروں کا مُشترکہ شجرہ ہے جو کہ راجستھان کے ایک راجپوت سے شروع ہوتا ہے جس کے نام سے پہلے "رانا" آتا تھا یہ رانا راجستھان سے جنوبی پنجاب میں آبسا تھا اور اسکی نسل سے کئی گوتیں بنیں کلیاروں اور نونوں میں آج بھی اُس رانا کو اپنا
تو پنجاب کیسے بچ سکتا ہے؟
دو حل ہیں
ایک تو عربی برہمن سے اسکے مقدس ہونے کا سٹیٹس چھیننا دوجا اس سے انگریز دور کی جاگیریں چھیننا
مطلب؟
مطلب شاہوں سے جاگیریں چھین کر انہیں سرکاری ملازم بنانا
لیکن وہ شاہ ہیں مقدس ہیں
ہاں بالکل صرف جاگیریں نہیں ان سے مقدس ہونے کا سٹیٹس بھی چھیننا ہوگا
لیکن وہ شاہ ہیں آل رسولﷺ ہیں اولادِ علیؑ ہیں
تو؟
یہ زمینیں انکی تھوڑے ہی ہیں
لیکن وہ وڈیرے ہیں شاہ ہیں سینکڑوں سال سے ان علاقوں کے سردار ہیں
وہ عربی ہیں عرب میں کھیتی نہیں ہوتی یہ انکی زمین نہیں داتاؒ علی ہجویری, بابا فریدؒ, نظام الدین اولیاؒ, بُلھے شاہؒ, وارث شاہؒ کوئی جاگیر دار نہیں تھے عام لوگ تھے
لیکن خواجہ غلام فرید آف مٹھن کوٹ تو جاگیردار تھے نا؟
ہاں ہاں بالکل پتا ہے کیوں نہیں نواب آف بہاولپور کے پاکستان پر احسانات کا کس کو علم نہیں؟ اسکا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا پاکستان پر احسان ہی تو تھا؟ ورنہ وہ آزاد مُلک بنا لیتا یا پھر بھارت سے الحاق کرلیتا, لیکن بھارت سے؟ بھارت سے کیسے؟ تو ٹھیک ہے وہ آزاد رہ لیتا؟ لیکن آزاد تو
بھارت میں سات سو سے زیادہ چھوٹی بڑی ریاستیں بھی تھیں ان سب کو بھارت نے ہضم کرلیا, مطلب کوئی راستہ نا تھا سوائے پاکستان سے الحاق کے؟ ہاں نا ورنہ تحریک پاکستان میں نواب آف بہاولپور کے کردار پر ہمیں کوئی باب کیوں نہیں ملتا؟ کہ انیس سو فلاں میں نواب نے فلاں مسلم لیگی جلسے میں فلاں
خطبہ دیا تھا؟ ایسا کچھ پوری تحریک میں نواب سے منسوب نہیں سوائے اس بات کے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور کوئی تنخواہیں شنخاہیں دیں مطلب ایک بھوکے ننگے ملک کو لینے والوں کو اتنی جلدی تھی کہ ملک کا بٹوارہ کروا لیا لیکن پیسے کا بٹوارہ کروایا ہی نہیں؟ نہیں نہیں یہ بات نہیں تھی
عطاءاللہ خاں عیسیٰ خیلوی ایک بار بھارت گیا تھا وہاں اسے پنجابی سنگروں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہربھجن مان نے اسکا انٹرویو بھی بہت زیادہ ادبی ہوکر لیا, مزے کی بات عطاءاللہ نے اپنے انٹرویو میں ایک بھی مرتبہ خود کو سرائیکی سنگر نہیں کہا بلکہ وہاں اپنے بیٹے سانول کو بھی پروموٹ کرتا رہا
لیکن پاکستان میں آپ عطاءاللہ کا کوئی انٹرویو اُٹھا لیں ایک زہر ہوگا جو آپ کو اس کی باتوں میں پنجابی کے خلاف دکھے گا, یہی نہیں اپنا کامل زور لگا کر سرائیکی کو پنجابی سے الگ زبان بھی ثابت کرے گا, لیکن قمیض تیری کالی اور ڈھول سانول نا رولیں سانوں جیسے پنجابی گانوں سے ہی عالمی شہرت
پا کر عطاءاللہ ایک نیشنل لیول کا سنگر بنا تھا, یہاں تو رحیم شاہ جیسے پشتو پٹھانوں کو بھی پنجابیوں نے "چنّا وے چنّا" جیسے گانوں پر سر پر اٹھایا لیکن افسوس عطاءاللہ جو کہ بیٹا بھی پنجاب کا تھا اور گاتا بھی پنجابی میں تھا انکے اندر ایک وکھرا وائرس خود
بھونگ میں مندر پر حملے سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ ہم مسلمان انتہائی منافق لوگ ہیں اپنی مسجد کو خدا کا گھر اور ہندو کے مندر کو کُفر کا گڑھ مانتے ہیں خبیثو اُن کے نزدیک بھی وہ انکے خدا کا ہی گھر ہے, اب سمجھ میں آرہا ہے کہ ہندو کم ظالم اور مسلمان زیادہ ظالم کیوں ہوتا ہے, خبیث کے بچو
تُم ایک مندر توڑنے والے کو اپنا ہیرو کہتے ہو اسے بُت شکن کہتے ہو اپنے میزائل کا نام اُس کے نام پر رکھتے ہو پھر بابری مسجد کے شہید ہونے پر روتے ہو, لیکن سوچو پاکستان میں ہندو ہیں ہی کتنے جو دو چار فیصد ہیں وہ بھی بھارت چلے جائیں گے لیکن بھارت میں تمہاری عبادت گاہوں کا کیا حشر ہوگا
تُم تصور ہی کرسکتے ہو, مجھے یقین ہو چلا ہے کہ خدانخواستہ اگر کرتارپور اور ننکانہ صاحب بھی سینٹرل پنجاب کی بجائے ملتان یا سرحد یا بلوچستان میں ہوتے تو انہوں نے اُن کو بھی تباہ و برباد کردینا تھا, ویسے یہ قوم ہے ہی برباد قوم, ایک دوست نے ایک مرتبہ پوچھا تھا رانا بھائی اگر ہم