تاریخ کے جھروکوں سے مسلمانوں کے شاندار ماضی کو یاد کرتے ہوۓ ،زکر کرتے ہیں ایک ایسی ہستی کا جو بے شمار کتابوں کے مصنف تھے ، جن کی بیشتر تصانیف فقہ، کلام، منطق، اخلاق اور تصوف پر مشتمل ہیں۔ جن کی سب سے قیمتی اورمفید کتاب احیاء علوم الدین ہے جس کو بہت مقبولیت حاصل ہے
(1/23)
(2/23)
اس کتاب سے اسلامی دنیا کے علاوہ یورپ نے بھی خاص طورپر فائدہ اٹھایا۔ اور اس کا اصل نسخہ آج بھی کتب خانہ برلن میں موجود ہے۔ جن کی فارسی میں ”کیمیائے سعادت“ جہاں ایک بلند پایہ تصنیف ہے وہیں فقہ میں ”وسط بسیط“ مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ فلسفہ میں مقاصد الفلاسفہ
(3/23)
اورتہافتہ الفلاسفہ، منطق میں معیار العلم، محک نظر اور میزان العمل قابلِ ذکر ہیں ، جن کی خودنوشت ”المنقذ “ سوانح حیات ہے
جو ایک بڑے مفکر اور متکلم تھے اور جن کا نام محمد تھا، کنیت ابوحامد تھی اور لقب زین الدین تھا اور جنہیں ہم ابوحامد غزالی اور امام غزالی رح کے نام سے
(4/23)
جانتے ہیں۔
امام غزالی 1054ء میں ایران کے صوبے خراسان کے چھوٹے سے شہر طوس میں پیدا ہوئے جو آج مشہور ایرانی شہر مشہد میں کنورٹ ہے۔
آپ کے والد سوت کا کاروبار کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کا نام غزالی پڑگیا۔غزالی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سوت بنانے والا۔
انہوں
(5/23)
نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی استاد احمد بن محمد ازکانی سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ جرجان کی طرف روانہ ہوئے کچھ عرصہ بعد جرجان سے واپس آئے جب وطن واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے امام غزالی کی زندگی کی کایاپلٹ دی۔
جس قافلہ میں
(6/23)
امام صاحب تھےاس پر ڈاکوؤں نے حملہ کردیا اور امام صاحب کا سب سازوسامان چھین لیا یہاں تک کہ اُنکے ضروری کاغذات بھی چھین لئے۔امام صاحب نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا کہ مجھے سازوسامان کی ضرورت نہیں مگر میرے کاغذات واپس کر دو وہی میرا سرمایہ ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کی خاطر میں نے
(7/23)
جنگلوں کی خاک چھانی اوراتنا طویل سفر اختیار کیا۔ ڈاکوؤں کا سردارہنس پڑا اورطنزیہ لہجے میں بولا تو پھر تم نے کیا خاک سیکھا جب کاغذ نہ رہے تو تم کورے رہ گئے یہ کہہ کر اس نے انہیں کاغذات واپس کردیئے۔ اس بات کاامام غزالی پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ طوس پہنچ کر ان کاغذات پر جو
(8/23)
لکھا ہوا تھا وہ تمام ضائع کر ڈالا۔
امام صاحب تین سال تک وطن میں رہے اور پڑھے ہوئے علوم کودہرانے میں مصروف رہے۔
اس زمانے میں ایرانی شہر نیشاپور علوم و فنون کا مرکزتھا۔ امام صاحب نے جب بھی علمی تشنگی محسوس کی تو انہوں نے نیشا پور کی راہ لی اور وہاں اس دور کے سب سے بڑے
(9/23)
عالم امام الحرمین ابو المعالی جویئی کے حلقہ درس میں شریک ہوگئے جو مدرسہ نظامیہ نیشاپور کے صدر مدرس تھے۔ یہاں امام صاحب کو علوم مروجہ کی تحصیل وتکمیل کا موقع ملا، فقۂ شافعی، علم کلام، مقدمات اورفلسفہ میں مہارت حاصل کی۔استاد نے اس جوہر قابل کو پہچان اورپرکھ کر درس کا کام
(10/23)
انکے سپرد کردیا۔
1085ء میں امام الحرمین کا انتقال ہوگیا اس وقت تک امام غزالی ان کے ساتھ تھے اورمختلف علوم وفنون میں ماہر ہو چکے تھے خصوصاً ادبیات، فقۂ، اصول، حدیث اورکلام وغیرہ میں کافی دسترس حاصل کرچکے تھے اوران کی شہرت تمام اسلامی دنیا میں پھیل چکی تھی۔ تصنیف و تالیف
(11/23)
کا کام بھی شروع کر چکے تھے۔ امام غزالی کی عمر اس وقت28سال تھی جب وہ مختلف علوم وفنون میں ماہر ہو چکے تھے۔
پھر وہ نیشا پور سے مکہ گٸے۔
وزیراعظم نظام الملک طوسی امام صاحب کے علم وفضل کا شہرہ سن چکا تھا اس نے بڑی تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا اوران کی
(12/23)
بڑی آؤ بھگت کی۔اور انہیں سلجوکی سلطان ملک شاہ کے پاس لے گٸے۔
نظام الملک کے دور میں ایران نے علم وفضل میں بہت ترقی کی۔ مختلف علوم پر کتابیں لکھی گئیں، کسی کے علم وفضل کا امتحان لینا ہوتا تو مناظرہ کروا دیتے۔چنانچہ نظام المک نے امام صاحب کے امتحان کے لئے علمی مباحثے
(13/23)
اورمناظرے کروائے اورامام صاحب ہر مناظرے میں غالب رہے۔ ایک دفعہ مشہور شاعر عمر خیام سے بھی امام صاحب کا فلسفہ کے مسائل پر مباحثہ ہوا جس میں عمر خیام لاجواب ہوگٸے اورکسی ضرورت کا عذر کر کے محفل سے اٹھ کر چلے گٸے اور امام صاحب یہ مناظرہ بھی جیت گٸے۔
اس زمانے میں مدرسہ
(14/23)
نظامیہ بغداد اسلامی علوم وفنون کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی نظام الملک نے اس کی صدارت کے لئے امام صاحب کو منتخب کیا۔ یہ عہدہ اس شخص کو ملتا تھا جو اس دور میں سب سے بڑا عالم ہوتا۔ امام صاحب جب اس عہدے پر فائز ہوئے تو ان کی عمر صرف 34سال تھی۔ اس عمر میں یہ اعزاز کسی کو حاصل
(15/23)
نہ ہواتھا۔ جب آپ نے اس کی صدارت سنبھالی تو تھوڑے ہی عرصے میں اپنے فضل وکمال سے ارباب سلطنت کو اتنا گرویدہ کرلیا کہ سلطنت کے اہم امور بغیر ان کے مشورے سے سرانجام نہیں پا سکتے تھے۔
امام صاحب کے حلقۂ درس میں شاگردوں کی تعداد تین سو تک تھی اور شہر کےبڑے معزز لوگ اس میں شریک
(16/23)
ہوتے تھے۔
بلاشبہ امام غزالی اپنے دور کے بہت بڑے مفکر، فلسفی، ماہرفقہ اورماہر تعلیم بن کر ابھرے تھے۔ آپ اتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ دنیا آج تک ان کے علم کا لوہا مانتی ہے۔ ان کے خیالات اورنظریات آج تک لوگوں کے دلوں کو گرمارہے ہیں۔
آپ نے تعلیم میں نئے نظریات پیش کئے۔
(17/23)
امام صاحب کے نزدیک تعلیم کا مقصد
صرف معلومات فراہم کرنا نہیں تھا۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کے ذریعے ایک طالب علم روحانی انداز سے روشناس ہوسکتا ہے اور پروردگار کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔انہوں نے مذہبی اور غیر مذہبی مضامین میں تفریق کی، تمام علوم کو دو حصوں میں
(18/23)
تقسیم کیا۔ پہلا حصہ جو فرض عین کے نام سے مشہور ہے جو ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے اوردوسرا حصہ فرض کفایہ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔
اسی دور میں اسماعیلی فرقے سے نکلے ایک فرقے ”باطنی“ کی سفاکانہ اور بے رحمانہ قتل و غارت گری سے سارا عالم اسلام نہایت تنگی میں مبتلا ہو گیا تھا۔
(19/23)
اس باطنی فرقے کا سرغنہ ایران کے شہر قم میں پیدا ہونے والا حسن بن سباح تھا۔
سلجوکی سلطان ملک شاہ ، نظام الملک ، شہاب الدین غوری جیسے لوگ اس فرقے کے ”فداٸیوں“ کے ہاتھوں بے رحمی سے شہید ہوگٸے یہاں تک کہ سلطان سنجار ، صلاح الدین ایوبی ،فخرالدین رازی جیسی قابل قدر شخصیات بھی
(20/23)
ان باطنیوں کی زد میں رہیں۔ یہ باطنی اس دور کے خودکش حملہ آور تھے۔
آپ آسان طور پر سمجھنے کیلیے اِن باطنی فداٸیوں کو اُس دور کی داعش یا ٹی۔ٹی۔پی کہہ سکتے ہیں۔
باطنی فدائیوں کی اس قتل و غارت پر امام غزالی رح نے انکے باطنی مذہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں اور لوگوں کو
(21/23)
ان کے بارے میں دلاٸل سے سمجھا کر انکےچنگل سے نکالا۔
سلطان احمد سنجر آپکا بہت احترام کیا کرتے تھے اور بہت سے امور پر مشاورت کیلیے ان کے پاس حاضر ہوتے تھے۔
ترکی نے ان پر ایک ڈرامہ سیریل بھی بنایا جسکا نام گریٹ سلجوک ہے۔
امام غزالی رح 19 دسمبر 1111 کو اس دنیا سے
(22/23)
انتقال کرگٸے۔
امام غزالی رح کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ انتقال کے دن آپ بالکل صحیح حالت میں تھے۔ صبح سویرے اٹھے، وضوکیا، نماز پڑھی۔اپنا کفن منگوایا اس کو چوما اورآنکھوں سے لگا کر کہا، آقا کا حکم سر آنکھوں پر اس کے بعد قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئے اورروح پرواز
(23/23)
کر گئی۔ امام صاحب کا انتقال دنیائے اسلام کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا تمام اسلامی ممالک میں صف ماتم بچھ گئی اور شعرا نے عربی اورفارسی میں بے شمار مرثیے لکھے۔
آپ طوس (مشہد) میں مدفون ہیں۔
چاچا افلاطون بقلم خود
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
وہ وقت جب بغداد میں اسلامی سلطنت کا زوال ہوا اور ہلاکو خان نے ظلم و بربریت سے بغداد کی پرسکون فضاء کو تباہ و برباد کیا تو علم حاصل کرنے کی غرض سے موجود ایک مسافر نے حالات دیکھ کر شکستہ دلی کے ساتھ وہاں سے کوچ کیا۔ لیکن پھر وہ کسی ایک جگہ کے قیام پر مطمئن نہ ہوسکے اور
(1/15)
(2/15)
اطراف عالم کو دیکھنے کے آرزو مند ہوۓ۔
دوستو۔۔!
آج بات کرتے ہیں اس مشہور زمانہ شخصیت کی جن کی رباعیاں اور حکاٸتیں دنیا بھر میں پڑھی اور پڑھاٸی جاتیں ہیں اور انکی لکھی کتابیں بلاشبہ شاہکار ہیں۔
اس شخصیت کا اسم گرامی شرف الدین تھا لقب مصلح الدین اور سعدی تخلص ہے۔ اور
(3/15)
عام طور پر دنیا انہیں شیخ سعدی رح کے نام سے جانتی ہے۔
آپ ایران کے شہر شیراز میں تقریباً 1184 ع میں عبداللہ شیرازی کے گھر پیدا ہوئے۔
آپ کے والد عبداﷲ شیرازی ملک کے حکمران سعد زنگی کے پاس کام کرتے تھے۔
شیخ سعدی کو بچپن ہی سے ادب اور شعرو شاعری کا شوق تھا اس لیے بچپن
باباجی کے آخری ایام کے کچھ اہم واقعات
14جولائی 1948 کا دن تھا جب باباجی محمد علی جناح کو انکی علالت کےپیش نظر کوئٹہ سےزیارت منتقل کیا گیا تھا
21 جولائی کو جب انہیں زیارت پہنچے ہوئے فقط ایک ہفتہ گزرا تھا،انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اب انہیں صحت کےسلسلے میں زیادہ خطرات
1/25
2/25
مول نہیں لینےچاہییں اور اب انہیں واقعی اچھےطبی مشورے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جوں ہی انہیں اپنے بھائی کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین کے ذریعے کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کو پیغام بھجوایا کہ وہ لاہور کے
3/25
ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں۔
جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا معدہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ان کے سینے اور پھیپھڑوں کے بارے میں صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش
چکوال کے ایک گاٶں میں غلام علی تارڑ کے گھر 1944 میں پیدا ہونے والے بچے کےبارے میں کون جانتا تھا کہ یہ مرد مجاہد شہدا بدر اور شہدا احد کے جانشینوں میں اپنا نام رقم کرواۓ گا اور جاسوسی اور گوریلا وار کی دنیا میں اہل کفر پر اسکا نام ایک خوف کی علامت بن کر رہ جاۓ گا اور وہ
1/20
2/20
تاریخ میں ہمیشہ کرنل امام کے نام سے امر ہوجاۓ گا۔۔۔
آج اسی مرد مجاہد اور افغان وار کے بعد خانہ جنگی کے محرکات پر مختصر بات کریں گے۔۔
سلطان امیر تارڑ نے 1966 ع میں پاکستان فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1994ع میں وہ بریگیڈٸیر کے عہدے پر ریٹاٸرڈ ہوئے۔ مگر اس سروس کے
3/20
دوران انہوں نے عقل کو دنگ کر دینے والے ایسے کام سرانجام دیے جن کی وجہ سے انکا نام اور کام تاریخ میں امر ہوچکا ہے۔۔
ماوراٸی شہرت کے حامل کرنل امام نے سوویت اتحاد کے افغانستان پر قبضہ کے بعد 1980ء میں شروع ہونے والے افغان جہاد میں پاکستان کی آئی ایس آئی کی طرف سے افغانیوں
ایران کی تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہےکہ رستم و سہراب والے ایران کے کھیلوں میں فن پہلوانی کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔
آج آپ سے ایران کے ایک مشہور پہلوان کا زکر کرتے ہیں جسکی ایک تصویر جھوٹے شرم ناک کیپشن کے ساتھ پاکستان میں خوب واٸرل رہی ہے۔ ابراہیم یزدی جو کہ یزدی عظیم کے نام سے 1/11
2/11
جانے جاتے ہیں وہ تقریباً 1786ع میں ایران کے شہر تفت میں پیدا ہوۓ۔
اسے ایران کا ہیرو مانا جاتا ہے۔
قاجار بادشاہ ناصر الدین شاہ کے کہنے پر اسے باقاٸدہ اعزاز کے ساتھ تہران لایا گیا تھا ۔
جب یہ نوعمری میں تھے تو مسلسل ٹانگوں کے درد میں مبتلا رہنے پر ڈاکٹروں کی طرف
3/11
سے کوٸی صحت مندانہ سرگرمی (کھیل ) وغیرہ تجویز کی گٸی، جس پر اس نے کشتی کی طرف رخ کیا اور پھر کچھ ہی وقت میں اس نے اپنے مضبوط ،لچکدار لمبے جسم اور ہمت کی وجہ سے شہر کے تمام پہلوانوں کی کمر زمین پہ رگڑدی۔
اس نوجوان ہیرو کی شہرت تہران پہنچی تو ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ
مسلمانوں کے سنہرے دور کو یاد کرتے ہوۓ افغانستان کے صوبے غزنی کے عہدرفتہ پر بات کرتے ہیں۔
غزنی خراسان کا ایک اہم شہر اور 962ء سے 1187ء تک سلطنت غزنویہ کا دار الحکومت تھا۔
افغانستان کی خانہ جنگی میں کچھ شہر جن کو نقصان نہیں پہنچا ، ان میں سے ایک غزنی بھی ہے کیونکہ یہ شہر شہر 1/17
2/17
اولیا ہے اور تمام افغانوں کے لیے یہ شہر افتخار کا باعث ہے اس وجہ سے یہ خانہ جنگی میں بھی محفوظ رہا
یہ شہر غزنی کے بادشاہوں کے عروج کے زمانے میں دارالخلافہ رہا ہے بالخصوص سلطان محمود غزنوی نے اپنے دور حکومت (997 ع تا 1030 ع) میں اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیےجس کی وجہ سےاسے
3/17
حضرت غزنی کہا جاتا ،اس دور میں یہ شہر قوت و شوکت اور اسلامی عظمت کا بےمثال نمونہ تھاموجودہ غزنی سےشمال مشرق کو پانچ کلومیٹر دور قدیم غزنی کےکھنڈر موجود ہیں۔غزنی شہر کے آثار آج بھی بڑی اچھی شکل میں موجود ہیں جس طرح لاہور کا شاہی قلعہ اچھی شکل میں موجود ہےاسی طرح غزنی کا قلعہ
دل شہر تحیر ہے کہ وہ مملکت آرا
کیا سلطنت بلخ و سمرقند بخارا
افغانستان کے ولولہ انگیز تاریخی شہر بلخ کو دنیا بھر میں اہمیت حاصل رہی ہے۔
آج اس شہر کی تاریخ اور اہمیت پر تھوڑی بات کرتے ہیں۔
تقریباً چار ہزار سال سے بلخ شہر کی بدولت افغانستان کو ایشیا میں سیاسی، معاشی، مذہبی اور 1/10
2/10
سماجی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔
بلخ کے تاریخی تجارتی راستے کی وجہ سے یہاں خانہ بدوشوں، جنگجوؤں اور مہاجرین کا آنا جانا رہا ہے۔
اور یہ لوگ جاتے ہوئے کئی راز یہیں چھوڑ گئے جو اب سامنے آ رہے ہیں۔
آج ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہزاروں سال تک ایک چوتھائی دنیا میں خوشحالی
3/10
اور فلسفہ پھیلانے میں افغانستان کا بہت اہم کردار ہے۔ باختر کے میدانی علاقے افغانستان کی خفیہ تاریخ کا مجموعہ ہیں۔یہیں سکندرِ اعظم کی فوج نے پیش قدمی کی، بلخ کے بادشاہ کو قتل کیا اور اس کی خوبصورت بیٹی سے شادی کی۔ اس کے تقریباً پندرہ سو سال بعد چنگیز خان نے اس علاقے کو