دل شہر تحیر ہے کہ وہ مملکت آرا
کیا سلطنت بلخ و سمرقند بخارا
افغانستان کے ولولہ انگیز تاریخی شہر بلخ کو دنیا بھر میں اہمیت حاصل رہی ہے۔
آج اس شہر کی تاریخ اور اہمیت پر تھوڑی بات کرتے ہیں۔
تقریباً چار ہزار سال سے بلخ شہر کی بدولت افغانستان کو ایشیا میں سیاسی، معاشی، مذہبی اور 1/10
2/10
سماجی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔
بلخ کے تاریخی تجارتی راستے کی وجہ سے یہاں خانہ بدوشوں، جنگجوؤں اور مہاجرین کا آنا جانا رہا ہے۔
اور یہ لوگ جاتے ہوئے کئی راز یہیں چھوڑ گئے جو اب سامنے آ رہے ہیں۔
آج ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہزاروں سال تک ایک چوتھائی دنیا میں خوشحالی
3/10
اور فلسفہ پھیلانے میں افغانستان کا بہت اہم کردار ہے۔ باختر کے میدانی علاقے افغانستان کی خفیہ تاریخ کا مجموعہ ہیں۔یہیں سکندرِ اعظم کی فوج نے پیش قدمی کی، بلخ کے بادشاہ کو قتل کیا اور اس کی خوبصورت بیٹی سے شادی کی۔ اس کے تقریباً پندرہ سو سال بعد چنگیز خان نے اس علاقے کو
4/10
زیرِ نگیں کیا۔
زادیان میں ایک خوبصورت مٹی کا ایک عظیم الشان مینار ہے جس کی تعمیر بارہویں صدی میں کی گئی تھی ۔
اسکے ساتھ ساتھ سات سال کی کھداٸی کے بعد بیس میٹر کی دیواریں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسکے علاوہ
,5/10
اس علاقے میں مٹی سے ایک دیوار تعمیر کی گئی تاکہ بلخ کے زرخیز علاقوں میں صحرائی آبادی کو داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ دنیا کے مشہور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس علاقے میں اسی مٹی کی دیوار کا نمونہ لینے ضرور آتےہیں جو اس وسیع قلعے کے
6/10
ارد گرد کھڑی ہے۔
ماہرین نے اس دیوار کی بنیادوں کے قریب ایک گہرا گڑھا کھودا جس میں دھاتی پائپ ڈال کر گہرائی سے مٹی نکالی گئی تاکہ سائنسدان یہ معلوم کرسکیں کہ اس کی بنیادوں میں موجود دھات کوارٹز پر آخری بار روشنی کب پڑی تھی۔ سائنسدانوں کا موجودہ اندازہ ہے کہ اس پر آخری بار
7/10
روشنی 25 سو سال قبل پڑی تھی۔
یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر چشمۂ شفا کے نخلستان میں واقع قربان گاہ میں ایک بہت بڑا پتھر ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں زرتشت عبادت کیا کرتے تھے۔
اس پتھر کےاوپر ایک سوراخ ہےجہاں پر زرتشت تیل ڈالتے تھے اور آگ لگاتے تھے۔ یہ آگ جلتی رہتی تھی
8/10
اور اسے دور دراز علاقوں سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔
اس زرتش مذہب کے ماننے والے 35 سو سال قبل اسی علاقے میں رہے اور ممکنہ طور پر یہیں ان کی وفات ہوئی۔
اب آخر میں بات کرتے ہیں تیرہویں صدی کے فارسی کے مشہور صوفی شاعر اور عالم دین کی جو افغانستان کے اسی شہر بلخ میں 1207 کو ایک
9/10
بڑے علم وفضل والے بزرگ بہاوالدین کے گھر پیدا ہوئے جن کا نام محمد بلخی رح تھا جن کو بہت سے القاب دیے گٸے مگر زیادہ جلال الدین لقب مشہور ہوا اور انہیں جلال الدین محمد بلخی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
ان کی بہت سی تصانیف پوری دنیا کے مسلمان تراجم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور فیض حاصل
10/10
کرتے ہیں۔ پھر وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ (موجودہ ترکی) جو اس دور میں روم کہلاتا تھا وہاں چلے گٸے اور وہیں کے ہوکر رہ گٸے پھر سلاجقہ روم قونیا میں انہوں نے 1273 میں وفات پاٸی اور وہیں انکا مزار ہے۔آج دنیا انہیں مولانا روم رح کے نام سے جانتی ہے
چاچا افلاطون بقلم خود
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
باباجی کے آخری ایام کے کچھ اہم واقعات
14جولائی 1948 کا دن تھا جب باباجی محمد علی جناح کو انکی علالت کےپیش نظر کوئٹہ سےزیارت منتقل کیا گیا تھا
21 جولائی کو جب انہیں زیارت پہنچے ہوئے فقط ایک ہفتہ گزرا تھا،انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اب انہیں صحت کےسلسلے میں زیادہ خطرات
1/25
2/25
مول نہیں لینےچاہییں اور اب انہیں واقعی اچھےطبی مشورے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جوں ہی انہیں اپنے بھائی کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین کے ذریعے کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کو پیغام بھجوایا کہ وہ لاہور کے
3/25
ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں۔
جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا معدہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ان کے سینے اور پھیپھڑوں کے بارے میں صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش
چکوال کے ایک گاٶں میں غلام علی تارڑ کے گھر 1944 میں پیدا ہونے والے بچے کےبارے میں کون جانتا تھا کہ یہ مرد مجاہد شہدا بدر اور شہدا احد کے جانشینوں میں اپنا نام رقم کرواۓ گا اور جاسوسی اور گوریلا وار کی دنیا میں اہل کفر پر اسکا نام ایک خوف کی علامت بن کر رہ جاۓ گا اور وہ
1/20
2/20
تاریخ میں ہمیشہ کرنل امام کے نام سے امر ہوجاۓ گا۔۔۔
آج اسی مرد مجاہد اور افغان وار کے بعد خانہ جنگی کے محرکات پر مختصر بات کریں گے۔۔
سلطان امیر تارڑ نے 1966 ع میں پاکستان فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1994ع میں وہ بریگیڈٸیر کے عہدے پر ریٹاٸرڈ ہوئے۔ مگر اس سروس کے
3/20
دوران انہوں نے عقل کو دنگ کر دینے والے ایسے کام سرانجام دیے جن کی وجہ سے انکا نام اور کام تاریخ میں امر ہوچکا ہے۔۔
ماوراٸی شہرت کے حامل کرنل امام نے سوویت اتحاد کے افغانستان پر قبضہ کے بعد 1980ء میں شروع ہونے والے افغان جہاد میں پاکستان کی آئی ایس آئی کی طرف سے افغانیوں
ایران کی تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہےکہ رستم و سہراب والے ایران کے کھیلوں میں فن پہلوانی کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔
آج آپ سے ایران کے ایک مشہور پہلوان کا زکر کرتے ہیں جسکی ایک تصویر جھوٹے شرم ناک کیپشن کے ساتھ پاکستان میں خوب واٸرل رہی ہے۔ ابراہیم یزدی جو کہ یزدی عظیم کے نام سے 1/11
2/11
جانے جاتے ہیں وہ تقریباً 1786ع میں ایران کے شہر تفت میں پیدا ہوۓ۔
اسے ایران کا ہیرو مانا جاتا ہے۔
قاجار بادشاہ ناصر الدین شاہ کے کہنے پر اسے باقاٸدہ اعزاز کے ساتھ تہران لایا گیا تھا ۔
جب یہ نوعمری میں تھے تو مسلسل ٹانگوں کے درد میں مبتلا رہنے پر ڈاکٹروں کی طرف
3/11
سے کوٸی صحت مندانہ سرگرمی (کھیل ) وغیرہ تجویز کی گٸی، جس پر اس نے کشتی کی طرف رخ کیا اور پھر کچھ ہی وقت میں اس نے اپنے مضبوط ،لچکدار لمبے جسم اور ہمت کی وجہ سے شہر کے تمام پہلوانوں کی کمر زمین پہ رگڑدی۔
اس نوجوان ہیرو کی شہرت تہران پہنچی تو ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ
مسلمانوں کے سنہرے دور کو یاد کرتے ہوۓ افغانستان کے صوبے غزنی کے عہدرفتہ پر بات کرتے ہیں۔
غزنی خراسان کا ایک اہم شہر اور 962ء سے 1187ء تک سلطنت غزنویہ کا دار الحکومت تھا۔
افغانستان کی خانہ جنگی میں کچھ شہر جن کو نقصان نہیں پہنچا ، ان میں سے ایک غزنی بھی ہے کیونکہ یہ شہر شہر 1/17
2/17
اولیا ہے اور تمام افغانوں کے لیے یہ شہر افتخار کا باعث ہے اس وجہ سے یہ خانہ جنگی میں بھی محفوظ رہا
یہ شہر غزنی کے بادشاہوں کے عروج کے زمانے میں دارالخلافہ رہا ہے بالخصوص سلطان محمود غزنوی نے اپنے دور حکومت (997 ع تا 1030 ع) میں اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیےجس کی وجہ سےاسے
3/17
حضرت غزنی کہا جاتا ،اس دور میں یہ شہر قوت و شوکت اور اسلامی عظمت کا بےمثال نمونہ تھاموجودہ غزنی سےشمال مشرق کو پانچ کلومیٹر دور قدیم غزنی کےکھنڈر موجود ہیں۔غزنی شہر کے آثار آج بھی بڑی اچھی شکل میں موجود ہیں جس طرح لاہور کا شاہی قلعہ اچھی شکل میں موجود ہےاسی طرح غزنی کا قلعہ
دوستو۔۔!
بہت زیادہ پروپیگنڈے دیکھ کر آج میں کچھ اہم حقاٸق بتانے پر مجبور ہوا ہوں، شاٸد کوٸی گمراہ راہ راست پر آجاۓ۔کیونکہ یہ وطن جتنا میرا ہےاتنا ہی سب پاکستانیوں کا ہے اور وطن سے محبت سنت رسول ص ہے۔
اس وقت داعش کے سپورٹر +TTP BLA+ANP+ PTM +جمیعت+ اچکزٸی وغیرہ یہ سب اس وقت 1/10
2/10
ایک پیج پر موجود ہیں اور مل کر پاک آرمی کے خلاف منظم پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ان کو ایک سیاسی جماعت ،خونی لبڑلز، بھارت اور دوسری اسلام دشمن طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔واضع رہے کہ افغانستان کا منظرنامہ بدلنے سے مجاہدین برسراقتدار آچکے ہیں جو اس سیٹ اپ کے ماسٹرماٸنڈذ کیلیے ایک بہت
3/10
بڑا دھچکہ ہے۔کیونکہ کالعدم دہشتگرد جماعتیں نے اندھیرے میں رکھ کر مسلمان پاکستانی بھولےنوجوان ورکرز کے دماغوں میں بھر رکھا تھا کہ وہ افغان مجاہدین کے نقش قدم پر ہیں اور پاک آرمی مرتد آرمی ہے اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا افضل ترین عمل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فضل الرحمن کو افغان
آقا صلى الله عليه واله وسلم رحمت بن کر آۓاور لوگوں کو مسلمان کیا لیکن آج کے ملا مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں۔سر فہرست لبیکی وہ تندخو گروہ ہےجو مرزاٸی یہودی کےنعرےکےساتھ حملہ ہوتاہےاور املاک جلا کر فساد پھیلا کر مسلمانوں کوشہید کرنےسےبھی گریز نہیں کرتا۔یہ لوگوں کو عشق رسول کی آڑ 👇
میں فساد پر اکساتے ہیں،جب حکومت عام مسلمانوں اور پولیس والوں کےشہید ہونے پر ایکشن لیتی ہےتو مرنے والےفسادیوں کو شہدا کہہ کر رنڈی رونا شروع کردیتے ہیں۔یہ وہ تندخو طبقہ ہے جو اسلام کا نام لے کر اسلام کی اساس پر حملہ آور ہے۔امام ابوحنیفہ رح کے لاکھوں شاگرد تھے، انہیں ایک زندیق👇
حکمران نے قید کیا اور جیل میں زہر دے کر شہید کردیا۔کسی شاگرد نے املاک نہیں جلاٸیں کیونکہ وہ باعمل مسلمان تھے برصغیر کےفرقہ پرست ملا نہیں تھے۔اورجب ان نام نہاد عاشقوں سےفساد کا پوچھا جاتا ہےتو کہتے ہیں کہ پی ٹی آٸی نے 126 دن بہنیں نچواٸیں اور فلاں فلاں چیزیں تباہ کیں وہ کیا تھا👇