حنوط کاری کا کاروبار
(Business of Embalmment)
یعنی 4000 سال قبل مسیح____
لفظ حنوط سنتےہی سب سےپہلےذہن میں قدیم مصر آتاھے۔ مصر شاید نام ہی حیران کردینے والی دریافتوں اورنہ ختم ھونےوالےسلسلےکا ھے۔
یہ سچ ھے کہ لاشوں کوحنوط کرنے کا رواج سب سے پہلے اورصرف مصرمیں ہی ھوا
#Ancient #Egypt
کرتا تھا اور اس سے بھی حیرانی کی بات جو تاریخ پڑھنے والوں کیلئے باعث حیرت ھو گی کہ لاشوں کو حنوط کرنا مصر میں باقائدہ ایک کارو بار تھا جسے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ چلاتا تھا۔
جب کوئی لاش حنوط کرنے کیلئے لائی جاتی تھی تو اس کاروبار کے لوگ لواحقین کو لکڑی کی لاشوں کے مصور کردہ ماڈل
دکھاتے تھے۔ حنوط کار باقائدہ پوچھتے تھے کی کس نمونے کے مطابق لاش تیار کی جائے۔
لواحقین پسند کا سودا طے کرکے چلے جاتے تھے تو حنوط کار اپنا کام شروع کردیتے تھے۔لاشوں کو حنوط کرنے کی بھی درجہ تھی جیسے امیر کیلئے خاص نمونہ اور اعلی طریقہ کار ھوا کرتا تھا  جبکہ عام کیلئےسستا اور کفایت
کا جبکہ ناسور کے لئے سستا ترین طریقہ کار ھوتا تھا۔
امیر کیلئے حنوط کا طریقہ کچھ یوں تھا کہ:
سب سے پہلے وہ لوہے کا ایک آنکڑا لیتے اور اسے لاش کے نتھنوں میں ڈال کر دماغ باہر کھینچ لیتے۔ پھر مختلف اعلی ادویات ڈال کر لاش کو صاف کرتے، دھوتے۔اسکے بعد تیز دھار ایتھوپیائی پتھر سے لاش کا
پہلو چیرتے اور پیٹ خالی کردیتے۔پھر اسے گاڑی یعنی Palm Wine سے اچھی طرح دھو کر صاف کیا جاتا، کافور ملتے، خالی پیٹ کو انکے اس یا مر سے یا کسی بھی بہترین مشق کے سے بھرتے اور پھر سی دیتے۔ اس کے بعد تیار شدہ لاش کو ستر روز تک نیٹرم ( سوڈے کاربونیٹ کا محلول) میں ڈال کر دھوپ میں رکھا
جاتا تھا۔ ستر دن کے پورا ھونے کے بعد لاش دھو کر سر سے پاءوں تک نفیس،ترین لینن کی پٹیوں (Strips) میں لپیٹا جاتا ھے جو ھونڈ میں ڈوبی ھوتی تھیں۔ اتنا سب کرنے کے بعد حنوط شدہ لاش خو لواحقین کے سپرد کیا جاتا ھے۔
اب ذرا غریب لاش کی حنوط کاری بھی سن لیجیئے:
دیوار کےدرخت سے نکالے گئے تیل
کی پچکاریاں پیٹ میں داخل کی جاتی ہیں اور پھر تیل باہر نکالنے کے تمام راستے بند کیئے جاتے ہیں۔ بس اتنا کرنے کے بعد لاش کو نیٹرم میں رکھ کر ستر دن کے بعد لاش کے سوراخ کھول کر تیل باہر نکالا جاتا تھا۔ اور اپنی قوت سے سارے جسم کے معدے، آنتوں کو بھی مائع حالت میں باہر نکالا جاتا تھا۔
ظاہری سی بات ھے کہ نیٹرم گرم گوشت کو بھلا دیتا ھے جس سےلاش پر ہڈیوں اور کھال کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا تھا۔ اور پھر حنوط لاش کو اسی حالت میں سپرد لواحقین کردیا جاتا تھا۔
نادار طبقے کی لاش کو پچکاری کے زریعے آنتیں باہر نکال کر سترروز تک نیٹرم کرنے کے بعد فورا ہی سپرد لواحقین کردیا
جاتا تھا۔
اعلی رتبے کے حامل افراد کی بیویوں کیساتھ عام سی خواتین کو ضرور بھیجا جاتا تھا تاکہ حنوط کار لاش کیساتھ کوئی نازیبا حرکت نہ کرے۔ یہ قانون اسلئے بنایا گیا کہ اس طرح کا واقعہ پیش آچکا تھا۔
آج خورد بین نے یہ ثابت کیا ھے کہ حنوط لاشوں کو لپیٹا گیا کپڑا سوری نہیں لینن ھے۔
مردوں (Dead bodies) کی جائے اقامت مغرب کو تصور کیاجاتا تھا جہاں سورج اپنا سفر ختم کرتاھے۔

Reference:
Histories by Herodotus [Father of the History]
@threader_app pls compile it.
#Ancient
#History

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with فاطمہ ਫਾਤਿਮ

فاطمہ ਫਾਤਿਮ Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @SanaFatima00

29 Sep
بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن
(Balochistan Student Organization/BSO)
اس کا قیام 1960s میں عمل میں لایا گیا۔ اس تنظیم نے کئی قوم پرست رہنما جنم دیئے
یہ متوسط طبقے کیلئے سیاست میں سرگرم ھونے کا اولین پلیٹ فارم تھا۔
بعد میں BSO کے بھی کئی دھڑے بن گئے جیسے (BLA),
#Balochistan
#History
بلوچ نیشنل موومنٹ، نیشنل پارٹی وغیرہ مگر تنظیم اپنی جگہ منظم رھی۔
دھڑا کوئی بھی ھو سب کا مقصد ایک ھے پاکستان ایک کثیرالقوی ملک بنانا، صوبائی خود مختاری یا بلوچ قومی بیداری کو ازسر نو زندہ اور بحال رکھنا۔
بلوچستان کی تحریک کوئی بھی ھووہ ھمیشہ لینن ازم اور مارکس ازم سے متاثر رھی ھے
اور تاریخ ہند اس بات کی گواہ ھے کہ اس پار غدر ھو بھگت سنگھ ھو اکالی دل ھوں یا پھر نوجوان بھارت سبھا اور اس پار فیض ھو یا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، ھندوستان کی سرزمین نے مارکس ازم کے نعروں کو کبھی قبول نہیں کیا۔
بلوچ مطالبات کو جڑ سے اکھاڑنا مشرف کی ضد تھی
Read 4 tweets
28 Sep
قدیم مصر کی تاریخ سے چند اوراق
ہیلیوپولس (Heliopolic) جو مصر کے قدیم ترین شہروں اور مذہبی مراکز میں شمار ھوتا ھے دراصل مصر کا عظیم مرکز اور مصر کی یونیورسٹی تھا۔ ہیلیوپولس کا لفظی مطلب "سورج کا شہر" ھے۔
اہرام مصر کو ڈھکنے کیلئے جن پہاڑوں سے پتھر لائے جاتے تھے وہ
#Egypt
#History
شہر کے قصبے الموقطم (Almokattam) کے سلسلہ کوہ سے لائے جاتے تھے۔
اہل مصر نےنہایت قدیم دورسے ہی لوہے کا استعمال شروع کردیا تھا۔
مصریوں کواپنی سگی بہن اور ماں سے شادی کرنے کی اجازت تھی لیکن اٹھارہ قانون نے انہیں منع کردیالیکن بطریقی (پدرسری) ادوارمیں مرد کو صرف اپنےہی باپ کی بیٹی سے
شادی کرنے کی اجازت تھی۔
اہل مصر تمام غیر ملکیوں کو ناپاک خیال کرتے تھے اور بالخصوص یونانیوں کیساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یونانیوں نے اپنے دیوتاءوں اور خصوصیات مصر سے ادھار لی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مصر اور یونان کے دیوتا ایک ہی تھے۔
Read 4 tweets
27 Sep
زمانہ قدیم (قبل مسیح) کے سات عجائبات
(The 7 Wonders Of The Ancient World)
1- آرٹیمس کے مندر (آرٹیمس، مشرقی ترکی) (Temple Of Artemis At Ephesus)
چھٹی صدی ق م سے متعلق____
آرٹیمیس کا مندر جو دیوی آرٹیمیس یا ڈیانا کے فرقے کے لیے وقف تھا.
2- اسکندریہ کا روشنی کا مینار (یونان)
(Lighthouse Of Alexandria)
284-246 ق م سے متعلق____
 یہ انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بلند تعمیر تھی۔ اس کا شمار قدیم دنیا کے عجائبات میں ھوتا ھے۔ تین بڑے زلزلوں کی وجہ سے تباہ شدہ یہ مینار کھنڈر میں تبدیل ھو گیا۔
3- کولوسس آف رہوڈز کی یادگار (یونان)
(Colossus Of Rhodes At Greek)
280-226 ق م سے متعلق_____
جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ھے کہ کولوسل رہوڈز جزیرے پر سورج کے دیوتا Helios کا مجسمہ ھے۔ یہ 32 میٹر اونچا ھے اور اسکی تعمیر میں 12 سال درکار ھوئے۔
Read 8 tweets
26 Sep
ڈاکٹر روتھ فاءو (Dr. Ruth Pfau)
1929-2017 / جرمنی
پاکستان میں جذام کے مریضوں کیلئے رحمت کے فرشتے کا نام
6 دہائیاں پہلے جرمنی سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ خاتون پاکستان میں جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھ کر یہیں کی ھو جاتی ھے۔
وہ بیماری جس کو لا علاج اور خدا کا عذاب سمجھ
#Pakistan
کر لوگ اس مرض میں مبتلا اپنی سگی اولاد، ماں باپ، بہن بھائی کو دوردراز چھوڑ آتے تھے مگر ڈاکٹر روتھ ان کیلئے زندگی کا اجالا بنیں۔
دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں میں ہوش سنبھالنےوالی روتھ کوطب کی تعلیم کیلئےجرمنی سے فرانس جانا ہڑا۔
وہاں آںہوں نے
"Dauthters of the Holy Heart of Mary"
نامی کیتھولک تنظیم سے وابستہ ھونے کے بعد اپنی پروفیشن کو ثابت کرنے کی ٹھانی۔ انڈیا کا ویزہ نہ ملنے پر انہیں کراچی کا رخ کرنا پڑا اور میکلورڈ روڈ (I.I. Chandregar) جذام کے مریضوں کیلئے شفا کا مسکن ٹھہرا۔
مریضوں پر جان نچھاور کرنےوالی روتھ ملک کے چپے چپے میں گئیں اور جذام کے مریضوں
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(