میں تو بچپن سے ہی خوش رنگ اور خوش الحان پرندے بڑی تعداد میں دیکھتا آیا ہوں مگر گزشتہ کئی برسوں سے یہ منظر نامہ بدل رہا ہے۔ اب پرندوں کے وہ غول اور جھنڈ نظر نہیں آتے جو ماضی میں دکھائی دیتے تھے۔ اب گھر کے صحن میں دانہ دنکا چگنے والے
پرندے بھی گھٹ گئے ہیں۔ بلکہ اکثر علاقوں میں تو وہ سرے سے دکھائی ہی نہیں دیتے۔
آخر وہ پرندے کہاں چلے گئے۔ آیا انہوں نے اپنے ٹھکانے بدل لیے، یا ان کے ساتھ کوئی انہونی ہو گئی۔ پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سائنس دان اس صورت حال کی ایک افسوس ناک تصویر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
پرندے مر رہے، انکی کئی نسلیں ختم ہو گئیں اور کئی اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہیں۔
سائنسدان بھی کہتے ہیں کہ پرندوں میں بڑے پیمانے پر کمی کا تعلق فی الحال کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور آب و ہوا کی تبدیلی سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ ماحول اب بھی پرندوں کی افزائش نسل کیلئے ساز گار ہے۔
پرندوں کو خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود حضرت انسان سے ہے۔ انسان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرہ ارض کی قدرتی حالت کو تبدیل کر رہا ہے۔ جہاں کبھی گھنے جنگل تھے، وہاں شہر اور کالونیاں بس گئی ہیں۔ درخت کاٹ کر زرعی فارم بنا لیے گئے ہیں۔ اب زیادہ تر لینڈ اسکیپ
قدرت کا بنایا ہوا نہیں رہا بلکہ اب یہ انسان کا اپنا تخلیق کردہ ہے۔
فصلوں کی زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے کیمکلز اور کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے اور انسان یہ بھول گیا ہے کہ ان میں سے اکثر کیڑے مکوڑے پرندوں کی من بھاتی خوراک تھے۔ جب کھانے کو ہی کچھ نہ رہا،
جب وہ درخت اور پودے ہی نہ رہے جو پرندوں کی ضرورت اور مزاج کے مطابق گھونسلے بنانے اور نسل بڑھانے کے لیے موزوں تھے تو پھر بھلا پرندے کہاں رہیں گے۔ کچھ اپنے انڈے سہے بغیر بے اولاد مر کھپ گئے۔ کچھ نے کہیں اور کی راہ لی، کسی اور جانب نکل گئے۔
پرندوں کی تعداد اتنی تیزی سے گھٹ رہی ہے
جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ دوسری جانب ان کے تحفظ کے لیے ابھی تک سنجیدگی سے کچھ سوچا بھی نہیں جا رہا۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک اور رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جنگلی فاختائیں جن کے غول امریکہ کے آسمانوں کو سیاہ کر دیا کرتے تھے، آئندہ چند عشروں میں ہم انہیں صرف
ویڈیوز میں ہی دیکھ سکیں گے۔
یونیورسٹی آف یوٹاہ کے ایک سائنس دان کیگن سیکر سیوگلو کا کہنا ہے کہ پرندوں کی آبادی کا کم ہونا یا ان کی نسلوں کے معدوم ہونے کا نقصان صرف یہ نہیں ہے کہ ہم آسمانوں میں ان کے خوشنما رنگوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے یا ہمارے کان ان کی سریلی چہچاہٹ اور
گانوں سے محروم ہو جائیں گے بلکہ اس کا سب زیادہ نقصان ہمارے قدرتی ماحول کو پہنچے گا۔ اکثر پرندے درختوں اور پودوں پر لگے پھلوں کو توڑ کر ان کے بیج کھاتے ہیں۔ اس دوران بہت سے بیج زمین پر بھی گر جاتے ہیں جن سے وہ پودے اور درخت دوبارہ اگ آتے ہیں۔ پرندے نہیں ہوں گے تو درختوں کی
ان اقسام کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
کچھ پرندے پھولوں کا زرگل دوسرے پودوں تک منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں جس سے پودے بار آور ہو جاتے ہیں اور ان پر پھول اور پھل آتے ہیں۔ کچھ پرندے شکار کرتے ہیں اور کچھ پرندے شکار بنتے ہیں۔ اس طرح قدرت کے اس نظام میں توازن قائم ہے۔ ان میں سے کسی
ایک کی کمی سے اس توازن میں خلل پڑ سکتا ہے۔
پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک سائنس دان پیرر کہتے ہیں کہ اگر 50 سال میں تین ارب پرندے غائب ہو سکتے ہیں تو اگلے سو یا ہزار سال میں کیا ہو گا؟
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ مستقبل کے لیے ہم کیسی دنیا چھوڑنا چاہتے ہیں۔
کیا ایک ایسا کرہ ارض جس کے آسمانوں پرخوش رنگ پرندے اڑان نہ بھر رہے ہوں اور ہمارے کان ان کی مدھر اور سریلی موسیقی سے لطف اندوز نہ ہو رہے ہیں۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے تو پرندوں کو بچانے کے لیے ہمیں ابھی سے کام شروع کرنا ہو گا۔
*چین کی مدد سے ان منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہنچایا جا رھا ھے*
👈 *1- کوہالہ ڈیم*
1024 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا اور 2024 میں مکمل ھو گا 39 ہزار ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے
👈 *2- مہمند ڈیم*
800 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا 2024 میں مکمل ھوگا اور 13 لاکھ ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے
👈 *3- دیامیربھاشا ڈیم*
6000 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا 66 لاکھ ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے 2028 میں مکمل ھو گا
👈 *4- داسوڈیم*
4300 میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ھے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے فیز1 اس کا 2025 اور فیز2 اس کا 2028 میں مکمل ھو گا
لاہور ہائیکورٹ نے اپنی معمول کی روش سے ہٹ کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ گُڑ بنانے پر جابرانہ اور احمقانہ پابندی ختم کردی ہے۔
جی ہاں، پاکستان میں 1948 سے گڑ بنانا قانونی طور پر ممنوع تھا۔ یہ قانون شوگر ملوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا گیا۔ اگرچہ اس کے باوجود چھوٹے پیمانے پر ہمیشہ
گُڑ بنتا تھا لیکن شوگر ملیں اس قانون کا استعمال کرکے گُڑ کی صنعت کو دباتی رہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت مغربی پاکستان میں صرف دو شوگر ملیں تھیں، ایک راہوالی میں اور دوسری مردان میں۔ ایک چھوٹے سے کالے انگریز طبقے کے سوا سب لوگ گُڑ ہی استعمال کرتے تھے۔ آج اس قانون کی بدولت سو سے زیادہ
شوگر ملیں ہیں اور گُڑ کسی کسی گھر میں ہی ملتا ہے۔
گُڑ کی نسبت چینی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ذائقے میں بھی گُڑ اور اس کی شکر چینی سے بدرجہا افضل ہے۔ گُڑ والی چائے چینی والی چائے سے بہت لذیذ ہوتی ہے۔
عوام کو چاہئیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گُڑ کی
وہ 10 ممالک جہاں جسم فروشی کی شرح سب سے زیادہ ہے
1۔ تھائی لینڈ (بدھ مت)
2۔ ڈنمارک (عیسائی)
3۔ اٹلی (عیسائی)
4۔ جرمنی (عیسائی)
5۔ فرانس (عیسائی)
6۔ ناروے (عیسائی)
7۔ بیلجیم (عیسائی)
8۔ اسپین (عیسائی)
9۔ امریکہ (عیسائی)
10۔ فن لینڈ (عیسائی)
وہ 10 ممالک جہاں چوری و ڈکیتی کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔
1۔ ڈنمارک اور فن لینڈ (عیسائی)
2۔ زمبابوے (عیسائی)
3۔ آسٹریلیا (عیسائی)
4۔ کینیڈا (عیسائی)
5۔ نیوزی لینڈ (عیسائی)
6۔ ہندوستان (ہندو)
7۔ انگلینڈ (عیسائی)
8۔ امریکہ (عیسائی)
9۔ سویڈن (عیسائی)
10۔ جنوبی افریقہ (عیسائی)
وہ 10 ممالک جہاں شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔
1۔ مالڈووا (عیسائی)
2۔ بیلاروس (عیسائی)
3۔ لیتھوانیا (عیسائی)
4۔ روس (کیمونسٹ+عیسائی)
5۔ جمہوریہ چیک (عیسائی)
6۔ یوکرین (عیسائی)
7۔ آندورا (عیسائی)
8۔ رومانیہ (عیسائی)
9۔ سربیا (عیسائی)
10۔ آسٹریلیا (عیسائی)
جنرل ضیاء الحق آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل آصف نواز آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل جہانگیر کرامت آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل پرویز مشرف آیا،
ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل اشفاق کیانی آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل راحیل شریف آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جرنل قمر باجوہ آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت ۔۔
اب آئیں ISI کی طرف، خواہ وہ جنرل شجاع پاشا ہو، جنرل ظہیر الاسلام ہو، جنرل رضوان اختر ہو، جنرل نوید مختار ہو یا جنرل فیض حمید ہو، ن لیگ نے ہر ڈی جی کے ساتھ سینگ پھنسائے ۔۔
کبھی آپ نے سوچا کہ آخر گڑ بڑ ھے کہاں؟ کیا پاک فوج کے سارے چیف آف آرمی سٹاف اور ISI کے سربراہان غلط ہوتے ہیں
مکے کے سب سے رزیل کافر نے سمجھا تھا کہ قافلے کے سارے سامان گھوڑوں‛ اونٹوں حتی کہ انسانوں کو اپنے ارد گرد حلقے کی شکل میں قطار در قطار ترتیب دے کر اس کا بیٹا بچ جائے گا۔
چنانچہ قافلے کا سارا سامان
ایک جگہ طے کیا گیا۔ اس کے اوپر اس کا بستر بچھایا گیا۔ چاروں طرف دائرے کی شکل میں قافلے کے کارندے محو استراحت ہوئے۔ ان کے باہر والے حلقے میں گھوڑے اور اونٹ باندھے گئے۔ رات ہوئی سب سو گئے۔ ایک درندہ آیا۔ سب کو پھلانگ کر سیدھا اس کے بستر پر پہنچا اور اور اسے چیر پھاڑ کر چلا گیا۔
یہ ابو لہب کا بیٹا تھا جو باپ کی معیت میں تجارتی قافلہ لے کر نکلا تھا۔ لیکن اس نے محمد (ﷺ) کی گستاخی کی تھی اور ان سے ہاتھا پائی کی تھی۔ زبان نبوت (ﷺ) سے یہ الفاظ نکلے تھے ۔
اللھم سلط علیہم کلبٌ من کلابک۔
اے اللہ اس پر جنگلی کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔
سیلز مین سے دوائیں نکلوانے کے بعد پیسے دینے کے لیے جب کائونٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔ سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا
میری دوائیاں کائونٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی
ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔۔۔
مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔۔۔ مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کائونٹر پر چپ چاپ کھڑی تھی۔۔۔
میں نے دیکھا وہ بار بار اپنے دبلے پتلے، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی
اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔ پاؤں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا۔
'980 روپے'۔ اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیر