مکے کے سب سے رزیل کافر نے سمجھا تھا کہ قافلے کے سارے سامان گھوڑوں‛ اونٹوں حتی کہ انسانوں کو اپنے ارد گرد حلقے کی شکل میں قطار در قطار ترتیب دے کر اس کا بیٹا بچ جائے گا۔
چنانچہ قافلے کا سارا سامان
ایک جگہ طے کیا گیا۔ اس کے اوپر اس کا بستر بچھایا گیا۔ چاروں طرف دائرے کی شکل میں قافلے کے کارندے محو استراحت ہوئے۔ ان کے باہر والے حلقے میں گھوڑے اور اونٹ باندھے گئے۔ رات ہوئی سب سو گئے۔ ایک درندہ آیا۔ سب کو پھلانگ کر سیدھا اس کے بستر پر پہنچا اور اور اسے چیر پھاڑ کر چلا گیا۔
یہ ابو لہب کا بیٹا تھا جو باپ کی معیت میں تجارتی قافلہ لے کر نکلا تھا۔ لیکن اس نے محمد (ﷺ) کی گستاخی کی تھی اور ان سے ہاتھا پائی کی تھی۔ زبان نبوت (ﷺ) سے یہ الفاظ نکلے تھے ۔
اللھم سلط علیہم کلبٌ من کلابک۔
اے اللہ اس پر جنگلی کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔
کافروں کے سردار
ابو لہب کو بھی یقین تھا کہ زبان نبوت (ﷺ) سے نکلے الفاظ ضرور پورے ہو کر رہیں گے۔ لیکن اپنی طرف سے ساری حفاظتی تدابیر اختیار کیں لیکن پھر بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
اس واقعے کے چودہ سو سال بعد پھر ویسا ہی منظر چشم فلک نے دیکھا۔
“لارس ولکس” کے سرپرست یہ سمجھ رہے تھے کہ پولیس سکواڈ میں
وہ بالکل محفوظ ہے۔ اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ ہر وقت پولیس کی گاڑی اور کیمروں کی آنکھوں میں مکمل سیکورٹی کے ساتھ گھومتا تھا۔ کشادہ سڑکیں اور بلٹ پروف گاڑی۔ کوئی محمد (ﷺ) کا دیوانہ گزند پہنچائے یہ تو دور کی بات، پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔
لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ
آسمانوں پر بھی محمد (ﷺ) کا محبوب ہے جو فیصلہ سُنا چکا ہے۔
اِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَـهْزِئِيْنَ
بے شک ہم تیری طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کے لیے کافی ہیں
آسمانوں پر فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس کو آخرت میں واصل جہنم تو کرنا ہی ہے لیکن دنیا بھی اس کی جہنم کے نظارے دیکھے گی۔
وہ ملک
جہاں ٹریفک حادثات کی شرح انتہائی کم ہے۔
جہاں ایک لاکھ میں صرف دو آدمی ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ اس میں بھی پولیس سکواڈ کی گاڑی میں حادثے کا امکان انتہائی کم اور حادثے میں آگ لگ جانے کا امکان ریاضی کی زبان میں پرابیبلیٹی نہ ہونے کے برابر۔
لیکن گستاخوں کے لیے اللہ کافی ہے۔
اسے گستاخوں کے لیے نشان عبرت تو بنانا تھا۔ لہذا تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود ٹرک اس کی گاڑی سے ٹکرایا اور گاڑی آگ کے شعلوں کی نذر ہو گئی۔ موت کے وقت کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے۔
وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ۚ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ
اور کاش تم اس وقت کی کیفیت دیکھو جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں کہ ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب
آگ کے عذاب کا مزا چکھو۔
دنیا میں ہی اسکو جلتا ہوا دکھا کر فرعون کی طرح نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اب تک کروڑوں افراد اس عبرتناک موت کی ویڈیو دیکھ چکے ہیں۔
اتنے لوگوں نے اس کے خاکے نہیں دیکھے تھے جتنے اس کی عبرتناک موت کا نظارا کر چکے ہیں۔
کہاں رفعت محمد ﷺ کی، کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے
اگر گستاخیِ ناموس احمد کرچکے ہو تم
تو اپنی زندگی سے قبل ہی بس مر چکے ہو تم
میں تو بچپن سے ہی خوش رنگ اور خوش الحان پرندے بڑی تعداد میں دیکھتا آیا ہوں مگر گزشتہ کئی برسوں سے یہ منظر نامہ بدل رہا ہے۔ اب پرندوں کے وہ غول اور جھنڈ نظر نہیں آتے جو ماضی میں دکھائی دیتے تھے۔ اب گھر کے صحن میں دانہ دنکا چگنے والے
پرندے بھی گھٹ گئے ہیں۔ بلکہ اکثر علاقوں میں تو وہ سرے سے دکھائی ہی نہیں دیتے۔
آخر وہ پرندے کہاں چلے گئے۔ آیا انہوں نے اپنے ٹھکانے بدل لیے، یا ان کے ساتھ کوئی انہونی ہو گئی۔ پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سائنس دان اس صورت حال کی ایک افسوس ناک تصویر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
پرندے مر رہے، انکی کئی نسلیں ختم ہو گئیں اور کئی اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہیں۔
سائنسدان بھی کہتے ہیں کہ پرندوں میں بڑے پیمانے پر کمی کا تعلق فی الحال کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور آب و ہوا کی تبدیلی سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ ماحول اب بھی پرندوں کی افزائش نسل کیلئے ساز گار ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے اپنی معمول کی روش سے ہٹ کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ گُڑ بنانے پر جابرانہ اور احمقانہ پابندی ختم کردی ہے۔
جی ہاں، پاکستان میں 1948 سے گڑ بنانا قانونی طور پر ممنوع تھا۔ یہ قانون شوگر ملوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا گیا۔ اگرچہ اس کے باوجود چھوٹے پیمانے پر ہمیشہ
گُڑ بنتا تھا لیکن شوگر ملیں اس قانون کا استعمال کرکے گُڑ کی صنعت کو دباتی رہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت مغربی پاکستان میں صرف دو شوگر ملیں تھیں، ایک راہوالی میں اور دوسری مردان میں۔ ایک چھوٹے سے کالے انگریز طبقے کے سوا سب لوگ گُڑ ہی استعمال کرتے تھے۔ آج اس قانون کی بدولت سو سے زیادہ
شوگر ملیں ہیں اور گُڑ کسی کسی گھر میں ہی ملتا ہے۔
گُڑ کی نسبت چینی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ذائقے میں بھی گُڑ اور اس کی شکر چینی سے بدرجہا افضل ہے۔ گُڑ والی چائے چینی والی چائے سے بہت لذیذ ہوتی ہے۔
عوام کو چاہئیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گُڑ کی
وہ 10 ممالک جہاں جسم فروشی کی شرح سب سے زیادہ ہے
1۔ تھائی لینڈ (بدھ مت)
2۔ ڈنمارک (عیسائی)
3۔ اٹلی (عیسائی)
4۔ جرمنی (عیسائی)
5۔ فرانس (عیسائی)
6۔ ناروے (عیسائی)
7۔ بیلجیم (عیسائی)
8۔ اسپین (عیسائی)
9۔ امریکہ (عیسائی)
10۔ فن لینڈ (عیسائی)
وہ 10 ممالک جہاں چوری و ڈکیتی کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔
1۔ ڈنمارک اور فن لینڈ (عیسائی)
2۔ زمبابوے (عیسائی)
3۔ آسٹریلیا (عیسائی)
4۔ کینیڈا (عیسائی)
5۔ نیوزی لینڈ (عیسائی)
6۔ ہندوستان (ہندو)
7۔ انگلینڈ (عیسائی)
8۔ امریکہ (عیسائی)
9۔ سویڈن (عیسائی)
10۔ جنوبی افریقہ (عیسائی)
وہ 10 ممالک جہاں شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔
1۔ مالڈووا (عیسائی)
2۔ بیلاروس (عیسائی)
3۔ لیتھوانیا (عیسائی)
4۔ روس (کیمونسٹ+عیسائی)
5۔ جمہوریہ چیک (عیسائی)
6۔ یوکرین (عیسائی)
7۔ آندورا (عیسائی)
8۔ رومانیہ (عیسائی)
9۔ سربیا (عیسائی)
10۔ آسٹریلیا (عیسائی)
جنرل ضیاء الحق آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل آصف نواز آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل جہانگیر کرامت آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل پرویز مشرف آیا،
ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل اشفاق کیانی آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل راحیل شریف آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جرنل قمر باجوہ آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت ۔۔
اب آئیں ISI کی طرف، خواہ وہ جنرل شجاع پاشا ہو، جنرل ظہیر الاسلام ہو، جنرل رضوان اختر ہو، جنرل نوید مختار ہو یا جنرل فیض حمید ہو، ن لیگ نے ہر ڈی جی کے ساتھ سینگ پھنسائے ۔۔
کبھی آپ نے سوچا کہ آخر گڑ بڑ ھے کہاں؟ کیا پاک فوج کے سارے چیف آف آرمی سٹاف اور ISI کے سربراہان غلط ہوتے ہیں
سیلز مین سے دوائیں نکلوانے کے بعد پیسے دینے کے لیے جب کائونٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔ سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا
میری دوائیاں کائونٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی
ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔۔۔
مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔۔۔ مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کائونٹر پر چپ چاپ کھڑی تھی۔۔۔
میں نے دیکھا وہ بار بار اپنے دبلے پتلے، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی
اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔ پاؤں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا۔
'980 روپے'۔ اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیر
گمنام مجاہد بتاتا ہے کہ
حاجی خاندان. جو حاجی نزیر کا نائب کمانڈر تھا. مولوی نزیر امیر نیک محمد کی وفات کے بعد جنوبی #وزیرستان کے طالبان کا امیر بنا. اس وقت امیر نیک محمد کو امریکن ڈرون اٹیک میں مارے جانے کے بعد پاکستانی #فوج اور #طالبان میں جنگ چھڑی ہوئی تھی!
قبائلی مجاہدین #افغانستان میں #امریکہ کا #اتحادی ہونے کیوجہ سے پاک فوج پر حملے اس لئے کر رہے تھے کہ ان کے علاقوں پر امریکہ ڈرون اٹیک کرتا رہتا تھا. #ہندوستان نے بہت سے #ازبک اور #تاجک قبائلی علاقوں میں #مجاھدین کے روپ میں داخل کروا دیئے تھے. اس کے علاوہ امریکہ بہت سے امریکن نیشنل
عرب ایجنٹ بھی #افغانستان سے #پاکستان میں داخل کر چکا تھا. جن کو #امریکی جنگ کی وجہ سے لوکل #قبائلی لوگوں نے پناہ دے رکھی تھی. یہ تمام ایجنٹ کیسٹ اور پمفلٹ کے ذریعے مقامی #زبان میں #پاک_فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے اور سیدھے سادے #قبائل کو پاک فوج کے خلاف لرنے پر اکساتے رہے۔۔