میڈیکل اسٹور پر اترتی ابابیلیں۔۔۔🍀

سیلز مین سے دوائیں نکلوانے کے بعد پیسے دینے کے لیے جب کائونٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔ سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا
میری دوائیاں کائونٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی
ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔۔۔

مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔۔۔ مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کائونٹر پر چپ چاپ کھڑی تھی۔۔۔

میں نے دیکھا وہ بار بار اپنے دبلے پتلے، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی
اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔ پاؤں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا۔
'980 روپے'۔ اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیر
پیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔۔۔

عورت نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکالا اور مُٹھی میں پکڑے مڑے تڑے 50 روپے کے دو نوٹ کائونٹر پر رکھ دئیے ۔ پھر سر جھکالیا۔
' بقایا۔۔۔؟'۔ دکاندار کی آواز اچانک دھیمی ہوگئی۔ بالکل سرگوشی کے برابر۔اس نے عورت کی طرف دیکھا ۔ بوڑھی عورت سر جھکائے
اپنی چادر ٹھیک کرتی رہی۔۔۔

شاید دو سیکنڈز کی خاموشی رہی ہوگی۔ ان دو سیکنڈز میں ہم سب کو اندازہ ہوگیا کہ عورت کے پاس دوائوں کے پیسے یا تو نہیں ہیں یا کم ہیں اور وہ کشمکش میں ہے کہ کیا کرے۔ مگر دکاندار نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر، تیزی سے اس کی دوائوں کا ڈھیر
تھیلی میں ڈال کرآگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
'اچھا اماں جی۔ شکریہ'۔
بوڑھی عورت کا سر بدستور نیچے تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تھیلی پکڑی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر دکان سے باہر چلی گئی۔ ہم سب اسے جاتا دیکھتے رہے۔میں حیران تھا کہ 980 روپے کی دوائیں اس دکاندار نے صرف 100روپے میں دےدی تھیں
اس کی فیاضی سےمیں متاثر ہوا تھا۔۔۔

جونہی وہ باہر گئی، دکاندار پہلے ہمیں دیکھ کر مسکرایا۔ پھر کائونٹر پر رکھی پلاسٹک کی ایک شفاف بوتل اٹھالی جس پر لکھا 'ڈونیشنز فار میڈیسنز' یعنی دوائوں کے لیے عطیات۔۔۔

اس بوتل میں بہت سارے نوٹ نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر دس اور پچاس کے نوٹ تھے۔
دکاندار نے تیزی سے بوتل کھولی اور اس میں سے مٹھی بھر کر پیسے نکال لیے۔ پھر جتنے پیسے ہاتھ میں آئے انہیں کائونٹر پر رکھ کر گننے لگا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا کام شروع ہوگیا ہے مگر دیکھتا رہا۔۔۔

دکاندار نے جلدی جلدی سارے نوٹ گنے تو ساڑھے تین سو روپے تھے۔ اس نے پھر بوتل میں
ہاتھ ڈالا اور باقی پیسے بھی نکال لیے۔
اب بوتل بالکل خالی ہوچکی تھی۔ اس نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور دوبارہ پیسے گننے لگا۔ اس بار کُل ملا کر ساڑھے پانچ سو روپے بن گئے تھے۔۔۔

اس نے بوڑھی عورت کے دیے ہوئے، پچاس کے دونوں نوٹ، بوتل سے نکلنے والے پیسوں میں ملائے اور پھر سارے پیسے
اٹھا کر اپنی دراز میں ڈال دئیے ۔ پھر مجھ سے آگے کھڑے گاہک کی طرف متوجہ ہوگیا۔'جی بھائی'۔

نوجوان نے جو خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا، ایک ہزار کا نوٹ آگے بڑھادیا۔ دکاندار نے اس کا بل دیکھ کر نوٹ دراز میں ڈال دیا اور گِن کر تین سو تیس روپے واپس کردیے۔
ایک لمحہ رکے بغیر
نوجوان نے بقایا ملنے والے نوٹ پکڑ کر انہیں تہہ کیا۔ پھر بوتل کا ڈکھن کھولاا اور سارے نوٹ اس میں ڈال کر ڈھکن بند کردیا۔اب خالی ہونے والی بوتل میں پھر سے، سو کے تین اور دس کے تین نوٹ نظر آنے لگے تھے۔ نوجوان نے اپنی تھیلی اٹھائی، زور سے سلام کیا اور دکان سے چلاگیا۔۔۔
بمشکل ایک منٹ کی اس کارروائی نے میرے رونگھٹے کھڑے کردئیے تھے۔ میرے سامنے، چپ چاپ، ایک عجیب کہانی مکمل ہوگئی تھی اور اس کہانی کے کردار، اپنا اپنا حصہ ملا کر، زندگی کے اسکرین سے غائب ہوگئے تھے۔ صرف میں وہاں رہ گیا تھا جو اس کہانی کا تماشائی تھا۔

'بھائی یہ کیا کیا ہے آپ نے۔۔۔؟'
مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ بیٹھا۔
'یہ کیا کام چل رہا ہے۔۔۔؟'۔

'اوہ کچھ نہیں ہے سر'۔
دکاندار نے بے پروائی سے کہا۔
'ادھر یہ سب چلتا رہتا ہے'۔

'مگر یہ کیا ہے۔۔۔؟۔
آپ نے تو عورت سے پیسے کم لیے ہیں۔۔۔؟۔ پورے آٹھ سو روپے کم اور بوتل میں سے بھی کم پیسے نکلے ہیں۔ تو کیا
یہ اکثر ہوتا ہے؟
میرے اندر کا پرانا صحافی بے چین تھا جاننے کے لیے کہ آخر واقعہ کیا ہے؟

'کبھی ہوجاتا ہے سر۔ کبھی نہیں۔ آپ کو تو پتا ہے کیا حالات چل رہے ہیں'۔ دکاندار نے آگے جھک کر سرگوشی میں کہا۔
دوائیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ سفید پوش لوگ روز آتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں
کسی کے پاس بالکل نہیں ہوتے۔ تو ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے، اتنی مدد کردیتے ہیں۔ باقی اللہ ہماری مدد کردیتا ہے'۔۔۔

اس نے بوتل کی طرف اشارا کیا۔
'یہ بوتل کتنے دن میں بھر جاتی ہے۔۔۔؟'۔
میں نے پوچھا۔
'دن کدھرسر'۔ وہ ہنسا۔'یہ تو ابھی چند گھنٹے میں
بھرجائے گی'۔
'واقعی'۔ میں حیران رہ گیا۔'پھر یہ کتنی دیر میں خالی ہوتی ہے۔۔۔؟'۔
'یہ خالی نہیں ہوتی سر۔

اگر خالی ہوجائے تو دو سے تین گھنٹے میں پھر بھر جاتی ہے۔ دن میں تین چار بار خالی ہوکر بھرتی ہے۔
شکر الحمدللہ'۔
دکاندار اوپر دیکھ کر سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔
'اتنے لوگ آجاتے ہیں پیسے دینے والے بھی اور لینے والے بھی'۔ میں نیکی کی رفتار سے بے یقینی میں تھا۔
'ابھی آپ نے تو خود دیکھا ہے سر'۔
وہ ہنسا۔'بوتل خالی ہوگئی تھی۔ مگر کتنی دیر خالی رہی۔ شاید دس سیکنڈ۔ابھی دیکھیں'۔ اس نے بوتل میں پیسوں کی طرف اشارہ کیا۔
'پیسے دینے والے کون ہیں۔۔۔؟
'ادھر کے ہی لوگ ہیں سر۔ جو دوائیں لینے آتے ہیں، وہی اس میں پیسے ڈالتے ہیں'۔
'اور جو دوائیں لیتے ہیں ان پیسوں سے، وہ کون لوگ ہیں۔۔۔؟'۔
میں نے پوچھا۔

'وہ بھی ادھر کے ہی لوگ ہیں۔ زیادہ تر بوڑھے، بیوائیں اور کم تنخواہ والے لڑکے ہیں جن کو اپنے والدین کے لیے دوائیں چاہیے ہوتی ہیں'۔
اس نے بتایا۔

'لڑکے۔۔۔؟'۔
میرا دل لرز گیا۔
'لڑکے کیوں لیتے ہیں چندے کی دوائیں۔۔۔؟'۔

'سر اتنی بے روزگاری ہے۔ بہت سے لڑکوں کو تو میں جانتا ہوں ان کی نوکری کورونا کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے'۔ اس نے دکھی لہجے میں کہا۔'اب گھر میں ماں باپ ہیں۔ بچے ہیں۔
دوائیں تو سب کو چاہئیں۔ تو لڑکے بھی اب مجبور ہوگئے ہیں اس بوتل میں سے دوا لینے کے لیے۔ کیا کریں۔ کئی بار تو ہم نے روتے ہوئے دیکھا ہے اس میں سےلڑکوں کو پیسے نکالتے ہوئے۔ یقین کریں ہم خود روتے ہیں'۔ مجھے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتی نظر آنے لگی۔
'اچھا میرا کتنا بل ہے۔۔۔؟'۔
میں نے جلدی سے پوچھ لیا کہ کہیں وہ میری انکھوں کی نمی نہ دیکھ لے۔
'سات سو چالیس روپے'۔ اس نے بل اٹھا کر بتایا اور ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔۔۔

میں نے بھی اس کو ہزار کا نوٹ تھمایا اور جو پیسے باقی بچے، بوتل کا ڈھکن کھول کر اس میں ڈال دیے۔
'جزاک اللہ سر'۔ وہ مسکرایا اور
کائونٹر سے ایک ٹافی اٹھا کر مجھے پکڑادی۔۔۔

میں سوچتا ہوا گاڑی میں آبیٹھا۔
غربت کی آگ ضرور بھڑک رہی ہے ۔مفلسی کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔
مگرآسمانوں سے ابابیلوں کے جھنڈ بھی، اپنی چونچوں میں پانی کی بوندیں لیے، قطار باندھے اتر رہے ہیں۔
خدا کے بندے اپنا کام کررہے ہیں۔چپ چاپ۔ گم نام۔ صلے و ستائش کی تمنا سے دور۔
اس یقین کے ساتھ کہ خدا دیکھ رہا ہے اور مسکرا رہا ہے کہ اس کے بندے اب بھی اس کے کام میں مصروف ہیں۔

(منقول)

#قلمکار

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with آبی کوثر

آبی کوثر Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @NaikParveen22

7 Oct
*ن لیگ فوج سے آخر چاہتی کیا ھے؟*

جنرل ضیاء الحق آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل آصف نواز آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل جہانگیر کرامت آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل پرویز مشرف آیا،
ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل اشفاق کیانی آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جنرل راحیل شریف آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت
جرنل قمر باجوہ آیا، ابا بنایا اور پھر بلا وجہ تنازعہ کھڑا کر کے مخالفت ۔۔
اب آئیں ISI کی طرف، خواہ وہ جنرل شجاع پاشا ہو، جنرل ظہیر الاسلام ہو، جنرل رضوان اختر ہو، جنرل نوید مختار ہو یا جنرل فیض حمید ہو، ن لیگ نے ہر ڈی جی کے ساتھ سینگ پھنسائے ۔۔
کبھی آپ نے سوچا کہ آخر گڑ بڑ ھے کہاں؟ کیا پاک فوج کے سارے چیف آف آرمی سٹاف اور ISI کے سربراہان غلط ہوتے ہیں
Read 10 tweets
7 Oct
*اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَـرُ* ۔

*یہ چودہ سو سال پہلے کا منظر ہے۔*

مکے کے سب سے رزیل کافر نے سمجھا تھا کہ قافلے کے سارے سامان گھوڑوں‛ اونٹوں حتی کہ انسانوں کو اپنے ارد گرد حلقے کی شکل میں قطار در قطار ترتیب دے کر اس کا بیٹا بچ جائے گا۔

چنانچہ قافلے کا سارا سامان
ایک جگہ طے کیا گیا۔ اس کے اوپر اس کا بستر بچھایا گیا۔ چاروں طرف دائرے کی شکل میں قافلے کے کارندے محو استراحت ہوئے۔ ان کے باہر والے حلقے میں گھوڑے اور اونٹ باندھے گئے۔ رات ہوئی سب سو گئے۔ ایک درندہ آیا۔ سب کو پھلانگ کر سیدھا اس کے بستر پر پہنچا اور اور اسے چیر پھاڑ کر چلا گیا۔
یہ ابو لہب کا بیٹا تھا جو باپ کی معیت میں تجارتی قافلہ لے کر نکلا تھا۔ لیکن اس نے محمد (ﷺ) کی گستاخی کی تھی اور ان سے ہاتھا پائی کی تھی۔ زبان نبوت (ﷺ) سے یہ الفاظ نکلے تھے ۔
اللھم سلط علیہم کلبٌ من کلابک۔
اے اللہ اس پر جنگلی کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔

کافروں کے سردار
Read 11 tweets
5 Oct
#قلمکار

گمنام مجاہد بتاتا ہے کہ
حاجی خاندان. جو حاجی نزیر کا نائب کمانڈر تھا. مولوی نزیر امیر نیک محمد کی وفات کے بعد جنوبی #وزیرستان کے طالبان کا امیر بنا. اس وقت امیر نیک محمد کو امریکن ڈرون اٹیک میں مارے جانے کے بعد پاکستانی #فوج اور #طالبان میں جنگ چھڑی ہوئی تھی!
قبائلی مجاہدین #افغانستان میں #امریکہ کا #اتحادی ہونے کیوجہ سے پاک فوج پر حملے اس لئے کر رہے تھے کہ ان کے علاقوں پر امریکہ ڈرون اٹیک کرتا رہتا تھا. #ہندوستان نے بہت سے #ازبک اور #تاجک قبائلی علاقوں میں #مجاھدین کے روپ میں داخل کروا دیئے تھے. اس کے علاوہ امریکہ بہت سے امریکن نیشنل
عرب ایجنٹ بھی #افغانستان سے #پاکستان میں داخل کر چکا تھا. جن کو #امریکی جنگ کی وجہ سے لوکل #قبائلی لوگوں نے پناہ دے رکھی تھی. یہ تمام ایجنٹ کیسٹ اور پمفلٹ کے ذریعے مقامی #زبان میں #پاک_فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے اور سیدھے سادے #قبائل کو پاک فوج کے خلاف لرنے پر اکساتے رہے۔۔
Read 17 tweets
4 Oct
#قلمکار

تیر اندازی کی مشق
۔"" "" "" "" "" "" "" "
تمام وزیر میدان میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے۔سلطان غیاث الدین بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ اچانک سلطان کا نشانہ خطا ہو گیا اور وہ تیر ایک بیوہ عورت کے بچے کو جا لگا۔ اس سے وہ مر گیا۔ سلطان کو پتہ نہ چل سکا۔
وہ عورت قاضی سلطان کی عدالت میں پہنچ گئی۔ قاضی سراج الدین عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا:”کیا بات ہے؟ تم کیوں رو رہی؟ عورت نے روتے ہوئے سلطان کے خلاف شکایت لکھوائی کہ سلطان کے تیر سے میرا بچہ ہلاک ہوگیا۔ قاضی سراج الدین نے عورت کی شکایت سلطان کو لکھ بھیجا اور کہا کہ جواب دیں"
پھر یہ حکم عدالت کے ایک پیادے کو دے کر ہدایت کی’’’یہ حکم نامہ فوراً سلطان کے پاس لے جاؤ‘‘ پیادے کو یہ حکم دے کر قاضی سراج الدین نے ایک کَوڑا نکالا اور اپنی گدی کے نیچے چھپا دیا۔ پیادہ جب سلطان کے محل میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سلطان کو درباریوں نے گھیر رکھا ہے اور قاضی کا
Read 9 tweets
28 Sep
اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں,
میرا بیٹا اور اسکی والدہ....... .*
🤒
بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.
Read 12 tweets
28 Sep
1949 میں بہیج تقی الدین نامی شخص کو لبنان کا وزیر زراعت مقرر کیاگیا۔

انکے بھائی سعید تقی الدین کو جو کہ ایک نامور لکھاری اور صحافی تھے،اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی کو مندرجہ ذیل خط لکھا:

میرے بھائی! تمہیں بہت مبارک!

مجھے پتہ چلا ھے کہ تم وزیر بن گئے ہو۔۔
یہ ہمارے خاندان اور علاقے دونوں کیلئے بڑی عزت کی بات یے۔

لیکن میں تمہیں ایک بات یاد دلانا چاہوں گا۔

کہ جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو اپنے والد کے ساتھ بستر میں سونے کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے، کہ والد صاحب کس کو اجازت دینگے۔
اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے والد اس موقع پر ہمارے ھاتھ سونگھا کرتے تھے تاکہ انہیں یقین ہوجاے کہ ہمارے ھاتھ صاف ستھرے ہیں اور ہم نے کھانا کھانے کے بعد اور کھیل کھود کے بعد اپنے ھاتھ دھو لیے ہیں،اسکے بعد ہی وہ ہمیں اپنے ساتھ سونے کی اجازت دیتے تھے۔
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(