جس درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ کا بیعت لینا، اس پر اللہ تعالی کی رضا قرآن میں مذکور ہے، جب اس کے نیچے لوگوں کا اجتماع اور بعض منکرات کا خطرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس فرمایا تو اس درخت ہی کو کٹوادیا ، حالاں کہ اس کے نیچے جمع ہونے والے حضرات صحابہ کوئی ناجائز کام نہ 👇
کرتے تھے، محض تبرکاً جمع ہوتے اور ذکر اللہ و ذکر رسول ہی میں مشغول رہتے تھے، مگر چوں کہ ایسا اجتماع مقصود شرعی نہیں تھا اور آئند اس میں شرک و بدعت کا خطرہ تھا؛ اس لیے اس اجتماع ہی کو ختم کردیا گیا، اس طرح کے اور بھی متعدد واقعات حضرت فاروق اعظم اور دوسرے حضرات صحابہ سے بکثرت 👇
منقول ہیں، کتاب الاعتصام میں وہ مستند کتابوں کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں، ان احادیث و آثار کی بنا پر فقہاء حنفیہ کا مسلک ایسے معاملات میں یہی ہے کہ : جو امر اپنی ذات میں مستحب ہو ، مگر مقصود شرعی نہ ہو ، اگر اس میں منکرات و بدعات شامل ہوجائیں یا شامل ہونے کا خطرہ قوی ہو تو 👇
ایسے مستحبات کو سرے سے ترک کردیا جائے، لیکن جو امر مستحب مقاصد شرعیہ میں سے ہو یا س پر کوئی مقصد شرعی موقوف ہو تو اس کو شمول منکرات کی وجہ سے ترک نہ کیا جائے ، بلکہ ازالہ منکرات کی کوشش کرنا چاہیے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
عبداللہ طاہر
جب خراسان کے گورنر تھے
اور نیشاپور اس کا دارالحکومت تھا
تو ایک لوہار شہر ہرات سے نیشاپور گیا اور چند دنوں تک وہاں کاروبار کیا۔ پھر اپنے اہل و عیال سے ملاقات کے لئے وطن لوٹنے کا ارادہ کیا اور رات کے پچھلے پہر سفر کرنا شروع کردیا۔ انہی دنوں 👇
عبداللہ طاہر نے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ شہر کے راستوں کو محفوظ بنائیں تاکہ کسی مسافر کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
اتفاق ایسا ہوا کہ سپاہیوں نے اسی رات چند چوروں کو گرفتار کیا اور امیر خراسان (عبد اللہ طاہر) کو اسکی خبر بھی پہنچادی لیکن اچانک ان میں سے ایک چور بھاگ گیا۔ اب👇
یہ گھبرائے اگر امیر کو معلوم ہوگیا کہ ایک چور بھاگ گیا ہے تو وہ ہمیں سزا دے گا۔ اتنے میں انہیں سفر کرتا ہوا یہ (لوہار) نظر آیا۔ انھوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر اس بےگناہ شخص کوفوراً گرفتار کرلیا اور باقی چوروں کے ساتھ اسے بھی امیر کے سامنے پیش کردیا۔ امیرخراسان نے سمجھا کہ 👇
دنیا میں حق وصداقت کے غلبہ اور برتری اور شر وفساد کے خاتمہ کے لیے مختلف قوموں کے درمیان آویزش وٹکراؤ کے اپنے اسی ازلی قانون وروایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا: ’’جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں
ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ گھٹواتا رہتا تو نصاریٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے، بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ (کے دین)کی مدد کرے گا
بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا،غلبہ والا ہے، وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا آیت میں مسلمانوں کو جو قتال کی اجازت دی گئی ہے، وہ نہایت ہی ناگزیر حالت میں ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو یہ جنگ کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد وبگاڑ کریں
حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات اور ان سے حصول علم کے اشتیاق کااظہار کیا تھا، اس میں قوم کے لیے تعلیم ہے کہ وہ ان کے طریقہ کو اپنائیں اور اس میں تزکیہ نفس والوں کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ تواضع کا راستہ اختیار کریں،اس میں اضافہ علم کی فضیلت ہے، اگرچہ 👇
اس کے لیے مشقت کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔خطیب البغدادی نے اپنی کتاب (الرحلة فی طلب الحدیث) میں اس حدیث کو ذکر کرنے بعد لکھا ہے کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے سفر کی جو مشقت اٹھائی او راس مشقت پر جوصبر کیا اور حضرت خضر کے ساتھ جس طرح عاجزی سے پیش آئے جب کہ 👇
حضرت خضر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شرف نبوت کا علم بھی ہو گیا تھا، اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ اہل علم کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور یہ کہ جس سے علم حاصل کیا جائے اس کے سامنے تواضع او رعاجزی ہی بہتر ہے، درجہ اور مقام کی بلندی کی وجہ سے اگر 👇
عورت اگر بیوی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ اگر تم میری جلد بھی مانگتی تو میں اتار کر دے دیتا جب یہی عورت بیٹی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا بلکہ فرمایا میری بیٹی فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ہے
اور 👇
جب یہ عورت بہن کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہن تم نے خود آنے کی زحمت کیوں کی تم پیغام بھجوا دیتی میں سارے قیدی چھوڑا دیتا
اور جب یہ عورت ماں کے روپ میں آئی تو قدموں میں جنت ڈال دی گئی اور حسرت بھری صدا بھی تاریخ نے محفوظ کی فرمایا گیا 👇
اے صحابہ کرام کاش! میری ماں زندہ ہوتی میں نماز عشاء پڑھا رہا ہوتا
میری ماں ابھی محمد پکارتی میں نماز توڑ کر اپنی ماں کی بات سنتا
عورت کی تکلیف کا اتنا احساس فرمایا گیا کہ دوران جماعت بچوں کے رونے کی آواز سنتے ہی قرأت مختصر کردی
اے امت محمدیہ کی بیٹیوں آپ بہت عظمت والی ہو ۔
مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ’’جن ایام کو اسلام نے تہوار کے لیے مقرر فرمایا،ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکر ختم ہو چکا ہو،بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قرار دیا،جو ہر سال پیش آتے ہیں اور 👇
ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں عیدیں ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں ،جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں ، چنانچہ عیدالفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میرے بندے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے، اس کی خوشی اور انعام میں 👇
یہ عیدالفطر مقرر فرمائی اور عیدالاضحی ایسے موقع پر مقرر فرمائی جب مسلمان ایک دوسری عظیم عبادت یعنی حج کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے کہ حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفہ ۹؍ذوالحجہ کو ادا کیا جاتا ہے، اس تاریخ کو پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان میدانِ عرفات میں جمع ہو کر
سیرت النبیﷺ اور ہماری زندگی
تحریر : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اُسوۃٌ حسنۃٌ من کان یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر، و ذکراﷲ کثیراً۔
(سورۂ الاحزاب۔۲۱)
آپ ﷺ کا تذکرہ باعث سعادت
۱۲؍ ربیع الاوّل ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور خاص کر برصغیر میں 👇
باقاعدہ ایک جشن اور ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جب ربیع الاوّل کا مہینہ آتا ہے تو سارے ملک میں سیرت النبی اور میلاد النبی کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل👇
یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپ کے مبارک تذکرہ کو اس ماہ ربیع الاوّل کے ساتھ بلکہ صرف ۱۲؍ ربیع الاوّل کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے اور یہ کہاجاتا ہے کہ چونکہ ۱۲ ربیع الاوّل کو حضور نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی۔ اس لئے آپ کا یومِ ولادت منایا جائے گا اور 👇