عبداللہ طاہر
جب خراسان کے گورنر تھے
اور نیشاپور اس کا دارالحکومت تھا
تو ایک لوہار شہر ہرات سے نیشاپور گیا اور چند دنوں تک وہاں کاروبار کیا۔ پھر اپنے اہل و عیال سے ملاقات کے لئے وطن لوٹنے کا ارادہ کیا اور رات کے پچھلے پہر سفر کرنا شروع کردیا۔ انہی دنوں 👇
عبداللہ طاہر نے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ شہر کے راستوں کو محفوظ بنائیں تاکہ کسی مسافر کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
اتفاق ایسا ہوا کہ سپاہیوں نے اسی رات چند چوروں کو گرفتار کیا اور امیر خراسان (عبد اللہ طاہر) کو اسکی خبر بھی پہنچادی لیکن اچانک ان میں سے ایک چور بھاگ گیا۔ اب👇
یہ گھبرائے اگر امیر کو معلوم ہوگیا کہ ایک چور بھاگ گیا ہے تو وہ ہمیں سزا دے گا۔ اتنے میں انہیں سفر کرتا ہوا یہ (لوہار) نظر آیا۔ انھوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر اس بےگناہ شخص کوفوراً گرفتار کرلیا اور باقی چوروں کے ساتھ اسے بھی امیر کے سامنے پیش کردیا۔ امیرخراسان نے سمجھا کہ 👇
یہ سب چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں اس لئے مزید کسی تفتیش و تحقیق کے بغیر سب کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔
نیک سیرت لوہار سمجھ گیا کہ اب میرا معاملہ صرف اللہ جل شانہ کی بارگاہ سے ہی حل ہے اور میرا مقصد اسی کے کرم سے حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا اس نے وضو کیا اور قید خانہ کے 👇
ایک گوشہ میں نماز پڑھنا شروع کردی۔ ہر دو رکعت کی بعد سر سجدہ میں رکھ کر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں رقت انگیز دعائیں اور دل سوز مناجات شروع کردیتا اور کہتا۔ ’’ اے میرے مالک! تو اچھی طرح جانتا ہے میں بےقصور ہوں‘‘۔ جب رات ہوئی تو عبداللہ طاہر نے خواب دیکھا کہ 👇
چار بہادر اور طاقتور لوگ آئے اور سختی سے اس کے تخت کے چاروں پایوں کو پکڑکر اٹھایا اور الٹنے لگے اتنے میں اس کی نیند ٹوٹ گئی۔ اس نے فوراً لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھا۔ پھر وضو کیا اور اس احکم الحاکمین کی بارگاہ میں دو رکعت نماز ادا کی جس کی طرف 👇
ہر شاہ و گدا اپنی اپنی پریشانیوں کے وقت رجوع کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ سویا تو پھر وہی خواب دیکھا اس طرح چار مرتبہ ہوا۔ ہر بار وہ یہی دیکھتا تھا کہ چاروں نوجوان اس کے تخت کے پایوں کو پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور الٹنا چاہتے ہیں۔
امیر خراسان عبد اللہ طاہر اس واقعہ سے گھبرا گئے اور 👇
انہیں یقین ہوگیا کہ ضرور اس میں کسی مظلوم کی آہ کا اثر ہے
امیر خراسان نے رات ہی میں جیلر کو بلوایا اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ! تمہارے علم میں کوئی مظلوم شخص جیل میں بند تو نہیں کردیا گیا ہے؟ جیلر نے عرض کیا۔ عالیجاہ! میں یہ تو نہیں جانتا کہ مظلوم کون ہے لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ 👇
میں ایک شخص کو دیکھ رہا ہوں جو جیل میں نماز پڑھتا ہے اور رقت انگیز و دل سوز دعائیں کرتا ہے۔
امیر نے حکم دیا: اسے فوراً حاضر کیا جائے۔ جب وہ شخص امیر کے سامنے حاضر ہوا تو امیر نے اس کے معاملہ کی تحقیق کی۔ معلوم ہوا کہ وہ بے قصور ہے۔امیر نے اس شخص سے معذرت کی اور کہا: 👇
آپ میرے ساتھ تین کام کیجئے۔
نمبر۱۔ آپ مجھے معاف کردیں۔
نمبر۲۔ میری طرف سے ایک ہزار درہم قبول فرمائیں۔
نمبر۳۔ جب بھی آپ کو کسی قسم کی پریشانی درپیش ہو تو میرے پاس تشریف لائیں تاکہ میں آپ کی مدد کرسکوں۔
نیک سیرت لوہار نے کہا: آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ 👇
میں آپ کو معاف کردوں تو میں نے آپ کو معاف کردیا اور آپ نے جو یہ فرمایا کہ ایک ہزار درہم قبول کرلوں تو وہ بھی میں نے قبول کیا لیکن آپ نے جو یہ کہا ہے کہ جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہو تو میں آپ کے پاس آؤں، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔
امیر نے پوچھا: 👇
یہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ وہ خالق و مالک جل جلالہ جو مجھ جیسے فقیر کے لئے آپ جیسے بادشاہ کا تخت ایک رات میں چار مرتبہ اوندھا کر سکتا ہے تو اسکو چھوڑ دینا اور اپنی ضرورت کسی دوسرے کے پاس لے جانا اصولِ بندگی کے خلاف ہے۔ میرا 👇
وہ کون سا کام ہے جو نماز پڑھنے سے پورا نہیں ہو جاتا کہ میں اسے غیر کے پاس لے جاؤں۔ یعنی جب میرا سارا کام نماز کی برکت سے پورا ہوجاتا ہے تو مجھے کسی اور کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ (ریاض الناصحین ص: ۱۰۵ ،۱۰۴) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دنیا میں حق وصداقت کے غلبہ اور برتری اور شر وفساد کے خاتمہ کے لیے مختلف قوموں کے درمیان آویزش وٹکراؤ کے اپنے اسی ازلی قانون وروایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا: ’’جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں
ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ گھٹواتا رہتا تو نصاریٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے، بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ (کے دین)کی مدد کرے گا
بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا،غلبہ والا ہے، وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا آیت میں مسلمانوں کو جو قتال کی اجازت دی گئی ہے، وہ نہایت ہی ناگزیر حالت میں ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو یہ جنگ کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد وبگاڑ کریں
جس درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ کا بیعت لینا، اس پر اللہ تعالی کی رضا قرآن میں مذکور ہے، جب اس کے نیچے لوگوں کا اجتماع اور بعض منکرات کا خطرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس فرمایا تو اس درخت ہی کو کٹوادیا ، حالاں کہ اس کے نیچے جمع ہونے والے حضرات صحابہ کوئی ناجائز کام نہ 👇
کرتے تھے، محض تبرکاً جمع ہوتے اور ذکر اللہ و ذکر رسول ہی میں مشغول رہتے تھے، مگر چوں کہ ایسا اجتماع مقصود شرعی نہیں تھا اور آئند اس میں شرک و بدعت کا خطرہ تھا؛ اس لیے اس اجتماع ہی کو ختم کردیا گیا، اس طرح کے اور بھی متعدد واقعات حضرت فاروق اعظم اور دوسرے حضرات صحابہ سے بکثرت 👇
منقول ہیں، کتاب الاعتصام میں وہ مستند کتابوں کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں، ان احادیث و آثار کی بنا پر فقہاء حنفیہ کا مسلک ایسے معاملات میں یہی ہے کہ : جو امر اپنی ذات میں مستحب ہو ، مگر مقصود شرعی نہ ہو ، اگر اس میں منکرات و بدعات شامل ہوجائیں یا شامل ہونے کا خطرہ قوی ہو تو 👇
حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات اور ان سے حصول علم کے اشتیاق کااظہار کیا تھا، اس میں قوم کے لیے تعلیم ہے کہ وہ ان کے طریقہ کو اپنائیں اور اس میں تزکیہ نفس والوں کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ تواضع کا راستہ اختیار کریں،اس میں اضافہ علم کی فضیلت ہے، اگرچہ 👇
اس کے لیے مشقت کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔خطیب البغدادی نے اپنی کتاب (الرحلة فی طلب الحدیث) میں اس حدیث کو ذکر کرنے بعد لکھا ہے کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے سفر کی جو مشقت اٹھائی او راس مشقت پر جوصبر کیا اور حضرت خضر کے ساتھ جس طرح عاجزی سے پیش آئے جب کہ 👇
حضرت خضر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شرف نبوت کا علم بھی ہو گیا تھا، اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ اہل علم کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور یہ کہ جس سے علم حاصل کیا جائے اس کے سامنے تواضع او رعاجزی ہی بہتر ہے، درجہ اور مقام کی بلندی کی وجہ سے اگر 👇
عورت اگر بیوی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ اگر تم میری جلد بھی مانگتی تو میں اتار کر دے دیتا جب یہی عورت بیٹی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا بلکہ فرمایا میری بیٹی فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ہے
اور 👇
جب یہ عورت بہن کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہن تم نے خود آنے کی زحمت کیوں کی تم پیغام بھجوا دیتی میں سارے قیدی چھوڑا دیتا
اور جب یہ عورت ماں کے روپ میں آئی تو قدموں میں جنت ڈال دی گئی اور حسرت بھری صدا بھی تاریخ نے محفوظ کی فرمایا گیا 👇
اے صحابہ کرام کاش! میری ماں زندہ ہوتی میں نماز عشاء پڑھا رہا ہوتا
میری ماں ابھی محمد پکارتی میں نماز توڑ کر اپنی ماں کی بات سنتا
عورت کی تکلیف کا اتنا احساس فرمایا گیا کہ دوران جماعت بچوں کے رونے کی آواز سنتے ہی قرأت مختصر کردی
اے امت محمدیہ کی بیٹیوں آپ بہت عظمت والی ہو ۔
مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ’’جن ایام کو اسلام نے تہوار کے لیے مقرر فرمایا،ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکر ختم ہو چکا ہو،بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قرار دیا،جو ہر سال پیش آتے ہیں اور 👇
ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں عیدیں ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں ،جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں ، چنانچہ عیدالفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میرے بندے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے، اس کی خوشی اور انعام میں 👇
یہ عیدالفطر مقرر فرمائی اور عیدالاضحی ایسے موقع پر مقرر فرمائی جب مسلمان ایک دوسری عظیم عبادت یعنی حج کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے کہ حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفہ ۹؍ذوالحجہ کو ادا کیا جاتا ہے، اس تاریخ کو پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان میدانِ عرفات میں جمع ہو کر
سیرت النبیﷺ اور ہماری زندگی
تحریر : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اُسوۃٌ حسنۃٌ من کان یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر، و ذکراﷲ کثیراً۔
(سورۂ الاحزاب۔۲۱)
آپ ﷺ کا تذکرہ باعث سعادت
۱۲؍ ربیع الاوّل ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور خاص کر برصغیر میں 👇
باقاعدہ ایک جشن اور ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جب ربیع الاوّل کا مہینہ آتا ہے تو سارے ملک میں سیرت النبی اور میلاد النبی کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل👇
یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپ کے مبارک تذکرہ کو اس ماہ ربیع الاوّل کے ساتھ بلکہ صرف ۱۲؍ ربیع الاوّل کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے اور یہ کہاجاتا ہے کہ چونکہ ۱۲ ربیع الاوّل کو حضور نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی۔ اس لئے آپ کا یومِ ولادت منایا جائے گا اور 👇