کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟

دنیا میں حق وصداقت کے غلبہ اور برتری اور شر وفساد کے خاتمہ کے لیے مختلف قوموں کے درمیان آویزش وٹکراؤ کے اپنے اسی ازلی قانون وروایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا: ’’جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں
ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ گھٹواتا رہتا تو نصاریٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے، بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ (کے دین)کی مدد کرے گا
بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا،غلبہ والا ہے، وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے‘‘۔     مذکورہ بالا آیت میں مسلمانوں کو جو قتال کی اجازت دی گئی ہے، وہ نہایت ہی ناگزیر حالت میں ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو یہ جنگ کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد وبگاڑ کریں
بلکہ اس جنگ کی اجازت کا مقصد یہ ہے کہ وہ جملہ مذاہب کی آزادی کو قائم رکھیں، بد امنی اور انارکی کا خاتمہ کریں، پارسیوں، عیسائیوں، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی مساجد کو ہر طرح کے نقصانات اور گزند سے مامون ومحفوظ رکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قتال اور جہاد کا حکم کوئی نیا حکم 👇
نہی ہے پچھلے انبیاء علیہ السلام اور ان کی امتوں کو بھی قتالِ کفار کے احکام دیئے گئے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی مذہب اور دین کی خیر نہ تھی، سارے ہی دین و مذہب اور ان کی عبادت گاہیں مسمار کردی جاتیں۔ اسلام میں جہاد کا حقیقی مفہوم     👇
جہاد سے متعلق سب سے پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ اس لفظ کو ’’جنگ ‘‘ کے معنی میں لیا جاتا ہے اور اُسے عربی لفظ ’’حرب ‘‘ کے مرادف باور کیا جاتا ہے جو تباہی وبربادی کے معنی میں آتا ہے۔ (المعجم الوسیط: ۱۴۶)  یہی وجہ ہے کہ 👇
قرآن کریم نے کہیں بھی اپنے اسلامی نظریۂ جنگ کے لیے لفظ ’’حرب ‘‘ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ قابل ِالتفات امر یہ ہے کہ جس ملت ومذہب ہی کے نام میں امن وعافیت کا مفہوم شامل ہو‘ وہ کیوں کر بے جا کُشت وخون اور فساد وبگاڑ کی دعوت دے سکتا ہے؟! بلکہ دین ‘دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ 👇
اس قسم کی ظلم وفساد پر مشتمل جنگوں کا خاتمہ کرے اور امن وامان اور عدل و مساوات پر قائم ایک ایسا نظریۂ جنگ اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرے کہ دورانِ جنگ بھی کسی کی حق تلفی یا اس پر ظلم وستم جائز نہ ہو، چنانچہ مذکورہ بالا لغت میں لفظ ’’جہاد‘‘ کی تشریح یوں کی گئی ہے:👇
’’قتال من لیس لھم ذمۃ من الکفار‘‘ ۔۔۔۔ یعنی ’’غیر ذمیوں سے قتال ‘‘۔(المعجم الوسیط) اسلامی جنگ کا مقصود فتنہ وفساد کا خاتمہ     اسلام میں جنگ ایک نہایت شریف عمل ہے، لہٰذا ہمیں اس کے متعلق کسی طرح کے بھید بھاؤ یا معذرت خواہانہ رویہ کے اختیار کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ 👇
اس کے بعد یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے، اس کی تعلیمات دیگر مذاہب کی طرح محض چند رسوم وعقائد کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ انسان کا خود ساختہ اپنے ہاتھوں بنایا ہوا قانون ودستور ہے؛ بلکہ خالقِ کائنات کا نازل کردہ نظامِ حیات ہے👇
جس میں ہر شعبۂ زندگی کے متعلق انسانیت کے لیے رہنمایا نہ اصول بتلائے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو ہر شخص اپنا سکتا ہے، کوئی بھی شخص ان اصول کو اپنا کر اس کے دامن رحمت وعافیت میں جگہ پاسکتا ہے۔ ’’اسلامی نظامِ جنگ ‘‘، ’’جہاد‘‘ یا اس جیسی نقل وحرکت کا مقصود بھی یہی ہے کہ👇
فطرتِ انسانی سے موزون اعتدال پر مبنی ان تعلیمات کا ہرسمت بول بالا ہو، روئے زمین سے ناانصافی، بد امنی، ظلم وجبر اور شروفساد کا خاتمہ ہو اور ہر شخص آزادی کے ساتھ اس خدائی نظام کے تحت امن وسکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ اشاعت ِاسلام کا ہرگز یہ مقصود نہیں کہ 👇
لوگوں کومجبور کرکے اسلام میں داخل کیا جائے، ارشاد خداوندی ہے: ’’لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’دین میں زور زبردستی نہیں۔‘‘ اگر کوئی شخص جزیہ کی مشروعیت پر غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اسلامی جنگ کا مقصود اسلام کا غلبہ ہے، خواہ 👇
وہ مخالف کے اسلام لانے سے ہو یا رعیت بن کر رہنا منظور کرنے سے۔ چوں کہ جزیہ دے کر اسلامی سلطنت میں رہنا بھی در اصل اسلامی قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہے، جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تو فتنہ وفساد کے امکانات بھی ختم ہوچکے ؛ لہٰذا اب جنگ بھی موقوف کردی جائے گی، اب 👇
اس ذمی شخص کو اسلامی سلطنت میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی کوآیت کریمہ میں یوں بیان کیا گیا ہے : ’’اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فسادنہ رہے اور دین (غلبہ)اللہ ہی کا ہوجاوے۔ اور اگر وہ لوگ (فساد سے)بازآجاویں تو سختی کسی پر نہیں ہواکرتی بجز 👇
بے انصافی کرنے والوں کے‘‘۔(البقرۃ :۱۹۳) اس آیتِ کریمہ میں جنگ بندی کی انتہا فتنہ و فساد کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔     دورِ رسالت کے غزوات وسرایا کی مجموعی تعداد ۸۲ ہے۔ اگر ان لڑائیوں کو جارحانہ اور اقدامی تسلیم کیا جائے تو بھی ان میں 👇
مقتولین کی مجموعی تعداد ۱۰۱۸ (ایک ہزار اٹھارہ) ہے اور ۸۲(بیاسی) پر ان کو تقسیم کرنے سے فی جنگ 12.414 (بارہ اعشاریہ چار سو چودہ)اوسط نکلتا ہے۔ قیدیوں کی مجموعی تعداد ۶۵۶۴ (چھ ہزار پانچ سو چونسٹھ) ہے جو جزیرہ نما عرب کی وسعت کے مقابلہ میں ہیچ ہے اور چوں کہ 👇
ان کی تعداد کے اندر بڑی تعداد ۶۰۰۰ (چھ ہزار) ایک ہی غزوہ حنین کی ہے (جوکہ بعد میں تمام آزاد کردیے گئے) اس لیے باقی جنگوں میں اسیرانِ جنگ کا اوسط ۷(سات) رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل زمانۂ گزشتہ کی دو عظیم جنگیں اور ان کی ہلاکت خیزیوں اور تباہیوں کا اندازہ لگائیے جو 👇
صرف چھوٹی سلطنتوں کو آزاد کرانے کی غرض سے لڑی گئی تھیں۔ مقتولین، مجروحین کی تعداد ساٹھ ستر لاکھ سے متجاوز ہے۔ اہلِ دنیا کی لڑائیوں کا ذکر چھوڑو، مقدسین کی لڑائیاں لو، مہابھارت کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم نہیں۔ یورپ کی مقدس مذہبی انجمنوں نے جس قدر نفوس ہلاک کیے ،ان کی 👇
تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے ۔(تمام اعداد وشمار کے لیے ملاحظہ ہو : رحمۃ للعالمین،ج: ۲،ص:۴۶۴)

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Muddassar Rashid

Muddassar Rashid Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Muddassar04

20 Oct
عبداللہ طاہر
جب خراسان کے گورنر تھے
اور نیشاپور اس کا دارالحکومت تھا
تو ایک لوہار شہر ہرات سے نیشاپور گیا اور چند دنوں تک وہاں کاروبار کیا۔ پھر اپنے اہل و عیال سے ملاقات کے لئے وطن لوٹنے کا ارادہ کیا اور رات کے پچھلے پہر سفر کرنا شروع کردیا۔ انہی دنوں 👇
عبداللہ طاہر نے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ شہر کے راستوں کو محفوظ بنائیں تاکہ کسی مسافر کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
اتفاق ایسا ہوا کہ سپاہیوں نے اسی رات چند چوروں کو گرفتار کیا اور امیر خراسان (عبد اللہ طاہر) کو اسکی خبر بھی پہنچادی لیکن اچانک ان میں سے ایک چور بھاگ گیا۔ اب👇
یہ گھبرائے اگر امیر کو معلوم ہوگیا کہ ایک چور بھاگ گیا ہے تو وہ ہمیں سزا دے گا۔ اتنے میں انہیں سفر کرتا ہوا یہ (لوہار) نظر آیا۔ انھوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر اس بےگناہ شخص کوفوراً گرفتار کرلیا اور باقی چوروں کے ساتھ اسے بھی امیر کے سامنے پیش کردیا۔ امیرخراسان نے سمجھا کہ 👇
Read 13 tweets
19 Oct
جس درخت  کے نیچے رسول اللہ ﷺ کا بیعت لینا، اس پر اللہ تعالی کی رضا قرآن میں مذکور ہے، جب اس کے نیچے لوگوں کا اجتماع اور بعض منکرات کا خطرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس فرمایا تو اس درخت ہی کو کٹوادیا ، حالاں کہ اس کے نیچے جمع ہونے والے حضرات صحابہ کوئی ناجائز کام نہ 👇
کرتے تھے، محض تبرکاً جمع ہوتے  اور ذکر اللہ و ذکر رسول ہی میں مشغول رہتے تھے، مگر چوں کہ ایسا اجتماع مقصود شرعی نہیں تھا اور آئند اس میں شرک و بدعت کا خطرہ تھا؛ اس لیے اس اجتماع ہی کو ختم کردیا گیا، اس طرح کے اور بھی متعدد واقعات حضرت فاروق اعظم اور دوسرے حضرات صحابہ سے بکثرت 👇
منقول ہیں، کتاب الاعتصام میں وہ مستند کتابوں کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں، ان احادیث و آثار کی بنا پر فقہاء حنفیہ کا مسلک ایسے معاملات میں یہی ہے کہ : جو امر اپنی ذات میں مستحب ہو ، مگر مقصود شرعی نہ ہو ، اگر اس میں منکرات و بدعات شامل ہوجائیں یا شامل ہونے کا خطرہ قوی ہو تو 👇
Read 4 tweets
18 Oct
حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات اور ان سے حصول علم کے اشتیاق کااظہار کیا تھا، اس میں قوم کے لیے تعلیم ہے کہ وہ ان کے طریقہ کو اپنائیں اور اس میں تزکیہ نفس والوں کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ تواضع کا راستہ اختیار کریں،اس میں اضافہ علم کی فضیلت ہے، اگرچہ 👇
اس کے لیے مشقت کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔خطیب البغدادی نے اپنی کتاب (الرحلة فی طلب الحدیث) میں اس حدیث کو ذکر کرنے بعد لکھا ہے کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے سفر کی جو مشقت اٹھائی او راس مشقت پر جوصبر کیا اور حضرت خضر کے ساتھ جس طرح عاجزی سے پیش آئے جب کہ 👇
حضرت خضر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شرف نبوت کا علم بھی ہو گیا تھا، اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ اہل علم کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور یہ کہ جس سے علم حاصل کیا جائے اس کے سامنے تواضع او رعاجزی ہی بہتر ہے، درجہ اور مقام کی بلندی کی وجہ سے اگر 👇
Read 4 tweets
9 Oct
عورت اگر بیوی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ اگر تم میری جلد بھی مانگتی تو میں اتار کر دے دیتا جب یہی عورت بیٹی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا بلکہ فرمایا میری بیٹی فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ہے
اور 👇
جب یہ عورت بہن کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہن تم نے خود آنے کی زحمت کیوں کی تم پیغام بھجوا دیتی میں سارے قیدی چھوڑا دیتا
اور جب یہ عورت ماں کے روپ میں آئی تو قدموں میں جنت ڈال دی گئی اور حسرت بھری صدا بھی تاریخ نے محفوظ کی فرمایا گیا 👇
اے صحابہ کرام کاش! میری ماں زندہ ہوتی میں نماز عشاء پڑھا رہا ہوتا
میری ماں ابھی محمد پکارتی میں نماز توڑ کر اپنی ماں کی بات سنتا
عورت کی تکلیف کا اتنا احساس فرمایا گیا کہ دوران جماعت بچوں کے رونے کی آواز سنتے ہی قرأت مختصر کردی
اے امت محمدیہ کی بیٹیوں آپ بہت عظمت والی ہو ۔
Read 4 tweets
8 Oct
مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ’’جن ایام کو اسلام نے تہوار کے لیے مقرر فرمایا،ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکر ختم ہو چکا ہو،بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قرار دیا،جو ہر سال پیش آتے ہیں اور 👇
ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں عیدیں ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں ،جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں ، چنانچہ عیدالفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میرے بندے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے، اس کی خوشی اور انعام میں 👇
یہ عیدالفطر مقرر فرمائی اور عیدالاضحی ایسے موقع پر مقرر فرمائی جب مسلمان ایک دوسری عظیم عبادت یعنی حج کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے کہ حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفہ ۹؍ذوالحجہ کو ادا کیا جاتا ہے، اس تاریخ کو پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان میدانِ عرفات میں جمع ہو کر
Read 4 tweets
8 Oct
سیرت النبیﷺ اور ہماری زندگی
تحریر : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اُسوۃٌ حسنۃٌ من کان یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر، و ذکراﷲ کثیراً۔
(سورۂ الاحزاب۔۲۱)
آپ ﷺ کا تذکرہ باعث سعادت
۱۲؍ ربیع الاوّل ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور خاص کر برصغیر میں 👇
باقاعدہ ایک جشن اور ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جب ربیع الاوّل کا مہینہ آتا ہے تو سارے ملک میں سیرت النبی اور میلاد النبی کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل👇
یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپ کے مبارک تذکرہ کو اس ماہ ربیع الاوّل کے ساتھ بلکہ صرف ۱۲؍ ربیع الاوّل کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے اور یہ کہاجاتا ہے کہ چونکہ ۱۲ ربیع الاوّل کو حضور نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی۔ اس لئے آپ کا یومِ ولادت منایا جائے گا اور 👇
Read 12 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(