(1)قہوہ اور پانی
جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے
اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ھے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے
🔻🔻
اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ھے
(2)گھر کے باہر پھول
اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ھے آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں
🔻🔻
(3)ہتھوڑا
گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے
ایک بڑا ایک چھوٹا
اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا
اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا
🔻🔻
تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی
(4)صدقہ
عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا
کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے
🔻🔻
اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا
کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا
🔻🔻
(5)تریسٹھ سال
اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے؟؟؟
تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی
ھے بلکہ یہ کہتا
بیٹا ھم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں
🔻🔻
اللہ اللہ کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا
کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی
یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے
مگر
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے کہ
وہ شیر پھر بیدار ہوگا۔۔۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ساگ
ساگ کا وقت قریب آ رہا ہے ساگ ایک سبز رنگ کی ڈھیٹ قسم کی سبزی ہے ڈھیٹ اسلئے کہ جس گھر میں گھس جائے دو دو ماہ پڑا رہتا ہے سردیوں کے کچھ ماہ تو اس کی حیثیت گھر کے فرد کی سی ہو جاتی ہے ناشتے لنچ اور ڈنر میں ماؤں کو اتنی فکر اپنے بچوں کی نہیں ہوتی جتنی ساگ کی ہوتی ہے
🔻🔻
گویا ساگ سال میں ایک مہینے کے لئے فرض ہو جاتا ہے
سائینسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ساگ میں کیلشیم پوٹاشیم فولاد فاسفورس اور آلو کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں اکثر قدامت پسند گھرانوں میں ساگ میں آلو نہ ڈالنا ساگ کی بیعزتی سمجھا جاتا ہے بعض گھروں میں تو
🔻🔻
اتنے برتن بھی نہیں ہوتے جتنی انواع کا ساگ ہوتا ہے سردیوں میں اکثر فرج کھولیں تو آلو ساگ قیمہ ساگ چکن ساگ میتھی ساگ اور اسی قسم کے چند اور ساگوں سے فرج ساگو ساگ ہوا ہوتا ہے
🔻🔻
CONVERSATION BETWEEN ME AND GOD
God: Hello. Did you call me ?
Me: Called you? No. Who is this?
God: This is GOD. I heard your prayers. So I thought I will chat.
Me: I do pray. Just makes me feel good. I am actually busy now. I am in the midst of something.
🔻🔻
God: What are you busy at? Ants are busy too.
Me: Don't know. But I can't find free time. Life has become hectic. It's rush hour all the time.
God: Sure. Activity gets you busy. But productivity gets you results. Activity consumes time. Productivity frees it.
🔻🔻
Me: I understand. But I still can't figure out. BTW, I was not expecting U to buzz me on instant messaging chat.
God: Well I wanted to resolve your! Fight for time, by giving U some clarity. In this net era, I wanted to reach you through the medium you are comfortable with.
🔻🔻
#WomenEducation
There is a saying, “You educate a man; you educate a man. You educate a woman; you educate a generation”.
Nature has divided human beings into two genders and both are given responsibilities which suit them.
🔻🔻
Along with assigning the responsibilities, nature has very clearly stated the rights of both on each other. Before we debate on role of women, let’s see how God created woman in the first place. In the beginning when it came to the creation of woman,
🔻🔻
God found that he had exhausted all the solid materials in the making of man. In this dilemma after profound meditation, He did as follows; he took the rotundity of the moon, curves of the creepers, the clinging of tendrils, the trembling of grass, the slenderness of weeds,
🔻🔻
پشاور بورڈ کے 1098 کے 3ایٹمی دھماکوں کے بعد ۔۔۔۔۔
ملاکنڈ بورڈ نے
1098 کے 5 ایٹمی
دھماکے کر کے
پشاور بورڈ کی توپوں کو خاموش کرادیا۔۔۔۔😅
👇👇
پھر
مردان بورڈ نے
میدان میں کود
کر 1100 کا 1 ھائیڈروجن بم
اور 1098کے کئی ایٹمی دھماکے کرکے
ساتھ ہی ساتھ 1096 کے
کلسٹر بموں کی بارش کردی
جس پر
تمام بورڈز کی توپوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کرادیاگیا
👇👇
لیکن اج پنجاب کے بورڈز نے 1100 کے 100 سے زائد ہائیڈروجن بم اور 1098 کے بےشمار دھماکے کر کے پاکستانی دوسرے بورڈز کے علاوہ دنیا کو کو بھی پیچھیے چھوڑ دیا ہے 😜😜😜
👇👇
ذرا حوصلے سے پڑھیں
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
دورِ حاضر کی سیاست نے جہاں پاکستانیوں کو تبدیلی کے آنے کی نوید سنائی، وہیں بغیر سوچے سمجھے بولنے کے رواج کو عام کیا
🔽🔽
سوال یہ ہے کہ بھٹو، جنرل ضیاء الحق، اور جنرل مشرف کے ادوارِ حکمرانی میں کیا یہ گالم گلوچ، برے نام سے پکارنا، اؤے اور تم جیسے الفاظ استعمال ہوتے تھے؟
اگر ہوتے بھی تھے، تو کبھی کبھار اور خطاب کرنے والے کے لیے باعث شرمندگی قرار دیئے جاتے.
🔽🔽
لیکن عصرِ حاضر میں یہ بات مشاہدے میں ہے کہ بے تُکی گفتگو، بُرے ناموں سے پکارنا مخالف پارٹی کے حامیوں کو چڑانے اور نیچا دکھانے کے لیئے خصوصی طور پر تواتر سے رواج پکڑ چکا ہے.
پٹواری، جیالا، نونی، یوتھیا جیسے القابات دینا اب معیوب بات نہیں سمجھی جاتی.
🔽🔽
ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ھے؟
جواب ملا
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ھے
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے
🔰
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے
(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استمعال کرتے تھے۔
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے
🔰
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا
🔰