جناب وزیراعظم صاحب دوسروں کو چور کہنےسےمسئلہ حل نہیں ہوگا
عوام کو آپ ٹیکس چورکہتےہیں
اپنے سیاسی مخالفین پر آپ قومی خزانہ لوٹنےکا الزام لگاتےہیں
ان پر مقدمات قائم کرتےہیں لیکن ثابت کچھ نہیں کرپاتےلیکن اس بیوروکریسی پر آپ ہاتھ نہیں ڈالتےجو روزانہ
👇1/26
قومی خزانےپر ڈاکہ ڈال رہی ہے
آئیےذرا موٹاموٹا حساب لگاتےہیں
پہلےموبائل فون سروس کو لیتےہیں
پی ٹی اےکےاعداد وشمار کےمطابق ملک میں موبائل فون
کے18کروڑ32لاکھ صارفین ہیں
اگر انکا اوسط نکالاجائےتو روزانہ
100روپےکی رقم فی صارف موبائل فون کمپنیوں کو وصول ہورہی ہے
جس پر وہ 25 روپے
👇2/26
یا اس سےبھی زیادہ ٹیکس کی مد میں منہا کرتی ہےاس25 روپے کو18کروڑ32لاکھ سےضرب دے د یں
وہ رقم جو اس مد میں روزانہ4 ارب 58کروڑ روپےاندازاً حاصل ہوتےہیں
انکو30 دنوں پر ضرب دیجیئے
تو آپکے ہوش اڑ جائیں گے
یہ رقم پاکستان کےکل بجٹ سےکہیں زیادہ ہوگی
ہزاروں لیٹر پٹرول اورڈیزل روزانہ
👇3/26
فروخت ہوتا ہے
اس میں عملا حکومت
50 روپےٹیکس کی مد میں حاصل کرتی ہےایک محتاط اندازےکےمطابق پاکستان میں پانچ لاکھ 56 ہزار بیرل یعنی88 کروڑ 40 لاکھ 4ہزار لیٹرپٹرول کو50 روپےسےضرب دیکر جو رقم روزانہ حاصل ہوتی ہےوہ کہاں گئی۔44 ارب 20 کروڑ2 لاکھ روپے پٹرول کی آمدنی میں ٹیکس کی
👇4/26
مد میں روزانہ وصول کئےجاتےہیں
اسکو بھی30 سےضرب دےدیجئے
بجلی گیس اور ٹیلیفون کےبلوں
سےحاصل ہونیوالےٹیکس اوربینکوں میں لین دین پر ٹیکس وغیرہ الگ ہیں
عوام کی جیب سےروزانہ یہ رقم نکلتی ہےچاہےانکے پاس اپنی ذاتی سواری ہویا نہ ہو یعنی ٹیکس کی مد میں عوام
سےکم سے کم اندازا روزانہ
👇5/26
50 ارب روپےوصول کئےجارہے ہیں
لیکن خرچ کہاں ہورہےہیں؟انسٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ آف اکنامکس(پائیڈ)کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہےکہ سیکرٹری تعینات ہونےکےبعد گریڈ 22 کےافسر کی تنخواہ اقوام متحدہ
کےافسر سےبھی زیادہ ہوجاتی ہےجبکہ سرکاری ملازمین کوگھر
ملازمین اور الاؤنس تنخواہ
👇6/26
کاحصہ شمار نہیں ہوتے۔انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ آف اکنامکس کی رپورٹ کےمطابق محض BA کی ڈگری رکھنے والےسول سرونٹ پرائیوٹ سیکٹر
کےمقابلےمیں ساڑھے9% زیاہ تنخواہ وصول کررہےہیں۔صرف ایم فل
اور PHD کرنےوالوں کو نجی شعبے میں پرکشش ملازمتیں مل پاتی ہیں۔سول سرونٹ کی آمدن نجی شعبےکی نسبت
👇7/26
20% زیادہ جبکہ گریڈ22 کےافسر کی تنخواہ دوسرےافسروں کی تنخواہوں سےدس گنا زائد ہے۔پائیڈ رپورٹ
کےمطابق بیوروکریسی خفیہ طورپربہت زیادہ مالی فوائد حاصل کررہی ہے سرکاری ملازمین کو گھر، ملازمین اور الاؤنس
تنخواہ کا حصہ شمار نہیں ہوتے
گریڈ20 کےملازم کی تنخواہ ایک لاکھ 66 روپے ہے
👇8/26
تاہم اسمیں مختلف الاؤنسز، گاڑی
میڈیکل اور گھر کی سہولت شامل کر لیجائےتو ماہانہ آمدن7 لاکھ 30 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔اسیطرح گریڈ21 کے افسر کی تنخواہ ایک لاکھ12 ہزار کے قریب ہےجو سہولتیں شامل کرنےکےبعد 9لاکھ80 ہزار ماہانہ بنتی ہےجبکہ گریڈ22 کےافسر کی تنخواہ ایک لاکھ 23ہزار500
👇9/26
کےقریب ہےجو دوسری سہولتیں ملانے کےبعد11 لاکھ روپےبن جاتی ہے۔رپورٹ کےمطابق افسران تمام سہولتوں
کےباوجود تنخواہوں میں اضافہ
چاہتےہیں جبکہ سرکاری افسروں کو مختلف سہولتوں پرماہانہ2 ارب
30کروڑ روپےکےاخراجات آتےہیں
(پائیڈ نےمحتاط اندازہ لگایاہےاخراجات اس سےکہیں زیادہ ہونگے)
👇10/26
ہوائی سفر اوردیگر جگہوں پر بعض افسران کو 75% تک رعایت ملتی ہے
قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر قومی اسمبلی کےاراکین ماہانہ44 کروڑ88 لاکھ19 ہزار روپےسےزیادہ کی رقم تنخواہ اورسفری اخراجات کی مد میں لیتےہیں۔ایک رکن قومی اسمبلی ہر ماہ سرکاری خزانےسےایک لاکھ 88 ہزارروپےاوراگر وہ کسی
👇11/26
قائمہ کمیٹی کا چیرمین ہوتو2لاکھ 13 ہزارروپےوصول کرتاھےسینیٹ کےرکن کی تنخواہ 76 ہزار روپےہے
سالانہ 3لاکھ روپےٹریول الائونس ہے اور کھانےپینےکیلئے90 ہزار سالانہ الگ سےدیےجاتےہیں
یہ قومی اسمبلی سےکم ہے
اسپیکر ڈپٹی اسپیکر، چیرمین سینٹ اور ڈپٹی چیرمین سینٹ کی تنخواہیں اس میں
👇12/26
شامل نہیں ہیں
وزراء کی تنخواہیں اس میں شامل نہیں ہیں بھارت میں رکن پارلیمنٹ اور وزیر کی تنخواہ برابر ہےپہلے یہ تنخواہ ایک لاکھ تھی اب اسےکم کرکے70 ہزار کردیا گیا ہےپاکستان میں رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ 50 ہزار روپےہے
گزٹییڈسرکاری ملازمین کو ریٹائر منٹ کےبعد بھی پنشن
👇13/26
کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ نجی شعبےکےملازمین کی تنخواہوں سےکئی گنا زیادہ ہےاور قومی خزانےکےٹیکس دھندگان پربوجھ ہےصدر پاکستان کی تنخواہ 8لاکھ46 ہزار روپےہے
وہ ٹیکس اور بل بھی ادا کرتےہیں
وزیراعظم کی تنخواہ 10لاکھ روپے ماہانہ ھےلیکن ان دونوں کےماہانہ اخراجات انکی تنخواہوں
👇14/26
سےکئی گنا زیادہ ہیں
جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو 10لاکھ روپےماہانہ پنشن دیجاتی ہے جو انکی تنخواہ کا 85% ہے
تین ہزار ٹیلی فون کال ماہانہ مفت ہے 2ہزار یونٹ بجلی ماہانہ مفت ہے
25ہیکٹو میٹرزیونٹ گیس مفت ہے
پانی فراہمی مفت ہےاورماہانہ300 لیٹر پٹرول مفت فراہم کیاجاتا ہے
اسکے
👇15/26
علاوہ انہیں ڈرائیور، اردلی کی تنخواہ بھی دیجاتی ہےاور 24 گھنٹےایک گارڈ کی ڈیوٹی بھی انکےلئےموجود ہے
اسی جیسی مراعات بہت سےسابق سیکریٹریز حاصل کرتےہیں
جبکہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سےتمام رعایات چھین لی گئی تھیں BBC کی ایک رپورٹ کے مطابق جس میں اس نے پائیڈ کے وائس
👇16/26
ڈاکٹر ندیم الحق سےگفتگو کی تھی اور یہ سوال کیاتھا کہ مراعات پاکستان
کےنظام میں کیسےاور کہاں سےآئیں؟پاکستان میں سرکاری شعبےمیں اصلاحات کےحوالےسےماضی میں کئی کوششیں کی گئیں تاہم وہ زیادہ کامیاب نہیں ہو پائیں
ان کوششوں میں بنیادی طور پر سرکاری ملازمین اور خصوصاً افسران کو
👇17/26
ملنےوالی مراعات ہمیشہ زیر بحث رہی ہیں۔پائیڈ کےوائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق کےمطابق سرکاری ملازمین کو ملنےوالی مراعات بنیادی طور پر
نو آبادیاتی میراث ہے(یعنی دور غلامی کی یاد گار ہے)ایسٹ انڈیا کمپنی یا انگریز جب برصغیر میں قابض
ہوئےتھےتو انھوں نےیہاں کام کرنےوالے اپنےافسران
👇18/26
کوخوش رکھنےکیلئےاچھی تنخواہ
کےساتھ مراعات بھی دینےکا آغاز کیاتھا
ڈاکٹر ندیم الحق کےمطابق ان افسران کیلئےبڑےبڑےگھر اور بنگلےبنائےگئے کئی نوکرچاکر اور ملازمین انھیں ذاتی کاموں کیلئےدیےجاتےتھے اور انکے رہن سہن اور علاج معالجےکا تمام تر خرچ حکومت برداشت کرتی تھی
انکا کہنا تھا
👇19/26
کہ پاکستان میں ابتدا ہی سےاسی
نو آبادیاتی میراث کےتحت سرکاری افسران کو تنخواہ کےساتھ ساتھ یہ مراعات دیجاتی رہی ہیں جو کہ اب نظام کا حصہ بن چکی ہیں۔اگر اعلی افسران کو ملنےوالی مراعات کو دوسرےزاویےسےدیکھا جائےتو انکو ملنےوالی ماہانہ تنخواہ میں سےاگر مراعات کو نکال دیا جائے
👇20/26
تو انکی بنیادی تنخواہ
بہت کم رہجاتی ہےتو یہاں سوال یہ پیدا ہوتاھےکہ اتنی کم تنخواہ میں اس درجےکا افسر گزارا کیسےکرسکتاھے؟پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اس بات سےاتفاق کرتےہیں کہ سرکاری ملازمین یا افسران کی تنخواہ کم نہیں ہونی چاہیےیعنی انکی جیب میں پیسے ہونے چاہییں
👇21/26
ورنہ کرپشن جنم لیتی ہےتاہم انکے خیال میں’بنیادی تنخواہ کو بڑھاکر مراعات ختم کر دیناچاہیےاگر ایک افسر کی تنخواہ کم ہوگی تو وہ بچوں کی تعلیم کا خرچ کیسےبرداشت کریگا
نہیں کر پائےگا تو رشوت لےگا
اسلئےاسکی جیب میں تنخواہ کےاچھے پیسےہونا ضروری ہیں
تاہم انکا کہناتھا کہ غیرضروری
👇22/26
مراعات جساکہ مکمل طور پر سرکاری خرچ پر چلنےوالی گاڑیاں سرکاری گھر ایسی مراعات ہیں جن پرحکومت کو سالانہ اربوں روپےخرچ کرناپڑتا ہے
انھیں مراعات دینےکی ضرورت ختم ہو جائےگی
پلاننگ کمیشن میں ہم نےایک دفعہ یہ تخمینہ لگایاتھا
اگر اعلٰی درجےکےسرکاری افسران سےتمام تر مراعات واپس
👇23/26
لے لیجائیں اور انکی بنیادی تنخواہ کئی گنا بھی بڑھا دیجائےتو حکومت کو سالانہ اربوں روپےکی بچت ہوگی
اسکی مثال دیتےہوئےڈاکٹر ندیم کا کہنا تھاکہ صرف ان افسران کو ملنےوالے
وہ گھر جو مکمل طور پر سرکاری خرچ پر چلتےہیں
جن میں کام کرنےکیلئےملازمین بھی فراہم کیےجاتےہیں انکا خرچ
👇24/26
کئی ارب روپےبنتاھےانکےخیال میں
اگر بنیادی تنخواہ بڑھا دیجائےتو سرکاری افسران کو کیش یعنی نقد
ملنےوالی رقم کئی گنا بڑھ جائےگی اور اس سےوہ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کر پائیں گے
یہ تو ڈاکٹر ندیم الحق کا مشورہ ہےجو نہایت صائب ھے
قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنےوالےافسران کو بجلی
👇25/26
گیس ،پانی ، پٹرول اور ٹیلیفون کی مفت فراہمی بند ہونی چاہیےتاکہ انہیں احساس ہو کہ قوم جو ٹیکس بھی
دے رہی ہےاس پر کیا گزرتی ہے۔اگر یہ مراعات ختم کردی جائیں تو IMF کی شرائط پوری کرنےکیلئے قوم کا تیل نہیں نکالنا پڑے گا
End
تحریر وجیہ احمد صدیقی
پلیز پڑھ کر شیئر ضرور کریں🙏
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#پنڈورا_پیپرز میں700 سے زائد پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آگئیں
پنڈورا پیپرز میں وزیرخزانہ شوکت ترین کی آف شور کمپنی جبکہ وفاقی وزیر مونس الٰہی اور سینیٹر فیصل واوڈا کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں۔
تحقیقات میں پنجاب کے سابق وزیر عبدالعلیم خان کی آف شور کمپنی سامنے آئی
👇1/4
جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار کے بیٹے کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا پیپرز میں شامل ہے
پنڈورا پیپرز میں پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن کی آف شور کمپنی بھی شامل ہے
اسکے علاوہ وفاقی وزیرصنعت
خسرو بختیارکے اہل خانہ کی آف شورکمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں سامنے آئی ہے۔
👇2/4
وزیراعظم کےسابق معاون خصوصی وقارمسعود کےبیٹےکی بھی آف شورکمپنی نکل آئی
ایگزیکٹ کےمالک شعیب شیخ کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں شامل
اسکےعلاوہ پنڈورا پیپرزمیں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران،کچھ بینکاروں، کاروباری شخصیات اور کچھ میڈیا مالکان کی آف شورکمپنیاں بھی سامنے آئیں ہیں
👇3/4
#گھمن آرمی فیملی سے تعلق رکھتاھے
پاکستان کی ایک طاقتور شخصیت کا رشتہ دار اور DG فنانشل کرائمز انویسٹی گیشن ونگ (FCIW) تھا
جو MTRAC کا مالک تھا اور اس نے Schon Group کےساتھ کام کیا
برطانیہ کی عدالت میں
👇1/22
براڈ شیٹ ثالثی ایوارڈ کیس میں پاکستان کی قانونی ٹیم خاموش رہی پاکستان میں زیرالتوا مقدمات کے
بارےمیں اہم حقائق پیش نہیں کئےاور 2017 کےبعد سےبراڈ شیٹ کی حمایت کی
برطانوی حکومتی دستاویزات سےظاہر ہوتاہےکہ کچھ انتہائی طاقتور پاکستانی شخصیات اور براڈ شیٹ
سےوابستہ مرکزی کرداروں
👇2/22
کےدرمیان کاروباری روابط ہیں
سرکاری برطانوی حکومتی دستاویزات سےثابت ہوتاھےکہ نیب کا مرکزی کردار براڈ شیٹ فیاسکو طلعت محمود گھمن
سابق DGفنانشل کرائمز نیب اور پاکستان کی ایک طاقتور شخصیت
نے2014 میں یونائیٹڈ کنگڈوم میں STAT (UK) PLC کےنام سےایک کمپنی قائم کی
برطانیہ میں قائم
👇3/22
بین القوامی اخبار #فیکٹ_فوکس
کےحیران کن انکشافات👇 #ایلیوٹ_ولسن کاکہنا ھےکہ پاکستان کی معیشت پر ایک بےرحم کاروباری جماعت کا غلبہ ھےجو فیکٹریوں اور بیکریوں سےلےکر کھیتوں اور گولف کورسز تک ہر چیز کا مالک ہے
اسلام آباد افواج کی توجہ زیادہ منافع بخش منصوبےگولف کورسز کی
👇1/23
تعمیر پرمبذول کرائی
620،000 فوجیوں کےساتھ پاکستان دنیا کی ساتویں سب سےبڑی فوج پر فخرکرتاھےلیکن اسکےسینئر افسران
نےبہت پہلےتجارتی منصوبوں
سےحاصل ہونےوالےفوائد کو محسوس کیاتھا
1947میں آزادی کےبعد سےفوج نےخود کو پاکستان کی معیشت میں مستقل طور پر جوڑا ہواھے
اپنی2007کی کتاب
👇2/23
ملٹری انک: پاکستان کی ملٹری اکانومی کےاندر ڈاکٹرعائشہ صدیقہ نےملک کی فوجی افواج کےہر پہلو پر پھیلےہوئےتجارتی پردےکو بےنقاب کیا
صدر پرویزمشرف کی سربراہی میں ملک کی بحری افواج کی سابقہ محقق ڈاکٹرصدیقہ کا اندازہ ہےکہ فوج کی مجموعی مالیت10ارب ڈالر سےزائدھے
مراعات یافتہ اور نچلا طبقہ
نفرت کے اسباب
حقائق جاننےکیلئےضرور پڑھیں👇
ترقی یافتہ اور فلاحی ریاستوں میں
ٹیکس لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کیا جاتاھےحکومتیں تمام شہریوں کو بلاتفریق بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہیں انکا شاندار انفراسٹرکچر سہولیات اور نظام فراہم کرتاھے
👇1/18
لوگوں کےٹیکس کی رقم لوگوں پرخرچ ہورہی ہےتمام شہری یکساں طور پرتمام سہولیات سےلطف اندوز ہوتےہیں اور مساوی حقوق رکھتےہیں
بدقسمتی سےپاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہےیہاں امیر اور مضبوط لوگ ٹیکس چوری کرتےہیں
کمزور اور غریبوں سےطاقت
کےذریعے یا بدمعاشی سےٹیکس وصول کیا جاتا ہے
👇2/18
ٹیکس کرپٹ ہاتھوں میں جاتاھے
اسےعام لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے صحیح طریقےسےاستعمال نہیں کیا جاتا
بلکہ ٹیکس کا پیسہ جو غریب اور کمزور سےجمع کیاجاتاھےامیر اور اعلیٰ طبقےکی سہولت کیلئےاستعمال کیاجاتا ہےانکا طرز زندگی پروٹوکول اور جمود واضح طور پر فرق کو ظاہر کرتاھے غریب طبقے
👇3/18
آسٹریلیا میں خرگوش نہیں پائےجاتے تھے یہ قدرت کا فیصلہ تھا لیکن پھر انسانوں نےفیصلہ کیا کہ وہاں خرگوش لائےجائیں1859میں وہاں صرف
24خرگوش لا کےچھوڑےگئے وہاں پہ انکی پیدائش کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کا کوئی دشمن جانور نہیں تھا اس لیے چند ہی ماہ میں انکی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی
👇1/4
اور انہوں نے وہاں کے کسانوں کی ناک میں دم کرکے رکھ دیا اور انکی ساری فصلوں کو تباہ کردیا پھر 1870 میں ان 20 لاکھ خرگوشوں کو مختلف طریقوں سے مار کے ختم کیا گیا
1996 تک پاکستان میں یوتھیے نہیں پائے جاتے تھے
کچھ قوتوں نے فیصلہ کیا کہ وھاں یوتھیے ھونے چاھیں
👇2/4
پھر بیرون ملک سے چند یوتھیے امپورٹ کیےگئے
چونکہ پاکستان میں اس یوتھیائی نسل کو خوب پروان چڑھایا گیا اور اسکا کوئی اینٹی وائرس موجود نہیں تھا اسلئےدھرنوں,نالوں, پارکوں اور گلی محلوں میں کھلے عام اس نسل کی افزائش نسل ہوئ 2021 تک ان یوتھیوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا
👇3/4
پاکستان میں پہلی دھاندلی
عسکری، بیوروکریٹ پیروں، وڈیروں کےگٹھ جوڑ سےہوئی
تاریخ نےکئی چہروں پرایساغلاف چڑھا
رکھاھے
جنکو بےنقاب کرنا ضروری ہوگیاھے
کیسے بدضمیر لوگ تھےجو آج اپنےاپنے علاقوں کےخدا بنےبیٹھےہیں
انکا کردار نئی نسل کےسامنےلانا ضروری ہے
👇1/25
اور کتنےہی لوگ تھےجنہوں نےپاکستان کیلئےسب کچھ قربان کردیا لیکن #غدار کہلائے
1965 پہلا صدارتی الیکشن تھا
جس میں بیورکریسی اور فوج نےملکر دھاندلی کیتھی
1965کےصدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود جنرل ایوب خان نےکی
پہلےالیکشن بالغ رائےدہی کی بنیاد پر کروانےکا اعلان کیاگیا
👇2/25
یہ اعلان9 اکتوبر1964کو ہوا
مگر مادرملت فاطمہ جناح کےامیدوار بننےکےبعد یہ اعلان ایوب خان کا انفرادی اعلان ٹھہرا اور سازشی
کےتحت یہ ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی
یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی
1964میں کابینہ اجلاس میں
وزراءنےخوشامد کی انتہا کردی
حبیب خان نےفاطمہ جناح کو
👇3/25