میں نے صبح یہ سب دیکھا۔۔ پر جو وڈیو میں نے پہلے دیکھی اس میں ڈکیتی کیلئے یہ اندر گھسیں۔۔ دکاندار نے حاظر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے باہر دوڑ لگا دی۔۔ وہ بظاہر انہیں اندر بند کر کے پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا لیکن عورتیں بھی منجھی ہوئی کھلاڑی تھیں۔۔ انہوں نے فرار ہونی کی کوشش کی
جب فرار ہونا مشکل ہونے لگا تو چیخنے لگیں جیسے ان کے ساتھ زیادتی ہورہی۔۔ اس بندے کے حواس کو داد دینی پڑے گی کیونکہ کوئی بھی مرد ہوتا وہ ایسی صورت حال میں پٹنے کو ہرگز ترجیح نہ دیتا اور بعد میں اپنی بے گناہی سی۔سی۔ٹی۔وی فوٹیج سے ثابت کردیتا۔۔عورت خود اپنے کپڑے پھاڑ کر بلیک میل
کر رہی تھی۔۔ جو حالات تھے،اگر گواہان وہاں نہ ہوتے تو اس آدمی کی ان عورتوں نے درگت بنوا دینی تھی۔۔ اسکے بعد جو بھی ہوا وہ ریکشن تھا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ عورتیں ان کے قابو نہیں آرہی تھیں۔۔ صرف ایک کو وہ پکڑ سکا تھا۔۔ باقی اسے چھڑانے کے چکروں میں پکڑی گئیں پر ہماری عادت ہے ہم سمجھتے
اگر عورت نے تھپڑ مارا ہے تو ضرور مرد نے ہی کچھ غلط کیا ہوگا۔ یہ لٹیریاں نکی نکی #صفدریاں عورت کے نام پر تماچہ ہیں۔ ایک تو دن بھر کی محنت کی کمائی اڑا کر لے جانے کے چکروں میں تھیں اوپر سے اسے بدنام بھی کروا دیا۔ مجھے نہیں معلوم آپ نے کیا دیکھا پر جو میں نے دیکھا وہ یہی تھا #قلمکار
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
*صوفی حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان وہابی ہو گیا ہے۔*
تاریخ بھی ایک عبرت کدہ ہے۔ حیران کر دیتا ہے۔
یہ 1799 کا مارچ تھا' نماز جمعہ پڑھ کر لوگ نکلے تو منادی کرنے والے نے منادی کی : ’’ اے مسلمانو! سنو، میسور کے صوفی بادشاہ حیدر علی کا بیٹا فتح علی ٹیپو وہابی ہو گیا ہے‘‘۔۔۔۔
یہ اعلان کرناٹکا کے مقبوضہ مضافات سے لے کر نظام کی ریاست حیدر آباد کے گلی کوچوں میں پڑھ کر سنایا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر، مرہٹے اور نظام آف حیدر آباد میسور کے ٹیپو سلطان کے خلاف چوتھی جنگ لڑنے جا رہے تھے اور یہ اسی جنگ کی تیاری ہو رہی تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان ٹیپو کے
ہاتھوں شکست ہوئی اور انہوں نے ریاست میسور کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا تو اسے مٹانے کے لیے انہوں نے صرف عسکری منصوبہ بندی نہیں کی، وہ ہر محاذ پر بروئےکارآئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے سلطان ٹیپو کے خلاف مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے یہ بات پھیلا دی کہ ٹیپو سلطان تو وہابی ہوگیاہے۔
بہاولپور سے 78 کلومیٹر پرے چنی گوٹھ قصبے میں ایک صاحب نے ایک شخص کو پکڑنے کا دعویٰ کیا جو قرآنِ پاک کے اوراق جلا رہا تھا۔
ان صاحب اور دیگر ساتھیوں نے اس شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے اسے لاک اپ میں بند کر کے پرچہ کاٹ دیا۔ یہ خبر پھیلتی چلی گئی۔
مقامی مساجد سے ’چلو چلو تھانے چلو‘ کے اعلانات ہونے لگے۔ لگ بھگ دو ہزار لوگوں نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا جہاں 10 سپاہی موجود تھے۔
’مجرم کو حوالے کرو‘ کے نعرے لگنےلگے۔ پولیس نے تھوڑی بہت مزاحمت کی اور اس میں نو سپاہی زخمی ہوئے
مجمع اس شخص کو حوالات توڑ کےلےگیا اور مرکزی چوک میں بہیمانہ تشدد کے بعد زندہ جلادیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس شخص کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور مجمع میں شامل بہت سے لوگ یہ بات جانتےتھے
بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ ، اے - ایم - ایچ مصطفیٰ کمال نے بنگلہ دیش کا 5,230 ارب ٹکے کا بجٹ 2021 پیش کیا.
ایک ڈالر = 160 پاکستانی روپے
ایک ڈالر = 85 بنگلہ دیشی ٹکہ
پاکستان کا بجٹ 7,130 ارب روپے...
مطلب، بنگلہ دیش، ہم سے چھوٹا مُلک، کرنسی مضبوط،
اور
اس کا بجٹ ہم "امیروں" سے ٪26 ذیادہ
اچھا.
اب پاکستان کے بجٹ میں 4,000 ارب روپے کا لیا گیا بیرونی قرضہ بھی شامل ہے
جبکہ
بنگلہ دیش کے بجٹ میں
کوئی بیرونی قرضہ
بھی شامل نہیں.
پاکستان کے ریزروز.. 13 ارب ڈالرز..
بنگلہ دیش کے 43 ارب ڈالرز..
یاد رہے، کہ
ہمارے پاس دریا... پہاڑ..
جن پر
بند باندھ کر، ڈیم بنا کر ہم
سستی بجلی
پیدا کر سکتے تھے.
جبکہ
بنگالیوں کے پاس
ایسا کچھ نہیں تھا.
ہمارے پاس زراعت.
مگر
بنگالیوں کے پاس
نا ایسی زراعت،
نا نہری نظام
اور
آئے روز کی سیلاب کاریاں.
مگر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہم سے تین گُنا.
اور
وہ بھی
بنا کپاس پیدا کیے..
ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا
یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا
ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریبا" روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔ "میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔" اور وہ
بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔
ایک دن جب "ریٹائرڈ" افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی -
اس نے وضاحت کی:-
"ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی
بناؤ سنگھار تقریباً ہر عورت کو پسند ہے۔ ہمیں بھی پسند ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ڈنر کے بعد کی سویٹ ڈش بن کر ہر کسی کی آنکھیں ٹھنڈی کی جائیں۔۔ کچھ دنوں سے ایک میک اپ برینڈ کا باقاعدگی سے مشاہدہ کر رہی تھی۔ بہت سے باتیں ناگوار گزریں مگر نظر انداز کرتی چلی گئی یہ سوچ کرکے👇
فیشن انڈسٹری یہی سب تو کرتی ہے۔۔ لیکن گزشتہ ایک ہفتے خاص کر پچھلے دو دن سے شدید کوفت کا شکار ہوں۔۔ شادیاں کہاں نہیں ہوتیں اور فوٹو شوٹ کہاں نہیں چلتے؟؟ شادیوں پر ناچ گانے ڈھول ڈھمکے سب عام ہوچکے ہیں۔ اب کوئی ان باتوں کا برا بھی نہیں مناتا کیونکہ یہ👇
سوسائٹی کے ٹرینڈز بن چکے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ اسطرح کی خرافات بھی جب ہمارے فوٹوشوٹس کا حصہ بننے لگے گیں تو کیا مناسب ہوگا؟ بچے یہ فوٹوشوٹس فیملی کے ساتھ دیکھیں گے، کیا کمسن ذہنوں میں جنسی خواہشات جنم نہیں لینگی؟ یہ ہم کس روش پر چل نکلے ہیں؟ کیا کیبل، انٹرنیٹ، فلمیں، ڈرامے👇