ہمارے علاقے میں ایک سکول کھلا تھا کسی زمانے میں وہاں کا سسٹم انوکھا تھا مثلاً وہاں نرسری تا میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی اسکول کی فیس ایک ہزار فکس تھی اس اسکول میں بچے خالی ہاتھ جاتے تھے گھر کے کپڑوں میں کوئی کاپی پینسل کتاب کچھ نہیں تھا تو صرف ڈیجیٹل بورڈ ۔
یہ بڑا مشکل کام تھا کیونکہ ہمارے بچوں کو عادت ہے لکھ کر رٹا مار کر یاد کرنے کی تو اس اسکول انتظامیہ نے اسکا حل یہ نکالا کہ ضروری مضمون کے کورس بنائے ایک دن صرف ایک سبجیکٹ یعنی ایک دن انگلش وہ انگلش میں کوئی لٹریچر نہیں پڑھاتے تھے بلکہ وہ انگلش بولنا سیکھاتے تھے
اسی طرح عربی بولنا سیکھاتے تھے ہر دو ماہ بعد وہاں امتحانات ہوتے تھے زبانی جب انگلش بولنا سیکھ جاتا تھا بچہ تو اسے کتاب تھما دیتے لو پڑھو اس میں کیا لکھا ہے تب وہ بچہ فر فر بولتا تھا اور جلدی سمجھ جاتا تھا اسی طرح عربی کے لیے قرآن رکھ دیا جاتا اور کہا جاتا بتاو کیا فرمایا گیا ہے
بچہ جواب دیتا تو استاد اسکو اس بات کا مطلب سمجھاتا یہ ایک مشکل چیلنج تھا لیکن میرے پاکستانیوں آپ یقین کریں سو میں سے ساٹھ بچے اس امتحان میں پورے اترتے تھے جو بچہ ڈھیروں مضمونوں کے ساتھ بھاری بستے اٹھا کر سولہ سال کی عمر میں میٹرک کرتے تھے اس اسکول میں وہ معیاد چھ سال تھی
دلچسپ چیز یہ تھی کہ دیگر اسکولوں کی طرح پڑھا ہوا پچھلی کلاسوں کا سبق بچہ بھولتا نہیں تھا کیونکہ وہ بھولنے نہیں دیتے تھے میٹرک میں پہنچنے والے بچے سے وہ تیسری جماعت کے سوال امتحانات میں پوچھتے تھے آپ حساب لگائیں چار سال قبل جو اس نے ہڑھا وہ کیسے یاد رہ سکتا ہے ؟
ناممکن لگتا ہے ناں آپ کو ؟ لیکن یہ حقیقت جو میں نے خود دیکھی کیونکہ وہ بچے کے دماغ کو تیار کرتے تھے پھر یوں ہوا کہ دس سال کے بعد ن لیگ کی حکومت میں اس اسکول پر بین لگ گیا جس کا یہ آئیڈیا تھا وہ دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ گیا سنا ہے کوریا میں ہے اب ۔ اور وہاں اسی فارمولے پر کام
کر رہا ہے اس اسکول سے میٹرک پڑھ کر نکلنے والے دو سو کے قریب طلبا شہر کے بہترین کالجوں میں وظیفوں پر پڑھائی کرتے رہے ان میں سے کئی طالب علم ڈاکٹر ، وکیل ، بیوروکریٹس بنے ہیں کئی کو تو میں خود جانتا ہوں تو میرے پاکستانیوں بتاو تو جو کام بنا اضافی بوجھ کے ہو سکتا ہو
اس کو بوجھ کے ساتھ کرنا بےوقوفی نہیں تو کیا ہے ؟ ہزار دانش اسکول بنا دینے میں اور ایک انوکھا اسکول بنا دینے میں زمین آسمان کا فرق ہے اس اسکول کا نام دی برین تھا وہ۔عملی طور پر بچے کو تیار کرتے تھے گھر جیسا ماحول دیتے تھے جس سے بچہ مطمعن ہو کر پڑھتا اور سیکھتا تھا
اس اسکول میں ہائی فائیڈ ٹیچرز تھے جو ریگولر بیس پر کام کرتے تھے اور اپنی فیس لیتے تھے یہ ایک اچھوتا آئیڈیا تھا جو سیاسی بےغیرتوں کی نظر ہو گیا کیونکہ وہ چاہتے ہی نہیں کہ اس قوم میں کوئی دوسرا محمد علی جناح پیدا ہو اسلیے اس اسکول کو بند کرا دیا گیا اور آپ لوگ انہی حرامزادوں
کی ہار جیت کے غم میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی خراب کر رہے ہیں جب آپ خود بےوقوف ہیں تو دوسرا کیسے آپکو استعمال ناں کرے جواب دیجیے ؟ ☝🏽
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ہمارے لوگوں کے دلِ و دماغ میں یہ چیز رچ بس گئی ہے کہ انکے مسئلوں کا حل کونسلر سے لے کر وزیر اعظم تک کے پاس ہے اگر وہ نہیں ہوں گے تو انکے مسائل حل نہیں ہونگے یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جہالت انتہا کو پہنچ چکی ہے اس ریوڑ نما ہجوم کو یہ چیز سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ 👇🏼
کہ آپ کسی کو منتخب کریں یا ناں کریں ریاست پابند ہے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی بھی ادارہ خودکفیل نہیں ہے کیونکہ سسٹم ہی ٹھیک نہیں ہے کرپشن بے انتہا ہے سالوں لوگوں کو ایک گیس کے کینکشن کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں دیوانی کیسوں کی تو بات ہی الگ ہے 👇🏼
نسلیں جوان ہو جاتی ہیں زمینوں کا فیصلہ نہیں ہو سکتا صفائی و ستھرائی یہاں تک کہ کسی چوک میں سگنل خراب ہو جائے تو مہینوں لگ جاتے ہیں اس کو ٹھیک کرنے میں ۔ اوپر سے سیاسی بھرتیاں اور گھوسٹ ملازمین تو اس سب سے خوار پاکستان کی عوام ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی باز نہیں آتی 👇🏼
جھوٹ پھیلانے میں
فحاشی پھیلانے میں
لوگوں کو گمراہ کرنے میں
چند ناعاقبت اندیش لوگ پرائم ٹائم میں کوئی سوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس کو سوشل میڈیا پر موجود سستے دانشور سلبرٹی ہوا دیتے ہیں یوں وہ بات پھیل کر لوگوں کے دماغ میں بیٹھ جاتی ہے 👇
آج کل میڈیا پیپلز پارٹی کی جانب جھک رہا ہے ظاہر سی بات ہے نوٹ دیا گیا ہوگا خالی جیب تو کوئی کسی کی طرفداری نہیں کرتا پاکستان میں ۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے سے ایک بیانیہ سیٹ کیا جا رہا ہے کہ اسٹبلیشمنٹ پیپلز پارٹی کی جانب متوجہ ہو رہی ہے یعنی اگلی بار زرداری آئے گا 👇
اب اس بات کو لے کر سوشل میڈیا کے زبردستی کے سلبرٹی اسٹبلیشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں باقاعدہ لعنتیں بھیج رہے ہیں کئی ایک تو دعوی کر رہے ہیں کہ ہم ٹینکوں کے نیچے نہیں بلکہ ٹینکوں کو الٹ دیں گے
کوئی بھی اس پر غور نہیں کر رہا کہ یہ ایک گیم پلان بھی ہو سکتا ہے خیر سے 👇
ایسی کون سی بات ہے جو شام کو نہیں ہو سکتی ۔ علی نے سوچا اور کہا بس ایسے ہی اتنے دن بعد آپکو دیکھا تو باتیں کرنے کا دل کر رہا ہے ۔ اسکی والدہ نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا یہاں کی آب و ہوا تم کو راس نہیں آئی شاید علی ۔ وہ ہنسا اور کہا اگر آپ صالح کے ساتھ چوبیس گھنٹے گزاریں تو
آپ کو بھی اولاد کے حقوق کی فکر ہو جائے میں تو پھر آپکا بیٹا ہوں ۔ اسکی والدہ مسکرائی اور بولی کہاں ہے وہ علی بولا باہر ہے مولوی صاحب ۔ خیر ماما آپ جائیں شام کو بات کریں گے ۔ وہ وہاں سے چلا آیا ۔ سارا دن خوب گہما گہمی تھی ۔ مردوں کا پنڈال سجا ہوا تھا ۔ وہ سب مصروف تھے
حق داروں کو انکا حق ادا پہلے ادا کیا گیا ۔ وسیع لنگر کا انتظام بھی تھا صالح کے مدرسے کے استاد بھی آئے ہوئے تھے وہ انکے ساتھ ہی مصروف رہا علی دوسرے کاموں میں ہاتھ بٹاتا رہا ۔ شام عصر کے بعد دعا کرائی گئی اور تقریب کا اختتام ہو گیا لوگ گھروں کو جانے لگے ۔ آخر کار سب فارغ ہو گئے
پاکستان کا حسن وہ نہیں جو آپ دیکھتے ہیں جیسے پہاڑ ، ریگستان ، جنگلات ، سمندر ، دریا اِن سب کی افادیت اپنی جگہ ہے لاکن پاکستان کا اصل حسن ایسے لوگوں سے جڑا ہے جنہوں نے نیک نامی اور بے لوث ہو کر اپنے لوگوں کے کام آنا ہو جیسے ٹنڈل رام پرشاد
کیا کوئی جانتا ہے ان صاب کو ؟
ٹنڈل رام پرشاد دکن ( بھارت ) کے رہنے والےتھے ایک امیر ترین جاگیردار اپنے وقت کے لیکن ان کی آخری آرام گاہ جہلم میں ہے اور جس جگہ پر یہ آرام فرما ہیں یہ زمین انکی تھی اس زمین کے ساتھ ایک واقعہ جڑا ہے اور یہ واقعہ قیامِ پاکستان سے قبل کا ہے انکی وفات بھی قیامِ پاکستان سے قبل ہوئی
قیام پاکستان سے قبل جہلم میں ان کی کئی مربع زمین تھی وہاں کسی مسلمان کے گھر فوتگی ہو گئی رشتےداروں کے بائیکاٹ کی بدولت اس عورت کو مقامی قبرستان میں دفن ہونے نہیں دیا گیا وہ لوگ جب ٹنڈل رام کی زمین سے گزرے تو ٹنڈل رام نے پوچھا کیا ماجرا ہے انہوں نے کہا ہم نے میت دفنانی ہے
یہ بات تو طے ہے اس وقت پاکستان نظریاتی طور پر دو حصوں میں بٹ چکا ہے کثیر تعداد پاکستانیوں کی چاہتی ہے کہ وہ احتساب کے کھوکلے نعروں کو حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے دیکھے اور جنہوں نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے ان سب کو سزائیں ہو لیکن جب انصاف نہیں ہو گا تو سوال ہو گا
سوال یہ ہے کہ حکومت آخر چاہتی کیا ہے ؟ اگر آپ کے ہاتھوں میں وہ طاقت نہیں تو اپنے سچ بولنے کی روایت کو برقرار رکھیں ۔ عوام کو بتائیں کہ وہ کون سے ایلیمنٹ ہیں جنکی وجہ سے احتساب کا عمل رکا ہوا ہے ؟ آپ عوام کو بتائیں کہ عدالتیں آپکا ساتھ نہیں دے پا رہی یا اسٹبلیشمنٹ پر دباو ہے
آخر کون سے ملک میں چور یوں کھلے عام ریاست کو للکارتے ہیں قانون کا مذاق بناتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کے دعوے کرنے کی بجائے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرے ۔ یہ ملک فٹ بال نہیں ہے کہ جس کا جب دل چاہے اس سے کھیلنا شروع کر دے ۔ ہمیں بیرونی دشمن سے زیادہ اندرونی محاذوں کا سامنا ہے
قرین قیاس کیا جاتا ہے کہ ایک ملک میں ذرائع ابلاغ کا سسٹم گِدھوں کے پاس تھا ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس ملک کا کنٹرول عقاب کے پاس تھا لیکن وہ خود اونچی اڑانیں بھر رہا تھا اس لیے اسے ذرائع ابلاغ کو ٹھیک کرنے کا کبھی خیال نہیں آرہا تھا حالانکہ وہ گِدھ عقاب کو پہلے دن 👇
سے ٹارگٹ کر رہے تھے عقاب حق پر تھا اور انکے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتا تھا مگر اس عقاب کے ساتھی کوے راستے کی رکاوٹ تھے ۔ بہرحال ان گِدھوں کو چونکہ مردہ کھانے کا شوق تھا اس لیے وہ چاہتے تھے جو لاشیں پارسل ہو کر باہر چلی گئی ہیں انکو واپس انکے حوالے کیا جائے تاکہ ان کا پاپی پیٹ
بھر سکے ۔ وہ گِدھ اتنے خونخوار ہو گئے تھے انکے آگے زندہ ہاتھی جو انصاف کا نظام چلاتے تھے وہ بھی بے بس تھے اور تو اور ملک کے محافظ چیتے بھی ان کے لیے سافٹ کارنر رکھتے تھے ۔ اب گِدھوں کی فرمائش ہے کہ ان کو بیرون ملک گئی لاشوں کا گوشت دیا جائے کیونکہ وہ لاشیں باہر بیٹھے بھیڑیوں کے