ایسی کون سی بات ہے جو شام کو نہیں ہو سکتی ۔ علی نے سوچا اور کہا بس ایسے ہی اتنے دن بعد آپکو دیکھا تو باتیں کرنے کا دل کر رہا ہے ۔ اسکی والدہ نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا یہاں کی آب و ہوا تم کو راس نہیں آئی شاید علی ۔ وہ ہنسا اور کہا اگر آپ صالح کے ساتھ چوبیس گھنٹے گزاریں تو
آپ کو بھی اولاد کے حقوق کی فکر ہو جائے میں تو پھر آپکا بیٹا ہوں ۔ اسکی والدہ مسکرائی اور بولی کہاں ہے وہ علی بولا باہر ہے مولوی صاحب ۔ خیر ماما آپ جائیں شام کو بات کریں گے ۔ وہ وہاں سے چلا آیا ۔ سارا دن خوب گہما گہمی تھی ۔ مردوں کا پنڈال سجا ہوا تھا ۔ وہ سب مصروف تھے
حق داروں کو انکا حق ادا پہلے ادا کیا گیا ۔ وسیع لنگر کا انتظام بھی تھا صالح کے مدرسے کے استاد بھی آئے ہوئے تھے وہ انکے ساتھ ہی مصروف رہا علی دوسرے کاموں میں ہاتھ بٹاتا رہا ۔ شام عصر کے بعد دعا کرائی گئی اور تقریب کا اختتام ہو گیا لوگ گھروں کو جانے لگے ۔ آخر کار سب فارغ ہو گئے
علی کو سگریٹ کی طلب ستا رہی تھی وہ اسموکنگ کرتا تھا مگر گھر والوں سے چھپ کر یہ بات صالح کو معلوم تھی ۔ اس نے صالح سے کہا یار میں زرا چھت پر جا رہا ہوں سنبھال لینا ۔ صالح نے کہا جلدی آجانا وہ اوپر کی جانب بڑھ گیا ۔ چھت پر پہنچ کر اس نے سگریٹ سلگا لیا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی
چھت پر باقاعدہ کرسیاں اور چارپائیاں طریقے سے لگی ہوئی تھی وہ ایک گاو تکیے سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گیا ۔ خاموشی اور تنہائی میں اسے ساوتری کا سراپا محسوس ہونے لگا ۔ ان آنکھوں کے سحر میں مبتلا وہ دھوئیں کے مرغولے بنا رہا تھا ۔ سگریٹ ختم ہونے کے بعد وہ وہاں ہی لیٹ گیا
اسے صالح کی بات یاد آئی کہ اسکا مسلمان ہونا شرط ہے لیکن آپ زبردستی نہیں کر سکتے ۔ کیا مصیبت ہے بھئی وہ بڑبڑایا ۔ خیر مجھے کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ وہ بھی میری جانب مائل ہو ۔ وہ اچھا خاصہ سمجھدار تھا مگر ساوتری کے معاملے میں جذباتی ہو گیا تھا ۔ پھر اسے رباب یاد آگئی
یہ معاملہ پہلے سنبھالنا چاہیے کیونکہ میرے والدین تو میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کریں گے لیکن اگر صالح کے لیے کوئی لڑکی انہیں پسند آگئی تو گڑبڑ ہو جائے گی ۔ اس نے سوچا شاید اسے یہ بات صالح کی والدہ سے کر لینی چاہیے ہاں یہ ہی ٹھیک ہے میں ماما سے بات کرونگا اس نے ایک اور سگریٹ سلگا
لیا ۔ تب ہی اسے اپنے پیچھے آہٹ سنائی دی وہ تیزی سے پلٹا تو پیچھے اکمل بھائی کھڑے تھے ۔ اس نے سگریٹ پھینک دیا ۔ وہ ہنسے اور بولے اچھی بات ہے تم میں احترام ہے لیکن چلو کوئی بات نہیں ویسے ایسی کون سی پریشانی ہے ؟ اور خود بھی سگریٹ سلگا کر اسکے پاس بیٹھ گئے ۔ وہ بولا ارے بھائی جان
پریشانی مجھے کوئی نہیں ہوتی ۔ وہ بولے لگا لو سگریٹ کسی کو نہیں بتاونگا وہ بولا نہیں بھائی جان میں ٹھیک ہوں اکمل نے سگریٹ کی ڈبی اسکی جانب بڑھائی اور بولے میں بھی دھواں دیکھ کر اوپر آیا تھا بابا جانتے ہیں میں سگریٹ پیتا ہوں لیکن گھر کے اندر نہیں علی نے سگریٹ سلگا لیا اور بولا
بھائی جان ایک بات بتائیں بالفرض صالح کو کوئی پسند کرتا ہو لیکن صالح اپنی پسندیدگی کو والدین کی مرضی ہر فوقیت دے تو اسکا کیا حل ہے ۔ اکمل نے اسے دیکھا اور کہا کون ہے وہ ؟ علی نے اسے مختصرا بات سے آگاہ کیا ۔ وہ بولے ہمم معاملہ پچیدہ ہے جہاں تک صالح کی بات ہے تو وہ کبھی اقرار نہیں
کرے گا ۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ میں بابا سے اس بات کا ذکر کر دوں ۔ علی نے کہا کیوں مروانا ہے بھائی مجھے ۔ مجھ سے وعدہ کریں آپ یہ بات کسی سے نہیں کریں گے بھابی سے بھی نہیں ۔ وہ ہنسا اور بولا اچھا بھئی وعدہ تم جانو تمھارا بھائی جانے لیکن یہ بات والدہ کو معلوم ہونی چاہیے
علی نے کہا میں بھی یہ ہی سوچ رہا تھا کہ ماما سے بات کروں تاکہ وہ آنٹی کو بتا دیں میں نے سنا ہے وہ صالح کے لیے لڑکی دیکھ رہے ہیں اکمل نے کہا وہ تو تمھارے لیے بھی دیکھ رہے ہیں ۔ علی نے کہا مجھے اپنی ٹینشن نہیں ہے میں پہلے سے ہی کسی کو پسند کرتا ہوں ۔ اکمل نے کہا کون ہے کیا کولیگ ہے
علی نے کہا نہیں کولیگ نہیں ہے بس ایک ہے سیدھی سادی سی ۔ اکمل نے کہا تو اظہار کیا ۔ وہ بولا ہاں کیا تو تھا لیکن ۔۔۔ لیکن کیا ؟ وہ گھبرا گئی تھی ۔ اکمل نے کہا یعنی ابھی ون سائیڈ ہی چل رہے ہو ۔ وہ بولا بالکل بھائی لیکن مجھے یقین ہے میری شادی اسی سے ہو گی ۔ اکمل نے کہا بھئی واہ
کیا اعتماد ہے تمھیں ۔ اسکے والدین کہاں ہوتے ہیں ؟ علی نے کہا اسکا کوئی نہیں ہے چند مہربان لوگوں کے درمیان رہتی ہے اور وہ مہربان لوگ اسے اپنی بیٹی بنا کر رکھتے ہیں اور ماما یہ بات آج جان جائیں گی ۔ اکمل نے اسے دیکھا اچھی بات ہے چلو اٹھو نیچے چلیں وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے
ابھی وہ سیڑھیوں پر پہنچے تھے کے خواتین اوپر آتی نظر آئی ۔ علی نے کہا لگتا ہے آج سارے چھت پر ہی رہنا چاہتے ہیں ۔ صالح کی والدہ نے کہا تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو ۔ اکمل نے کہا اماں ویسے ہی ہوا خوری کر رہے تھے ۔ علی کی والدہ اور بہن سمیت بھابیاں اور ساوتری سب آگے بڑھ گئے
وہ بولا بھائی جان میں زرا ماما سے بات کر کے آیا آپ چلیں اکمل نیچے اتر گیا ۔ ساوتری ایک طرف بیٹھ گئی رخی اسکے ساتھ تھی ۔ آج اس نے گھونگٹ نہیں گرایا تھا اسکا سانولا چہرہ عجیب کشش پیدا کررہا تھا ۔ علی نے خود کو سنبھالا اور بولا ماما مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔ وہ بولیں ہاں بھئی آجاو
وہ آگے بڑھ کر انکے قدموں میں بیٹھ گیا ۔ سب نے اسے حیرت سے دیکھا رخی نے کہا کیا میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں ماما ؟ صالح کی والدہ بولی اس پر صالح کا رنگ چڑھ رہا ہے ۔ وہ بولا آنٹی یقین جانیں میں بیزار ہو گیا ہوں شہر کی زندگی سے یہاں اتنا سکون ملا ہے کہ دل کرتا ہے بس آپ لوگوں کے پاس
ہی رہ جاوں ۔ وہ بولیں تو کس نے روکا ہے ۔ اس نے کہا ذمےداریوں نے آنٹی ۔ لیکن اب میں یہاں آیا کرونگا اس نے ساوتری کو دیکھا اور کہا ساوتری مجھے پانی لا دو گی ؟ وہ اٹھ کھڑی ہوئی رخی نے کہا بھائی لگتا ہے آج کوئی بم پھوڑیں گے ۔ وہ ہنسا ٹھیک سمجھی ہو تم ۔ اسکی والدہ نے کہا
کیا بات ہے اب سسپنس چھوڑو اور بولنا شروع کرو ۔ وہ بولا اچھا تو سنیں میں نے سنا ہے آپ میری اور صالح کے لیے لڑکیاں دیکھ رہے ہیں ۔ وہ بولی بالکل دیکھ رہے ہیں ۔ علی نے کہا ماما میں تو کسی کو پسند کرتا ہوں لیکن وہ ابھی اتنی ضروری بات نہیں ہاں البتہ صالح کی بات کرنی ہے
صالح کی والدہ بولی کیا مطلب کیا وہ بھی کسی کو پسند کرتا ہے ؟ علی نے کہا یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے پھر وہ شروع ہو گیا اور ساری بات سب کو بتا کر بولا آپ لوگوں نے صالح سے اسکا ذکر نہیں کرنا پلیز یہ وعدہ کریں اور مجھے تھوڑا وقت دیں میں رباب کے گھر والوں سے اٹیچ ہو کر اس معاملے کو
سلجھانا چاہتا ہوں ۔ ابھی اس کے گھر والے کچھ نہیں جانتے مجھے اس لڑکی پر ترس آتا ہے بظاہر وہ ایک زندہ دل لڑکی ہے لیکن وہ اندر ہی اندر گھل رہی ہے اس نے یہ روگ پال لیا ہے وہ ایک سلجھی سمجھدار لڑکی ہے آپ لوگ وعدہ کریں یہ بات خود تک رکھیں گی میں نہیں چاہتا کہ رباب کو کچھ ہو
اور صالح کے کردار پر حرف آئے ۔ سب خاموش تھے ۔ علی نے کہا دیکھیں میں یہ بات صرف آپ دونوں سے کرنا چاہتا تھا مگر اب سارے موجود ہیں تو میں نے آپ سب پر اعتماد کیا ہے میرے اعتماد کو توڑئیے گا مت ۔ صالح کی والدہ نے کہا اچھی بات ہے تم وقت لے لو اگر اسکےگھر والے مان جائیں تو ہمیں بتا دینا
اور اگر وہاں سے انکار ہو گیا تو ؟ علی نے کہا اسکی فکر نہ کریں اسکے گھر والے صالح کو اتنا پسند کرتے ہیں کہ آپ کی سوچ ہے لیکن چونکہ یہ انکی بیٹی کا معاملہ ہے اسلیے مجھے سکون سے کام کرنے دیں ۔ علی کی والدہ نے کہا بہت اچھا کیا تم نے یہ سب بتا کر ۔ اب زرا یہ بتاو تم کس کو پسند کرتے ہو
وہ بولا ماما ابھی اس بات کو رہنے دیں ۔ یہ معاملہ بہت نازک ہے لیکن آپکو بتا دونگا کہ میں کس کو پسند کرتا ہوں ۔ وہ بولیں لیکن ہے کہاں کی وہ ؟ کیا کرتی ہے یہ تو بتا سکتے ہو ۔ وہ بولا اسکا آگے پیچھے کوئی نہیں ہے وہ بہت اچھے لوگوں کے ساتھ رہتی ہے اور انکی بیٹی ہے بس اتنا ہی کافی ہے
صالح کی والدہ نے کہا ۔ چلو مجھے بتا دو میں رشتہ لے جاونگی ۔ اس نے ساوتری کو دیکھا اور بولا آنٹی پہلے اسے میں اچھا لگنا چاہتا ہوں ۔ ساوتری کا رنگ اڑ گیا وہ سمجھ گئی علی اسکی جانب مائل ہو گیا ہے ۔ بی بی جی نے کہا ٹھیک ہے پھر جلدی کرو تاکہ تم دونوں کو بھگتا دیا جائے ایک ساتھ
وہ ہنسا اور بولا آپ فکر نہ کریں ۔ وہ بولیں بے شرمی دیکھ لو کس قدر جلدی ہے اسے سب ہنسنے لگے ۔ وہ بولا ارے آنٹی مجھے اپنے لیے جلدی نہیں ہے مجھے صالح کی فکر ہے خیر اب میں چلتا ہوں اس امید کےساتھ کہ آپ لوگ میرے لیے پہلے دعا کریں گے کیونکہ میرا چیلنج بڑا ہے اور صالح کی فکر آپ نہ کریں
میں واپس پہنچ کر ہی کام شروع کر دونگا ۔ وہ وہاں سے چلا گیا ۔ رخی نے کہا بھائی نے کبھی اتنی سنجیدگی نہیں دیکھائی ناجانے وہ خوش نصیب کون ہے جس کے لیے بھائی اتنے سنجیدہ ہیں ۔ اس کی ماما نے کہا خیر اگر وہ کسی کو پسند کرتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے زندگی اس نے گزارنی ہے
بس لڑکی خوب سیرت ہونی چاہیے خوب صورت تو وہ ہو گی علی نے جو چنا ہے اسے ۔ ساوتری سر جھکائے بیٹھی تھی ۔ رخی نے کہا تمھیں کیا ہوا ہے ؟ وہ گڑبڑا گئی نہیں کچھ نہیں رخی نے اسکا ہاتھ تھاما اور کہا ارے تم کو تو بخار لگ رہا ہے ؟ بی بی جی نے کہا کیا ہوا بیٹی طبعیت صیح ہے تمھاری
وہ بولی ارے بی بی جی میں ٹھیک ہوں شاید موسم کی وجہ سے ہو گیا ہے ۔ صالح کی بھابی نے کہا آج کل کی نسل ایڈوانس چل رہی ہے لیکن اچھی بات ہے کہ وہ اپنے والدین کو بتا کر یہ سب کریں تاکہ کسی کو کوئی مسلہ نہ ہو ۔ رخی نے کہا یہ بات تو ہے ۔ اسکی ماما بولی کیا تم بھی کسی کو پسند کرتی ہو
وہ بولی ارے ماما آپ کہاں کو چل دی میرا ان چیزوں سے کوئی لگاو نہیں مجھے اپنا مستقبل سنوارنا ہے اور میرا فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے ۔ بی بی جی بولیں ماشاء اللہ میری بیٹی جیتی رہو

صالح نے علی سے کہا کدھر گم ہو گئے تھے تم وہ بولا محاذ پر گیا تھا اور ہنسنے لگا ۔ وہ بولا
پھر کچھ کر کے آئے ہو ؟ وہ بولا ارے نہیں پہلے اکمل بھائی آگئے چھت پر ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا پھر ماما لوگ آگئے تو انکے ساتھ بیٹھ گیا تھوڑی گپ شپ لگائی اور یہاں آگیا ۔ صالح نے کہا اچھی بات ہے اب کیا ارادے ہیں ؟ وہ بولا بس کل واپسی ہو گی میری باقیوں کا معلوم نہیں
صالح نے کہا اچھی بات ہے وہ بولا اور تم ؟ صالح نے کہا یار میں کچھ دن رکنا چاہتا ہوں ویسے بھی سمسٹر اگلے ہفتے شروع ہونگے وہاں کیا کرونگا ۔ علی نے کہا کرنے کو تو بہت کچھ ہے تم نے مجھے جس کام کے لیے کہا تھا وہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے چھ لوگوں کا گروپ ہے جو تمھارے لیے کام کرے گا
ایک خوشخبری اور ہے کہ حکومت تمھارے ساتھ تعاون کرے گی یعنی کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی جیسا کہ تم جانتے ہو سیاسی طور پر چند علماء اچھی شہرت نہیں رکھتے تو ہو سکتا اس معاملے میں تمھیں پریشانی ہو اسلیے میں نے حکومت کے انڈر یہ کام کیا ہے باقاعدہ لانچنگ ہوگی اس کام کی تاکہ ابہام نہ ہو
صالح نے کہا مجھے سیاست سے کوئی لگاو نہیں ۔ میں قرآن اور سنت کی روشنی میں چلنا چاہتا ہوں ۔ علی نے کہا ویسے فرقوں سے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ وہ بولا فرقے حقیقت ہیں اس بارے میں احادیث موجود ہیں علی نے کہا ٹھیک کہتے ہو ۔ خیر اب بتاو چلو گے صالح نے کہا ہاں اب چلونگا تم نے اچھا کیا
علی نے کہا تو ٹھیک ہے کل ہم وہاں پہنچ کر پرسوں سے کام شروع کر دیں گے اچھا ہے کالج کھلنے تک تم سیٹ ہو جاو گے ۔ صالح نے کہا گڈ ہو گیا چلو پھر کھانے کا وقت ہو گیا وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے نیچے ہال میں سب موجود تھے وہ وہاں پہنچے صالح نے سب کو سلام کیا ۔ صالح کے والد بولے کدھر گم تھے
وہ بولا بابا سوچ رہے تھے آگے کا ۔ وہ بولے اچھا تو کیا طے کیا ۔ علی نے کہا میں اور صالح کل واپس جا رہے ہیں ۔ علی کے والد نے کہا اتنی جلدی ؟ علی نے کہا بابا کچھ کام ہیں ہمیں وہ کریں گے ۔ وہ بولے کیا کر رہے ہو تم دونوں ۔ صالح مسکرایا اور بولا میں نے علی سے کہا تھا مجھے ویب سائیٹ
بنانی ہے تاکہ میں علمی تحقیق کے زریعے عوام تک اصل بات پہنچا سکوں اسی سلسلے میں علی نے پیش رفت کی ہے اور ساری بات سے آگاہ کیا ۔ صالح کے والد بولے بھئی ماشاء اللہ بہت اچھی سوچ ہے اللہ کامیاب کرے ۔ علی نے کہا آپ لوگ رکیں گے ۔ رخی بولی بھائی میں تو رکوں گی ابھی میرا دل نہیں جانے کا
علی نے اسے دیکھا اور کہا اچھی بات ہے میری جان چھوٹ جائے گی کچھ دن ۔ صالح نے کہا خبردار اسے کچھ کہا ۔ اور بولا تم اچھے سے رہو یہاں ساوتری تمھیں اچھا وقت دے گی ۔ بی بی جی بولیں ہاں دونوں ہم عمر ہیں علی کے والدین نے کہا ہم بھی رکیں گے ۔ اچھا تو پھر طے ہو گیا ہم دونوں ہی دفع ہو جائیں
سب ہنسنے لگے علی کی بات پر ۔ کھانے کے بعد کافی کا فور چلا ۔ علی نے صالح سے کہا چھت پر چلیں وہ بولا اب پھر کیا کرنا ہے بس سوتے ہیں وہ بولا اچھا تو تم چلو میں زرا کوٹا پورا کرکے آیا وہ چھت کی جانب چل دیا ۔ وہ اوپر پہنچا تو اسے ساوتری نظر آئی جو بستر اٹھا رہی تھی اس نے نیچے دیکھا
اور آگے بڑھ گیا ۔ ساوتری نے قدموں کی آہٹ سنی اور پلٹی تو علی کو دیکھ کر گڑبڑا گئی ۔ اس نے جلدی سے گھونگٹ گرانا چاہا تو علی بولا پلیز ۔ میں اس گھر کا فرد ہوں پردہ رہنے دو ۔ وہ بولی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں کوئی آجائے گا ۔ وہ خوفزدہ ہرنی لگ رہی تھی ۔ علی مسکراہا اور بولا
سگریٹ پینے آیا تھا مجھے معلوم نہیں تھا تم یہاں ہو کہو تو چلا جاتا ہوں ۔ وہ بولی نہیں میں جاتی ہوں ۔ وہ بولا رکو اور کہا تم نے میری بات سن لی جو میں نے ماما سے کہی وہ لڑکی اور کوئی نہیں تم ہو ساوتری ۔ میں تمھیں پسند کرتا ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں بس مجھے یہ ہی کہنا تھا
اب تم جانا چاہو تو جا سکتی ہو لیکن میرے بارے میں سوچنا ضرور میں تم کو ہر طرح سے خوش رکھونگا مجھے اور کچھ نہیں کہنا ۔ ساوتری کی جان ہی نکل گئی تھی اتنی بےباکی کا اسے اندازہ نہیں تھا وہ تیزی سے پلٹ کر نیچے چلی گئی علی نے لمبا سانس کھینچا اور بڑبڑایا دیکھوں گا تمھارے حجاب کو بھی
اس نے سگریٹ سلگا لیا ۔

اگلے دن وہ شہر روانہ ہو گئے دن ڈھلے وہ وہاں پہنچے پہلے گھر گئے فریش ہوئے اور کھانے کا پروگرام بنا کر باہر نکل آئے ۔ ابھی شام کے سات بجے تھے ۔ صالح نے کہا شہر کی رونقیں اپنی جگہ لیکن گاوں تو گاوں ہے ۔ علی نے کہا یہ بات تو ہے وہ ایک ہوٹل میں پہنچے
یہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل تھا صالح نے کہا کافی شاندار جگہ ہے ۔ علی نے کہا تم نے تو شہر گھوما ہی نہیں بھائی یہاں بھی بہت کچھ ہے ۔ اس نے سر ہلایا ۔ علی ایک کونے کی جانب بڑھا ۔ ایک ویٹر اسکی جانب لپکا ۔ علی نے اسے دیکھا اور کہا کیا حال ہے اختر کیسے ہو ؟ وہ بولا صاحب آپ کی مہربانی ہے
علی نے صالح سے کہا یہ اختر ہے اور اختر یہ میرا بھائی صالح ۔ اور صالح اختر معین کا بھائی ہے وہی معین جو تمھارے لیے کام کرے گا ۔ صالح نے اسکے ساتھ ہاتھ ملایا اختر نے انہیں میز تک رسائی دی ۔ اس نے کہا اختر پہلے تو مشروب لے آو باقی بعد میں ۔ ہال ابھی خالی تھا صالح نے کہا
کیا تم یہاں آتے رہتے ہو ۔ وہ بولا ہاں یہ میز میرے لیے ریزرو رہتی ہے یہاں سے سڑک کا نظارہ دلکش ہے ۔ اکا دکا فیملیز بھی موجود تھی ہال میں ۔ اختر مشروب رکھ کر چلا گیا ۔ صالح نے کہا ۔ جس گروپ کی تم نے بات کی وہ کالج کے ہیں سب ؟
علی نے کہا ہاں چار لڑکیاں دو لڑکے ہیں کل سب کو کل کی ہے میں نے کالج میں ملیں گے سب دوپہر کے بعد ۔ وہ باتیں کر رہے تھے کہ ہال میں شیخ صاحب اور انکی فیملی داخل ہوئی ۔ ارے علی نے کہا صالح چونکا کیا ہوا۔ علی نے کہا شہخ صاحب تشریف لائے ہیں صالح نے پیچھے دیکھا تو اٹھ کھڑا ہوا
علی نے کہا کدھر ؟ وہ بولا سلام کر لیں جا کر ۔ علی نے کہا جہاں تک مجھے معلوم ہے ابھی تمھاری رشتے داری نہیں ہوئی ان سے ۔ اس نے علی کو گھورا تو وہ بولا اچھا بھئی ۔ چلو وہ دونوں ادھر چل دئیے رباب اور ندا بھی آئے تھے رباب ویل چئیر پر تھی شیخ صاحب انکو دیکھ کر حیران ہو گئے
ارے واہ دیکھو تو کون آیا ہے ۔ صالح نے سب کو سلام کیا ۔ رباب کا چہرہ کھل اٹھا ندا بھی خوش نظر آئی ۔ وہ سب بیٹھ گئے تو صالح نے رباب سے کہا کیسی ہیں آپ دونوں ۔ ندا بولی بھائی اچھے ہیں آہ کب آئے گھر سے ۔ وہ بولا بس آج ہی آئیں ہیں ۔ شیخ صاحب نے کہا برخودار گھر میں سب کیسے ہیں
وہ بولا اللہ کا احسان ہے سب ۔ مجھے یہاں کام تھا اسلیے ہم دونوں چلے آئے ۔ وہ بولے یہ تو اچھی بات ہے شیخ صاحب نے کھانے کا آڈر دیا ۔ رباب نے کہا آپ کچھ خاص پسند کریں گے صالح ؟ وہ بولا نہیں میں سادہ کھانا ہی کھاتا ہوں علی سے پوچھ لیں انہوں نے مینیو پسند کیا ۔ علی نے اختر کو اشارہ کیا
ہمارے لیے وہی لے آو جو میں پسند کرتا ہوں اور مہمانوں کے لیے جو وہ چاہیں آج کا ڈنر میری جانب سے ۔ شیخ صاحب بولے ارے بیٹا کیوں تکلف کرتے ہو صالح نے کہا اصولی طور پر شیخ صاحب ہم یہاں پہلے سے موجود ہیں لہذا بات تو ہماری سنی جائے گی ۔ شیخ صاحب نے کہا چلو جیسے آپ خوش ۔ انہوں نے آڈر دیا
رباب نے صآلح سے کہا احمد آپکو بہت یاد کرتا ہے ۔ وہ بولا اسے یاد کرنا بھی چاہیے ۔ وہ بولی اور آپکو بھی یاد کرنا چاہیے اسے آخر کار آپکا سیکرٹری ہے ۔ ندا نے ٹہوکا دیا اور بولی چھوڑیں صالح بھائی اور سنائیں تقریب کا کیسی تھی ۔ علی نے کہا فنٹاسٹک میں تقریباً سات سال بعد گیا تھا
لیکن لگتا تھا ابھی کل ہی آیا ہوں ۔ صالح کی مہربانی کی وجہ سے مجھے اپنا ماضی گزارنے کا موقع مل گیا ۔ شیخ صاحب نے کہا علی آپ نے اپنا نہیں بتایا آپکے والد کیا کرتے ہیں ۔ وہ بیوروکریٹ ہیں انکل ۔ علی نے کہا ۔ شیخ صاحب نے کہا اور آپ ؟ وہ بولا میں بھی سرکاری نوکری کرتا ہوں
رباب نے کہا تایا جان علی بھائی ایڈمنسٹریٹر ہیں کالج کے ۔ اگر ہمارا کالج آج بہترین ہے تو انہی کی بدولت ہے سب انکی عزت کرتے ہیں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا وہاں ۔ شیخ صاحب نے کہا اچھی بات ہے ۔ صالح نے کہا آپ لوگ اکیلے آئے ہیں ۔ باقی کے لوگ کہاں ہیں شیخ صاحب نے کہا حمزہ آیا ہے ساتھ
اسکے دوست باہر مل گئے آتا ہوگا باقی خواتین کو دلچسپی نہیں تھی روبی کے ولد ڈیوٹی پر چلے گئے بچیاں بور ہو رہی تھی تو میں انہیں یہاں لے آیا ۔ صالح نے کہا آپ نے اچھا کیا آوٹنگ ہونی چاہیے ۔ شیخ صاحب کا فون بجا ۔ انہوں نے ریسیو کیا تو حمزہ تھا ۔ کیا بات ہے حمزہ تم آئے نہیں
وہ بولا بابا میں دوستوں کے ساتھ ہی ڈنر کرونگا آپ انتظار نہ کریں شیخ صاحب بولے اچھا ٹھیک ہے ویسے تم کو چکر لگانا چاہیے کوئی اور بھی موجود ہے یہاں تم کو اچھا لگے گا ۔ وہ بولا کون ہے ۔ شیخ صاحب نے کہا صالح اور علی ۔ وہ بولا ارے ۔ اچھا میں آتا ہوں کچھ دیر میں انہوں نے فون بند کر دیا
ندا نے کہا ۔ یہ ڈنر اسکی جانب سے تھا اور خود غائب ہو گیا ۔ اسکے کان کھینچوں گی ۔ رباب نے کہا چھوڑو اسے ہر وقت غصہ کرتی ہو اس پر اسکی اپنی لائف ہے ۔ وہ بولی طرفداری ختم ہے تمھاری ویسے ۔ شیخ صاحب بولے اچھا اب یہاں مت شروع ہو جاو پھر صالح سے کہا روبی اور حمزہ کا ساتھ اٹوٹ ہے
صالح نے کہا ہوتا ہے بہن بھائیوں میں پیار ۔ علی بولا ہاں اور کہنے کو رخی میری بہن ہے لیکن کلوز وہ صالح کے ہے یعنی یہاں بھی آکڑے چلتے ہیں ۔ وہ سب مسکرا دئیے ۔ صالح نے کہا یہ حق چھوڑ دو کہ وہ تمھاری بہن ہے وہ ہتھ جوڑ کر بولا معاف کر دے بھائی میں تو سوتیلا ہی ہوں تم دونوں کے درمیان
صالح ہنسنے لگا ۔ رباب نے اسے اتنا پرسکون کبھی نہیں دیکھا تھا اسکے دل سے دعا نکلی اے رب یہ ساتھ امر کر دے ندا نے اس کو پاوں مارا وہ سنبھل گئی ۔ ڈنر ہو چلا تو علی نے کافی کا آڈر دیا ۔ روبی نے کہا ہم کافی نہیں پیں گے بلکہ آئس کریم۔کھائیں گے علی بھائی ۔ علی نے کہا اچھی بات ہے
تب ہی حمزہ آگیا ۔ وہ ان سے گرمجوشی سے ملا اور معذرت کر کے بولا مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں دوستوں کو انکار کر دیتا ۔ صالح نے کہا کوئی بات نہیں وعدہ ایسی چیز ہے جسے نبھانے کے لیے آپکو کچھ بھی کرنا ہڑے کرنا چاہیے ۔ شیخ صاحب نے کہا اچھا تو پھر ایک وعدہ مجھ سے بھی کرو
صالح نے انہیں دیکھا ۔ وہ بولے اپنے گھر والوں سے ہمیں ملواو ۔ صالح نے کہا اگر وہ کبھی یہاں آئے تو ضرور ملواوں گا ۔ علی نے کہا ویسے بات تو ٹھیک ہے انکل اور آنٹی تو یہاں آتے ہی نہیں ہیں ہم ہی جاتے ہیں کاش یہ بات مجھے وہاں یاد آتی ۔ صالح نے کہا فون اسی لیے ایجاد ہوئے ہیں شاید
وہ ہنسا اور بولا اچھی بات ہے گھر جا کر بات کرتے ہیں ۔ وہقں سے فارغ ہو کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے علی نے بل ادا کیا ۔ وہ ہوٹل سے باہر آئے صالح نے کہا اچھا شیخ صاحب اجازت دیں ان سب نے ایک دوسرے کو الوداع کیا اور روانہ ہو گئے ۔ راستے میں علی نے صالح سے کہا قسمت ہو تو ایسی مان گئے
صالح نے کہا مطلب ؟ ارے کوئی اتنا چاہنے والا مجھے مل جائے تو دنیا ہلا دوں کس نے سوچا تھا محبوب خود چل کر آئے گا وہ ہنسنے لگا ۔ صالح مسکرایا اور کہا بکواس کی ضرورت نہیں یہ اتفاق تھا ۔ علی بولا ایک حسین اتفاق کہو ۔ تم نے اسے دیکھا نہیں کیا خوشی تھی اسکے چہرے پر
صالح خاموش رہا ۔ علی نے کہا اچھا خیر مت بولو ۔ صالح نے کہا میں تم کو بتا چکا ہوں کہ مجھ سے یہ نہیں ہوگا علی نے کہا انسان دل ہی رکھ لیتا ہے کسی کا ۔ وہ گھر پہنچ گئے

ندا نے رباب سے کہا آج تمھاری زبان کافی چلی وہ دونوں اپنے کمرے میں تھیں ۔ روبی مسکرائی خدا سے کچھ مانگنے کی ضرورت
نہ رہے تو ناشکری کہلاتی ہے یہ بات ۔ لیکن ایسا سرپرائز نہیں مانگا تھا ۔ ندا نے کہا آج صالح بھائی کافی ہرسکون تھے روبی بولی تایا جان کی بدولت ورنہ وہ نہ ہوتے تو وہی لاپروائی اسکے چہر پر ہوتی پتھر انسان ۔۔ ندا نے کہا اب یہ بات بھی نہیں وہ تمھیں پسند کرتے ہیں لیکن
لیکن کیا ؟ یہ ہی نہ وہ کردار کے غازی ہیں ۔ وہ جھنجلائی ہوئی لگ رہی تھی ۔ ندا نے کہا روبی یہ اچھا رویہ نہیں اگر تم قابو نہیں رکھ سکتی تو بات بھی نہ کیا کرو ۔ وہ بولی اچھا تم ناراض نہ ہو ایک تم ہی ہو جس سے میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہوں تم ناراض ہو گئی تو میرا کیا ہوگا
ندا بولی خیر آرام کرو کل تمھارا پلستر اترے گا اللہ بہتر کرے ۔ روبی نے کہا احمد کو پیغام بھیج کر حیران کر سکتی ہو تم ۔ ندا نے اسے گھورا ہی تھا کہ اسکا موبائل بجا ۔ اسنے نظر ڈالی تو وہ احمد ہی تھا ۔ وہ بولی شیطان کے کان بھی کیا ہونگے جو اسکے ہیں ۔ روبی نے کہا کون ہے وہ بولی احمد
روبی نے کہا صدقے بھئی اب تو خوش ہو جاو دونوں کی تمنا پوری ہوئی ۔ اب اٹھا بھی لو فون ۔ ندا نے فون ریسیو کیا ہیلو ؟ احمد نے سلام کیا اور بولا ڈسٹرب تو نہیں کیا ۔ وہ بولی نہیں بولو کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگا ندا مجھے کچھ کہنا ہے تم سے ۔ ندا کا دل دھڑکا بولو ۔ وہ میں تم سے
میرا مطلب ہے میں تمھیں پھر خاموش ہو گیا ندا نے کہا اب بول بھی چکو مجھے سونا بھی ہے ۔ احمد نے کہا روبی سو گئی ۔ وہ بولی نہیں جاگ رہی ہے ۔ اچھا ۔۔ ہاں اب بتاو کیا کہنا ہے ۔ احمد نے کہا آئی مس یو ندا ۔ دیکھو ناراض مت ہونا میں بہت بے چین ہوگیا ہوں مجھے تم اچھی لگتی ہو
کیا تم سن رہی ہو ۔ وہ خاموش رہی ۔ احمد نے کہا یار کچھ تو بولو چاہے برا بھلا ہی سہی ۔ ندا نے کہا اب میں سو جاوں ؟ احمد نے کہا میرا جواب ؟ وہ بولی پھر طات کریں گے اللہ حافظ اس نے فون بند کر دیا ۔ روبی بولی تمھاری حالت سے اندازہ ہو گیا ہے کہ کیا بات ہے میں نے کہا تھا نہ وہ اظہار کرے
گا ۔ ندا نے لمبا سانس کھینچا ۔ میں سونے لگی ہوں ۔ روبی نے کہا ندا کیا ہوا کیا تم نہیں چاہتی ۔ وہ بولی میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے میں اپنے گھر والوں کی پابند ہوں روبی ۔ وہ بولی یک نہ شد دو شد ۔ سو جاو بھئی تم اور صالح ایک جیسے ہی ہو پتھر دل بے حس وہ لیٹ گئی ۔ جاری یے
رخی اور ساوتری کمرے میں موجود تھے ۔ ساوتری کو مصروف دیکھ کر رخی نے کہا تمھارے کام کبھی ختم بھی ہوتے ہیں۔ وہ مسکرا کر بولی گھر کے کام کب ختم ہوتے ہیں ۔ رخی نے کہا ویسے ساوتری تم نے علی بھائی کی باتیں سنی سچ کہوں تو یہ انکا نیا روپ ہے آج سے پہلے انہوں نے کبھی اس ٹاپک پر بات نہیں کی
ناجانے وہ لڑکی کون ہے کہاں رہتی ہے کیا کرتی ہے لیکن جو بھی ہے بھائی کے لہجے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اس کے بارے میں سنجہدہ ہیں ۔ ارے کچھ بولو چپ کیوں ہو رخی نے اس سے کہا ۔ ساوتری بولی میں اس بارے میں کیا کہہ سکتی ہوں لیکن وہ کافی بےباک ہیں صالح بھائی کے بالکل الٹ ۔ رخی ہنسی
ہیں ناں ۔ بھائی بہت میچور ہیں کبھی میں ان سے جیلس ہوتی ہوں ان میں بلا کا اعتماد ہے ۔ ساوتری نے پوچھا آپ کی ماما نے تو کوئی مسلہ نہیں کیا تو کیا آپکے بابا بھی انکی بات کو مانیں گے ۔ رخی نے کہا ہاں کیوں نہیں مانیں گے تمھیں معلوم ہے ماما اور بابا کی بھی لو میرج ہے ۔ تو بھائی سے کیا
پرابلم ہو گی انہیں ۔ بس وہ ماما جیسی شاندار ہونی چاہیے ۔ میری ماما جیسی کوئی نہیں تب ہی دروازہ کھلا اور رخی کی والدہ اندر آگئی ۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ابھی آپکا ذکر کر رہی تھی میں ساوتری سے ۔ وہ بولیں کیا کہہ رہی تھی ۔ وہ بولی یہ ہی کہ میری ماما جیسی کوئی نہیں وہ انکے ساتھ لپٹ گئی
وہ بولیں آج کل دونوں بہن بھائی سینٹی مینٹل ہو رہے ہیں تمھاری بھی کوئی ڈیمانڈ تو نہیں ۔ وہ بولی ارے ماما مجھے اس سب میں کوئی دلچسپی نہیں میری سوچ کا آپکو معلوم ہے ۔ کیا آپ نے بابا کو بتایا بھائی کا ۔ وہ کہنے لگی نہیں اب بتاونگی ۔ ویسے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا
رخی نے کہا ساوتری خاموش کیوں ہو تم ۔ اسکی والدہ بولی بیٹی خوش رہا کرو میں نے کوثر سے سنا تمھارے بارے میں لیکن اب تم فکر نہ کرو یہ گھر تمھارا بھی ہے رخی تمھاری بہن ہے ۔ وہ اداس نظر آنے لگی ۔ رخی اٹھ کر اسکے پاس بیٹھ گئی ۔ مجھے تو کچھ معلوم نہیں لیکن ساوتری تم اداس نہ ہو
میں انکل سے کہونگی کہ وہ تمھیں ہمارے پاس بھیجیں تم پڑھائی دوبارہ شروع کرو ہم سب تمھارے ساتھ ہیں ۔ ساوتری نے کہا مجھے بی بی جی کے پاس ہی رہنے دو رخی ۔ میری ماں میرے بچپن میں ہی مر گئی تھی مجھے بی بی جی نے ہی پالا ہے باپو کے گزر جانے کے بعد بابا نور محمد نے میرے سر پر چادر ڈالی
صالح بھائی میرے لیے مضبوط سہارا بنے دونوں بڑے بھائی اور بھابیاں بھی مجھے چاہتے ہیں بھگوان نے میرے کرم اچھے کر دئیے میں انکا احسان نہیں اتار سکتی ہاں انکی خدمت کر کے فرض نبھا سکتی ہوں ۔ رخی کی ماں بولی ارے بیٹی جب سب کو مان دیتی ہو تو کیسا فرض کیسا احسان اور ایک دن تم نے اپنے
حقیقی گھر بھی تو جانا ہے تمھاری شادی ہو گی تمھیں چاہنے والا ملے گا بس یہ اداسی چھوڑ دو اور اب تم دونوں سو جاو کافی تھک گئی ہو گی رخی نے تو کچھ کیا نہیں ہاں تم نے بہت کام کیا ۔ رخی بولی یہ زیادتی ہے ماما میں نے پورا ساتھ دیا وہ مسکرا کر اٹھی اور دونوں کو پیار دے کر چلی گئی
رخی نے کہا سنو میری بات مان لو اور شہر آجاو ہمارے پاس میں اور علی بھائی تمھارے لیے حاضر ہیں ۔ تعلیم دوبارہ شروع کرو کون سا تم سے کسی نے نوکری کروانی ہے اچھا پڑھ لکھ جاو گی تو کل اچھی ماں بھی ثابت ہو گی ۔ ساوتری نے کہا لیکن ۔ وہ بولی لیکن ویکن کچھ نہیں بس میں نے کہہ دیا
اور میری بات کو کوئی انکار نہیں کرے گا میں کل ہی بات کرونگی انکل سے ۔ وہ بولی اچھا بس ایک بات مان لو فی الحال مجھے کچھ عرصہ یہاں رہنے دو ۔ رخی نے کہا وہ کیوں ۔ ساوتری خاموش رہی اسے علی کی باتیں یاد آرہی تھی ۔ رخی نے کہا بولو بھی ۔ اصل میں تمھارے بھائی سے ڈر لگتا ہے
رخی حیران ہو گئی علی بھائی سے اور ہنسنے لگی ۔ میرے بھائی اتنے خوفناک تو نہیں اتنے ہنڈسم ہیں وہ ۔ ساوتری اسے بتا نہیں سکتی تھی آج کی باتیں اسلیے کہا وہ دراصل کافی ایڈوانس ہیں مجھے شرم آتی ہے انکا سامنا کرنے میں ۔ رخی نے کہا اگر میں بھائی کو یہ بتاوں وہ تمھارا بہت مذاق اڑائیں گے
ساوتری نے کہا پلیز مت بتانا ۔ وہ بولی اچھا بابا نہیں بتاتی بس اب چلیں گے اور بھائی کی فکر نہیں کرو میں انہیں دور رکھونگی تم سے ۔ ویسے تمھاری بات کافی دلچسپ تھی ڈر اور علی بھائی سے ہاہاہا وہ پھر ہنسنے لگی ساوتری بھی مسکرا دی ۔

اگلے دن وہ دونوں کالج میں موجود تھے
علی اپنے آفس میں چلا گیا اور صالح بابا حمید کے پاس آگیا ۔ سلام دعا کے بعد وہ دھوپ میں بیٹھ گئے سرد موسم میں دھوپ کا مزہ اور چائے ۔ صالح نے کہا بابا حمید ایک بات تو بتائیں آپ گھر کیوں نہیں جاتے اپنے ۔ وہ بولا جاتا تو ہوں ۔ صالح نے کہا لیکن میں نے تو کبھی نہیں دیکھا آپکو
حالانکہ کئی بار کالج بند ہوا لیکن آپ یہیں رہتے ہیں ۔ وہ بولا اصل میں میری بیوی فوت ہو چکی ہے بیٹا الگ رہتا ہے اور بیٹیاں اپنے گھروں میں تو بس کم ہی جاتا ہوں اب ۔ صالح نے کہا کیا مطلب آپکا بیٹا الگ کیوں رہتا ہے ۔ وہ بولا دراصل وہ دوسرے شہر میں نوکری کرتا ہے سال میں ایک ہی بار
ملنا ہوتا ہے اس سے ۔ دل اسکا بھی کرتا ہے لیکن کام تو کام ہیں اسلیے چل رہا ہے سب ۔ صالح نے کہا اور میری بہنیں وہ ؟ بابا حمید نے کہا وہ اپنے گھر بار کو سنبھال رہی ہیں ہر دوسرے دن بات ہو جاتی ہے ۔ صالح نے کہا اچھی بات ہے ویسے ہی مجھے تجسس ہوگیا تھا آپ نے برا تو نہیں منایا
وہ بولا ارے نہیں یہ تو سب زندگی کا حصہ ہے یہاں کالج کے بچے بچیاں سب خیال رکھتے ہیں بس جب کالج بند ہوتا ہے تو بے رونقی ہو جاتی ہے جیسے آجکل ہے ۔ صالح نے کہا زندگی میں کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے ۔ وہ بولا ن پرندوں کو دیکھ رہے ہو بیٹا ۔ یہ سب صبح ہوتے ہی گھروں سے نکل جاتے ہیں
نہیں جانتے ان میں سے کتنے واپس لوٹیں گے لیکن سب اپنے رزق کے حصول کے لیے اڑتے جاتے ہیں کیونکہ انکو معلوم ہوتا ہے کہ انکو پالنے والا انہیں بھوکا نہیں رہنے دے گا بالکل اسی طرح انسان ہے لیکن وہ غافل ہو گیا ہے انسان سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اسی لیے وہ خدا سے دور ہوتا جا رہاہے
لیکن صالح جب سے تم آئے ہو تو میں نے محسوس کیا ہے کہ دنیا تم جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی چل رہی ہے ۔ صالح بولا ارے بابا آپ بھی شرمندہ کر رہے ہیں استغفرللہ ۔ بھلا میں کیا میری اوقات کیا ؟ بابا حمید نے کہا یہ ہی چیز اگر ہم سب سمجھ جائیں تو زندگی آسان ہو جائے ۔ میرا بیٹا مجھ سے کام کی
وجہ سے دور رہتا ہے اس نے کئی بار مجھے کہا کہ میں اسکے پاس آجاوں اور نوکری چھوڑ دوں ۔ لیکن میرا دل نہیں مانتا ۔ میرے دو پوتے ہیں ایک پوتی سال بعد جب ان سے ملتا ہوں تو وہ مجھے واپس نہیں آنے دیتے لیکن وہ نہیں جانتے یہ دنیا سفر خانہ ہے اور ہم سب مسافر ہیں لیکن انسان جو ہیں غافل انسان
صالح نے کہا بابا حمید آپ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اللہ آپکو جزائے خیر دے تب ہی علی کی آواز آئی وہ لوگ آنے والے ہیں صالح ۔ بابا حمید نے پوچھا کون لوگ ؟ صالح نے کہا کچھ سٹوڈنٹ ہیں ہم ایک کام کرنے لگے ہیں بس اسی سلسلے میں ۔ بابا حمید نے پوچھا کیسا کام ۔ صالح نے مختصر اسے
بتایا تو وہ بولا بہت اچھی بات ہے ۔ صالح نے کہا آپ ایک کر دیں گے مجھے یہاں کرسیاں چاہیے ۔ وہ بولے ارے کیوں نہیں کتنے لوگ ہیں ۔ وہ بولا چھ وہ ہیں اور اگر انکے ساتھ اور کوئی نہ ہوا تو آپ دس کرسیاں لے آئیں ۔ بابا حمید اٹھ کر اندر چلا گیا ۔ وہ علی سے بولا تم کیا کر رہے تھے
علی نے کہا انکل اور آنٹی سے بات ۔ میں نے انکو کہا ہے کہ وہ بھی ماما بابا کے ساتھ ہمارے پاس آئیں اور وہ مان گئے ہیں ۔ صالح نے کہا تم کچھ زیادہ جلدباز نہیں ہو گئے ؟ علی ہنسا اور بولا یار مذاق سے ہٹ کر شیخ صاحب کی بات سے ہی میرے دماغ میں یہ بات آئی ہے سوچو وہ دونوں کتنی بار آئے
مجھے نہیں یاد کہ دو سے زیادہ مرتبہ میں نے انہیں ہمارے گھر آتے دیکھا ہو ۔ صالح نے کہا ہاں یہ تو ہے میں تو مدرسے میں تھا مجھے تو معلوم نہیں باہر کیا ہوتا رہا ہے ۔ یہاں تک کے جب یہاں آیا تو بھی تم لوگوں کا خیال نہیں آیا تھا مجھے ۔ علی نے کہا بہت اچھے بھئی یہ ہے بھائی چارہ تمھارا
صالح ہنسا اور کہا میرا مطلب تھا کہ تمھارے گھر آنے کا خیال نہیں آیا باولے انسان ۔ علی ہنسنے لگا تب ہی بابا حمید کرسیاں اٹھائے آگئے صالح نے اٹھ کر انکا ہاتھ بٹایا اسی اثنا اسٹوڈنٹ بھی آگئے ۔ وہ اکیلے ہی تھے سب نے سلام دعا کیا علی نے سب کا تعارف کروایا صالح سے اور کہا یہ سب کالج کے
ہونہار لوگ ہیں اور تمھاری ڈیمانڈ کے مطابق ۔ صالح نے کہا علی نے آپ سب کو آگاہ کیا ہوگا ۔ تو اب آپ بتائیں آپکے پاس مجھے دینے کے لیے کتنا وقت ہے ۔ ایک لڑکی نے کہا صالح بھائی میرے پاس تو وقت ہی وقت ہے جب آپ کہیں میں لکھ دیا کرونگی ۔ سب نے ہی کم و بیش ایک سا جواب دیا ۔ صالح نے کہا
خیر سب سے پہلے یہ جان لو کہ یہ کام ذمےداری والا ہے کیونکہ جو ٹاپک میں نے آپکو مہیا کرنے ہیں وہ قرآن و حدیث سے متعلق ہیں اس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔ آپ نے ایک نیٹ ورک سنبھالنا ہے اسلیے ایک ٹائم ٹیبل طے کریں اور اسی میں کام کریں آپ لوگوں کو میں تنخواہ دونگا اس کام کی
ایک لڑکا بولا صالح بھائی نیکی کے کام میں کون سے پیسے ۔ صالح نے کہا ان پیسوں کے بدلے مجھے آپ لوگوں کا وقت خریدنا ہے آپ بھی میری طرح انسان ہیں آپ لوگوں کے بھی کام ہونگے اور فیملیز ہونگی لہذا یہ سب طے شدہ معاملات ہیں اسکے علاوہ علی نے ایڈورٹائزنگ کا بھی کہا ہے تو جو کمائی ہوگی
وہ آپکی محنت سے ہو گی اسی کا معاوضہ آپکو ملے گا ۔ تو پھر آپ اچھی طرح سوچ لیں اور پھر مجھے بتائیں ۔ آپ کی پڑھائی کا حرج نہیں۔ہونا چاہیے ۔ سب ہی راضی تھے تو یہ میٹنگ ختم ہوئی ۔ صالح نے کہا ٹھیک ہے پھر میں آپ کو انگیج کرونگا آپ سب اپنے نمبرز مجھے لکھوا دیں تاکہ کام شروع ہوتے ہی
آپ سب سے رابطہ ہو سکے ۔ انہوں نے اپنے نمبر صالح کو دے دیے اسکے بعد سب سلام کر کے نکل گئے ۔ علی نے کہا مجھے لگتا ہے تم کو بزنس پڑھنا چاہیے تم میں یہ کوالٹی ہے صالح نے کہا جبکہ میرا ارادہ سی ایس ایس کرنے کا ہے ۔ علی نے کہا او بھائی یہ رہنے دے کیونکہ اسکے بعد تم نے ملنا نہیں ہے
صالح مسکرایا یہ کس نے کہا ؟ علی نے کہا میں جو کہہ رہا ہوں صالح بولا خیر یہ بعد کی بات ہے اب اگلا پروگرام بتاو ؟ وہ بولا کچھ نہیں چلتے ہیں ۔ صالح نے بابا حمید سے کہا اجازت دیں ہمیں وہ بولا اجازت ہے بچو ۔ وہ بھی وہاں سے روانہ ہو گئے

رخی نور محمد کے پاس بیٹھی تھی
انکل آپ نے جواب نہیں دیا مجھے ۔ وہ مسکرائے او دھی رانی تم نے کہہ دیا تو بس ہو گیا اس میں جواب کی کیا بات ہے ۔ انہوں نے حقے کا کش لیا ۔ بی بی جی بولی ایک بیٹی ملی وہ بھی لے جا رہی ہو تم ۔ رخی نے کہا تو میں بیٹی نہیں آپکی ۔ وہ بولی ارے تم تو جان ہو ہماری لیکن ساوتری کے بغیر اداس
ہو جاونگی میں ۔۔ رخی نے کہا تو آپ نہیں چاہتی وہ بھی کچھ بن جائے ۔ میں نے کب کہا ایسا ۔ میں تو اسے کئی بار کہہ چکی ہوں وہ ہی نہیں مانتی تھی اب تم نے اسے منا لیا ہے تو مجھے خوشی ہے ۔ لیکن وہ ہے کہاں ۔ رخی ہنسی اور بولی اسے میں نے کمرے میں بند کر دیا ہے ۔ اسکی ماما نے کہا وہ کیوں
رخی نے کہا اسلیے کہ وہ آنٹی کو چھوڑنا نہیں چاہ رہی مجھے معلوم ہے اگر وہ یہاں ہوتی اور آنٹی کی بات سنتی تو اس نے پھر انکار کر دینا تھا جانے سے ۔ بہت شرارتی ہو بھئی تم رخی ۔ بی بی جی بولی جاو اسے لے آو جا کر ۔ وہ اٹھ گئی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو ساوتری نے کہا یہ اچھا نہیں کیا
رخی نے کہا چلو بلا رہے پیں تمھیں اب سن لو بات انکار مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ وہ اسکے ساتھ نیچے چلی آئی ۔ بی بی جی نے کہا یہاں آو بیٹی میرے پاس ۔ ساوتری انکے ساتھ بیٹھ گئی ۔ تم نے کیا سوچا ہے پھر ؟ وہ بولی بی بی جی میں آپکو چھوڑنا نہیں چاہتی لیکن رخی کو انکار بھی
نہیں ہو پا رہا ۔ اس نے معصومیت سے کہا تو نور محمد بولے ۔ او نہ پتر تمھیں پڑھنا چاہیے ابھی تمھاری عمر کیا ہے ایک ہی تو دھی ہے ہماری خوب پڑغو آگے بڑھو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ علی نے فون کیا تھا اس نے ہمیں بلایا ہے وہاں ۔ علی کے بابا بولے آجکل مجھے اسکی سمجھ نہیں آرہی
جب سے یہاں آیا ہے عجیب سا برتاو کرنے لگا ہے ۔ اسکی والدہ بولی آپکے صاحبزادے کو پیار ہو گیا ہے کسی سے ۔ تو وہ بولے تو اس میں ایسی کون سی بات ہے جو وہ بھاگتا پھر رہا ہے ہر جگہ ۔ نور محمد نے کہا بچے ہیں موج مستی کرتے ہیں تم فکر نہ کرو ۔ ویسے اس بے بتایا نہیں لڑکی کون ہے
صالح کی والدہ بولی نہیں بتایا لیکن جو بھی ہے اسکی پسند ہے اچھی ہی ہوگی ۔ ساوتری بولی میں کچھ کام کر لوں ۔ رخی نے کہا کوئی کام نہیں بس پیکنگ کرو ہر وقت کام تھکتی نہیں تم ۔ وہ بولی نہیں تھکتی میں اپنے کام سے نور محمد نے کہا بیٹی مصروف ہونا اچھی بات ہے لیکن اپنے دماغ کو پرسکون رکھو
اللہ نے چایا تو جیسی تم خوبصورت ہو ویسے ہی تمھارا دل بھی خوبصورت کر دے گا ایک دن ۔ وہ بولی بابا جتنا پیار مجھے یہاں ملتا ہے اتنا تو مجھے اپنی برادی سے نہیں ملتا یہ ذات پات مذھب سے ہٹ کر آپ لوگوں نے جس طرح اپنے دل کے دروازے میرے لیے کھولے ہیں مجھے لگتا ہی نہیں میں غیر مذھب ہوں
آپ مجھے اپنے ساتھ کھلاتے ہیں میرا خیال رکھتے ہیں یہ سب باتیں مجھے پریشان کرتی ہیں ہمارے دھرم میں تو بہت سختیاں ہیں لیکن آپ کے دھرم میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ نور محمد نے کہا آگہی وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالی انسان کے دل میں ڈالے ۔ ہمارا دین کہتا ہے انسانیت کی قدر کرو
ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے چاہے مسلمان ہو یا غیر مذھب انکے دروازے سب کے لیے کھلے تھے بیٹی تو ہم کیسے انکی سیرت سے منہ موڑ لیں ۔ خدانخواستہ تم کوئی بیماری تو نہیں ہمارے لیے ہماری بیٹی ہو خونی رشتہ نہ سہی انسانیت کا سہی
اب تو بس یہ ہی کہتا ہوں کہ اللہ تم کو ہدایت دے دے تاکہ یہ سعادت مجھے مل سکے اور کوئی تمنا نہیں لیکن پتر جی تم ہر کوئی زبردستی نہیں ہے تم تب بھی ہماری بیٹی ہی رہو گی چاہے ہدایت پاو یا ناں پاو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جاو تیاری کرو تم رخی کے ساتھ جاو گی ۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی
ان دونوں کے جانے کے بعد علی کے والد نے کہا پیاری بچی ہے کشمکش کا شکار ہے اللہ اسکے لیے آسانی پیدا کرے ۔ بی بی جی نے کہا میں تو ہر نماز میں اسکے لیے دعا کرتی ہوں میں نے تو نام بھی سوچ رکھا ہے اگر یہ مسلمان ہو جائے تو فاطمہ نام رکھونگی اسکا ۔ نور محمد بولے ماشاء اللہ
بہت اچھا نام تجویز کیا ہے خیر اللہ ہدایت دینے والا ہے ۔

روبی کا پلاستر اتر گیا تھا ڈاکٹر نے کہا زیادہ زور نہیں ڈالنا ٹانگ پر کچھ دن احتیاط کرو اسکے بعد بھاگنے لگو گی آرام سے چلنا پورا پاوں رکھ کر بیلنس کے ساتھ ۔ وہ بولی ٹھیک ہے ڈاکٹر انکل ۔ آپ نہ ہوتے تو کیا ہوتا
ندا نے کہا کوئی زبان کی دوا بھی تجویز کر دیں انکل ۔ روبی نے کہا اور ایک دماغ کی بھی ۔ ڈاکٹر ہنسنے لگا ۔ مجھے بتایا ہے کہ تم لوگ ہر وقت لڑتے رہتے ہو یہ اچھی بات نہیں تمھارے بابا میرے دوست ہیں انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ تنگ کریں تو انکو وہ انجیکشن لگانا جس کی سوئی لمبی ہو
روبی نے کہا بابا ایسے نہیں کہہ سکتے ڈاکٹر نے کہا کہو تو فون پر سنا دوں ۔ ندا نے کہا نہیں نہیں چاچو نے بالکل کہا ہوگا مجھے یقین ہے ۔ روبی ہنسی اور کہا تمھارے لیے کہا ہو گا ۔ انکا علاج گھر میں ہی ہو رہا تھا ۔ ڈاکٹر نے نرس سے کہا یہ سب نشان صاف کر دو انکے اور خود باہر چلا گیا ۔
ندا نے کہا ویسے بلیک اینڈ وائیٹ ہو کر بھی اچھی لگ رہی ہو ۔ روبی برا سا منہ بنا کر بولی خود کو دیکھا ہے کبھی ۔ وہ بولی بالکل روز دیکھتی ہوں ماشاء اللہ بھی کہتی ہوں تم جیلس ہو جاو مجھے کیا ۔ وہ بولی میں جانتی ہوں ان شوخیوں کا مطلب بعد میں پوچھونگی ۔ ندا ہنستی رہی
ٹانگ کی صفائی کے بعد ندابنے اسے سہارا دیا اور کہا آرام سے چل کر دیکھاو ۔ رباب نے قدم رکھا تو اسے درد محسوس ہوا وہ بولی اف ۔ ندا بولی کیا ہوا وہ پریشان ہو گئی تم ٹھیک ہو روبی ۔ اس نے کہا درد ہو رہا ہے ندا ۔ وہ بولی بیٹھ جاو وہ اسے بیٹھا کر اسکی ٹانگ کو دیکھنے لگی ۔ روبی مسکرائی
ہاں یہاں نیچے یہ پاوں کی جانب سے وہ اور نیچے ہوئی تو روبی نے تکیہ اٹھا کر اسکے سر پر دے مارا ۔ ندا چیخ کر بولی روبی کی بچی ۔ تب ہی اسکی والدہ اندر آئی یہ کیا ہو رہا ہے ۔ روبی نے کہا تائی جان ندا کو دیکھیں تنگ کر رہی ہے ۔ اسکی والدہ نے کہا ندا کب بڑی ہو گی تم چھوڑ دو یہ بچپنا
بجائے تم اسکا خیال کرو تم اسے تنگ کر رہی ہو ۔ ندا نے کہا لیکن ماما میں نے تو کچھ نہیں کیا ۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے ۔ وہ بولیں اچھا بس تم دونوں کا کمرہ الگ ہی کرن پڑے گا اب ۔ روبی فورا بولی نہیں تائی جان یہ نہ کریں پلیز پلیز ۔ اس نے ندا کو آنکھ ماری جو ناراض کھڑی تھی ۔ جاری ہے
دروازے کی بیل بجی یہ۔کون آگیا ندا نے کہا ۔ کچھ دیر بعد قاسم کمرے میں داخل ہوا روبی بولی ارے تم زندہ ہو ۔ وہ بولا یار آپی فلائٹس ہی نہیں مل رہی تھی میں کیا کرتا ۔ ندا نے کہا بس رہنے دو تم سے اچھا تو حمزہ تھا پڑھائی چھوڑ کر آگیا وہ دونوں کو پیار کرتا ہوا بولا تو میں بھی چھوڑ کر ہی
آرہا ہوں ویسے وہ ہے کہاں نظر نہیں آرہا ۔ روبی نے کہا باہر گیا ہوا ہے ندا کی والدہ نے کہا تم بتا دیتے آرہے ہو وہ بولا سرپرائز بھی کوئی چیز ہوتی ہے ماما ۔ لیکن یہ سب کیسے ہوا ۔ پھر اسے تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ بولا یعنی تم نے کھڑے ٹرک کو ٹکر مار دی کمال ہو گیا ۔ روبی نے کہا
بریک فیل ہو گئے تھے وہ اسکی ٹانگ کو دیکھ کر بولا اچھا خیر تم لوگ آرام کرو میں فریش ہو جاتا ہوں یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا ۔ قاسم انگلیڈ میں لاء پڑھ رہا تھا اسے ایکسیڈنٹ کا معلوم ہوا تو وہ وہاں سے چھٹی لے کر آگیا تھا

ساوتری شہر آچکی تھی علی کی خوشی دیدنی تھی
وہ چاروں روز رات کو آوٹنگ کے لیے نکل جاتے ساوتری رخی کے ساتھ ہی لگی رہتی وہ علی کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی گاوں سے نکلنے پر اس نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا اپنا ۔ صالح کی والدہ اور والد ساتھ آئے تھے صالح آجکل بڑا مصروف تھا وہ اپنے ویب پیج کے لیے وی لاگز بنا رہا تھا
ابھی وہ چاروں ایک ہوٹل میں ڈنر کر رہے تھے رخی نے کہا بھائی رخی کا داخلہ آپ اپنے کالج میں کروائیں گے ۔ وہ بولا ہاں وہیں کرواوں گا کالج اور یونیورسٹی کے کیمپس ساتھ ہی ہیں لیکن پہلے اسکو بی اے تک کالج میں رہنا چاہیے میرے خیال سے ۔ صالح جو اپنی دھن میں مگن تھا رخی نے اس سے پوچھا
صالح بھائی آپ کیا کہتے ہیں وہ چونکا کس بارے میں ؟ آپکا دھیان کدھر ہے اس نے مسکرا کر کہا ارے گڑیا میں کام کا سوچ رہا تھا معذرت ہاں کیا بول رہی تھی ۔ اس نے اپنی بات دہرائی تو صالح نے کہا بالکل وہیں ہوگا تاکہ اسے اجنبیت ناں ہو ۔ رخی نے ساوتری سے کہا بس پھر تو ٹھیک ہو گیا
اگلے ہفتے کھل جائیں گے داخلے ۔ علی نے کہا اسکا داخلہ ہو گیا ہے جب یہ گاوں سے نکلے تھے تب ہی اوکے کرا دیا تھا ۔ صالح نے اسے گھورا تو وہ بولا میرا مطلب ہے نیک کام میں دیر کیسی کیوں بھائی ۔ وہ صالح کو دیکھ کر مسکرایا ۔ رخی نے دونوں کو ایک نظر دیکھا اور بولی خیر ساوتری
تم نے بالکل فکر نہیں کرنی بالکل فری ہو جاو اس معاملے میں تمھارا فرسٹ ائیر ہو گا وہ کہنے لگی اچھی بات ہے میں پوری کوشش کرونگی کہ جلد پڑھائی کر لوں ۔ صالح نے کہا اتنی جلدی کیوں ہے ؟ وہ بولی بھائی تاکہ واپس بی بی جی کے پاس جا سکوں ۔ علی نے کہا بھول جاو اب تم وہاں جاو گی
وہ شرارت سے گویا ہوا اس نے رخی کو آنکھ ماری ۔ ہم تمھیں جانے ہی نہیں دیں گے ایک زنجیر تمھارے پاوں میں ڈالیں گے تاکہ تم فرار نہ ہو سکو ۔ وہ علی کی بات سن کر پریشان نظر آنے لگی ۔ صالح نے کہا مت تنگ کرو اسے ۔ رخی نے کہا ارے بھائی علی بھائی صیح کہہ رہے ہیں اگر اس نے واپسی کا اب کہا
تو ایسا ہی کریں گے اور میں بھائی کا ساتھ دونگی ۔ ساوتری روہانسی ہو گئی تو صالح نے کہا ساوتری وہ مذاق کر رہے ہیں تم سے ۔ علی نے کہا اچھا سوری بھئی میں آنٹی سے کہونگا یہاں ہی رک جائیں تمھاری پڑھائی ختم ہونے تک ۔ صالح نے کہا جیسے وہ تیار بیٹھی ہونگی کیوں ؟ علی مسکرایا
بات کرنے میں کیا حرج ہے ۔ ڈنر ختم ہو چکا تھا علی نے کہا آئس کریم کھانے چلیں ۔ صالح نے کہا یار میرا خیال ہے گھر چلو مجھے کام کرنے ہیں ۔ علی نے کہا کر لینا چلو دوسری جگہ سے کھائیں گے آئس کریم ۔ وہ بل ادا کر کے وہاں سے نکل گئے ۔ رخی نے کہا بھائی ساوتری کے لیے شاپنگ کرنی ہے
صالح نے کہا اوکے اس نے گاڑی مال کی جانب موڑ دی ۔ ساوتری نے کہا وہ اتنا کچھ لائی تو ہے رخی نے اسکا ہاتھ دبا کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔ صالح نے پارکنگ میں گاڑی روک دی ۔ رخی نے علی سے کہا اپنا کارڈ دے دیں ۔ علی نے کہا ایسا مذاق میں کسی سے نہیں کرتا اپنا کارڈ استعمال کرو
صالح نے اہنا کارڈ نکال کر اسے دیا تو وہ بولی آپ سے نہیں چاہیے علی بھائی سے چاہیے ۔ علی نے کہا میرے اکاونٹ میں پیسے ہی نہیں تو وہ بولی کریڈٹ کارڈ دے دیں کوئی ایشو نہیں ۔ علی نے جیب ٹٹولی اور بولا اوہو میرا تو پرس ہی گھر رہ گیا وہ بھی رخی تھی اچھا تو اپنے بوٹوں کے تسمیں باندھیں
علی نے نیچے دیکھا تو رخی نے اسکی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر پرس نکال لیا ۔ یہ کیا ہے پھر ۔ علی جب تک اسے روکتا وہ ساوتری کا ہاتھ پکڑ کر یہ جا وہ جا ۔ صالح ہنستے ہوئے بولا میری بہن کو ہلکا لے لیا تم نے ۔۔ علی نے کہا میں تو مذاق کر رہا تھا وہ انکے پیچھے چل پڑے ۔ راستے میں صالح نے کہا
میں تم سے ناراض ہوں گڑیا ۔ رخی نے کہا وہ کیوں بھائی ؟ اس نے کہا تم نے میرا کارڈ نہیں لیا وہ ہنسی اور بولی اگلی بار آپکے کارڈ سے لیکن آج علی بھائی کو دیکھ کر عبرت پکڑیں آپ کو موقع دیا میں نے ۔ علی نے کہا خبردار جو لمٹ لگوائی تم نے ۔ وہ بولی دیکھیں گے ۔ پھر وہی ہوا
اس نے علی کو ٹھیک ٹھاک ڈینٹ ڈالا تھا ۔ علی برا سا منہ بنا کر بولا ایک ایک پائی وصول نہ کی تو کہنا ۔ وہ بولی صالح بھائی اب سمجھ آئی آہکا کارڈ کیوں نہیں لیا ۔ صالح ہنسا اور کہا اب میں اپنا پرس چھپا کر رکھونگا تم تو خطرناک ہو بھئی ۔ اس نے ساوتری کی پسند کی ہر چیز لی تھی
صالح کے والدین کے لیے گفٹ بھی لیے وہ سب لندے پھندے گاڑی کے ہاس پہنچے ڈگی میں سامان رکھ کر رخی نے کہا او میں تو جوتے بھول آئی وہ واپس پلٹی تو صالح نے کہا رکو میں ساتھ جاتا ہوں وہ دونوں آگے بڑھ گئے علی جو افسردہ تھاساوتری کے ساتھ اکیلا ہونے پر اسکا موڈ درست ہو گیا
اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس سے کہا بیٹھ جاو اندر ۔ وہ بولی نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ علی نے کہا کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو ؟ وہ خاموش رہی تو علی نے کوٹ کی جیب سے ایک ڈبی نکالی ۔ اور اسے دیتے ہوئے بولا یہ لو یہ میری طرف سے تحفہ ہے ۔ اس نے ڈبی کو دیکھا اور بولی یہ کیا ہے
علی نے ڈبی کھولی تو اس میں انگھوٹی تھی وہ بولی میں یہ نہیں لے سکتی ۔ وہ بولا اگر نہیں لوگی تو یہاں ہی پھینک دونگا ۔ ساوتری کشمکش کا شکار ہو گئی ۔ علی سنجیدہ تھا اس نے کہا اوکے مرضی تمھاری اس نے ڈبی بند کی اور ہاتھ اٹھایا ہی پھینکنے کے لیے تو وہ بول پڑی اچھا ٹھیک ہے
وہ رک گیا ۔ اس نے خاموشی سے انگھوٹی لے لی ۔ علی خاموشی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ ساوتری نے اسے چور نظروں سے دیکھا وہ اسکی جانب متوجہ نہیں تھا ۔ ساوتری کا دل کیا اس سے سوری کرے آخر وہ کیوں اس کی محبت سے انکار کر رہی ہے. یہ خیال اسکے دم میں آیا تو وہ خود ہی شرما گئی
اس نے گاڑی کا پچھل دروازہ کھولا اور خاموشی سے بیٹھ گئی گاڑی میں خاموشی تھی علی نے کہا ۔ میں نے آج تک کسی لڑکی کو اس نظر سے نہیں دیکھا لیکن تم سے میں فوراً متاثر ہو گیا ساوتری ۔ تم جھجک رہی ہو سمجھ آتا ہے لیکن تم اگنور کرو یہ برداشت نہیں یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اتر کر آگے بڑھ گیا
ساوتری اسے جاتا دیکھتی رہی ۔ وہ کیا کہتی ابھی تو وہ اسے ٹھیک سے جانتی بھی نہیں تھی چند ہی تو دن ہوئے تھے ۔ صالح اور رخی واپس آئے تو اسے اکیلا دیکھ کر رخی نے کہا علی بھائی کہاں ہیں ۔ وہ بولی سامنے گئے ہیں کہیں ۔ صالح نے کہا تمھیں چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے وہ ۔ وہ خاموش رہی
رخی نے اسے دیکھا وہ سر جھکائے بیٹھی تھی اس نے کہا کیا کوئی بات ہوئی ہے ساوتری ۔ وہ بولی نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں بس گاڑی سے اترے اور چل دئیے ۔ صالح نے کہا چلو کوئی بات نہیں آجائے گا وہ سوچ رہا تھا شاید سگریٹ پینے گیا ہوگا لیکن وہ یہ بات رخی کے سامنے نہیں کر سکتا تھا
چند منٹوں بعد وہ آتا دیکھائی دیا ۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو صالح نے کہا ۔ کدھر گئے تھے ۔ وہ مسکرا کر بولا یار ایک ضروری فون کرنا تھا صالح نے اسے دیکھا اور کہا اوکے ۔ اس نے گاڑی اسٹارت کی اور گھر کو چل پڑے ۔ راستے میں بھی وہ خاموش ہی تھا رخی اسے چھیڑتی تو ہنس دیتا
لیکن صرف صالح محسوس کر سکتا تھا اسکی ٹینشن ۔ اس نے بیک مرر میں ساوتری کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ اس نے سانس بھرا اور کہا خیر تم نے آج میرے بھائی کا دیوالیہ نکال دیا گڑیا وہ ہنس کر بولی یوں کہیں کے معرکہ سرانجام دیا ورنہ علی بھائی اور خرچے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
صالح نے کہا ۔ علی کنجوس نہیں ہے کیوں علی ۔ وہ بولا ہاں یار ایک ہی تو بہن ہے میری اسکے لیے تو جان بھی قربان ہے پیسے کیا ہیں ہاتھ کا میل ہیں ۔ رخی نے کہا بھائی کیا بات ہے آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ۔ وہ ہنسا اور بولا ٹھیک ہوں میں دراصل ایک کام کرنا ہے اسی کا سوچ رہا ہوں میں
رخی نے پھر کوئی سوال نہیں کیا ۔ وہ گھر پہنچے تو علی گاڑی سے اترا اور سیدھا اندر چلا گیا ان سب نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ رخی بولی ایسا رویہ بھائی کا پہلے کبھی نہیں رہا اللہ خیر کرے ایسی کیا بات ہو گئی ہے ۔ ساوتری بول پڑی یہ میری وجہ سے ہوا ہے ۔ صالح چونکا کیا مطلب
وہ بولی انہوں نے مجھے ایک تحفہ دینا چاہا تو میں نے انکار کر دیا اور ساری بات بتائی ۔ رخی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی کیا مطلب ۔ کیا وہ لڑکی تم ہو ۔ صالح نے کہا بس خاموش سب سامنے ہیں بعد میں بات کریں گے وہ آگے بڑھ گیا ۔ رخی نے سرگوشی میں کہا تم نے مجھ سے بھی چھپایا ساوتری
وہ بولی مجھے خود سمجھ نہیں آرہی وہ اتنا تیز بھاگ رہے ہیں رخی نے کہا اچھا رات کو بتانا مجھے ۔ وہ دونوں بھی اندر چل پڑی ۔ علی ڈرائنگ روم میں سب کے پاس تھا اس وقت وہ پرانا علی لگ رہا تھا ۔ رخی کو آتا دیکھ کر بولا انکل جتنا خرچہ اس نے آج کروایا ہے وہ سب آپ دیں گے
علی کی والدہ بولی شرم کرو کچھ بہن ہے تمھاری ۔ علی نے کہا میں نے کب انکار کیا لیکن اس نے خود ہی کہا کہ انکل سے لے دونگی ۔ وہ بولی جی نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ نور محمد بولا او میری دھی رانی حکم کرے تجھے سونے میں تول دوں ۔ علی نے کہا سونا رہنے دیں اسکی آجکل کوئی قدر نہیں
لوگ منہ پر مار دیتے ہیں اس نے ساوتری کو طنز کیا ۔ صالح نے کھنکارا تو وہ بولا خیر بہت نقصان ہوگیا میرا آج مجھے نیند نہیں آنی ۔ اسکے والد نے کہا آج ہی تو پیسے آئے تمھارے اکاونٹ میں ۔ وہ بولا تو بابا اسکا مطلب یہ نہیں کہ مجھے کنگال کر دیا جائے میں بدلہ لونگا اس سے ۔
رخی ہنس کر بولی دیکھیں گے ۔ صالح کی والدہ نے کہا اچھا اب بس بھی کر دو لڑنا ۔ علی نے کہا یہ بیگ ادھر دو رخی نے ایک بیگ اسکی جانب کر دیا اس نے اسے کھولا اور اس میں سے کپڑے نکال کر صالح کی والدہ کو دے کر بولا یہ آپکے لیے ہیں آنٹی ۔ مجھے معلوم ہے آپکو سفید رنگ بہت پسند ہے
صالح کی والدہ نے کہا اچھی چوائس ہے تمھاری بیٹا شکریہ وہ وہ بولا اور یہ والے شاپر بھائی اور بھابیوں کے ہیں یہ میرے بھتیجوں کے یہ میں آپ لوگوں کی گاڑی میں رکھوا دیتا ہوں اور انکل یہ آپکے سوٹ ۔ لیکن اسکا مطلب ہر گز نہیں کہ آپ ابھی یہاں سے جا رہے ہیں آپ کو کچھ دن اور یہاں ہی رکنا ہے
کیوں رخی ؟ وہ بولی بالکل بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ اتنی جلدی نہیں جا سکتے ۔ نور محمد نے کہا او یار ملک یہ بچے لمبا پروگرام بنا رہے ہیں انکو سمجھاو ۔ علی کے والد نے کہا ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں تم کون سا آجاتے ہو سال میں کبھی ایک بار اب رہو آرام سے یہاں ۔ رخی نے کہا زندہ باد بابا
علی کی والدہ بولی اچھا یہ سب چھوڑو ۔ اور کھانا تو تم لوگ کھا آئے ہو اب جاو آرام کرو ۔ علی نے کہا کیا آپ لوگوں نے نہیں کھایا ۔ وہ بولیں بس کھانے لگے تھے تم۔لوگ آگئے ۔ وہ بولا چلیں آپ کھائیں ہھر وہ اٹھ گیا صالح بھی ساتھ ہی اٹھ گیا اسکے ۔ دونوں لڑکیاں بھی کھڑی ہو گئی
وہ سب اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے ساوتری اور رخی کا ایک ہی کمرہ تھا صالح اور علی کا الگ تھا ۔ صالح نے اسکا بازو پکڑا اور کہا میرے ساتھ آو ۔ وہ بولا آتا ہوں بھائی زرا انتظار کرو ۔ صالح نے کہا جلدی پہنچو ۔ ادھر رخی نے کمرے کا دروازہ لاک کر دیا اور ساوتری سے بولی شروع ہو جاو
شروع سے لے کر اب تک ۔ ساوتری نے اسے ساری بات بتائی گاوں سے لے کر آج تک کی ۔ رخی نے کہا بہت اچھے یعنی تم نے مجھ سے چھپایا یہ سب ۔ وہ بولی میں کیا بتاتی رخی ۔ تم لوگ کہاں میں کہاں صالح بھائی کی بات اور ہے میں وہیں پلی بڑھی ہوں یہ ٹھیک ہے کہ تم لوگ کسی دیوتا سے کم نہیں لیکن
لیکن کیا رخی نے کہا ۔ وہ بولی لیکن میرا اور آپ لوگوں کا کوئی جوڑ نہیں ۔ رخی نے کہا آج تو کہہ دیا دوبارہ ایسا نہ کہنا خدا کی پناہ میرے بھائی پر ہی رحم کرو انہوں نے دل پر لے لی ہے تمھاری بے اعتنائی کو ۔ ساوتری نے کہا مجھے معاف کر دو پلیز ۔ وہ اچھے ہیں لیکن اس طرح سب کہنا
وہ بھی جب آپ کسی کو جانتے نہ ہوں ۔ رخی نے کہا ہاں یہاں تم ٹھیک ہو انہیں صبر اور تحمل سے بات کرنی چاہیے تھے لیکن وہ بھاگم بھاگ پیچھے پڑ گئے ۔ خیر اب یی بات ہمارے درمیان ہی رہے گی علی بھائی جانیں تم جانو ۔ میں کسی سے کچھ نہیں کہونگی ہاں البتہ میرے بھائی کا دل مت توڑنا
انکار کا حق تمھارے پاس ہے لیکن ٹھوس وجہ کے ساتھ ۔

ادھر صالح نے علی سے کہا یہ کیا تماشہ کیا تم نے ؟ علی نے کہا یار سیدھی بات کی ہے جناب کے مزاج ہی نہیں مل رہے ۔ کیا برا ہے اس میں اگر میں نے اسے پرپوز کیا ہے تو ؟ صالح بولا کبھی کبھار حد سے زیادہ بونگیاں مارتے ہو تم
بھلا تم اسے جانتے ہی کتنا ہو جو اس پر بم پھوڑ آئے ۔ وہ بولا بس جان لیا جو جاننا تھا بھائی ۔ ہاں میں جلدبازی کر رہا ہوں لیکن کم از کم اسے کچھ تو احساس کرنا چاہیے ۔ صالح نے کہا اچھا خیر لڑکیوں کے جذبات ہوتے ہیں وہ ہماری طرح بغیر جذبات کے نہیں سوچتی اب رخی کو بھی معلوم ہوگئی یہ بات
علی نے کہا کیا مطلب ؟ صالح نے اسے بتایا تو وہ بولا بہت اچھے بجائے وہ مجھ سے سوری کرتی اس نے تم دونوں کو سب کچھ بتا دیا ۔ وہ اپنا سر پیٹ کر بولا تو صالح ہنس پڑا ۔ پریشان نہ ہو رخی کو میں سمجھا دونگا ۔ علی نے کہا اور سمجھ جائے گی کیوں ؟ صالح نے کہا کمال کرتے ہو
کیا وہ سب کو بتائے گی ؟ علی نے کہا نہیں لیکن مجھے تو نہیں چھوڑے گی ناں ۔ صالح نے کہا ہاں یہ تو ہے علی نے کہا خیر مجھے سچ میں برا لگ گیا تھا لیکن اب ٹھیک ہوں ۔ صالح نے کہا صبر سح کام لو پیارے صبر سے علی نے کہا میں تمھاری طرح نہیں ہوں صالح ۔ کیا کمی ہے رباب میں لاکھوں میں ایک ہے
صالح نے کہا اسکا یہاں کیا ذکر ۔ علی نے اسے آنکھ ماری اور بولا مولوی صاحب قدر کرو اسکی آجکل کے دور میں کوئی خود کو کسی کے لیے نہیں بدلتا لیکن اس نے بدل لیا کیوں ؟ آپکے لیے ۔ تمھیں بتاوں جب وہ ہنستی ہے تو اسکی آنکھیں درد سے چیختی ہیں لیکن تم۔کیا جانو یہ بات تمھیں تو اپنی فکر ہے
صالح نے ہاتھ کھڑا کر دیا اور کہا بس ۔ مجھے اس سب میں کوئی لگاو نہیں بہرحال تم زرا رفتار کم کرو اپنی ۔ علی نے کہا خود پر بات آئی تو غصہ آگیا ۔ وہ بولا یار علی میں تم سے کہہ چکا ہوں مجھے یہ سب نہیں کرنا ۔ علی نے کہا سچ بتاو کیا وہ تمھیں پسند نہیں ؟ صالح نے لاحول واللہ کہا اور بولا
کیا فضول بات کرتے ہو وہ نامحرم لڑکی ہے ۔ علی نے کہا جو پوچھا اسکا جواب دو کیا تم بالکل نہیں سوچتے اسکے بارے میں ۔ وہ بولا بالکل نہیں سوچتا تم سب ہی بات کرتے ہو ۔ علی نے کہا اچھا تو تم نے خود کہا تمھارا دماغ تمھیں روکتا ہے اور دل بغاوت کرتا ہے ۔ صالح خاموش ہوگیا
علی نے کہا اچھا خیر مولوی صاحب بیٹھے رہو دیواریں چڑھا کر ۔ محبت خود ہی تھک ہار کر چلی جائے گی ۔ وہ اٹھ گیا ۔ صالح نے کہا رکو ۔ علی مڑا تو وہ بولا میں نہیں جانتا یہ سب کیسے ہوا ۔ کب میں اسے پسند کرنے لگا لیکن میں اسے سے کبھی اظہار نہیں کرونگا کبھی بھی نہیں ۔ علی نے کہا
انا پرست ہو تم اور کوئی بات نہیں خیر آرام کرو وہ کمرے سے چلا گیا ۔ صالح نے تکیے سے ٹیک لگا دی ۔ وہ اپنے الفاظ ہر غور کرنے لگا ۔ اس نے علی کے سامنے تو اقرار کر لیا تھا لیکن اب اسے پچھتاوا ہو رہا تھا اس نے ایسا کیوں کہا ۔ کیا میں انا پرست ہوں ۔ اس نے سر جھتکا اور وضو کے لیے اٹھ گیا
رخی نے ساوتری سے کہا اچھا اب سنو پہلی فرصت میں بھائی سے سوری کر لینا ۔ وہ کمرے میں موجود تھیں ۔ ساوتری نے کہا ٹھیک ہے کر لونگی ۔ تو رخی نے کہا دوسری بات جو سب مجھ سے کہا ہے بھائی سے مت کہنا تم میری بہن ہو دوست ہو کبھی غیر مت سمجھنا ۔ بھائی کو کہا تو وہ لحاظ نہیں کریں گے
ابھی تو ان پر عشق سوار ہے لیکن ایسی بات کی تو ایک منٹ میں جھاڑ دیں گے اسلیے احتیاط کرنا بس سوری کر کے بات ختم کر دینا اگر وہ کوئی ڈیمانڈ کریں تو سوچ کر بتاونگی کہہ کر نکل آنا وہاں سے ٹھیک ہے ؟ ساوتری نے سرہلایا تو رخی نے کہا میری بھابی اب تم ہی بنو گی لہذا مجھ سے دوستی رکھو جاری
رباب کتاب کھولے اپنی سوچوں میں گم تھی ندا نے اسکو دیکھا اور کہا اگر نہیں ہڑھا جا رہا تو لیٹ جاو ۔ وہ چونکی کیا کہہ رہی ہو ۔ ندا نے اپنی بات دوہرائی تو وہ بولی نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس ذھن بٹ گیا تھا ندا نے کہا ایک بات کہوں روبی ۔ وہ اسے دیکھنے لگی تو ندا نے کہا
محبت ہو جانا الگ بات ہے لیکن محبت مل جانا الگ بات ۔ کیا ہو اگر ہم دونوں کی شادی کہیں اور ہو جائے میں تو احمد کو بھول سکتی ہوں کیا تم صالح بھائی کو بھول سکتی ہو ۔ رباب نے اسے دیکھا اور کہا وقت اور حالات کافی کچھ سنبھال جاتے ہیں لیکن پہلی محبت بھولنا ناممکن چیز ہے
زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ پہلی چاہت آپکے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اور آپ صرف اسے محسوس کر سکتے ہیں میں صالح کو کبھی نہیں بھلا پاونگی ۔ لیکن تم نے کہا تم احمد کو بھلا سکتی ہو کیسے ؟ ندا نے کہا جب کوئی اور آپ کا محرم بن جائے تو اس سے وفاداری پوری ایمانداری سے نبھانے سے زخم نہیں رستے
میرے نذدیک یہ بھی ایک طرح کا شرک ہوا ۔ رباب نے کہا شرک کیسے ؟ ندا نے کہا کسی عورت کے لیے اسکا مرد خدا ہوتا ہے مرد میں یہ صفت اللہ تعالی کی جانب سے ہے اگر وہ عورت اپنے مرد سے ہٹ کر دوسرے مرد کا سوچے تو یہ شرک ہی ہوگا ۔ رباب نے کہا کیا بات کر رہی ہو تم شرک تو صرف اللہ تعالی کے ساتھ
کسی کو شریک کرنے میں ہے ۔ ندا نے کہا تم نے میری بات سنی ہے سمجھی نہیں میں نے کہا کسی عورت کے لیے اسکا مرد اسکے لیے خدا کا درجہ رکھتا ہے تم چاہو تو اس بارے میں ریسرچ کر سکتی ہو ۔ رباب چونکی ارے ریسرچ سے یاد آیا صالح نے ویب پیج بنایا ہے جہاں وہ قرآنی تعلیمات اور احادیث کو عملی
شکل دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ساتھ سوال جواب بھی کرتا ہے کیوں ناں یہ سوال اس سے کیا جائے ؟ ندا نے کہا اور جیسے وہ تمھیں جواب دے دے گا رباب نے کہا کیوں نہیں دے گا یہ علمی سوال ہے ؟ بلکہ رکو ابھی میسج کرتے ہیں ۔

صالح لیپ ٹاپ کھولے لوگوں کے سوالات دیکھ رہا تھا اور انکے جواب لکھ
رہا تھا ۔ ویب پیج پر لائیو چیٹ کا بھی آپشن تھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھا کہ اسکا موبائیل پر میسج آیا اس نے اسکرین کی جانب دیکھا ندا کا نام دیکھ کر وہ چونکا ۔ اس نے میسج اوپن کیا ۔ سلام کے بعد لکھا تھا صالح بھائی ایک سوال میں اٹک گئی ہوں جواب چاہیے
اس نے سلام کا جواب دیا اور لکھا پوچھو ۔ ندا کا جواب آیا ۔ بھائی کیا مرد میں خدائی صفات ہوتی ہیں ؟ صالح نے سوال پر غور کیا اور جواب لکھا میری ویب پیج پر سوال کرو یہ میں وہاں تفصیل بتا دیتا ہوں ۔ وہ پھر مصروف ہو گیا ۔ کچھ ہی دیر بعد لائیو چیٹ پر میسج آیا کوئی ویڈیو کال لینا چاہ رہا
ہے ۔ اس نے سوچا کیا یہ ندا ہے ؟ خیر اس نے اوکے کر دیا اسکرین پر رباب کا چہرہ دیکھ کر وہ گڑبڑا گیا ۔ اسے سمجھ نہیں آئی وہ کیا بولے رباب نے خود ہی سلام کیا ۔ اس نے سلام کا جواب دیا لیکن وہ اسے دیکھ نہیں رہا تھا ۔ رباب نے کہا کیسے ہیں آپ ۔ صالح نے کہا ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں
وہ بولی پہلے سے بہتر ہوں ۔ صالح خاموش رہا ساتھ ہی ندا سامنے آگئی وہ بولی بھائی اسلام علیکم ۔ اب وہ پوری طرح متوجہ ہو گیا وعلیکم السلام کیسی ہو بیٹا ۔ وہ بولی بھائی اس سوال کا جواب دے دیں کہ کیا مرد میں خدائی صفات ہوتی ہیں ؟ وہ بولا اصل میں سوال درست نہیں ۔ خدا کی صفت صرف خدا میں
ہیں ۔ جہاں تک مرد کی بات ہے تو اسکے پیچھے لاجک سے مجھے آگاہ کرو تو سوچوں بھائی کیا یہاں پوچھوں ؟ وہ بولا بالکل ۔ ندا نے کہا اگر کوئی عورت کسی کو پسند کرے لیکن اسکی شادی کہیں اور ہو جائے ۔ تو اس صورت میں وہ اپنے شوہر کے چھوڑ کر دوسرے مرد کا ہی سوچے تو کیا یہ شرک ہوگا
اگر شرک کہلائے گا تو سوال یہ ہی جنم لیتا ہے کہ کیا مرد میں خدائی صفات ہوتی ہیں ۔ صالح نے کہا اب سوال ٹھیک کیا تم۔نے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت کا شوہر اسکا محرم ہے اگر وہ اس سے وفادار نہیں تو یہ شرک نہیں بے وفائی کہلائے گی رہی خدائی صفات کی بات تو تمھاری بات درست ہے
مرد میں اللہ تعالی نے نگہبانی اور ذمےداری کا جذبہ رکھا ہے کوئی بھی مرد اپنی عورت سے دل و جان سے لگاو رکھتا ہے ایسے میں وہ اس چیز کا حقدار ہے کہ عورت اسکی وفادار رہے اگر عورت ایسا نہیں کر رہی تو وہ علامیہ شرک کرتی ہے اسکا حساب الگ سے ہے یعنی اللہ تعالی دو ایسے لوگوں کو سامنے لائے
گا بروز قیامت جو میاں بیوی ہونگے وہ ان سے کہے گا اب بتاو جب تمھارا شوہر تمھاری ساری ضرورتیں پوری کرتا تھا تو تم نے کیسے نامحرم کے بارے میں سوچا اور یہ ہی سوال وہ مرد سے بھی کرے گا کہ جب تمھاری عورت تم سے وفادار تھی تو تم۔کیسے دوسری نامحرم کا سوچتے رہے ۔
اب اسکی سزا بھگتو وہ دونوں نادم ہونگے کہیں گے ہم سے غلطی ہو گئی ہمیں معاف کر دیں تو اللہ تعالی فرمائے گا ٹھیک ہے پھر تم دونوں ایک دوسرے کو معاف کر دو اور اپنا حق حلال کرو وہ ایسا ہی ہی کریں گے تو اللہ کہے گا جاو معاف کیا ۔ یہ تو یہ علامیہ شرک کہلائے گا ۔ جب ہم قل ہو اللہ احد کہتے
یا پڑھتے ہیں تو اسکا لفظی ترجمہ ہے کہو کہ اللہ ایک ہے لیکن اسکا دوسرا مطلب بھی ہے اللہ تو ایک ہے لیکن وہ اکیلا بھی ہے تم اپنی بات کو اس طریقے سے سمجھو تو صیح سمت جاو گی ۔ مزید کچھ اس نے پوچھا ؟ ندا نے کہا نہیں بھائی اور کچھ نہیں اللہ آپکو خوش رکھے لمبی زندگی دے
اس نے انکا شکریہ ادا کیا اور لائن کاٹ دی ۔ صالح نے وقت دیکھا رات کے گیارہ بج رہے تھے اس نے سسٹم آف کر دیا اور سونے کے لیے لیٹ گیا

رباب نے کہا سن لیا لیکچر آگیا سکون ۔ ندا نے کہا ہاں تو رہنمائی ہو گئی یہ تو اچھی بات ہے لیکن تم نے یہ کیا حرکت کی ہے ؟ وہ بولی میں نے کیا کیا
ندا نے کہا یہ کیوں کہا پہلے سے بہتر ہوں ۔ رباب نے اسے آنکھ ماری اور بولی پتھر پر ضرب لگاتے رہنا چاہیے کبھی تو چٹخے گا ۔ ندا نے کہا تم ظالم بنتی جا رہی ہو میری نظر میں یہ اچھی علامت نہیں ۔رباب سنجیدہ ہو کر بولی اپنے الفاظ واپس لو اللہ نہ کرے میں ظالم بنوں میں تم سے مذاق کر رہی تھی
ندا نے کہا جو بھی ہے تم نے غلط کیا ۔ رباب نے کہا اچھا معاف کر دو غلطی ہو گئی مجھ سے ۔ ندا نے کہا سنجیدہ ہو جاو رباب زندگی میں پہلے ہی بڑی مشکلات ہیں اسکو اور مشکل میں مت لاو ۔ وہ خاموش رہی ندا نے کہا اچھا خیر اب سو جاو اداس مت ہو تم ورنہ۔مجھے نیند نہیں آئے گی ۔
رباب ہنسی اور بولی ارے نہیں اداس نہیں ہوں تم ٹھیک ہو ندا مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

تجہد کے وقت صالح اٹھ گیا اس نے انگڑائی لی اور وضو کے لیے اٹھ کھڑا ہوا نماز کے بعد اس نے قرآن کھول لیا ۔ اور دھیمی آواز میں سورة یسین کی تلاوت کرنے لگا ۔ تلاوت کے بعد اس نے قرآن کو بند کیا
اور دوبارہ لیٹ گیا اسکے ہاتھ میں تسبیح تھی وہ دل میں ذکر کرتا رہا پھر اسکی آنکھ لگ گئی ۔ اس نے خواب دیکھا وہ ایک صحرا میں بھٹک رہا ہے دور دور تک کوئی سائبان نہیں ہے اس کا گلا خشک ہو رہا ہے وہ بے چین سا ہے اور مدد کے لیے پکار رہا ہے ۔ پھر وہ نڈھال ہو کر گر گیا سورج کی تپش اسے
جھلسا رہی ہے ۔ اسکے خشک ہوتے لبوں سے یا اللہ نکلا ۔ اور تب ہی اسکی آنکھ کھل گئی وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا یا خدا یہ کیا تھا ۔ کیا مجھ سے کوئی گناہ ہو گیا ہے وہ سخت پیشمانی میں مبتلا ہو گیا ۔ وہ تیزی سے اٹھا اور پھر وضو کر کے نماز کے لیے کھڑا ہو گیا اسکا جسم کانپ رہا تھا
وہ روتا جاتا نماز پڑھتا جاتا تب ہی اسکے کمرے کا دروازہ کھلا اسکی والدہ کمرے میں داخل ہوئی وہ سجدے میں گرا رو رہا تھا اسکی والدہ پریشان ہو گئی میری جان کیا ہوا ۔ وہ نماز ادا کر کے اٹھا اور اپنی والدہ کے پاس بیٹھ گیا ماں مجھ سے کوئی گناہ ہو گیا ہے اسکی والدہ اور ہریشان ہوگئی
کیا ہو گیا صالح کیا کر دیا تم نے ۔ وہ بولا یہ ہی تو نہیں معلوم ماں مجھے ایک خواب آیا ہے اس نے اپنا خواب سنایا جسے سن کر اسکی والدہ نے کہا بیٹا برا خواب ہوگا کوئی ۔ پریشان مت ہو ۔ وہ بولا نہیں ماں مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے یہ وقت جب قبولیت کا ہے ایسے میں اس طرح کا
خواب ۔ اسکی والدہ نے اسے پیار کیا اور بولی بیٹا تم بھی انسان ہو فرشتے نہیں اگر کوئی انجانے میں غلطی ہو گئی ہے تو کفارہ ادا کرو صدقہ دو اپنا اللہ بہت رحیم ہے لیکن مایوس مت ہونا کبھی بہترین اجر صدقے میں ہے آج پہلا کام یہ ہی کرنا میں تمھارے لیے دعا کرونگی اب چپ کر جاو مجھے پریشان
مت کرو ۔ شاباش اٹھ جاو دیکھو اذانیں ہو رہی ہیں اٹھو فجر کی تیاری کرو ۔ وہ اٹھ گیا اور خاموشی سے مسجد کی جانب روانہ ہو گیا ۔ نماز کے بعد بھی وہ دیر تک مسجد میں بیٹھا رہا یہاں تک کہ امام مسجد اسکے پاس چلے آئے ۔ السلام علیکم برخوردار ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور سلام کا جواب دے کر انہیں
دیکھنے لگا ۔ امام مسجد نے کہا کیا بات ہے بیٹا مسافر ہو ۔ وہ بولا نہیں حضرت بس بے چین سا ہوں اس لیے یہاں بیٹھ کر ذکر کر رہا تھا ۔ وہ بولے سبحان اللہ ۔ کہاں کے ہو کہاں رہتے ہو ۔ اس نے اپنے بارے میں بتایا تو وہ خوش ہو کر بولے ماشاء اللہ تم تو کافی تعلیم یافتہ ہو ۔
لیکن مجھے تم پریشان لگ رہے ہو ۔ ایسا ہے تو مجھے بتاو ہو سکتا ہے تمھارے کسی کام آجاوں ۔ وہ دونوں بیٹھ گئے صالح نے اپنا خواب امام مسجد کو سنایا جسے سن کر وہ بولے یہ تو تم کو معلوم ہے کہ خوابوں کی تعبیر الٹ بھی ہوتی ہے سب کی نہیں مگر بیشتر خواب اس سے برعکس ہوتے ہیں تم یوں سوچو
صالح نے کہا حضرت لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ مجھ سے کچھ ایسا ہوا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا اب وہ کیا ہے یہ میں نہیں سمجھ پا رہا ۔ مجھے ایک پل کے لیے لگتا ہے کہ میں معاملے تک پہنچ گیا ہوں لیکن پھر دماغ سپاٹ ہو جاتا ہے اور واپس بے چینی شروع ہو جاتی یے ۔ امام مسجد نے کہا
تم استخارہ کیوں نہیں کر لیتے ۔ وہ چونکا یہ تو میں بھول ہی گیا امام مسکرایا اور بولا دیکھو اللہ نے مجھے تمھاری پریشانی کا وسیلہ بنایا اب تم کو یہ کام پہلے کر لینا چاہیے ۔ صالح نے انکا ہاتھ تھام اور کہا محترم میری والدہ تہجد گزار ہیں کیا یہ استخارہ میں ان سے کروا سکتا ہوں
وہ بولے کیوں نہیں بہتر ہے انہی سے کراو ماں کے قدموں تلے جنت کا تو سب کو معلوم ہے لیکن ماں وہ وکیل ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے دلیل دینے کی اجازت بھی رکھتی ہیں تم ان سے استخارہ کرواو ان شاء اللہ سب اچھا ہو گا ۔ صالح نے انکا شکریہ ادا کیا اور دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے
وہاں سے اٹھ گیا ۔ صبح کے آٹھ بج چکے تھے ۔ وہ گھر کی جانب چلنے لگا سوسائٹی میں مڑتے ہی اسے ایک آواز سنائی دی دل دریا سمندروں ڈونگے تے دل دیاں دل ہی جانے ہو وہ رک گیا ۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک بارہش بزرگ ہاتھ میں کاسہ اور پیالہ لیے چلے آرہے تھے وہ ایک طرف کھڑا ہو گیا
بزرگ کے پاس آنے پر صالح نے انہیں سلام کیا ۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا جو چاہتے ہو وہ ملے گا جو ملے گا وہ مایا ہے اور آگے بڑھنے لگے ۔ صالح لپک کر انکے آگے آگیا اور بولا محترم میں سمجھا نہیں وہ پھر بولے جو مایا ہے وہ اصل کی جانب جائے گا جب اصل کی جانب جائے گا تو مراد پاوگے
صالح الجھ گیا ۔ انہوں نے مسکرا کر کہا صالح نور محمد تم سے غلطی تو ہوئی ہے اور ہر غلطی کا کفارہ ہے جاو اور کفارہ ادا کرو ۔ صالح حیرت سے انہیں دیکھنے لگا آپ کو میرا نام کیسے پتا چلا ۔ وہ بولے تم جب حافظ بنے تھے تب سے جانتا ہوں تمھیں ۔ وہ بولا کیا آپ میرے گاوں کے ہیں
وہ مسکرائے اور بولے نہیں بیٹا میں مسافر ہوں ایک طرف سے آتا ہوں اور دوسری جانب چلا جاتا ہوں ۔ صالح نے کہا آپ نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے میں نے ایسا کیا کیا ہے کیا آپ جانتے ہیں ۔ اگر جانتے ہیں تو بتائیں میں کفارہ دینے کو تیار ہوں ۔ وہ بولے چاہے جتنی مرضی بڑی قیمت ہو ؟
وہ بولا بالکل میں ہر قیمت دینے کو تیار ہوں لیکن میں اللہ کی ناراضگی کا۔متحمل نہیں ہو سکتا مجھ پر رحم کریں اور مجھے بتائیں ۔ وہ بولے تمھاری وجہ سے کسی معصوم کی آنکھ سے آنسو گرا ہے وہ ایک آنسو تمھاری ساری زندگی داو پر لگا سکتا ہے اب جاو اس آنسو کو صاف کرو اللہ تمھیں معاف کرے گا
صالح نے کہا بزرگو میں نے آج تک کسی کا دل نہیں دکھایا یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ صالح نور محمد تم نے صرف دل نہیں دکھایا بلکہ اسے توڑ کر رکھ دیا ہے بلھے شاہ نے فرمایا ہے

مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
پر کسی دا دل ناں ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا

اور تم نے وہ دل گرا دیا
اب جاو اس سے معافی مانگو اگر وہ معاف کر دے تو اللہ بھی معاف کر دے گا صالح نے کہا وہ کون ہے یہ تو بتا دیں بزرگ نے یا حق کا نعرہ لگایا اور آگے بڑھ گئے صالح انہیں روکنا چاہتا تھا لیکن ناں روک سکا وہ وہیں بت بن کر کھڑا رہا بزرگ کے گلی مڑنے پر اسے جھرجھری آئی وہ تیزی سے آگے بڑھا
لیکن بزرگ کہیں ناں دیکھائی دئیے ۔ یہ سب کیا تھا وہ کہاں چلے گئے وہ زیر لب بڑبڑایا ۔ کس کا دل توڑ دیا میں نے یا خدا ۔ یہ کیسا امتحان ہے وہ گلی کے نکڑ پر لگے درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھ گیا تب ہی اسکے موبائل کی گھنٹی بجی وہ چونکا اس نے موبائل نکالا علی کال کر رہا تھا
اس نے فون ریسیو کیا سلام کر کے بولا خیریت ؟ او بھائی کہاں رہ گیا کیا باقی نمازیں بھی پڑھ کر آنا ہے ۔ وہ بولا بس آرہا ہوں علی نے کہا جلدی آجا بھائی بہت بھوک لگی ہے سب انتظار کر رہے ہیں ۔ اس نے اوکے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا

رباب سو رہی ہو ۔ ندا نے اسے ہلایا وہ کسمسا کر اٹھی کیا ہوا
ندا نے کہا اٹھو ٹائم دیکھو کیا ہو رہا ہے شاباش اٹھو ۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ندا نے کہا تمھاری آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہیں وہ اسے تشویش سے دیکھنے لگی ۔ رباب نے کہا اچھا ایسا ہے کیا ؟ ندا نے کہا ہاں اٹھو منہ یاتھ دھو لو وہ بستر سے اتر گئی ندا نے کہا فریش یو جاو میں بستر ٹھیک کرتی ہوں
وہ سر ہلا کر آگے بڑھ گئی ندا اسکا بستر درست کرنے لگی ۔ اس نے تکیے کو اٹھایا تو چونک گئی کمرے میں اے سی چل رہا تھا پسینہ آنے کا تو چانس نہیں تو کیا یہ روتی رہی ہے وہ فکر مند ہو گئی ۔ اس نے تکیے کا غلاف اتار دیا اور الماری سے دوسرا غلاف چڑھانے لگی ۔ رباب باہر نکلی تو بولی
کیا کر رہی ہو ۔ ندا نے کہا کیا تم روتی رہی ہو ۔ رباب نے حیرت سے کہا نہیں تو کس نے کہا ۔ ندا نے غلاف آگے کیا یہ گیلا کیوں ہے ؟ رباب نے کہا ایسی تو کوئی بات نہیں حیرت ہے مجھے تو معلوم نہیں ۔ ندا نے کہا سچ کہہ رہی ہو وہ بولی ارے ہاں بابا اب چلو مجھے بھوک لگی ہے اسے رکھ دو یہاں ہی
ندا نے غلاف ایک طرف رکھ دیا وہ دونوں باہر نکلی اور ناشتے کی میز پر آ بیٹھی ۔ ندا کی والدہ نے کہا اٹھ گئی میری شہزادیاں اب زخم کیسا ہے روبی ۔ وہ بولی تائی جان اب تو ٹھیک ہے ۔ چلو شکر ہے باقی سب کہاں ہیں ماما ندا نے پوچھا ۔ وہ بولیں حمزہ اور قاسم واک پر گئے تھے آنے والے ہونگے
تمھارے بابا کام پر اور تمھاری چچی کمرے میں ہیں آتی ہونگی ۔ بولو کیا بناوں ۔ روبی نے کہا ارے آپ رہنے دیں ہم کر لیں گے وہ بولیں نہیں بتاو مجھے ۔ ندا نے کہا ماما کبھی مجھ سے بھی پوچھ لیا کریں بیٹی میں آپکی ہوں یہ خواہمخواہ نازل ہوئی ہے ۔ رباب ہنس کر بولی ہو گئی جیلیس
تب بھول جاتی ہو جب میری ماما تمھارے لاڈ اٹھاتی ہیں ہر چیز کا بدلہ ہوتا ہے تم نے میری ماما کو ہتھیایا میں نے تائی جان کو ۔ ندا ہنسی اور بولی سچ میں الٹا سسٹم ہے کیا ہم تبدیل تو نہیں ہوگئے تھے ہسپتال میں ۔ وہ سب ہنسنے لگے ۔ رباب کی والدہ بھی آگئی ماشاء اللہ صدا خوش رہو
انہوں نے ندا کو پیار کیا تو رباب نے کہا دیکھ لیا اب تو یقین ہونے لگا ہے ہم تبدیل ہوئے ہیں ۔ وہ بولیں کیا مطلب ۔ ندا نے انہیں بات بتائی تو وہ بھی ہنس کر بولی ارے دونوں جان ہو ہماری کیوں آپا ؟ ندا کی والدہ نے کہا چھوڑو انہیں خود تو پاگل ہیں ہمیں بھی کنفیوز کرتی ہیں
رباب نے اپنے لیے جوس نکالا اور بولی ماما بابا کا فون نہیں آیا ۔ وہ کہنے لگی ہاں رات میں آیا تھا تم سو گئی تھی کب کھل رہے تمھارے کالج ندا ۔ وہ بولی اگلے ہفتے چچی جان ۔ رباب نے کہا دل چاہتا ہے کل ہی کھل جائیں سب دوست یاد آتے ہیں وہ بونگا احمد بھی وہ ندا کو دیکھ کر مسکرائی
ندا نے اسے گھورا وہ کہنے لگی صالح سر کی کلاس بھی یاد آتی ہے اسکی والدہ بولی وہ تو ہمیں بھول ہی گیا ۔ کہتا تھا آیا کرونگا ۔ پیارا بچہ ہے قابل تحسین ۔ ندا نے کہا چچی جان بھائی بہت مصروف ہوتے ہیں کوئی ایک کام ہو تو بتاوں آپکو ہر کام میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے جیسے یہ سب انکی ذمےداری ہے
رباب نے کہا اب ایسا بھی نہیں ہے خود کو سپرمین سمجھتے ہیں ۔ وہ بولی جی نہیں تمھیں تو ہر کسی سے مسلہ ہے ۔ ندا کی والدہ نے کہا اچھا بس پھر شروع ناں ہو جاو ناشتہ کرو اور کام کراو گھر کے آج ۔ دونوں ایک ساتھ بولی ۔ ہمیں درد ہو رہا ہے ایک بار پھر سب ہنسنے لگی ۔ جاری ہے
صالح گھر پہنچا تو سب اسی کے منتظر تھے وہ سب کو سلام کر کے بیٹھ گیا اسکی والدہ نے پوچھا کہاں رہ گئے تھے ۔ وہ کہنے لگا ماں بس مسجد میں ہی تھا امام مسجد سے بات چیت کر رہا تھا ۔ رخی بولی بھائی اتنی بھوک لگی ہوئی ہے مجھے وہ بھی آپکی وجہ سے ۔ وہ مسکرایا اور بولا معاف کر دو گڑیا
دھیان نہیں رہا مجھے چلو شروع کرتے ہیں وہ سب ناشتہ کرنے لگے علی نے اسے دیکھا دونوں کی نظریں ملی وہ مسکرا دیا لیکن علی کو یقین ہو گیا کوئی مسلہ ہوا ہے وہ خاموش ہی رہا ساوتری سر جھکائے ناشتہ کر رہی تھی ۔ نور محمد نے کہا میں یہ سوچ رہا ہوں ہم یہاں کریں گے کیا اتنے دن
رخی فوراً بولی کچھ بھی نہیں کریں گے بس یہاں ہی رہیں گے نور محمد ہنس کر بولا او دھی رانی گاوں میں بہت کام ہوتے ہیں غضنفر دفتر جائے گا بھابی اور تمھاری آنٹی کی تو سمجھ آتی ہے میں کیا کرونگا یہاں ؟ علی نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن دو تین دن تو رک سکتے ہیں اس سے کچھ نہیں ہوتا
اور رہی بابا تو وہ تو چھٹی بھی کر سکتے ہیں شہر گھومیں تھوڑا ۔ صالح خاموشی سے انکی باتیں سن رہا تھا اسکی والدہ اسے دیکھ رہی تھی اس نے ناشتہ ختم کیا اور ان سے معذرت کر کے اپنے کمرے میں آگیا ۔ وہ بستر پر لیٹ گیا میں نے دل توڑا لیکن کس کا ؟ اسی لمحے رباب کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے
آگیا ۔ وہ اٹھ بیٹھا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے اسے کوئی آس نہیں دلائی ۔ تب ہی فون کی گھنٹی بجی اس نے اسکرین پر دیکھا تو احمد کا نمبر تھا اس نے فون اٹھا لیا السلام علیکم وہ بولا ۔ احمد نے سلام کا جواب دیا بھول گئے ناں مجھے یہ اچھا بھائی چارہ ہے آپکا ۔ وہ ہنسا کب بھولا ہوں
وہ ناراض لہجے میں کہنے لگا بس کریں اتنی یاد آتی تو ایک فون تو کرتے آخر مجھے ہی کرنا پڑا ہے ۔ صالح نے اس سے معذرت کی اور کہا یار بھولا نہیں مصروفیت بہت زیادہ ہو گئی ہے تم کیسے ہو گھر میں سب کیسے ہیں ۔ وہ بولا میں ٹھیک ہوں بھائی آپ سنائیں آپکی طرف کیا حالات ہیں
صالح نے کہا یہاں سب ٹھیک ہیں سب شہر ہی آئے ہوئے ہیں ۔ وہ بولا ارے واہ اس کا مطلب ہے کہ میری ملاقات انکل اور آنٹی سے ہو سکتی ہے ۔ صالح نے کہا ضرور ہو سکتی اگر تم کل تک آسکو کیونکہ بابا واہس چلے جائیں گے دو دن میں ۔ وہ کہنے لگا آج رات ہی پہنچ جاونگا ۔ صالح نے کہا انتظار کرونگا
احمد نے کہا اور مزاج یار کیسے ہیں ۔ صالح نے کہا تمھاری طرف کے ؟ وہ زور کے ہنسا اور بولا خوش مزاج ہو گئے ہیں آپ تو رباب سنے گی تو کتنا خوش ہوگی ۔ صالح نے کہا اچھا بس ۔ جب آو گے تب بات کریں گے وہ بولا ٹھیک ہے بھائی کل ان شاء اللہ ملاقات ہو گی اس نے فون بند کر دیا ۔
صالح واپس اپنی سوچوں میں آگیا ۔ میں نے رباب کو آس دلائی نہیں تو اسکا دل کیسے ٹوٹ سکتا ہے وہ اسی شش و پنج میں مبتلا رہا ۔ ادھر علی نور محمد سے بولا مجھے آپ دونوں سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔ ساوتری کا سانس رک گیا ۔ صالح کی والدہ بولی ایسی کیا بات ہے اور تم اتنے سنجیدہ کب سے ہوگئے
وہ بولا مسلہ بھی سنجیدہ ہے آنٹی ۔ اسکی والدہ نے کہا کیا بات ہے علی ۔ اس نے رخی اور ساوتری کو دیکھا اور بولا تم دونوں کا ناشتہ ختم ہو گیا تو جا سکتی ہو ۔ رخی نے ساوتری سے کہاں آو ہم چلیں ۔ علی کے والد نے کہا کیا مسلہ ہے علی سسہنس کیوں بنا رہے ہو ۔ علی کی والدہ نے کہا
لگتا ہے لڑکی نہیں مان رہی ۔ وہ ہنسا اور بولا یہ میری بات نہیں ہے ماما صالح کی ہے ۔ وہ سب چونک گئے کیا مطلب ؟ علی نے مختصر انہیں رباب اور صالح کا بتایا اور پھر بولا صورتحال یہ ہے کہ صالح اسے پسند کرتا ہے لیکن وہ آپ کی مرضی کا پابند ہے اس سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ اس بے آج تک رباب سے
کچھ کہا بھی نہیں اور ناں وہ کہنا چاہتا ہے دوسری جانب رباب ہے آنٹی آپ اس لڑکی کو دیکھیں تو ڈر جائیں وہ اندر سے گھل رہی ہے اسے اس بات کا احساس بھی نہیں وہ بھی اپنے والدین کی پابند ہے لیکن ایک امید کی کرن یہ ہے کہ اگر آپ صلح کے لیے اسکا ہاتھ مانگ لیں تو اس کے گھر والے انکار نہیں
کریں گے اس بات کی گارنٹی میری ہے ۔ اسکے والد فوج میں ہیں میری ان سے بات ہوئی ہے انہیں کوئی مسلہ نہیں ہے مسلہ صالح کا ہے ۔ اگر اسے معلوم ہوا کہ ہم ایسا کر رہے ہیں تو وہ انکار کر دے گا کیونکہ کچھ بھی ہو وہ ہاں پروفیسر ہے اور قاری بھی اسے اپنی عزت بہت عزیز ہے ۔ یہ مسلہ ہے
نور محمد نے لمبی سانس کھینچی اور کہا ۔ آجکل کے زمانے میں اولاد اتنا سوچتی نہیں جتنا وہ بچی اور صالح سوچ رہے ہیں صرف اسلیے کہ انکے والدین کی عزت خراب ناں ہو ۔ علی نے کہا میں نے آہکو روکا بھی اسی لیے ہے اگلے ہفتے کالج کھل جائیں گے اس وقت ہم رباب کی بھی لاعلمی میں وہاں جائیں گے
میں ان دونوں کو بے خبر ہی رکھنا چاہتا ہوں آپ لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ۔ صالح کی والدہ نے کہا میں تو کب سے اسے شادی کا پوچھ رہی ہوں وہ ٹال رہا ہے اگر وہ لڑکی اتنی ہی قابل ہے تو ہمیں اعتراض کیوں ہوگا ۔ علی نے کہا آنٹی یقین جانیں اس لڑکی نے خود کو اتنا بدل لیا ہے کہ آپ یقین
نہیں کریں گی ۔ پہلے وہ ایک خوش مزاج اور بولڈ لڑکی ہوا کرتی تھی اب وہ خاموش ہو گئی ہے یہ صرف روگ پالنے سے ہو رہا ہے ۔ نور محمد نے کہا تم۔کیسے کہہ سکتے ہو صالح اسے پسند کرتا ہے ۔ وہ مسکرایا اس نے اعتراف کیا یے میرے سامنے لیکن ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ کبھی اس سے اظہار نہیں کرےگا
ٹھیک ہے پھر میں رک جاتا ہوں ۔ یہ معاملہ بھی اہم ہے علی نے سکون کا سانس لیا ۔ اور بولا شکریہ آپ دونوں کا ۔ یقین جانیں میں بڑا پریشان تھا کہیں آپ لوگ انکار ناں کر دیں ۔ صالح کی والدہ نے کہا تم نے اتنی تعریف کی ہے لڑکی کی کہ مجھے اشتیاق ہو رہا ہے اسے دیکھنے کا ۔ علی نے کہا
جہاں تک دیکھنے کی بات ہے تو اس کا الگ سے سوچیں گے کیونکہ پہلے گھر والوں کو آپس میں ملنا چاہیے سمجھنا چاہیے ایک دوسرے کو اگر معاملہ آگے بڑھتا ہے جو بڑھے گا تو پھر اس سے بھی مل لینا آپ ۔ سب نے سر ہلا دئیے علی کی والدہ نے کہا کمال ہے ویسے تم کب سے ان چکروں میں پڑ گئے
وہ ہنسا اور بولا صالح کی بات ناں ہوتی تو مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی آپ سب جانتے ہیں میں کتنا سیلف میڈ انسان ہوں ۔

ادھر ساوتری اپنے ناخن چبا رہی تھی رخی نے کہا اب بس بھی کرو لازمی نہیں تمھاری بات ہی ہو رہی ہو بھائی کا کوئی اور مسلہ بھی ہو سکتا ہے ۔ ساوتری نے کہا مجھے ڈر لگ رہا ہے
رخی ہنسی اور بولی اگر بات تمھاری ہوتی تو بھائی نے سب کے سامنے کہہ دینا تھا اور دیکھ لینا ایسا ہی ہو گا میں جانتی ہوں اپنے بھائی کو ۔ یہ کچھ اور معاملہ ہے مجھے تجسس ہو رہا ہے علی بھئی اتنے سنجیدہ نہیں ہوتے کبھی کہیں یہ صالح بھائی کا مسلہ ناں ہو ۔ کیا تم نے محسوس کیا
آج صالح بھائی بالکل خاموش تھے ۔ ساوتری نے کہا ہاں یہ تو بات ہے وہ بولی اللہ خیر کرے کسی کی نظر ناں لگ جائے میرے بھائی کو ۔ اچھا چلو ان کے پاس جاتے ہیں ۔ وہ دونوں صالح کے کمرے کی جانب بڑھ گئی دروازے پر پہنچی تو انہیں تلاوت کی آواز سنائی دی ۔ ساوتری بولی میرے خیال سے انہیں تنگ نہ
کریں ۔ رخی نے دروازے پر دستک دی ۔ صالح نے کہا آجاو ۔ وہ دونوں اندر داخل ہوئی صالح انکو دیکھ کر اٹھ گیا ۔ ارے ماشاء اللہ آو آو ۔ اس نے قرآن بند کر کے ایک طرف رکھ دیا ۔ رخی نے کہا سوری بھائی آپ کو ڈسٹرب کیا ۔ وہ بولا ایسی کوئی بات نہیں فارغ وقت میں ہمیشہ قرآن پڑھنا چاہیے
بیٹھ جاو کیوں کھڑی ہو ۔ وہ دونوں بیٹھ گئی صالح نے کہا خیریت ہے کوئی بات ہے ۔ وہ بولی آپ کی طبعیت ٹھیک ہے ناشتے پر بھی خاموش تھے وہ بولا ارے مجھے کیا ہونا ہے تمھارے سامنے ہوں ساوتری نے کہا عموماً آپ خاموش ہوتے نہیں صالح ہنسا اور بولا تمھارا مطلب ہے میں بہت بولتا ہوں
وہ بھی ہنسنے لگی اور بولی نہیں اتنا تو نہیں لیکن سب کے درمیان تو خاموش نہیں ہوتے ۔ وہ کہنے لگا تم لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے تب ہی دروازہ کھلا علی اندر داخل ہوا ان کو بیٹھا دیکھ کر رک گیا اچھا محفل لگی ہے چلو میں بعد میں آجاونگا ۔ وہ واپس مڑنے لگا تو رخی نے کہا ایک منٹ
وہ رک گیا ۔ ایسی کیا بات ہے جو ہمارے سامنے نہیں ہو سکتی نیچے بھی آپ نے ایسے ہی کیا اب پھر وہی کر رہے ہیں ۔ صالح نے کہا کیا اس نے ۔ وہ بولی بھائہ نے ہم دونوں کو وہاں سے اٹھا دیا اور خود سب سے پتا نہیں کیا بات کرنے لگے ۔ علی نے کہا کوئی خاص بات نہیں تھی ایک مسلہ تھا میرا اس پر
بات ہو رہی تھی البتہ تم لوگوں کا وہاں کوئی کام نہیں تھا اسلیے جانے کو کہہ دیا ۔ صالح نے پوچھا کیا مسلہ ہے تمھارا مجھے بھی معلوم ہو ۔ وہ بولا دفتری مسلہ تھا یار دراصل بابا کے آفس کا مسلہ میرے محکمے کو آیا ہے اس پر ہی بات کرنی تھی خیر میں چلتا ہوں مجھے ایک دو کام نمٹانے ہیں
پھر ملتے ہیں وہ اٹھا اور باہر نکل گیا ۔ رخی نے ساوتری سے کہا یہ ہی موقع ہے جاو اور معافی مانگ لو بھائی سے ساوتری نے صالح کو دیکھا اس نے بھی سر ہلایا وہ اٹھ کر اسکے پیچھے چلی گئی ۔ علی سیڑھیوں پر تھا کہ ساوتری نے اسے آواز دی وہ رک گیا ۔ کیا بات ہے ؟ وہ بولی میں آپ سے اپنے روئیے
کی معافی چاہتی ہوں جو کل رات ہوا مجھے وہ نہیں کرنا چاہیے تھا آپ میری وجہ سے دل چھوٹا ناں کریں ۔ علی مسکرایا آہاں لیکن مجھے تو یاد نہیں کل کیا ہوا تھا ۔ اسکا موڈ ایک دم فریش ہو گیا ساوتری نے کہا دیکھیں علی میں آپکو اور آپ مجھے نہیں جانتے آپ کے فیصلے کی قدر کرتی ہوں لیکن مجھے وقت
چاہیے اس بارے میں ۔ علی نے ہاتھ کھڑا کیا اور بولا بھول جاو مجھے کوئی جلدی نہیں ہے میں تم سے ناراض تھا یہ سچ ہے مگر اب نہیں ہوں فکرمند مت ہو پہلی بار کسی کو پسند کیا ہے اس لیے آداب سے واقف نہیں ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم مجھے ٹھکراو بھی نہیں اور ناں ہی اگنور کرو اگر تم مطمعن نہیں
ہوتی تو اس پر بات ہو سکتی ہے ساوتری نے سر ہلا دیا وہ بولا اوکے پھر خدا حافظ وہ آگے بڑھ گیا

رباب کی والدہ نے ندا کی والدہ سے کہا رات تمھارے بھائی کا فون آیا تھا ۔ صالح کے گھر والے یہاں آنا چاہ رہے ہیں ۔ ندا کی والدہ نے حیرت سے دیکھا اور پوچھا کس لیے ؟ وہ بولیں رباب کے لیے
وہ کہنے لگی ارے یہ کب ہوا ؟ وہ بولیں مجھے بھی نہیں معلوم بس رات فون آیا تھا کہ صالح کے گھر والے آئیں گے فی الحال بچوں کو اس کا معلوم نہ ہو ۔ ندا کی والدہ نے کہا تو کیا وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ؟ رباب کی والدہ نے کہا مجھے نہیں معلوم اگر ایسا ہے تو سمجھ نہیں آرہی کیا کروں
صالح ایسا تو نہیں لگتا مجھے آپا ۔ ہاں مجھے بھی یقین نہیں آرہا تو اب ؟ وہ بولیں اب کیا اگلے ہفتے انکے کالج کھل جائیں گے اسی دوران وہ لوگ آئیں گے کرنل صاحب خود بھی ہونگے اور بھائی صاب کو بھی پابند کیا ہے تب ہی معلوم ہو گا ۔جہاں تک اپنی بچیوں کی بات ہے تو ہم نے انکی تربیت ایسی نہیں
کی ہوئی کہ وہ ایسے کام کریں ۔ ندا کی والدہ بولی زمانے کےحساب سے ایسا ہونا کوئی بڑی بات بھی نہیں اگر صالح جیسا لڑکا رباب کے لیے موجود ہے تو دیر ہی نہیں کرنی چاہیے ہمیں ۔ ویسے بھی ہم اضافی سوچ رہے ہیں ہو سکتا ہے بڑوں نے خود ہی فیصلہ کیا ہورباب کی والدہ نے کہا بات یوں بھی نہیں ہوتی
لیکن الجھن یہ ہے ناں صالح پر شک کیا جا سکتا ہے اور ناں ہی رباب پر بس یہ الجھن ہے ۔ چلو وہ آئیں گے تو معلوم ہو جائے گا لیکن انکی ہڑھائی کا کیا ہوگا ؟ وہ بولیں یہ بھی قبل از وقت ہے سوچنا پہلے انہیں آنے دیں پھر دیکھیں گے ۔ ہاں ٹھیک ہے بس بچیوں کو ابھی معلوم ناں ہو بات ختم ہو گئی
ساوتری آجکل بڑی بے چین تھی وہ ایک ہندو لڑکی تھی لیکن اب وقت کا دھارا بدل رہا تھا آج کل وہ اسلام کے بارے میں پڑھ رہی تھی رخی اسکی کافی مدد کر رہی تھی رہنمائی کے لیے صالح موجود تھا بس بے چینی یہ تھی کہ علی کو کیا جواب دے ۔ اس کا دماغ کہتا تھا کہ ابھی رہنے دے اور دل کہتا تھا
کہ ہاں کر دے اس میں کمی کیا ہے آخر ۔ ہینڈسم ہے پڑھا لکھا ہے سرکاری جاب ہے ۔ رخی اسے خیالوں میں کھوئی دیکھ کر بولی کیا سوچ رہی ہو ۔ وہ بولی کچھ نہیں سوچ رہی ہوں ساری زندگی ضائع کر دی لیکن حق کا راستہ نہیں پہچانا ۔ رخی نے کہا تم بہت خوش قسمت ہو تمھیں لوگ اچھے مل گئے ورنہ آجکل
جو حالات ہیں اس میں تمھارے لیے بڑی مشکل ہوتی ۔ ہمارے ملک میں بےسہارا خواتین کا کوئی مستقبل نہیں ۔ ساوتری نے کہا تم ٹھیک کہہ رہی ہو ویسے میں اب تیار ہوں صبح بی بی بی جی سے بات کرونگی ۔ رخی خوش ہو گئی اور بولی ماشاء اللہ اللہ قبول فرمائے یقین جانو میں تم سے جیلس ہو رہی ہوں
ساوتری نے پوچھا وہ کیوں ؟ رخی نے کہا ہم پیدائشی مسلمان ہیں لیکن تم ہم سے افضل ہو جاو گی تم ایک نو مسلم ہو گی تمھارے سارے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے تم نے مکمل ہو جانا ہے اسکے بعد تمھاری اصل زندگی شروع ہو گی یعنی بالکل ویسے جیسے کسی ننھے بچے کی گناہوں سے پاک زندگی
اور صالح بھائی کہتے ہیں ناں کہ انسان نیوٹرل پیدا کیا گیا ہے اپنے اچھے اور برے اعمال اسکی پہچان بنیں گے تو تم یہ یاد رکھنا اب ۔ تمھاری تقدیر اور تدبیر تم کو عرش پر لے جا سکتی ہے اور فرش پر بھی لا سکتی ہے ۔ کبھی غرور ناں کرنا ہمیشہ سر تسلیم کرنا سچ بولنا چاہے جتنی بھاری قیمت دینی
پڑے ۔ باقی تو صالح بھائی ہیں ہمارے لیے اچھے رہنما ۔ وہ اس سے لپٹ گئی یہ خوشخبری ابھی سنائیں گے سب کو ڈنر کے دوران ۔ ساوتری نے کہا پہلے بی بی جی کو بتانا چاہتی ہوں ۔ رخی نے کہا یات سب ہونگے وہاں علی بھائی تو جھوم اٹھیں گے یہ سن کر ۔ وہ بولی اسلیے تو کہی رہی ہوں
رخی نے کہا بس بس میرے بھائی کو خوش ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی تم ۔ وہ بولی ایسی بات تو نہیں مجھے بس ڈر ہے وہ کچھ زیادہ جوش میں ناں آجائیں رخی ہنسنے لگی اور بولی اب اتنے بھی وہ بےوقوف نہیں سب کے سامنے ایسا کریں ہاں الگ کچھ کہیں تو الگ بات ہے وہ شرارت سے بولی ۔ ساوتری شرما گئی
چلو اٹھو نیچے چلتے ہیں ویسے بھی وقت ہو گیا ہے وہ دونوں کمرے سے نکل کر نیچے آئی سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے انہیں آتا دیکھ کر صالح نے کہا بس تم لوگوں کی کمی تھی ۔ رخی نے کہا آہ سب کے لیے سرپرائز ہے ۔ وہ سب متوجہ۔ہو گئے ۔ رخی نے کہا ساوتری کچھ کہنا چاہتی ہے آپ سب سے وہ گڑبڑا گئی
صالح کی والدہ نے کہا کیا بات ہے بیٹی ۔ وہ آہستہ سے چلتی ہوئی انکے پاس آئی اور انکے قدموں میں بیٹھ کر انکے ہاتھ چوم کر بولی میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں اور اسکے لیے بالکل تیار ہوں ۔ صالح نے کہا ماشاء اللہ اللہ اکبر سب ایک دم سے پرجوش دیکھائی دینے لگے ۔ علی نے کہا کیا واقعی
اس نے سر ہلایا تو وہ بولا تو دیر کس بات کی ہے چلو مولوی صاب شروع ہو جاو صالح ہنس کر بولا زرا رکو پھر ساوتری سے بولا کیا تم کو یقین ہے ؟ وہ بولی جی بھائی اچھا تو پھر وضو کر لو رخی نے کہا آو میرے ساتھ صالح خود بھی اٹھ گیا میں بھی وضو کر لوں کچھ ہی دیر بعد صالح اسے کلمہ پڑھا رہا تھا
نور محمد بہت خوش تھا وہ بولا آج یہ کمی بھی پوری ہو گئی ادھر آ میری دھی رانی میرے پاس ۔ وہ انکے پاس گئی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے آج سے تمھارا نام فاطمہ ہے فاطمہ نور محمد وہ ان سے لپٹ کر رونے لگی بابا میں آپکی قرض دار رہونگی ہمیشہ ۔ نور محمد نے کہا چل جھلی بیٹیاں کب باہ کی قرضدار ہوتی
ہیں وہ تو رحمت ہیں ۔ تمھیں معلوم ہے فاطمہ کس کا نام ہے ؟ وہ انہیں دیکھنے لگی وہ بولے ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کا نام ۔ سب سے افضل ناموں میں سے ایک نام اسکے بعد سب نے اسے پیار دیا علی ایک طرف بیٹھا اسے دیکھی جا رہا تھا ۔ رخی نے اسے کہونی ماری
سنبھالیں خود کو وہ سنبھل گیا ۔ صالح نے کہا کل ہم میلاد کا اہتمام کریں گے اور صدقہ خیرات دیں گے سب خوش ہو گئے ۔ علی نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے ویسے بھی کل جمعہ ہے اچھا ہے صالح نے کہا کل احمد بھی آرہا ہے اچھا ہے وہ بھی شامل ہو جائے گا علی نے کہا میرے خیال سے شیخ صاحب کو دعوت دینی چاہیے
صالح نے کہا ہاں بالکل انکے تمام گھر والوں کو بلا لیتے ہیں اچھا ہے ان سے کیا وعدہ پورا ہو جائے گا وہ بھی بابا سے مل لیں گے ۔ سب طے ہو گیا علی نے کہا اب کیا کریں وہ زیادہ ہی پرجوش تھا ۔ رخی نے کہا ڈنر کریں گے اور آرام کریں گے وہ شرمندہ ہو گیا ہاں وہی کہہ رہا ہوں ڈنر کرتے ہیں
شیخ صاحب کے فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو صالح کا فون تھا انہوں نے فون اٹھایا سلام دعا کے بعد پوچھا کیسے ہو برخوردار ۔ صالح نے کہا آپکی دعائیں ہیں شیخ صاحب ۔ آپ کیسے ہیں وہ بولے الحمدللہ ۔ صالح نے کہا آپ کو کل زحمت دینی تھی انہوں نے ہوچھا کیسی زحمت بیٹا ۔ وہ بولا
ہمارے گھر کل میلاد ہے آہ اور آپکی فیملی انوائیٹ ہے وہاں انکات نہیں کر سکتے آپ اسکے علاوہ بابا سے ملاقات بھی ہو جائے گی آپکی ۔ شیخ صاحب نے کہا اچھا یہ تو زبردست بات ہے ہم ضرور آئیں گے ۔ صالح نے کہا سب نے آنا ہے انہوں نے حامی بھر لی اور پھر رابطہ منتقع ہو گیا ۔ جاری ہے
علی کے گھر کافی رونق لگی ہوئی تھی خواتین کا الگ سے اریجمنٹ تھا اور مردوں کا الگ مہمانوں میں سوسائٹی کے لوگ تھے مگر باقی مدرسوں کے بچے تھے یتیم خانے سے بھی بچوں کو لایا گیا تھا لوگ باہر لان میں تھے صالح نے شیخ صاب کو اپنے والد سے تعارف کروایا اب وہ سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے
شیخ صاب نے کہا جناب نور محمد صاب ہمیں صالح کی شکل میں فرشتہ ملا ہوا ہے آپکا بیٹا لاکھوں میں ایک والی مثال ہے صالح نے استغفرللہ کہا اور بولا آپ بھی کمال کرتے ہیں شیخ صاب مجھے کن سے ملا رہے ہیں میں تو ایک عام انسان ہوں ۔ نور محمد نے اس کا کندھا تھپتپایا اور بولا اللہ کا شکر ہے
میرے سارے بیٹے ہی اچھے ہیں انکی تربیت انکی والدہ کی ہے باپ تو صرف محنت کرتا ہے لیکن ماں گھر بناتی ہے اس معاملے میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں شیخ نے کہا بالکل بجا فرمایا آپ نے گھر بنانا اولاد کی تربیت کرنے میں ماں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے
ہمارے بچے بھی ماشاء اللہ بہت سلجھے ہوئے ہیں کہنے کو تو لینڈ لارڈز ہے مگر زرا برابرز غرور نہیں ان میں ناں کبھی غلط سوسائٹی کا حصہ بنے ہم نے انہیں مکمل آزادی ہوئی ہے لیکن آپ کی بات کہ گھر تو عورت ہی بناتی ہے اس معاملے میں میں بھی خوشنصیب ہوں ۔ نور محمد نے کہا تو آپ کا کاروبار کیاہے
وہ بولے ہماری ٹیکسٹائلز ملز ہیں یہاں امپورٹ ایکسپورٹ کا بھی کام اللہ کا شکر ہے جتنا اس نے دیا ہوا ہے ورنہ وہ ناں دیتا تو بھی اسکا شکر ادا ہی کرتے ۔ کبھی ایسے ہی تھے چھوٹا بھائی فوج میں کرنل ہے والد کے جانے کے بعد ہم نے بڑے سخت دن دیکھے لیکن پھر اللہ کا کرم ہوتا گیا
نور محمد نے کہا ماشاء اللہ شیخ صاب بولے آپ صرف زمینداری کرتے ہیں یا بزنس بھی ہے آپکا ۔ نور محمد نے کہا میں کسان ہوں میرے والد دادا پردادا سب کسان تھے ہمارے پاس مربعے تو نہیں ہاں البتہ چند زمینیں ہیں انہی پر اللہ نے اتنا کرم کیا ہوا ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں
دونوں بڑے بیٹے زمینوں کو سنبھالتے ہیں اور صالح ابھی پڑھ رہا ہے فوج میں یہ بھی جانا چاہتا ہے میرا دل تو نہیں کرتا بھیجنے کو مگر اسکی والدہ بھی اسکی طرفدار ہے صالح ہنسا اور کہا ایسی بات نہیں بابا مذاق کر رہے ہیں نور محمد نے کہا میں سچ کہہ رہا ہوں صالح نے کہا اچھا بابا اس بات کو
ابھی رہنے دیتے ہیں درس کا وقت ہو گیا آپ لوگوں کی باتوں سے میرا دل بھی آج شکرگزاری پر درس دینے کو کر رہا ہے شیخ صاب نے کہا تو پھر بسم اللہ کرو بیٹا دیر کس بات کی ۔ اسی لمحے علی آگیا یار تو یہاں بیٹھا ہے اندر بلا رہے ہیں تجھے ۔ صالح نے کہا کیوں ؟ وہ بولا آنٹی کو کام ہے تجھ سے
اس نے کہا اچھا اور اجازت لح کر اٹھ کھڑا ہوا ابھی عصر میں وقت تھا صالح علی کے ساتھ اندر چل پڑا ۔ علی نے کہا یہاں سے آو ۔ صالح نے کہا خواتین تو وہاں نہیں ہیں علی نے کہا او بھائی جو کہا وہ کر سوال ناں کر ۔ صالح ٹھٹکا اور بولا رکو ایک منٹ وہ رک گیا ۔ صالح نے اسے دیکھا
علی کی آنکھوں میں شرارت تھی صالح نے کہا کیا کچھڑی پکا رہے ہو تم ۔ وہ بولا یار کچھ بھی نہیں سب یہاں ہیں خود چل کر دیکھ لو اور آگے بڑھ گیا صالح اسکے پیچھے چل پڑا ۔ اس نے دروازے پر دستک دی اور دروازہ کھول کر اندر آگیا صالح بھی اسکے پیچھے اندر آیا اور کمرے میں ہی جم گیا
وہاں رباب اور رخسانہ موجود تھی ۔ صالح نے علی کو غصے سے دیکھا اور بولا یہ سب کیا ہے علی نے دروازہ بند کر دیا اور کہا ایک منٹ حوصلہ پہلے بات سن لو پھر جو چاہے کہنا ۔ صالح نے اپنا رخ علی جانب موڑ لیا علی نے کہا روبی تم سے بات کرنا چاہتی تھی یقیناً تم نہیں مانتے اسی لیے رخی کو
ساتھ لایا ہوں اسکی بات سن لو میں باہر کھڑا ہوں اور پلیز غصہ مت کرنا یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا ۔ رخی نے کہا بھائی پلیز ۔ صالح نے رخ موڑا اور کہا علی کی تو چلو سمجھ آتی ہے لیکن تم سے یہ امید نہیں تھی وہ بولی بھائی آپ اپنی جگہ درست ہیں لیکن صبح آنٹی نے آپکے خواب کے بارے میں بتایا
تب سے میں پریشان ہوں آپکے لیے ۔ میں نے اپنی ایک دوست کی امی سے یہ ڈسکس کیا انہوں نے استخارہ کیا اور کہا آپ انجانے میں کسی کا دل دکھانے کا باعث بنے ہیں آپکے بارے میں ہمیں یقین ہے آپ کسی کا دل نہیں دکھا سکتے رہ دے کر مجھے رباب کا خیال آیا مانا کہ آپ ٹھیک ہیں رباب بھی تو ٹھیک ہے
وہ بھی آپکی طرح اپنے والدین کی پابند ہے اس نے صبر کرنا سیکھ لیا ہے ندا نے مجھے بتایا ہے کہ یہ ساری رات روتی ہے اور اسے پتا نہیں ہوتا بس بھائی یہ سن کر میں نے یہ فیصلہ کیا اب آپ سوچیں کیا غلط کیا ہے ؟ صالح نے اسکی ساری بات سنی اور کل والی اپنی صورتحال پر غور کیا
اسے درویش کی بات یاد آئی یک دم اسکے کندھے ڈھلک گئے اور جسم نے جھرجھری لی وہ ایک طرف لگے صوفے پر بیٹھ گیا یہ کوئی اور ہی صالح لگ رہا تھا شکستہ ہارا ہوا صالح ۔ رباب جو اب تک خاموش تھی بول پڑی میری بات سنیں صالح ۔ یہ راستہ میں نے خود چنا تھا مجھے ندا نے بہت سمجھایا لیکن میں بےبس ہوں
میں آپ پر دباو نہیں ڈال رہی مجھے احمد نے سمجھایا مجھے علی بھائی نے بھی کہا لیکن میں اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکی میرے رونے کی بات آج سے پہلے مجھے بھی نہیں معلوم تھی آپ میری وجہ سے دلبرداشتہ ناں ہوں مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے آپ بالکل درست ہیں ۔ صالح نے لمبی سانس کھینچی
اور جیب سے رومال نکال کر اپنا پسینہ صاف کرتا ہوا بولا ۔ جب سب کچھ واضح ہے تو بات کرنے کو اور کیا ہے ۔ ہاں اگر میری وجہ سے تم کو تکلیف ہوئی ہے اور تمھارا دل دکھا ہے تو مجھے معاف کر دو رباب ۔ شاید میں اسی قابل ہوں کے مجھے ٹھکرایا جائے میرا خواب اسی حوالے سے تھا
مجھے یہ بات کل ہی معلوم ہو گئی تھی اور میں تم سے معافی بھی مانگنا چاہتا تھا ٹھیک ہے گڑیا نے جو کیا وہ اس لحاظ سے تو ٹھیک ہے لیکن مجھ سے کبھی امید مت لگانا میں اپنے والدین کا پابند ہوں میں انہیں دکھ نہیں دے سکتا انکے اپنے ارمان ہیں۔ یہ مجھ سے کبھی نہیں ہوگا اب میرا مستقبل
تمھارے معاف کرنے میں ہے اگر تم مجھے معاف کر دو گی تو میں بخش دیا جاونگا ورنہ میری ساری زندگی ایک جہنم بن جائے گی ۔ رباب نے کہا اللہ ناں کرے میری وجہ سے آج آپ اس دوراہے پر آکھڑے ہوئے ہیں معافی تو مجھے مانگنی چاہیے آپ سے ۔ وہ بولا نہیں یہ جذبے لاحاصل ہیں اس پر کسی کا بس نہیں
تم نے مجھ سے دل لگایا اور میں اللہ سے دل لگاتا رہا ہوں اور دیکھو تمھاری ایک آہ نے میرا صراط مستقیم۔کا سفر ختم کر دیا اللہ نے تم کو چن لیا مجھے ٹھکرا دیا آہ صالح ۔ آج میں ختم ہو گیا ہوں مجھے معاف کر دینا ہو سکے تو ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا تو رخی بولی بھائی پلیز ایسے ناں کہیں
آپ زیادہ سوچ رہے ہیں آپ نے انجابے میں غلطی کی ہے روبی نے آپکو معاف کیا بولو روبی کیا ہے ناں ۔ وہ بولی بالکل دل سے معاف کیا ہے آج کے بعد آپکو میری وجہ سے کبھی تکلیف نہیں ہو گی صالح آپ ایسا مت سوچیں ۔ آپ تو اصل مومن ہیں ہم سب کے لیے مثال ہیں ۔ صالح نے کہا کیسا مومن ؟
جس نے اس دل کو توڑا جس میں خدا رہتا ہے ۔ تبھی لان سے آواز سنائی دی یا حق

دل دریا سمندروں ڈونگے تے دل دیاں دل ہی جانے ہو

وہ سب چونک پڑے صالح کو جسم کے اندر ایک جھٹکا لگا وہ تیزی سے باہر نکلا علی اسکی حالت دیکھ کر حیران ہوا اور اسکے پیچھے چل دیا صالح سیدھا لان میں پہنچا
جہاں سب ملنگ کو دیکھ رہے تھے ۔ صالح اسکے پاس پہنچا بابا جی آپ کب آئی السلام علیکم ۔ وہ بولا وعلیکم السلام ۔ روٹی کھانے آیا ہوں ۔ کھلائے گا ۔ صالح نے کہا بسم اللہ بابا جی وہ بولے چل پھر آ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر چل دئیے سب لوگ حیران یہ کیا ہو رہا ہے ۔ علی آگے بڑا تو درویش نے کہا
رک جا ۔ وہ رک گیا درویش بولا تجھے جو چاہیے وہ تجھے مل گیا اب تیرا کیا کام جا اپنا کام کر ۔ صالح نے اسے رکنے کا کہا اور بولا مپمانوں کو دیکھو میری طرف سے معذرت کر لینا سب سے قاری صاب آئے ہیں انہیں کہیں درس دے دیں یہ کہہ کر وہ درویش کے ساتھ آگے بڑھ گیا
کچھ دیر وہ دونوں پیدل چلتے رہے کافی آگے آکر ایک ہوٹل نظر آیا درویش ہوٹل کی جانب بڑھا اور ایک بینچ ہر بیٹھ گیا اسے دیکھ کر صالح بھی بیٹھ گیا ۔ درویش نے کہا ہاں تو ہم کہاں تھے پھر خود ہی بولا روٹی پر چل کھلا روٹی ۔ صالح نے لڑکے کو اشارہ کیا اسکے آنے پر صالح نے مینیو پوچھا
یہ ایک عام سا ہوٹل تھا لڑکے نے کہا مرغی ہے دال ہے صرف ۔ اس نے درویش سے پوچھا کیا کھائیں گے وہ بولا مرغی منگوا لے ۔ لڑکے نے دونوں کو غور سے دیکھا اور واپس چل دیا ۔ کچھ دیر میں وہ سالن اور روٹیاں لے آیا ۔ درویش نے بسم اللہ پڑھی اور نوالہ توڑ کر شوربے میں بھگو کر لقمہ لیا
اور بولا الحمدللہ ۔ پھر بسم اللہ پڑھی پھر لقمہ۔لیا پھر الحمدللہ کہا صالح خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ خود ہی بولا کھاتا کیوں نہیں صالح مسکرا کر بولا آپ نے کہا تھا روٹی کھلا یہ نہیں کھاو ۔ وہ ہنسا اور بولا ابھی کہا تو کھا صالح نے بسم اللہ پڑھی اور اسکے ساتھ روٹی کھانے لگا
درویش نے بوٹی کو ہاتھ تک نہیں لگایا وہ دونوں شوربے سے ہی کھاتے رہے یہاں تک کہ درویش نے ہاتھ روک لیے صالح نے بھی اسے دیکھ کر ہاتھ روک لیا ۔ وہ بولا یہ بوٹی کھا وہ کہنے لگا پہلے آپ کھائیں درویش نے کہا میں نے اپنا حصہ کھا لیا یہ تیرا ہے ۔ صالح بولا میرا کچھ نہیں سب اللہ کا ہے
درویش ہنسا اور کہا اچھا چل آدھی کر دے اسے صالح نے بوٹی آدھی کر دی درویش نے وہ بوٹی اٹھائی اور سامنے بیٹھی بلی کے آگے ڈال دی پھر بولا اب تیری باری ہے صالح نے بھی بوٹی بلی کو دے دی ۔ درویش نے کہا تو جانتا عشق کیا ہے لیکن تو کہاں جانے گا تجھے تو یہ شرک لگتا ہے ۔ صالح چپ رہا
وہ کہنے لگا تریسٹھ سال اللہ نے اپنا محبوب دنیا کے حوالے کیا سوچ تریسٹھ سال اللہ نے اپنے محبوب کی جدائی برداشت کی کیوں کی ؟ صالح نے کہا نہیں معلوم درویش بولا اس نے کہا میرے محبوب پر دین ختم ہے اسکی سنو اسکی مانو لیکن کسی نے مانا کسی نے نہیں جس نے مان لیا اللہ نے اسے اپنایا
جس نے نہیں مانا وہ جہنم میں گیا ترسیٹھ سال کے عرصے میں دونوں جانب برابر آگ لگی ہوئی تھی یہاں تک کے وقت نزع آیا تو پوچھا گیا اگر تو کہے تو ابھی تیری زندگی بڑھا دیتے ہیں لیکن محبوب نے کہا نہیں بس اور نہیں اب مجھے اپنی دید کرنے دے تو اللہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا ۔
کیا محبوب کے جانے کے بعد دنیا ختم ہو گئی ؟ چودہ سو سال ہوگئے کیا محبوب کا نام ختم ہوا ؟ بلکہ اور بڑھ گیا لوگ جو صرف اسکے نام سے واقف ہیں اسے جان سے بڑھ کر چاہتے ہیں کیوں ؟ یہ عشق ہے توکہتا ہے دنیاوی عشق حرام ہے تو غلط کہتا ہے تجھے کیا پتا اللہ کا محبوب کون ہے کون نہیں
کیا اللہ نہیں کہتا خلق سے پیار کرو انکے حقوق کا خیال رکھو آپس میں بھائی چارہ رکھو ۔ صالح نے کہا لیکن یہ تو محرم اور نامحرم کی بات ہے بابا جی ۔ درویش بولا ٹھیک کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے محرم اور نامحرم میں یہ ہونا گناہ کہلاتا ہے اگر وہ حد سے تجاوز کریں ۔ تجھے بتاوں
خلیفہ عمر کے دور میں ایک شخص کو ایک عورت پسند آگئی وہ اس کے پیچھ لگ گیا عورت نے دو چار دن اسے دیکھا پھر ایک دفعہ اس سے پوچھ ہی لیا وہ بولا کہ میں تجھے پسند کرتا ہوں عورت نے کہا اچھا ایسا ہے تو امتحان دے وہ بولا لے لے امتحان ۔ عورت نے کہا تو دس دن عمر کے پیچھے نماز پڑھ
اگر تب بھی تیرا دل مجھ میں اٹکا رہا تو میں تیری ۔ اس نے ایسا ہی کیا دس دن بعد جب وہ اس عورت کے سامنے آیا تو نظریں جھکی ہوئی تھی عورت نے کہا دیکھتے کیوں نہیں وہ بولا خدا کا ڈر ہے وہ بولی کیا اب بھی ہسند کرتے ہو ۔ وہ بولا مجھ سے ایسے سوال نہ کرو یہ معاملہ عمر تک جا پہنچا
عمر نے دونوں کا بلا بھیجا عورت نے عمر سے کہا خلیفہ حضرت یہ ماجرا ہے میں نے ایسے کہا اب یہ بات ہے جانتے ہو عمر نے کیا کہا ۔ عمر بولے قاضی بلاو ان دونوں کا نکاح پڑھواو کیونکہ اب یہ اس عورت کے قابل ہوا ہے پہلے اس پر شیطان قابض تھا عبادت میں مشغول ہو کر یہ اللہ سے ملا ہے
اللہ نے اسے سمجھا دیا ہے خیر کے کام میں برکت ہے تم اب س لڑکی کے قابل ہوئے ہو تم خوش قسمت ہو اسکی وجہ سے تم کو اللہ کا قرب ملا ہے اس سے پہلے تم پابند تھے عبادت گزار تھے اللہ کو پسند تھے لیکن جس دن سے یہ سب شروع ہوا اللہ نے تمھیں بارہا موقع دیے لیکن تم نے خود ان موقعوں کو گنوایا
اس لڑکی نے اپنا آپ بدل لیا وہ صابر ہو گئی صابر ہونا اللہ کو اتنا پسند ہے کہ اس نے تمھاری طلبی لگا دی دربار میں تمھاری عبادتیں تمھاری خدمتگزاری تمھاری ریاضتیں ایک پلڑے میں وہ دو آنسو ایک قطرے میں ۔ تو صالح اب سب تیرے ہاتھ میں ہے یا اپنا لے یا ٹھکرا دے ۔ صالح نے کہا
بابا جی میرے والدین انکا کیا ؟ وہ مسکرایا اور بولا میں نے کہا ہے یا ٹھکرا دے یا اپنا لے تیسری بات کوئی نہیں ۔ درویش اسکو دیکھ رہا تھا اسکے اندر کے خدشات کو پڑھ رہا تھا اس نے کہا اچھا چل یوں کر آنکھیں بند کر پھر جو نظر آئے اس پر فیصلہ کر صالح نے آنکھیں بند کی اسے اللہ ہو کی صدا
سنائی دی اس نے آنکھیں کھول دی درویش بولا کر فیصلہ ۔ وہ بولا مجھے اللہ ہو کی صدا سنائی دی ہے ۔ درویش نے کہا ٹھیک ہے اب اقرار یا انکار ۔ صالح نے کہا اقرار کرتا ہوں درویش نے صدا لگائی یا حق اور اٹھ کھڑا ہوا پھر بولا یا حق اور کہا اللہ کے حوالے ۔ صالح نے اسے روکنا چاہا
تو وہ بولا میرا کام ختم ہوا اب تو وہی کر جو تجھے صیح لگتا ہے میں خوش ہوں تجھ سے اللہ بھی خوش ہو تجھ سے یہ کہہ کر وہ چل دیا ۔ صالح واپس بیٹھ گیا کچھ دیر وہ درویش کے روئیے کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا پھر بل ادا کر کے واپس چل پڑا راستے میں اس نے نماز ادا کی گھر پہنچا تو مہمان جا چکے
تھے ماسوائے شیخ صاحب کی فیملی کے ۔ وہ دروازے سے اندر داخل۔ہوا علی اسکی جانب لپکا یار کہاں رہ گیا تھا موبائیل بھی بند تھا تھا تیرا ۔ وہ چونکا اور جیب سے فون نکالا یہ تو آن ہے ۔ علی نے فون کو دیکھا اور کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے صالح بولا تو کیا میں مذاق کر رہا ہوں
علی نے کہا تو ٹھیک ہے وہ مسکرایا الحمدللہ تب ہی احمد آگیا خوب مہمان نوازی کی آپ نے تو ۔ وہ اس سے گلے ملا اور بولا جہاں شامت آئی ہو وہاں مہمان نوازی کا کسے خیال کیسے ہو ۔ وہ اندر چل دئیے ڈرائینگ روم میں سب موجود تھے اسے دیکھ کر ایک ساتھ آوازیں نکلی او آگیا ۔ رخی بھاگ کر آئی
صالح نے اسے پیار کیا وہ بولی کہاں چلے گئے تھے فون کیوں بند تھا بھائی ۔ وہ بولا ارے یہاں ہی تھا فون تو آن تھا میرا اب بھی آن ہے مجھے نہیں پتا کال کیوں نہیں ملی نور محمد نے کہا بچے تجھے دیکھنے بھی گئے تھے وہ بولا بابا یہاں باہر ہوٹل پر تو تھا ۔ علی نے کہا کون سا ہوٹل
صالح نے جگہ بتائی علی نے کہا دماغ پر اثر ہوگیا ہے شاید یہاں ایسا کوئی ہوٹل نہیں اب صالح ٹھٹکا ۔ بی بی جی نے کہا مہرے ساتھ چل صالح ۔ اور سب سے معذرت کر کے اسے کمرے میں لائی یہ سب کیا ہے ۔ وہ درویش کون تھے ۔ صالح نے کہا میں نہیں جانتا کل جب میں ہریشان تھا تو راستے میں ملے تھے
آج یہاں آگئے پھر مجھ سے روٹی کا کہا اور ہوٹل ہر لے آئے وہاں مجھ سے باتیں کی اور چلے گئے لیکن علی جو کہہ رہا تھا وہ بات ہضم نہیں ہوئی فون میرا آن ہے کھانا میں نے کھایا انکے ساتھ ۔ اسکی والدہ نے کہا کیا باتیں ہوئی تو صالح نے کہا خواب سے متعلق ۔ وہ چونکی انہیں کیسے پتا
صالح نے سانس بھری اور کہا ماں مجھے راستہ مل گیا ہے فی الحال مجھے اور کچھ نہیں پتا وقت آئے گا تو سب سامنے آجائے گا ۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں اب مجھے خواب کا بھی ڈر نہیں ہے میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا ہوں ۔ وہ بولی اچھا خیر آو سب پریشان ہیں چلو سب کے پاس ۔ وہ واپس وہیں آگئے
صالح نے کسی کے بولنے سے پہلے ہی کہا میں اب ٹھیک ہوں اور اپنا خواب سب کو سنایا یں اس وجہ سے بہت پریشان تھا کل سے مجھے لگتا تھا میں نے غلطی کی ہے لیکن کیا کی ہے یہ نہیں معلوم پھر وہ درویش ملے انہوں نے مجھے بتایا میری غلطی اور اسکی تلافی کا کہا آج میں نے اسکی تلافی کی
جس کا دل دکھایا اس سے معافی مانگی لیکن میں پھر بھی کشمکش کا شکار تھا مجھے لگتا تھا کہ میں نے گناہ کیا ہے تب ہی وہ دوبارہ آگئے انہوں نے میری رہنمائی کی اور مجھے کہا اقرار کر یا انکار فیصلہ تیرا ۔ اور میں نے اقرار کر لیا میں نے قبول کیا تو میرے سار خدشات دور ہو گئے بس یہ ہے بات
نور محمد نے کہا وہ غلطی کیا تھی ۔ رباب کا دل دھڑکا ندا بھی اسے حیرت سے دیکھنے لگی علی رخسانہ احمد سب کی نظریں اس پر تھی ۔ صالح نے کہا میں نے ایک دل کو توڑا تھا انجانے میں جان بوجھ کر نہیں اس دل نے اللہ کو میری شکایت لگا دی اللہ نے مجھے سزا دی میں نادم ہوا پھر مجھے معاف کیا گیا
شیخ صاب نے کہا کس کا دل توڑا تھا ۔ صالح نے سر اٹھایا اور رباب کو دیکھ کر بولا اسکا جسے اللہ نے چن لیا ہے میرے لیے ۔ وہ بولے کون ہے وہ خوش نصیب صالح نے اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا آپ نے مجھ سے پوچھا تھا میری پسند کا لیکن اب بات میری پسند سے بڑھ گئی ہے میں حکم کا تابع ہوں
آپ شیخ صاحب کے گھر میرا رشتہ لے جائیں یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں آگیا ۔ اسکے پیچھے علی فاطمہ ندا احمد رخی بھی بھاگے رباب وہیں بیٹھی رہ گئی حیرت زدہ سی ۔ اب نے صالح کا گھیراو کر لیا علی نے کہا کیا یہ صالح ہے رخی بولی
بھائی یہ سب کیا ہے ۔ ندا نے کہا صالح بھائی آپ تو گریٹ ہو احمد بولا مولوی صاب اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔ صالح نے ہاتھ کھڑا کیا اور بولا سب بیٹھ جاو سب سے پہلے فاطمہ تم۔یہاں آو ۔ ساوتری جو اب فاطمہ بن چکی تھی صالح کے پاس آگئی صالح نے اپنا بٹوہ نکالا اور سارے پیسے اور کریڈٹ کارڈ
اسکے حوالے کر کے بولا یہ لو یہ سب تمھارا ہے اپنی پریشانی میں تم۔کو بھول گیا تھا مجھے معاف کرنا ۔ وہ بولی کیسی بات کرتے ہیں بھائی جان آپ بھی اور یہ سب مجھے نہیں چاہیے آپ ہیں ناں ۔ صالح نے کہا بس لے لو اس نے سب کچھ لے لیا رخی نے کہا میرے لیے کیا چھوڑا صالح نے کہا تم صبح لے لینا
پھر علی سے کہا یہاں سے رفو چکر ہو جاو ابھی یہاں تمھارا کوئی کام نہیں ۔ علی نے کہا واہ واہ خود کے ٹو سر کر لیا ہمیں صحرا میں چھوڑ رہو ہو رخی نے کہا بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ جا سکتے ہیں جا کر اپنا کم دیکھیں آپ کب سے فارغ رہنے لگے وہ اٹھ کھڑا ہوا اچھی بات ہے چلتا ہوں پھر وہ کمرے
سے نکل گیا ۔ صالح نے احمد سے کہا ہاں تو میاں تم سناو وہ بولا اب مجھے بھی اجازت دیں ہوسٹل میں ملاقات ہو گی صالح نے کہا سمجھدار ہو گئے ہو بونگے وہ سب کو خدا حافظ کہہ کر چلا گیا پیچھے لڑکیاں تھی صالح نے ندا سے کہا تم بھی مجھے معاف کر دو میری وجہ سے تمھاری بھی دل آزاری ہوئی ہے
وہ بولی نہیں ایسی بات نہیں بھائی مجھے تو جو صیح لگا میں نے وہ کیا ہے ۔ وہ فاطمہ سے بولا مجھے کافی پلا دو اور کچھ دیر اکیلا چھوڑ دو ۔ وہ تینوں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں ان سب کے جانے کے بعد صالح نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا ۔

ڈرائنگ روم میں سب کچھ طے ہو چکا تھا شیخ صاب نے نور محمد سے
کہا آج نہیں تو کل یہ ہونا تھا روبی کے والد اسکا عندیا دے چکے تھے کچھ خدشات تھے خواتین کو کیونکہ دونوں بچے اس طرح کے نہیں ہیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن جو کچھ ہوا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے آخر وہ درویش کون تھے ۔ نور محمد نے کہا ہو گے کوئی اللہ کے نیک بندے اب تاریخ رکھ لیتے ہیں
شیخ صاب نے کہا انکی پڑھائی تک صرف نکاح کر لیتے ہیں رخصتی تعلیم کے بعد کر لیں گے ۔ رباب سر جھکائے بیٹھی تھی صالح کی والدہ نے کہا آو بیٹی میرے پاس آجاو ۔ وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئی انہوں نے اسکی والدہ سے کہا خوش قسمت ہیں آپ جو آپ کو ایسی اولاد ملی اسکی والدہ نے کہا
اللہ کا شکر ہے روبی کی تائی نے کہا میری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے ندا جو سامنے بیٹھی تھی بولی بس ہو گیا شروع ڈرامہ ماما بیٹی میں ہوں آپکی ۔ روبی کی والدہ نے کہا تم میری بیٹی ہو کیوں فکر کرتی ہو ۔ شیخ صاب بولے اچھا یہ رہنے دو وہ سب ہنس دئیے کچن میں فاطمہ کافی بنا رہی تھی
اسے اپنے ہیچھے آہٹ سنائی دی وہ مڑی تو علی کھڑا تھا وہ نروس ہو گئی علی نے کہا پتا ہے بابا جی نے کیا کہا تھا بولے تھے تجھے جو چاہیے تھا وہ تجھے مل گیا اب اپنا کام کر ۔ فاطمہ کیا میں تمھیں قبول ہوں ؟ پیچھے سے آواز آئی نہیں قبول وہ رخی تھی ۔ موقع دیکھ کر یہاں پہنچ گئے بھائی آپ
وہ ہنسا اور بولا شیطان کے بھی کیا کان ہونگے جو تمھارے ہیں رنگ میں بھنگ ڈال دیا تمھارا بھی بندوبست کراتا ہوں جان چھوٹے میری ۔ وہ ہنس کر بولی بھول جائیں جان چھوٹے گی آپ کی مجھ سے ۔ اب یہاں سے جائیں جا کر بڑوں سے بات کریں علی پھر واپس چلا گیا ۔ اس نے فاطمہ سے کہا
جواب دیا کرو آگے سے گونگی بن جاتی ہو ۔ وہ بولی میری نصیب میں اب یہ ہی ہیں تو کیا کروں ۔ رخی زور کر ہنسی خبردار جو میرے بھائی کو کچھ کہا ہو ۔ جمعے کا دن طے پایا نکاح کا ۔ طے پایا کہ علی اور صالح دونوں کی ایک ساتھ شادی ہو گی آخر کار وہ دن بھی آیا اور دونوں کا نکاح ہو گیا
علی کی تو رخصتی بھی تھی البتہ صالح اور رباب کا صرف نکاح تھا ۔ نکاح کے بعد جب وہ اکیلے ہوئے تو صالح نے کہا میں اپنی ساری خطاوں کی پھر معافی مانگتا ہوں ۔ رباب نے اسے دیکھا اور کہا بھول جائیں سب وہاں احمد ندا سے لان میں ملا اور کہا اب تم بتاو کب بھیجوں اپنے گھر والوں کو
ندا نے آس پاس دیکھا اور بولی پلیز میری بات اور ہے احمد نے کہا مثلاً کیا بات ہے ۔ وہ کہنے لگی میں رباب جیسی بالکل نہیں ہوں میرے لیے تمھیں بہت کچھ کرنا پڑے گا میرا اپنا لیول ہے پہلے اس پر پورا اترو پھر سوچوں گی ۔ احمد نے کہا اچھا تو کیا لیول ہے تمھارا میں بھی سنوں
وہ اسے تنگ کر رہی تھی کہنے لگی سب سے پہلے اپنا بونگا پن ختم کرو احمد نے برا سا منہ بنایا اور کہا تم سے خدا پوچھے یہ کون سا وقت ہے مذاق کا تب ہی پیچھے سے کورس میں آواز آئی بونگے ہو تو طونگا ہی کہے گی وہ واپس پلٹا تو صالح رباب اور علی فاطمہ کھڑے ہنس رہے تھے وہ بھی ہنسنے لگا
ختم شد
@threadreaderapp please complie this thread thank u

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with شیر کا شکاری ®™ ( ماسک پہنو )

شیر کا شکاری ®™ ( ماسک پہنو ) Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @faisalch827

28 Jul
مین اسٹریم۔میڈیا پاور فل ہے
تھریڈ

جھوٹ پھیلانے میں
فحاشی پھیلانے میں
لوگوں کو گمراہ کرنے میں

چند ناعاقبت اندیش لوگ پرائم ٹائم میں کوئی سوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس کو سوشل میڈیا پر موجود سستے دانشور سلبرٹی ہوا دیتے ہیں یوں وہ بات پھیل کر لوگوں کے دماغ میں بیٹھ جاتی ہے 👇
آج کل میڈیا پیپلز پارٹی کی جانب جھک رہا ہے ظاہر سی بات ہے نوٹ دیا گیا ہوگا خالی جیب تو کوئی کسی کی طرفداری نہیں کرتا پاکستان میں ۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے سے ایک بیانیہ سیٹ کیا جا رہا ہے کہ اسٹبلیشمنٹ پیپلز پارٹی کی جانب متوجہ ہو رہی ہے یعنی اگلی بار زرداری آئے گا 👇
اب اس بات کو لے کر سوشل میڈیا کے زبردستی کے سلبرٹی اسٹبلیشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں باقاعدہ لعنتیں بھیج رہے ہیں کئی ایک تو دعوی کر رہے ہیں کہ ہم ٹینکوں کے نیچے نہیں بلکہ ٹینکوں کو الٹ دیں گے

کوئی بھی اس پر غور نہیں کر رہا کہ یہ ایک گیم پلان بھی ہو سکتا ہے خیر سے 👇
Read 11 tweets
23 Mar
پاکستان کا حسن وہ نہیں جو آپ دیکھتے ہیں جیسے پہاڑ ، ریگستان ، جنگلات ، سمندر ، دریا اِن سب کی افادیت اپنی جگہ ہے لاکن پاکستان کا اصل حسن ایسے لوگوں سے جڑا ہے جنہوں نے نیک نامی اور بے لوث ہو کر اپنے لوگوں کے کام آنا ہو جیسے ٹنڈل رام پرشاد

کیا کوئی جانتا ہے ان صاب کو ؟
ٹنڈل رام پرشاد دکن ( بھارت ) کے رہنے والےتھے ایک امیر ترین جاگیردار اپنے وقت کے لیکن ان کی آخری آرام گاہ جہلم میں ہے اور جس جگہ پر یہ آرام فرما ہیں یہ زمین انکی تھی اس زمین کے ساتھ ایک واقعہ جڑا ہے اور یہ واقعہ قیامِ پاکستان سے قبل کا ہے انکی وفات بھی قیامِ پاکستان سے قبل ہوئی
قیام پاکستان سے قبل جہلم میں ان کی کئی مربع زمین تھی وہاں کسی مسلمان کے گھر فوتگی ہو گئی رشتےداروں کے بائیکاٹ کی بدولت اس عورت کو مقامی قبرستان میں دفن ہونے نہیں دیا گیا وہ لوگ جب ٹنڈل رام کی زمین سے گزرے تو ٹنڈل رام نے پوچھا کیا ماجرا ہے انہوں نے کہا ہم نے میت دفنانی ہے
Read 6 tweets
5 Dec 20
یہ بات تو طے ہے اس وقت پاکستان نظریاتی طور پر دو حصوں میں بٹ چکا ہے کثیر تعداد پاکستانیوں کی چاہتی ہے کہ وہ احتساب کے کھوکلے نعروں کو حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے دیکھے اور جنہوں نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے ان سب کو سزائیں ہو لیکن جب انصاف نہیں ہو گا تو سوال ہو گا
سوال یہ ہے کہ حکومت آخر چاہتی کیا ہے ؟ اگر آپ کے ہاتھوں میں وہ طاقت نہیں تو اپنے سچ بولنے کی روایت کو برقرار رکھیں ۔ عوام کو بتائیں کہ وہ کون سے ایلیمنٹ ہیں جنکی وجہ سے احتساب کا عمل رکا ہوا ہے ؟ آپ عوام کو بتائیں کہ عدالتیں آپکا ساتھ نہیں دے پا رہی یا اسٹبلیشمنٹ پر دباو ہے
آخر کون سے ملک میں چور یوں کھلے عام ریاست کو للکارتے ہیں قانون کا مذاق بناتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کے دعوے کرنے کی بجائے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرے ۔ یہ ملک فٹ بال نہیں ہے کہ جس کا جب دل چاہے اس سے کھیلنا شروع کر دے ۔ ہمیں بیرونی دشمن سے زیادہ اندرونی محاذوں کا سامنا ہے
Read 7 tweets
3 Dec 20
لفافے نما گِدھ

قرین قیاس کیا جاتا ہے کہ ایک ملک میں ذرائع ابلاغ کا سسٹم گِدھوں کے پاس تھا ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس ملک کا کنٹرول عقاب کے پاس تھا لیکن وہ خود اونچی اڑانیں بھر رہا تھا اس لیے اسے ذرائع ابلاغ کو ٹھیک کرنے کا کبھی خیال نہیں آرہا تھا حالانکہ وہ گِدھ عقاب کو پہلے دن 👇
سے ٹارگٹ کر رہے تھے عقاب حق پر تھا اور انکے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتا تھا مگر اس عقاب کے ساتھی کوے راستے کی رکاوٹ تھے ۔ بہرحال ان گِدھوں کو چونکہ مردہ کھانے کا شوق تھا اس لیے وہ چاہتے تھے جو لاشیں پارسل ہو کر باہر چلی گئی ہیں انکو واپس انکے حوالے کیا جائے تاکہ ان کا پاپی پیٹ
بھر سکے ۔ وہ گِدھ اتنے خونخوار ہو گئے تھے انکے آگے زندہ ہاتھی جو انصاف کا نظام چلاتے تھے وہ بھی بے بس تھے اور تو اور ملک کے محافظ چیتے بھی ان کے لیے سافٹ کارنر رکھتے تھے ۔ اب گِدھوں کی فرمائش ہے کہ ان کو بیرون ملک گئی لاشوں کا گوشت دیا جائے کیونکہ وہ لاشیں باہر بیٹھے بھیڑیوں کے
Read 4 tweets
2 Dec 20
یہ ہی اسٹیفین تھا آج سے نو سال قبل عمران خان سے چبھتے ہوئے سوالات کر رہا تھا موضوع تھا نائن الیون کے بعد کا جب امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا ۔ اسٹیفن نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ سے فنڈ بھی لے لیتے ہیں اور اسکا کام بھی نہیں کرتے حقانی نیٹورک پر سوال اٹھایا
طالبانوں پر سوال کیے ۔ وہی انداز تھا اسٹیفن کا جو کل اسحاق ڈار کے ساتھ تھا ۔ کپتان نے اس کو دو باتیں کی جس کو وقت نے درست ثابت کر دیا ۔ کپتان نے کہا دیکھو اسٹیفن جب کوئی تمھارے گھر زبردستی داخل ہو جائے تو تم کیا کرو گے ؟ یا لڑو گے یا پھر ہتھیار پھینک دو گے ۔ امریکہ کو سمجھنا ہوگا
کہ افغانستان لڑائی کر کے نہیں جیتا جا سکتا ۔ ساری دنیا میں سب سے قیمتی علاقہ ہے افغانستان بھی اور ہمارے شمالی علاقہ جات بھی وہاں ملینز فیملیز رہتی ہیں اور وہ سب کے سب آرمڈ ہوتے ہیں ان کو لڑائی سے ڈر نہیں لگتا روس کا حال سامنے رکھو اور رہی بات پاکستان کی تو میں کچھ نہیں ہوں
Read 8 tweets
1 Dec 20
میرے پاکستانیوں ☝

شاید آپ کو یاد ہو نون لیگ کے دور میں سوشل میڈیا خصوصاً یو ٹیوب بند ہوئی تھی کچھ عرصہ کے لیے ۔ لوگوں نے بڑی واہ واہ کی تھی میں نے بھی چوئی نثار کو داد دی تھی کہ اس نے اچھا کام کیا لیکن ☝

لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے
ن لیک اور اخلاقیات ؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے میں نے تحقیق شروع کی ۔ میں نے پراکسیز کے زریعے یو ٹیوب کو چالو کیا اور pakistan politician scandal کو سرچ کرنا شروع کر دیا ۔ اور میرا اندیشہ درست ثابت ہوا کیونکہ اس وقت یو ٹیوب پر آل شریف اور آل زرداری سمیت ہر اس سیاستدان 👇
کی اصل ویڈیوز غائب تھی اکا دکا ویڈیوز سرچ ہو رہی تھی ۔ شاید آپکو یادہو ان دنوں میں سوشل میڈیا پر موجود ہر دوسرا فرد وہ ویڈیوز شئیر کیا کرتا تھا بلاول کی پارٹی کی ویڈیو آصفہ کی ویڈیو مریم نواز شریف فضلوطیے کی کہانیاں لیکن جب یوٹیوب کو بند کیا گیا تو وہ کوئی توہین رسالت کی وجہ سے
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(