خرپوچو قلعہ (سکردو، گلگت-بلتستان)
انچن دور کی ایک یادگار
سندھ کے کنارے کھڑا ایک زبردست پہاڑ جو اسکردو شہر (پاکستان) کے قلب سے گزرتا ھے، یہ صدیوں پرانے کھرپوچہ قلعے کا مسکن بھی ھے۔
خیال کیا جاتا ھے کہ یہ قلعہ صدیوں پہلے سکردو کے اس وقت کے فوجی جرنیل رمک پون (Rmkpon) اور #History
سکردو کے حکمران بوگھا (Bogha) نے بنایا تھا۔
دریائے سندھ قلعے کی ٹاپ سے دیکھا جا سکتا ھے۔ شہر کے وسط میں پہاڑ کی چوٹی پر کھرپوچو قلعے کی تعمیر کا نقصد دراصل شہر کو بیرونی خطرات سے بچانے اور شہر میں داخل ھونے اور جانے والے راستوں پر نظر رکھنا تھا۔
اسکے قدیم ڈھانچے میں چھوٹے اور بڑے
درجنوں کمرے ہیں اور ایک بڑا رقبہ ایک دیوار سے ڈھکا ھوا ھے۔ یہ دیوار آج کل کھنڈرات کا شکار ھے جو کہ اس علاقے کے شان دار ماضی کا عکاس ھے۔
عام طور پر خیال جاتا ھے کہ علی شیر خان آنچن (1595-1633) کی بیوی نے شہر سے نیچے قلعے تک راستے کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔
گلگت-بلتستان کی 1948
کی جنگ آزادی کے دوران کینن فائر سے بڑی تعداد میں کمروں کو جلا دیا گیا، جس میں مقامی فورسز نے قلعہ کا محاصرہ کیا اور قابض ڈوگرہ افواج کی فوج کا مقابلہ کیا۔
خیال کیا جاتا ھے کہ کچھ کمروں کو ڈوگروں نے جنگ کے دوران خود جلا دیا تھا۔ آج قلعے کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
قلعے کاراستہ جان بوجھ کر تنگ، مشکل اور دشوار گزار رکھا گیا تاکہ حملہ آوروں کو مشکل ھو۔
فخر پاکستان
پاکستان کے حصے میں کچھ اعزازات ایسے آئےہیں جو دنیا میں کسی دوسرے کے پاس نہیں جیسے دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی، مسلم دنیا کی اولین وزیراعظم بےنظیر بھٹو۔
یہ پاکستانی لڑکیوں کیلئے رول ماڈل ہیں۔
انہی میں ایک نام___کرنل امجد کریم رندھاوا کے #History
گھر آنے والی رحمت
1995__چک نمبر 4گ ب رام دیوالی قصبہ (نزد فیصل آباد) کی پیدائش 2 برس کی عمر میں کمپیوٹر میں دلچسپی کا آغاز
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچانے والی
محض 9 سال کی عمر میں "مائیکرو سافٹ پروفیشنل" کوالیفائیڈ
لاہور گرائمر سکول سے اے لیولز کیا
بہترین مقررہ، نعت
خواں، اور اچھی شاعری بھی
2005 میں "فاطمہ جناح ایوارڈ اف ایکسیلینس ان سائنس و ٹیکنالوجی" اور گولڈ میڈل
اس کے بعد "سلام پاکستان ایوارڈ"
2006 میں مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کا ارفع کریم کو خصوصی طور پر مائیکرو سافٹ ہیڈکوارٹر امریکہ مدعو کیاجانا
حکومت پاکستان کیطرف سے اس ننھے
آرک فورٹریس (بخارا، ازبکستان)
یہ قلعہ چوتھی صدی قبل مسیح میں تعمیر کیاگیا۔ ایک ہزار سال سے بخارا کے حکمرانوں کاگھر یہ قلعہ بخاراکی طرح ہی پراناھے۔
یہ قلعہ بخاراکے خانوں (Khans)کی رہائش گاہ تھی۔ قلعہ کی بالائی سطح بوکھران امراء کےدوران بنائی گئی۔ #Uzbekistan #architecture #History
یہ قلعہ گویا شہر کے اندر ایک شاہی شہر بھی تھا اور بخارا کا قدیم ترین ڈھانچہ بھی۔ متعدد بار گرنے کے باعث یہ قلعہ بارھا تعمیر کیا گیا۔
ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ھے کہ یہ قلعہ پہلی بار 5ویں اور 6ویں صدی عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔
عربوں نے یہاں 713 میں پہلی بخاران مسجد
ایک زرتشتی مندر کی دھواں دار راکھ پر تعمیر کی تھی تاکہ اسلام کو دوسرے عقائد اور ان کے ماننے والوں پر ظاہر کیا جا سکے۔ نویں سے بارھویں صدی میں اسےسامانیوں *اورکارخانیوں نے اس قلعےکومضبوط کیا۔
کارخیتائی اور خورزمشاہ*نےاسےاپنے ادوارمیں تین بار تباہ کیااوردوبارہ تعمیر کیا، اور یقیناً
وہ اشعارجن کا ایک مصرعہ ایسازبان زد وخاص ھواکہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ھوگیاجبکہ دوسراوقت کی دھول میں کہیں کھو گیا۔
یہی ادب کاخاصہ ھوتاھےکہ وہ معاشرے میں رچ بس جاتاھے۔
برباد گلستاں کرنےکوبس ایک ہی الوکافی تھا
*ہرشاخ پہ الّوبیٹھا ھےانجام گلستاں کیاھو گا*
(شوق بہرائچی) #اردو_شاعری
آخر گِل اپنی صرفِ میکدہ ھوئی
*پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا*
(مرزا جواں بخت جہاں دار)
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
*بدنام جو ھوں گے تو کیا نام نہ ھوگا*
(مصطفیٰ خان شیفتہ)
لائے اس بت کو التجا کر کے
*کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے*
(پنڈت دیال شنکر نسیم لکھنوی)
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
*بچے ہمارے عہد کے چالاک ھو گئے*
(پروین شاکر)
داورِ حشر میرا نامہء اعمال نہ دیکھ
*اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں*
(ایم ڈی تاثیر)
*میں کِس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں*
تمام شہر نے پہنے ھوئے ہیں دستانے
(مصطفیٰ زیدی)
پاکستان کے چند شہر جو "شہر" نہیں؛
مہرگڑھ(کچی/7000سال قبل مسیح)
موہنجوڈاڑو
ہڑپہ
ٹیکسلا(پشکلاوتی/تکششیلا)
ٹھٹہ(تہ تہ)
تخت بائی
پشاور(Purusapura)
کشمیر(کیشیپ میر)
کیلاش(کالاشہ/Kalasha)
قلات (کیکان)
روہڑی(روڑ)
لاھور(لور)
جہلم(Hydaspes)
راولپنڈی
ملتان(کیشاپور/مول استھان)
بلکہ #History
ایک "تاریخ" ہیں۔ خطہ پاکستان جو پنجاب (پ)، سرحد/افغانیہ (ا)، کشمیر (ک), سندھ (س) اور بلوچستان (ستان) کا مجموعہ ھے درحقیقت دنیا کے قدیم ترین علاقوں، تہذیبوں، خونی جنگوں، ریگستانوں، دریاءوں، دیوقامت چوٹیوں، دلفریب جھیلوں چشموں، بےرحم بلند پہاڑوں کی آماجگاہ ہی نہیں بلکہ تہذیبوں کا،
انسانوں کا، دنیاکا نکتہ آغاز بھی ھے۔
اپنی دلکش جغرافیائی پوزیشن، پسندیدہ موسموں، قدرتی زرخیزی اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے رسہ کشی کا منظر پیش کرتا رھا اقتدار کیلئے مرکز نگاہ رھا۔
آج دنیا جس جگہ پر کھڑی ھے اسمیں "پاکستان" کاایک بہت بڑا اور نمایاں کردار ھے۔
میوزیم آف اسلامک آرٹ (1903 مصر)
قاہرہ (مصر) میں واقع اس میوزیم کودنیا کے اسلامی فن کاسب سے بڑا عجائب گھرقرار دیا گیا ھے۔
جغرافیائی محلِ وقوع کےاعتبار سے خوبصورتی اورطرزتعمیرمیں یکتایہ میوزیم قاہرہ کےتاریخی باب الخلق اسکوائر میں واقع ھے۔
اس میوزیم کاابتدائی منصوبہ #Egypt #History
خدیو اسمعیل پاشا (1880) کے دور میں عمل میں لایا گیا۔
25 سے زائد ہالز پر مشتمل 12 صدیوں پر محیط اس میوزیم میں 100 ہزار سے زائد شاہکار و نوادرات شامل ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اسلامی تہذیب، تاریخ اور ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں۔
اسکے علاؤہ انجینئرنگ، طب، فلکیات جیسے سیکشن بھی اس میوزیم
کا حصہ ہیں۔
اگر مزید تفصیل میں جائیں تو اس میوزیم کے ذخیرے میں طب، سرجری، جری بوٹیاں، آسٹرو لیبز، کمپاس، سیرامک برتن، زیورات، ہاتھی کے دانت، اسلحہ، لکڑی کی اشیاء، ٹیکسٹائل، قالین، دھات و سنگ مرمر کے 1200 نایاب نسخے شامل ہیں۔
اسکے علاؤہ گزری شخصیات، بادشاہوں اور حکمرانوں کے
کارگاہ بدھا (Kargah Budhha)
(گلگت بلتستان، پاکستان)
اسے بدھ مت کا خزانہ کہاجائے تو بےجا نہ ھو گا۔
50 فٹ اونچا کارگاہ نالہ کے نوکیلے چہرے پر واقع اس بدھا کی تاریخ کچھ یوں ھےکہ ساتویں صدی عیسوی کےایک ٹھوس چٹان پر تراشیدہ گوتم بدھ(سدھارتھ)کے مجسمےکو دیکھنےکیلئے #Archaeology #History
ہر سال چین، جاپان، جنوبی کوریا وغیرہ سے ہزاروں بودھ (Buddhist) بےچین ھو کر اس مقدس مقام کیلئے گلگت (پاکستان) کا رخ کرتے ہیں۔
کارگاہ بدھا جسے مقامی زبان میں یاشانی کہا جاتا ھے، ایک منفرد آثار قدیمہ ھے جو کارگاہ اور شکوگاہ ندیوں کے سنگم پر گلگت شہر سےکوئی 9km کے فاصلے پر ھے۔
آثار
قدیمہ کے شواہد ہمیں اس بات کا بھی پتا دیتے ہیں کہ گلگت تیسری صدی سے 11ویں صدی تک بدھ مت کا مرکز رھا ھے۔
بلکہ ایک بدھ خانقاہ اور سنسکرت کے نسخوں پر مشتمل تین سٹوپا 1930 کی دہائی میں بھی کھودے گئے تھے۔
1931 میں مخطوطات (Manuscript) کی دریافت کے بعد 1938-39 میں کارگاہ کو بدھ خانقاہ