کتاب:تاریخِ اسلام
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان:پہلا سفر شام
آپﷺ کی عمر بارہ سال کی تھی کہ ابوطالب ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ کچھ مال تجارت لےکرشام کی طرف جانے لگے اور آپﷺ کو مکہ ہی چھوڑنا چاہا‘چونکہ آپﷺ ابوطالب کی کفالت میں آ کر ہمہ وقت ان کے #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
ساتھ رہتے تھے اس لیے اس جدائی کو برداشت نہ کر سکے‘ ابوطالب نے بھتیجے کی دل شکنی گوارا نہ کی اور آپ ﷺ کو بھی اپنے ہمراہ ملک شام کی طرف لے گئے۔
ملک شام کے جنوب مشرقی حصہ میں ایک مقام بصری ہے‘ جب قافلہ وہاں پہنچا تو ایک عیسائی راہب نے جو وہاں رہتا تھا
اورجسکانام بحیرہ تھا آپﷺ کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہی نبیﷺ آخرالزماں ہیں ‘ بحیرا ابوطالب کے پاس آیا اور کہا کہ یہ تمہارا بھتیجا نبی مبعوث ہونے والا ہے‘ اس کے اندر وہ علامات موجود ہیں جو نبیﷺ آخرالزماں کے متعلق توریت و انجیل میں لکھی ہیں
لہذامناسب یہ ہےکہ تم اسکو آگےنہ لے جائو اور یہودیوں کےملک میں داخل نہ ہو‘ مبادا اسکو کوئی گزند پہنچے۔ ابوطالب نے بحیرا راہب کی یہ باتیں سن کر اپنا مال جلدی جلدی وہیں فروخت کر دیا‘ اور آپﷺ کو لے کر مکہ معظمہ کی طرف واپس چلے آئے‘ #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ #سرمایہ_زیست
ابوطالب کوباوجود اسکےکہ ملک شام کے شہروں میں داخل نہیں ہوئےاس سفر میں بہت منافع ہوا‘ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہےکہ ابوطالب نے بحیرا راہب کی باتیں سنکر آپﷺ کووہیں سے مکہ کی طرف واپس بھجوا دیااور خود قافلہ کے ہمراہ آگے چلے گئے۔۱
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان: حرب فجار (یعنی پہلی شرکت جنگ)
مقام عکاظ میں ہر سال بڑا بھاری میلہ لگتا تھا‘ اس میلہ میں مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ گھڑ دوڑ ہوتی تھی ‘ پہلوانوں کی کشتیاں اور فنون سپاہ گری کے دنگل بھی ہوتے تھے‘ عرب کے
تمام قبائل جنگ جوئی میں حدسےبڑھےہوئے تھےاوربات بات پرتلواریں کھینچ جاتی تھیں ۔
عکاظ کےمیلہ میں کسی معمولی سی بات پر قبیلہ ہوازن اور قریش کے درمیان چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی‘ اولاً تو دونوں قبیلوں کے سمجھ دار لوگوں نے بات کو بڑھنے نہ دیا اور معاملہ رفع دفع
ہو گیا‘ لیکن شر پسند لوگ بھی ہر قوم میں بکثرت ہوا کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ درست ہونے کے بعد پھر بگڑا اور جدال و قتال کا بازار گرم ہوا‘یہ لڑائی ماہ ذوالقعدہ میں ہوئی اسی لیے اس کا نام حرب فجار مشہور ہوا‘ کیونکہ اہل عرب کے عقیدے کے موافق #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
کتاب: تاریخِ اسلام
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان: رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت
ابتداً بعد ولادت سات روز تک ثویبہ نےجو ابولہب بن عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں رسول اللہﷺ کو دودھ پلایا‘رسول اللہﷺ کےچچا حمزہ ؓ کو بھی ثویبہ نےدودھ پلایا تھا
اس لیے مسروح بن ثویبہ اورسیدنا حمزہ ؓ دونوں آپ ﷺ کے رضاعی بھائی تھے‘ آٹھویں روز شرفائے عرب کے دستور کے موافق آپ ﷺ قوم ہوازن کے قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ ؓ کے سپرد کئے گئے کہ وہ بطور دایہ آپ ﷺ کو دودھ پلائیں اور اپنے پاس رکھ کر پرورش کریں ۔ #سیرت_النبیﷺ #سرمایہ_زیست
شرفائے عرب اس لیے بھی اپنے بچوں کو ان بدوی عورتوں کے سپرد کرتے تھے کہ بیابان کی کھلی اور آزاد آب و ہوا میں رہ کر بچے تندرست اور مضبوط ہو جائیں ‘ نیز ان کی زبان زیادہ فصیح اور عمدہ ہو جائے کیونکہ بدویوں کی زبان شہریوں کی زبان کے مقابلہ میں زیادہ صاف‘ خالص #سیرت_النبیﷺ @Sajid2k
Ayat No 24
پھر جب انہوں نے عذاب کو دیکھا بادل کی طرح آسمان کے کنارے میں پھیلا ہوا ان کی وادیوں کی طرف آتا بولے یہ بادل ہے کہ ہم پر برسے گا
(جاری)
2 #سرمایہ_زیست #سیرت_النبیﷺ @Sajid2k
کتاب: تاریخِ اسلام
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان: ذبیح ثانی عبداللہ بن عبدالمطلب
چاہ زمزم کی اصل سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام سے ہے کہ جب وہ اور ان کی ماں سیدنا ہاجرہ ؓ مکہ کے صحرائے لق و دق میں پیاس سے بیتاب ہوئے تو خدائے تعالیٰ کے حکم سے وہاں #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
پانی کا چشمہ نمودار ہوا۔
سیدنا ہاجرہ ؓ نے اس پانی کو چاروں طرف مینڈ باندھ کر گھیر دیا اور وہ ایک کنویں کی صورت بن گیا۔ کچھ عرصہ تک تو وہ اسی حالت میں رہا۔ اور پھر اس کے بعد مٹی سے وہ اٹ گیا اور رفتہ رفتہ اس کا مقام اور جگہ
کسی کو معلوم نہ رہی۔ چاہ زمزم کا صرف تذکرہ ہی تذکرہ لوگوں کی زبان پر رہ گیا تھا۔ جب عبدالمطلب کے ہاتھ میں سقایتہ الحاج کا کام آیا تو انہوں نے چاہ زمزم کا پتہ و مقام تلاش کرنا شروع کیا‘ بہت دنوں تک عبدالمطلب اور ان کا بڑا لڑکا حارث چاہ زمزم
Surat No. 73 Ayat NO. 1
1: یہ پیار بھرا خطاب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،جب آپ پر پہلی پہلی بار غارِ حرا میں جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئےتھےتو آپ پر نبوت کی ذمہ داری کا اتنا بوجھ ہواکہ آپ کو جاڑا لگنے لگا،اور جب آپ اپنی اہلیہ
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرمارہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو، مجھے چادر میں لپیٹ دو، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں محبوبانہ انداز میں آپ کو ’’اے چادر میں لپٹنے والے‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔