محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان: حرب فجار (یعنی پہلی شرکت جنگ)
مقام عکاظ میں ہر سال بڑا بھاری میلہ لگتا تھا‘ اس میلہ میں مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ گھڑ دوڑ ہوتی تھی ‘ پہلوانوں کی کشتیاں اور فنون سپاہ گری کے دنگل بھی ہوتے تھے‘ عرب کے
تمام قبائل جنگ جوئی میں حدسےبڑھےہوئے تھےاوربات بات پرتلواریں کھینچ جاتی تھیں ۔
عکاظ کےمیلہ میں کسی معمولی سی بات پر قبیلہ ہوازن اور قریش کے درمیان چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی‘ اولاً تو دونوں قبیلوں کے سمجھ دار لوگوں نے بات کو بڑھنے نہ دیا اور معاملہ رفع دفع
ہو گیا‘ لیکن شر پسند لوگ بھی ہر قوم میں بکثرت ہوا کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ درست ہونے کے بعد پھر بگڑا اور جدال و قتال کا بازار گرم ہوا‘یہ لڑائی ماہ ذوالقعدہ میں ہوئی اسی لیے اس کا نام حرب فجار مشہور ہوا‘ کیونکہ اہل عرب کے عقیدے کے موافق #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
ماہ ذوالقعدہ میں لڑناسخت گناہ کاکام تھا‘ اس مہینے میں جاری شدہ لڑائیاں بھی ملتوی ہوجاتی تھیں ۔
یہ لڑائی چاربڑی بڑی لڑائیوں کا ایک سلسلہ تھی اور ہر پہلی لڑائی دوسری لڑائی سے زیادہ سخت و شدید ہوتی تھی‘ کیونکہ قبیلہ ہوازن کے ساتھ قیس عیلان کے #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
تمام دوسرےقبائل اورقریش کےساتھ کنانہ کے تمام قبائل بھی شامل تھے اور یہ لڑائی ترقی کرکےقبائل قیس اور قبائل کنانہ کی لڑائی بن گئی‘اس آخری چوتھی لڑائی میں بعض سرداروں نے خود اپنے پائوں میں اس لیے بیڑیاں ڈلوائی تھیں کہ میدان جنگ سے
کسی طرح بھی بھاگ نہ سکیں ۔
اسی آخری چوتھی لڑائی میں پہلی مرتبہ رسول اللہ ﷺ بھی مسلح ہو کر شریک جنگ ہوئے۔ بنو کنانہ میں ہر قبیلہ کا سردار جدا جدا تھا‘ چنانچہ بنو ہاشم کے سردار آپ ﷺ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب تھے اور ساری فوج
یعنی تمام بنو کنانہ کا سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا‘ رسول اللہ ﷺ کی عمر اس وقت پندرہ یا بیس سال کی تھی‘ آپ ﷺ کے سپرد یہ خدمت تھی کہ آپ اپنے چچائوں کو تیر اٹھا اٹھا کردیتے جاتے تھے۔۱ آپ ﷺ کو خود کسی سے مقابلہ اور قتال کا موقع نہیں ملا‘
اس لڑائی میں اول تو بنو ہوازن غالب نظر آتے تھے‘ بالآخر بنو کنانہ غالب اور قبائل قیس مغلوب ہونے لگے‘ پھر صلح پر لڑائی موقوف ہو گئی۔
ابن خلدون کی روایت کے موافق حرب فجار کے وقت آپ ﷺ کی عمر دس برس کی تھی‘
رسول اللہﷺ جوان ہوئے تو آپﷺ کو تجارت کی طرف توجہ ہوئی آپﷺ کے چچا ابوطالب نے بھی آپﷺ کے لیے اسی شغل کو پسند کیا‘آپﷺ تجارتی قافلوں کے ہمراہ مال تجارت لےکر کئی مرتبہ گئے اور ہر مرتبہ منافع ہوا #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ #سرمایہ_زیست
ان سفروں میں لوگوں نے آپ ﷺ کی دیانت و امانت اور خوش معمالگی کا بغور معائنہ کیا‘ نیز شہر مکہ میں جن لوگوں سے بھی آپﷺ کا معاملہ ہوا سب ہی نے آپﷺ کو بے حد امین صادق القول‘راست کردار اور خوش معاملہ پایا۔
عبداللہ بن ابی الحمسا ؓ ایک صحابی بیان #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے اسی زمانہ میں میں نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی معاملہ کی بات کی ابھی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ مجھ کو کسی ضرورت سے دوسری طرف جانا پڑا اور جاتے ہوئے آپ ﷺ سے کہہ گیا کہ آپ ﷺ یہیں ٹھہرے رہیں میں ابھی واپس آ کر معاملہ ختم کر دوں گا
وہاں سے جدا ہو کر مجھ کو اپنا وعدہ یاد نہ رہا‘ جب تیسرے دن اس طرف کو گذرا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اسی جگہ کھڑے ہیں ‘ آپ ﷺ نے مجھ کو دیکھ کر صرف اسی قدر کہا کہ مجھ کو تم نے تکلیف اور محنت میں ڈال دیا‘ میں اس وقت تک اسی جگہ تمہارے انتظار میں ہوں ۔
اسی طرح سائب ؓ ایک صحابی ؓ تھے‘ وہ جب ایمان لائے تو بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ان کی تعریف بیان کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں سائب ؓ کو تم سے زیادہ جانتا ہوں ‘ سائب ؓ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں
کتاب:تاریخِ اسلام
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان:پہلا سفر شام
آپﷺ کی عمر بارہ سال کی تھی کہ ابوطالب ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ کچھ مال تجارت لےکرشام کی طرف جانے لگے اور آپﷺ کو مکہ ہی چھوڑنا چاہا‘چونکہ آپﷺ ابوطالب کی کفالت میں آ کر ہمہ وقت ان کے #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
ساتھ رہتے تھے اس لیے اس جدائی کو برداشت نہ کر سکے‘ ابوطالب نے بھتیجے کی دل شکنی گوارا نہ کی اور آپ ﷺ کو بھی اپنے ہمراہ ملک شام کی طرف لے گئے۔
ملک شام کے جنوب مشرقی حصہ میں ایک مقام بصری ہے‘ جب قافلہ وہاں پہنچا تو ایک عیسائی راہب نے جو وہاں رہتا تھا
اورجسکانام بحیرہ تھا آپﷺ کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہی نبیﷺ آخرالزماں ہیں ‘ بحیرا ابوطالب کے پاس آیا اور کہا کہ یہ تمہارا بھتیجا نبی مبعوث ہونے والا ہے‘ اس کے اندر وہ علامات موجود ہیں جو نبیﷺ آخرالزماں کے متعلق توریت و انجیل میں لکھی ہیں
کتاب: تاریخِ اسلام
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان: رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت
ابتداً بعد ولادت سات روز تک ثویبہ نےجو ابولہب بن عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں رسول اللہﷺ کو دودھ پلایا‘رسول اللہﷺ کےچچا حمزہ ؓ کو بھی ثویبہ نےدودھ پلایا تھا
اس لیے مسروح بن ثویبہ اورسیدنا حمزہ ؓ دونوں آپ ﷺ کے رضاعی بھائی تھے‘ آٹھویں روز شرفائے عرب کے دستور کے موافق آپ ﷺ قوم ہوازن کے قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ ؓ کے سپرد کئے گئے کہ وہ بطور دایہ آپ ﷺ کو دودھ پلائیں اور اپنے پاس رکھ کر پرورش کریں ۔ #سیرت_النبیﷺ #سرمایہ_زیست
شرفائے عرب اس لیے بھی اپنے بچوں کو ان بدوی عورتوں کے سپرد کرتے تھے کہ بیابان کی کھلی اور آزاد آب و ہوا میں رہ کر بچے تندرست اور مضبوط ہو جائیں ‘ نیز ان کی زبان زیادہ فصیح اور عمدہ ہو جائے کیونکہ بدویوں کی زبان شہریوں کی زبان کے مقابلہ میں زیادہ صاف‘ خالص #سیرت_النبیﷺ @Sajid2k
Ayat No 24
پھر جب انہوں نے عذاب کو دیکھا بادل کی طرح آسمان کے کنارے میں پھیلا ہوا ان کی وادیوں کی طرف آتا بولے یہ بادل ہے کہ ہم پر برسے گا
(جاری)
2 #سرمایہ_زیست #سیرت_النبیﷺ @Sajid2k
کتاب: تاریخِ اسلام
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان: ذبیح ثانی عبداللہ بن عبدالمطلب
چاہ زمزم کی اصل سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام سے ہے کہ جب وہ اور ان کی ماں سیدنا ہاجرہ ؓ مکہ کے صحرائے لق و دق میں پیاس سے بیتاب ہوئے تو خدائے تعالیٰ کے حکم سے وہاں #خاتم_النبیین_محمّدﷺّ #سیرت_النبیﷺ
پانی کا چشمہ نمودار ہوا۔
سیدنا ہاجرہ ؓ نے اس پانی کو چاروں طرف مینڈ باندھ کر گھیر دیا اور وہ ایک کنویں کی صورت بن گیا۔ کچھ عرصہ تک تو وہ اسی حالت میں رہا۔ اور پھر اس کے بعد مٹی سے وہ اٹ گیا اور رفتہ رفتہ اس کا مقام اور جگہ
کسی کو معلوم نہ رہی۔ چاہ زمزم کا صرف تذکرہ ہی تذکرہ لوگوں کی زبان پر رہ گیا تھا۔ جب عبدالمطلب کے ہاتھ میں سقایتہ الحاج کا کام آیا تو انہوں نے چاہ زمزم کا پتہ و مقام تلاش کرنا شروع کیا‘ بہت دنوں تک عبدالمطلب اور ان کا بڑا لڑکا حارث چاہ زمزم
Surat No. 73 Ayat NO. 1
1: یہ پیار بھرا خطاب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،جب آپ پر پہلی پہلی بار غارِ حرا میں جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئےتھےتو آپ پر نبوت کی ذمہ داری کا اتنا بوجھ ہواکہ آپ کو جاڑا لگنے لگا،اور جب آپ اپنی اہلیہ
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرمارہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو، مجھے چادر میں لپیٹ دو، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں محبوبانہ انداز میں آپ کو ’’اے چادر میں لپٹنے والے‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔