#History
تاریخ کے اوراق سے
دُکھی ٹرین کی کہانی
زیرِ نظر تصویر میں نظر آنے والا دُخانی ریلوے انجن جو دیکھنے میں عام انجن کا بچہ لگتا ہے اپنے اندر ایک تاریخ سمیٹے ہوئے ہے
Image
ابتداء ہوتی ہے انگریز راج سے جب 1882 میں حیدرآباد (سندھ) اور جودھپور (انڈیا) کو ملانے کے لئے صحرائے تھر میں ایک چھوٹے گیج کی ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے کے لئے مہاراجہ جودھپور اور مہاراجہ بیکانیر نے سرمایہ فراہم کیا اور اس کی تکمیل 1911 میں ہوئی۔
Image
چھوٹا گیج ہونے کے ناطے مقامی لوگ اسے تین فُٹی ریل گاڑی بھی بولتے تھے۔ 476 کلومیٹر طویل اس پٹڑی کا تقریباً 210 کلومیٹر حصہ پاکستان میں سرحدی گاؤں کھوکھراپار تک ہے۔
ٹرین سروس کے اجراء نے صحرا میں ایک نئی جہت کو متعارف کرایا۔ جب کوئل کی طرح کُوکتے بھاپ کے انجن میں کوئلہ جلتا
Image
اور نیلگوں آسمان میں بل کھاتا سیاہ دھواں اوپر اٹھتا تو کسی شاعر کی محبوبہ کی گھنی زلفوں کی تشبیہ دکھائی دیتا تھا۔ صحرائے تھر کے باسیوں کے لئے جہاں یہ ایک اچھوتا عجوبہ تھا وہیں ان کے لئے نقل و حمل میں بے بہا آسانیاں بھی پیدا ہو گئیں وہ لوگ صحرا سے نکلے، شہروں کی طرف آئے
تو روزگار کے مواقع بھی میسر ہوئے اور ان کے طرزِ زندگی میں کچھ مثبت تبدیلیاں آئیں
تقسیم ہند تک یہ ٹرین جاری رہی اور پھر بوجوہ بند کر کے کوٹری (حیدرآباد) سے براستہ میرپور خاص کھوکھراپار تک محدود کر دی گئی۔
تھر کے باسی اس ٹرین کو "دُکھی" کے نام سے پکارتے تھے کیونکہ بھاپ کی طاقت سے بجنے والی ریل کی کُوک کسی دُکھی کی فریاد لگتی تھی اور یہ نام ایسا زبان زدِ عام ہوا کہ ریلوے ملازمین بھی یہی نام استعمال کرتے نظر آتے تھے
دُکھی ٹرین صحرائے تھر کے مکینوں کے لئے صرف آمد و رفت
Image
کا ذریعہ ہی نہیں تھی بلکہ ایک عرصہ تک پینے کا پانی کی رسائی کا موجب بھی تھی ٹرین کے ساتھ تین یا چار پانی والی بوگیاں لگائی جاتی تھیں جن کو میرپور خاص میں بھرا جاتا تھا۔ کھوکھراپار کی جانب ٹرین کے سفر کے دوران ہر سٹیشن پر دور دراز سے آئے لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا
جو پانی کے حصول کی خاطر میلوں پیدل چل کر آتے تھے۔ نوے کی دہائی میں چھور چھاؤنی بننے کے بعد پاک فوج نے پورے علاقے میں پانی کی ترسیل کے لئے پائپ لائنوں کا جال بچھا دیا اور دُکھی ٹرین کو اس ڈیوٹی سے استثنیٰ مل گیا
جب محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے
تو انہوں حیدرآباد تا میرپور خاص بڑے گیج کی پٹڑی ڈلوا دی اور اس طرح دُکھی میرپور خاص سے کھوکھراپار تک محدود ہو گئی
سال 2005 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ٹرین چلانے کا سمجھوتا ہوا تو تھر ایکسپریس کے نام سے کراچی تا جودھپور ٹرین چلانے کا منصوبہ بنایا گیا
لہذا میرپور خاص سے بارڈر تک بھی چھوٹی گیج کو بڑی گیج میں تبدیل کر دیا گیا اور چھوٹی گیج پر چلنے والے بھاپ کے انجن اور چھوٹی چھوٹی بوگیاں طاقِ نسیاں ہو کر قصۂ پارینہ بن گئیں

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Shahid Bashir

Shahid Bashir Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @LtColShahid

5 Jan
Maan knows Everybody
🤣🤣🤣🤣🤣
Professor and Maan Sb were friends for a long time. Maan Sb always used to brag that "You know, I know everyone there is to know. Just name someone, anyone, and I know them."
Tired of this, one day Professor decided to call his bluff, "OK, Maan, how about Tom Cruise?"
"No dramas prof, Tom and I are old friends, and I can prove it." So Maan and Professor fly out to Hollywood and knock on Tom Cruise's door, and Tom Cruise shouts,
"Maan! What's happening? Great to see you! Come on in for a coffee!"
Although impressed, Professor is still skeptical. After they leave Cruise's house, he tells Maan that he thinks him knowing Cruise was just lucky.
"No, no, just name anyone else," Maan says.
Read 10 tweets
5 Jan
#آج_کی_بات
ایک 55 سالہ شخص ڈِپریشن کا شکار تھا،
اس کی بیوی نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی، بیوی نے کہا کہ میرا خاوِند شدید ڈِپریشن میں ہے براہ کرم مدد کریں
ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی، اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور اُس کی بیوی کو باہر بیٹھنے کو کہا
صاحب بولے! میں بہت پریشان ہوں، دراصل میں پریشانیوں سے مغلُوب ہوں، ملازمت کا دباؤ، بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنا سامان نہیں جتنا کہ ایک کارتوس میں گولِیاں،میں بہت اُداس اور پریشان ہوں.
یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب ڈاکٹر کے سامنے کھول دی
پھر ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا کہ آپ نے دسویں جماعت کس اِسکول میں پڑھی؟ اُس شخص نے اسے اِسکول کا نام بتایا، ڈاکٹر نے کہا! آپ کو اس اِسکول میں جانا ہے پھر اپنے اسکول سے آپ کو اپنی دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا
Read 9 tweets
4 Jan
"بجٹ اور ٹیکس شاعری"
ٹیکس لگے گا 🤣
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب وصل کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا
سنتے ہیں کہ دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب ٹیکس ادائوں پہ بھی دینا ہی پڑے گا
بے وجہ کے انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
👇👇
بھرجائے گا اب قومی خزانہ یہ ہے امکاں
ہر عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا۔
اب باغ کی رونق کو بڑھائے گا بھلا کون
ہر پھول پہ ہر خار پہ بھی ٹیکس لگے گا۔
جس زلف پہ لکھتے ہیں صبح وشام سخنور
اسی زلف کی ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
👇👇
دل بھر کے دیکھ لو جتنا بھی اب چاہو!
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
میاں دیوان کو اب اپنے سمیٹو !!
کہتے ہیں کہ اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا
Read 4 tweets
4 Jan
تاریخ کے جھروکوں سے
سکندر اور پورس کا معرکہ
سنہ 326 قبل مسیح میں لڑی جانے والی سکندر اور پورس کی جنگ تاریخ میں Battle of Hydaspes کے نام سے جانی جاتی ہے
اس جنگ کے بارے میں عالمی، یونانی اور ہند کے مورخین کی مختلف آراء ہیں اور جنگ کے نتیجے کا بارے میں بھی ابہام ہیں
لیکن ایک بات جو مستند ہے کہ اس جنگ کے بعد سکندرِ اعظم کا کسی نئی جنگ میں معرکہ آرا ہونا سامنے نہیں آیا
اس خطے کے باسی ہونے کے ناطے میں فی الوقت ہندوستان کے مورخ کا نقطئہ نظر بیان کروں گا
لیکن اہلِ یونان کی بیان کردہ تاریخ کو نظر انداز کرنا بھی تاریخ کے ساتھ بے انصافی ہو گی
لہذا کوشش ہو گی کہ اگلی قسط میں ان کی بات بھی سنی جائے
326 ق م میں سکندر ٹیکسلا میں کچھ عرصہ آرام کرنے بعد مئی کے مہینے میں درٰیائے جہلم کے کنارے پہنچا دریائے جہلم کے پار راجا پورس کی حکومت تھی۔ پورس نے سکندر کی اطاعت قبول نہیں کی اور اس نے مقابلے کی تیاریاں شروع کی
Read 20 tweets
7 Dec 21
کسی بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا :
یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں ؟ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے؟
وزیر نے کہا :
بادشاہ سلامت ، اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھیئے
بادشاہ نے پوچھا :
اچھا ، یہ قانون نمبر
ننانوے کیا ہوتا ہے ؟
وزیر نے کہا :
بادشاہ سلامت ، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر ، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیئے سو درہم ہدیہ ہے ، رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر ادھر اُدھر چھپ جائیں
اور تماشہ دیکھ لیجیئے
بادشاہ نے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جیسے وزیر نے سمجھایا تھا ، ویسے ہی کیا ، صراحی رکھنے کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا .
دستک سن کر اندر سے خادم نکلا، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا . درہم گِنے تو ننانوے نکلے،
Read 8 tweets
4 Dec 21
سو ہے یہ بھی آدمی

ھمارے آفس کے قریب ایک ناشتہ پوائنٹ ھے
اکثر وھاں ناشتہ کرنے جاتے ھیں.. کافی رش ھوتا ھے ناشتے والے کے پاس
میں نے کافی دفعہ مشاھدہ کیا کہ ایک شخص آتا ھے اور کھانا کھا کر بھیڑ کا فائدہ اُٹھا کر چُپکے سے پیسے دئیے بغیر ھی نکل جاتا ھے جھانسہ دے کر
👇👇
ایک دن جب وہ کھانا کھا رھا تھا تو میں نے چُپکے سے ناشتہ پوائنٹ کے مالک کو بتا دیا کہ وہ والا بھائی ناشتہ کر کے بغیر بِل دئیے رش کا فائدہ اُٹھا کر نکل جاتا ھے آج یہ جانے نہ پائے. اس کو رنگے ھاتھوں پکڑنا ھے آج
میری بات سُن کر ناشتے والا مالک مُسکرانے لگ گیا
👇👇
اور کہنے لگا کہ اسے نکلنے دو. کُچھ نہیں کہنا اس کو بعد میں بات کرتے ھیں
حسبِ معمول وہ بھائی ناشتہ کرنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھتا ھوا جھانسہ دے کر چُپکے سے نکل گیا.
میں نے ناشتے والے مالک سے پُوچھا کہ اب بتاؤ اُسے کیوں جانے دیا.. کیوں اُس کی اس حرکت کو نظر انداز کیا؟
👇👇
Read 7 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(