تعلیمی درجہ بندی کےاعتبار سے فن لینڈ پہلے اور امریکہ20ویں نمبر پرہے۔ فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہےجہاں مضمون نام کی کوئی شےسکولوں میں نہیں پائی جاتی وہاں کا کوئی بھی سکول زیادہ سے زیادہ195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے اور19 بچوں پر 1 ٹیچر
⬇️
دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنےاسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے ہمارے یہاں والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو پڑھانے کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن
⬇️
ہی بچےاسکول سے نکلوالیں خیر آپ دلچسپ بات ملاحظہ فرمائیں کہ ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روزانہ اپنی ”اسکلز“ بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔7 سال سے پہلے بچوں کیلئے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں اور 15 سال سے پہلے کسی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان
⬇️
بھی نہیں ہے۔
ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے: ”میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں“
آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون
⬇️
سکھایا جاتا ہے اور وہ ”اخلاقیات“ اور”آداب“ ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا ”جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں“ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک انکی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔
⬇️
ایک دوست جاپان گئے ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیراعظم ہیں۔اشفاق احمد صاحب مرحوم کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ
⬇️
میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کاراز استادوں کی عزت میں ہے۔یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔
جاپان میں معاشرتی علوم پڑھائی نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے پڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی
نسلوں کو بہت خوبی کیساتھ
⬇️
معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کیلئے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح 8 بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں
جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے۔
⬇️
ہمارے بچے 'پبلشرز' بن چکے ہیں آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں بچے اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں، خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود
⬇️
ہی اس کو چیک کر کے نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہو جاتے ہیں وہ اس نتیجے ںہر افسوس کرتے ریتے ہیں اور اپنے بچے کو کوڑھ مغز
⬇️
اور 'کند ذہن' کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کرکے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندنے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے۔
سٹوڈنٹس کا
⬇️
اسکول میں سارا وقت سائنس 'رٹتے' گزرتا ہے, آپ کو پورے ملک میں کوئی ”سائنسدان“ نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ سائنس سیکھنے کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی رٹا لگواتے ہیں۔
آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858 میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ
⬇️
برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ”پاسنگ مارکس 65 ہیں تو برصغیر والوں کیلئے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860 میں اساتذہ کی آسانی کیلئے پاسنگ مارکس 33 کر دیئے گئے ہم آج بھی ان ہی33 نمبروں سے سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
⬇️
آخر میں صرف یہ پوچھنا تھا کہ ہم اپنی آنے والے نسل کو کیا دینا چاہتے ہیں یہ فرسودہ تعلیمی نظام جسکی ہم پیداوار ہیں یا نہیں اس سے بہتر بلکہ سب سے بہترین جو ہماری آنے والی نسلوں کو حقیقی تعلیم سے روشناس کرائے..
8سالہ مامون گھر کےصحن میں بیٹھا اسکول ورک دیکھنے میں مصروف تھا 5سال چھوٹی مائرہ کھڑی انگوٹھا چوس رہی تھی۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو مامون نے باہر کیطرف دوڑ لگا دی۔آج بھی ہمیشہ کیطرح دروازے پر اسرار انکل کو دیکھ کر سہم گیا، اسےعلم
⬇️
تھا کہ اسرار انکل روزانہ کیطرح اسے اور اس کی مما کو جلی کٹی سُنائیں گے اور وہی ہوا
اسرار صاحب خوب گرجے برسے ان کےواپس جاتےہی مامون سہماہوا اپنی ماں کے پاس چلا آیا۔
مماجی! اسرار انکل ہم سے روزانہ پیسے کیوں مانگنے آجاتے ہیں کیا ہمارے پاس ان کو دینے کے لئے بہت سارےپیسےنہیں ہیں ؟
⬇️
مامون نے معصومیت بھرے لہجے میں اپنی ماں سےسوال کیا تو ماں نے ایک سرد آہ بھر کر 6 ماہ کی گڑیا رانی کو چارپائی سے اٹھایا اور کرائے کے مکان پر نظرڈال کر آنکھوں میں آنسو لئے کمرے میں چلی گئی
ننھا مامون یہ منظر دیکھ کر حسبِ معمول آج بھی افسردہ ہوگیا۔ مما جی مجھے دودھ پینا ہے۔
⬇️
جب میں اپنے استاد (شیخ) کیساتھ تھا تو میرے استاد محترم نے مجھے مزدوری پر لگا دیا۔
میں بحری جہازوں میں لوڈنگ ان لوڈنگ کرتا اور جتنے پیسے کماتا میرے استاد ان میں سے دو وقت کھانے کی رقم نکال کر باقی کمائی خیرات کردیا کرتا۔
میں نے ایک دن اس حکمت کی وجہ پوچھی تو وہ
⬇️
مسکرا کر بولے تم تم گیارہ مہینے یہ کام کرو میں تمہیں اسکے بعد اس کا جواب دوں گا
گیارہ مہینے بعد میرا وظیفہ مکمل ہوگیا۔ میرے استاد نے مجھ سے کہا ”تم آج مزدوری کیلئے جاؤ کام شروع ہوجائے تو تم جھوٹ موٹ کا بیمار پڑ جانا سارا دن کام کو ہاتھ نہ لگانا شام کو اپنا معاوضہ لینا اور
⬇️
واپس آجانا“
میں نے شیخ کے حکم پر من و عن عمل کیا اور سارا دن پیٹ درد کا بہانہ بناکر گودی لیٹا رہا شام کو معاوضہ لیا اور استاد کے پاس آگیا۔
استاد نے فرمایا تم دو وقت کھانے کے پیسے رکھ کر باقی خیرات کردو
آپ یقین کریں گیارہ ماہ میں پہلا دن تھا جب میرا دل خیرات کو نہیں چاہ رہا تھا
⬇️
اگر پاکستان کی 22 کروڑ عوام غدار ہے تو اس ملک کے وفادار کون ہیں ..؟
وہ جنہوں نے قیام پاکستان کیساتھ ہی اس ملک کی جڑیں کاٹنا شروع کردی تھی ؟
وہ جنہوں نے قائد اعظم کی ایمبولنس سے پٹرول نکال کر انہیں قتل کر دیا تھا ؟
وہ جنہوں نے پہلے لیاقت علی خان کو گولی مروائی
⬇️
پھر اس قاتل کو گولی مار کر اسکی بیوہ اور بچے کی پرورش کرتے رہے ؟
وہ جنہوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غداری کا سرٹیفیکیٹ دیکر قتل کر دیا ؟
کیا اپ جانتے ہیں یہ کون لوگ ہیں ..؟
میں بتاتا ہوں ..
یہ وہ ہیں ..
جنہوں نے آج تک پاکستان کے آئین کو تسلیم ہی نہیں کیا.
⬇️
جنہوں نے خود کو آئین کے تابع ہونے کے بجائے بالاتر سمجھا۔
جنہوں نے بار بار آئین کو معطل کیا
جنہوں نے آئین کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا۔
اور یہ وہی خبیث لوگ ہیں جنہوں نے عوام کے مینڈٹ کی بار بار توہین کی اور رات کی تاریکی میں ووٹ چوری کئے۔
غیرت و قہر کی علامت حجاج بن یوسف زبیر کو بےوقت دیکھ کر کچھ فکرمند ہوگیا زبیر گھوڑے سے اترا اور بغیر بات کئے ایک سفید رومال اپنی جیب سے نکال کر پیش کیا پھر بغیر آنکھ ملائے کہا:آپ کے نام یہ خط ابوالحسن کی لڑکی ناہید نے اپنےخون سےلکھا کہ اگر حجاج کا خون منجمد ہوچکا
⬇️
ہوتو میرا یہ خط پیش کردینا ورنہ اس کی ضرورت نہیں
حجاج رومال پر خون سےلکھی ہوئی تحریر کی چند سطور پڑھ کر کپکپا اٹھا اسکی آنکھوں کےشعلے پانی میں تبدیل ہونے لگے اس نے رومال پاس کھڑے اپنے داماد محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دیا اورخود دیوار کےپاس جاکر ہندوستان کا نقشہ دیکھنےلگا
حجاج کی
⬇️
شقی القلبی،غصہ اور انتقام محمد بن قاسم نے دیکھ رکھا تھالیکن چہرے کایہ رنگ پہلےکبھی نہیں دیکھا تھا قاسم نےشروع سے لیکر آخر تک یہ مکتوب پڑھا ”مجھے یقین ہےکہ والی بصرہ قاصد کی زبانی مسلمان بچوں عورتوں کاحال سن کر اپنی فوج کے غیور سپاہیوں کو گھوڑوں پر زینیں ڈالنےکا حکم دے چکا ہوگا
⬇️
آپ گوگل سے جب کوئی سوال کرتے ہیں تو وہ سوال کے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے سوال کے دو کروڑ پانچ لاکھ بیس ہزار جواب صفر اعشاریہ چھ پانچ سیکنڈز میں حاضر ہیں. اس وقت کو جو گوگل جواب کی تلاش میں استعمال کرتا ہے سرور رسپانس ٹائم کہتے ہیں. گوگل دنیا کے
⬇️
جدید ترین زی اون سرور اور جدید ترین لینکس ویب سرور آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہے.
اس سسٹم نے صرف موجود معلومات کو جواب کی مناسبت سے میچ کر کے آپ کیلئے لائن اپ کرنا ہوتا ہے.
اور وہ اس کام کیلئے آدھے سیکنڈ سے ایک سیکنڈ کا وقت استعمال کرتا ہے اور بڑے فخر سے جواب سے پہلے آپ
⬇️
کو بتاتا ہے کہ آپ کیلئے میں نے یہ جواب چھ سو پچاس ملی سیکنڈز میں تلاش کیا ہے.
اب ہم کمپیوٹر کی سکرین سے کرکٹ کے میدان میں چلتے ہیں.
جہاں شعیب اختر یا بریٹ لی باؤلنگ کرا رہے ہیں گیند 150 KM فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی گئی ہے، وکٹ کی لمبائی بیس اعشاریہ ایک دو میٹر ہے،
⬇️
1955میں کوٹری بیراج کی تکمیل کے بعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی
4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے
1:جنرل ایوب خان 500ایکڑ
2:کرنل ضیااللہ 500ایکڑ
3:کرنل نورالہی 500ایکڑ
4:کرنل اخترحفیظ 500ایکڑ
5:کیپٹن فیروزخان 243ایکڑ
⬇️
6:میجرعامر 243ایکڑ
7:میجرایوب احمد 500ایکڑ
8:صبح صادق 400ایکڑ
صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رہے
1962 میں دریائےسندھ پر کشمور کے قریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی
اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت پانچ، دس ہزار روپے
ایکڑ تھا عسکری حکام نے صرف 500 روپے ایکڑ کے حساب سے خریدا۔
⬇️
گدو بیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1:جنرل ایوب خان 247ایکڑ
2:جنرل موسی خان 250ایکڑ
3:جنرل امراؤ خان 246ایکڑ
4:بریگیڈئر سید انور 246ایکڑ
دیگر کئی افسران کو بھی نوازا گیا
ایوب خان کے عہد میں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی انکی تفصیل یوں ہے:
⬇️