آج سے ٹھیک 1 ہزار 943 سال قبل موجودہ اٹلی کےشہر پومپئی میں اپنے وقت کے سب سے لبرل اور سیکولر لوگ رہا کرتے تھے پومپئی میں زنا اور ہم جنس پرستی اس قدر عام تھی کہ گلیوں بازاروں چوک چوراہوں میں سر عام ہوتا تھا پھر ایک دن ساتھ والے پہاڑ سے لاوا پھٹا اور 6
⬇️
میٹر اونچا بہتا ہوا بلند لاوا زندگی کا آخری نشان تک مٹا گیا۔ انسان تو انسان پورے شہرے سے ایک کتا بھی نا بچا۔ فطرت بعد میں آنے والے انسانوں کیلئے عبرت کا اہتمام کرنا چاہتی تھی تاکہ بعد کے لوگ دیکھیں جانیں اور سیکھیں۔ اصول یہ ہے کہ جو بھی چیز مکمل طور پہ جل جائے راکھ ہو جاتی ہے۔
⬇️
اس شہر کے زیادہ تر لوگ جل کر راکھ ہونے کے بجاۓ جس حالت میں تھے اسی حالت میں رہتی دنیا کیلئے عبرت کی علامت بن گئے کچھ لوگ ایسے بھی جو مرنے کے وقت حالتِ زنا میں تھے اور اسی حالت عبرت کی علامت بن گئے کچھ گھروں میں مقیم تھے کچھ کھانے پینے میں لگے تھے مگر سب کے سب اس لاوے کی لپیٹ
⬇️
میں آکر لاشوں میں تبدیل ہو گئے۔ یہ لاشیں آج بھی پومپئی کی گلیوں گھروں اور چوک چوراہوں میں ہمیں کچھ بتانے کیلئے موجود ہیں اور یہ لاشیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ تم جیسے ہی فطرت سے بغاوت کرتے ہو دراصل اپنی تباہی کے دروازے پہ دستک دیتے ہو، تم جہاں بھی فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے ایک حد سے
⬇️
گزر جاتے تھے تمہیں فطرت خود برباد کر دیتی ہے۔ اور بربادی کا نمونہ بننے کے بعد تم رہتی دنیا کےلئے ایک نمونہ بن جاتے ہو۔ فطرت کیا ہے؟ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت جب سے ہے تب سے اسلام موجود ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تک دینِ فطرت آہستہ آہستہ
⬇️
انسانیت پہ اترتا رہا یہاں تک کہ ایک دن نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ نے یہ آیات اتاریں۔ مفہوم:
”آج کے دن میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا“
اسلام اس اعلان کے بعد سے مکمل ہو چکا ہے اب اس میں کسی بھی ازم کا تڑکا نہیں لگایا جا سکتا چاہے وہ سیکولر ازم، لبرل ازم ہو،
⬇️
کمیونزم ہو یا دنیا جہاں کا کوئی بھی ازم، جب آپ اسلام کے بجائے اس ازم کو قبول کرتے ہو تو آپ دراصل اس بات کا اعلان کرتے ہو کہ تمہارا دین تمہارے لیے ناکافی تھا اس لیے تم نے اسلام کے بجائے کسی اور چیز کو ترجیح دی جب تم اسلام کو بھی قبول کرتے ہو اور اس کے ساتھ کسی ازم کا بھی تڑکا
⬇️
لگا دیتے ہو تو تم دراصل یہ اعلان کرتے ہو کہ میرا اسلام نامکمل تھا اس لیے میں نے اپنے اسلام کے ساتھ کسی سیکولر ازم، لبرل ازم ، یا کمیونزم کا ٹانکا لگا کے اسے مکمل کر لیا ہے۔ اس دین میں جسے اللہ مکمل کر چکا ہے، چودہ سال پہلے، آج اگر چودہ سو سال بعد تم تڑکے لگاتے ہو تو جان لو
⬇️
لو کہ فطرت سے بغاوت کر رہے ہو اور فطرت سے بغاوت کرنے والوں کو فطرت ایک حد سے گزرنے کے بعد مٹا دیتی ہے۔ پومپئی کی ان جلی لاشوں سے لے کر فرعون کی ممی تک سب یہی گواہی دے رہی ہیں۔“
کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کےکئی پہلوؤں کو چھوا، شام 7 بجے موبائل کی گھنٹی بجی اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی آخر ہوا کیا؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آسکتے ہیں؟
⬇️
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں، بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ماں کدھر ہیں آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے
میں اسے مطمئن کرتے ہوئےکہا 1گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہنچا دیکھا کہ بھائی صاحب (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہیں
بھابی رونا
⬇️
چیخنا کر رہی ہیں؛ 12 سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور 9سال کی بیٹی بھی کچھ کہہ نہیں پارہی.
میں نے بھائی صاحب سے پوچھا آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے
پھر بھابی نےکہا؛یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں
مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں
میں نے کہا یہ
⬇️
نوابزادہ اعظم خان،نواب آف کالا باغ فیملی کےچشم و چراغ تھے، عمران خان کےکلاس فیلو اور جگری یار تھے نوابزادہ اعظم خان اور عمران خان نے یہ دوستی کالج لائف کے بعد بھی خوب نبھائی۔نوابزادہ صاحب عمران خان کو ہر سال اپنے خرچے پر شکار کھیلنے لے جاتے
⬇️
چارعشرے قبل کا واقعہ ہے۔ نوابزادہ اعظم خان نے اپنے جگری یار عمران خان کو شکار پر بلایا شکار کے دوران ہی نوابزادہ صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ عمران اپنے جگری دوست کی لاش جنگل میں ہی چھوڑ کر صحت افزا تفریح کیلئے کسی اور طرف نکل گئے شکار جیسی سرگرمی چھوڑ
⬇️
کر دوست کی لاش کے پاس بیٹھنا، ڈیڈ باڈی کو اسکے گھر تک پہنچانا یا بعدازاں جنازہ پڑھنے جیسے بور کام کیلئےخان صاحب کے پاس وقت نہیں تھا۔
مشہور پنجابیATVکمپیئر دلدار پرویز بھٹی،عمران کے لاڈلے دوستوں میں سرفہرست تھے دلدار بھٹی فوت ہو گئے عمران خان اس روز انکی جنازہ گاہ سے صرف 300 گز
⬇️
حوالاجات کی سلاخوں کےپیچھے سے میں اسےنماز پڑھتا دیکھ رہا تھا وہ 25 ,26سال کاخوبصورت نوجوان قتل کے مقدمے میں دو دن پہلے ہی یہاں لایا گیا تھاچند عدالتی کاروائی کےبعد اسےجیل منتقل کیاجانا تھا اس کےخلاف کیس کافی مضبوط تھا اس لیےگمان غالب تھا کہ ایک دو پیشیوں کے بعد ہی
⬇️
اسے سزائے موت سنا دی جائے گی
میں ایک پولیس والا ہوں اور پہلے دن سے ہی میرا رویہ اور لہجہ اس کے ساتھ کافی سخت رہا تھا لیکن اس کے لبوں پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ وہ مجھے بڑا سمجھتےہوئے ادب سے اور نرم لہجےمیں بات کرتا تھا مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن
⬇️
میں ہی اس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا
اب وہ سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ رہا تھا میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو
دعا کے بعد اسکی نظر مجھ پر پڑی تو اس کے لبوں پر پھر
⬇️
قدیم روم اور عمران نیازی
معلومات اور چھترول ایکساتھ
قدیم روم میں پیشاب پہ ٹیکس اور پیشاب کا دانت صاف کرنے اور کپڑے دھونے کیلئے استعمال
قدیم روم جسے یورپ کے قدیم عروج کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس کے عروج کی حقیقت کیا تھی، وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ وہاں پیشاب ٹوتھ پیسٹ اور صابن کے
⬇️
طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔
Pecunia Non Olet’:
یہ جملہ رومی زبان کا ہے اور اس کا معنی ہے کہ رقم کبھی نہیں ڈوبتی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ رقم کسطرح نہیں ڈوبتی اور ہر طرف سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے تو اس کیلئے آپ کو آج سے دو ہزار سال پیچھے تاریخ روم میں جانا پڑے گا۔ آپ کو
⬇️
معلوم ہوگا کہ یہ جملہ رومی شہنشاہ ویسپاسین کا قول ہے جو70 میں روم کا حکمران تھا۔اسےاپنے شاہی معاملات چلانے کیلئے رقم کی ضرورت تھی اور اس نے پیسہ حاصل کرنے کیلئے ہر چیز پہ ٹیکس لگا دیا۔ اس نے ٹیکس بڑھا دیے خواہ عوام دے سکتی تھی یا نہیں دے سکتی تھی مصر پہ بھی جس پہ اس وقت رومی
⬇️
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب
کالکی اوتار نے دنیا بھر ہلچل مچادی ہے جسمیں بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس کالکی اوتار کا تذکرہ ملتا ہے وہ کوئی اور نہیں آخری رسول محمدﷺ بن عبداﷲ ہی ہیں۔اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا
⬇️
اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگر اس کے مصنف ”پنڈت وید پرکاش“ برہمن ہندو ہیں وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ اور سنسکرت زبان کے ماہر، معروف محقق اسکالر ہیں۔
پنڈت وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور و معروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا۔
⬇️
جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں
برہمن پنڈت ویدپرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ ہندووں کی اہم مذہبی کتب
⬇️
ایک ںچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر
⬇️
میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا:”مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟“
کہنے لگے: بچوں کیلئےکیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع
⬇️
نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس
⬇️