کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کےکئی پہلوؤں کو چھوا، شام 7 بجے موبائل کی گھنٹی بجی اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی آخر ہوا کیا؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آسکتے ہیں؟
⬇️
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں، بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ماں کدھر ہیں آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے
میں اسے مطمئن کرتے ہوئےکہا 1گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہنچا دیکھا کہ بھائی صاحب (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہیں
بھابی رونا
⬇️
چیخنا کر رہی ہیں؛ 12 سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور 9سال کی بیٹی بھی کچھ کہہ نہیں پارہی.
میں نے بھائی صاحب سے پوچھا آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے
پھر بھابی نےکہا؛یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں
مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں
میں نے کہا یہ
⬇️
کیسے ہوسکتا ہے؟ اتنی اچھی فیملی ہےدو بچے ہیں سب کچھ سیٹلڈ ہے پہلی نظر میں مجھے لگا کے یہ مذاق ہےلیکن میں نے بچوں سے پوچھا دادی کدھر ہے تو بچوں نے بتایا؛ پاپا انہیں 3 دن پہلے اولڈایج ہوم شفٹ کرآئے ہیں۔ میں نےنوکر سے کہا: مجھےاور بھائی صاحب کوچائے پلاؤ کچھ دیر میں چائے آئی بھائی
⬇️
بھائی صاحب کو میں نے بہت کوشش کی چائے پلانے کی مگر انہوں نے نہیں پی۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولے میں نے 3 دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا میں اپنی 61 سال کی ماں کو کچھ لوگوں کے حوالے کر آیا ہوں، پچھلے سال سے میرے گھر میں ماں کیلئے اتنی مصیبتیں
⬇️
ہوگئیں کہ بیوی نے قسم کھالی میں ماں جی کا دیہان نہیں رکھ سکتی
نا تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات کرتے تھے
روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بیت روتی تھی نوکر تک ان سے خراب طرح سے پیش آتے اور اپنی من مانی کرتے۔ ماں نے10دن پہلے بول دیا مجھےاولڈایج ہوم میں ڈالدے
⬇️
میں نے بہت کوشش کی پوری فیملی کو سمجھانے کی لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات نہ کی۔
جب میں 2سال کا تھا تب ابو انتقال کرگئےماں نے گھروں میں کام کرکے مجھے پڑھایا اس قابل بنایا کے میں آج ایک جج ہوں،
لوگ بتاتے ہیں کہ ماں کام کرتے وقت کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی اس ماں کو
⬇️
میں آج اولڈایج ہوم میں چھوڑآیا ہوں میں اپنی ماں کےایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لئے اٹھائے تھے مجھے آج بھی یاد ہےجب میں میٹرک کا امتحان دینے والا تھا ماں میرے ساتھ رات رات بھر بیٹھی رہتی تھی
ایکبار جب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت تیز بخار میں
⬇️
مبتلا پایا پورا جسم گرم اور تپ رہا تھا میں نے ماں سے کہا تجھےتیز بخار ہے تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بنا کر آئی ہوں اس لئے گرم ہے۔
لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھے LLB کرایا مجھے ٹیوشن تک نہیں پڑھانے دیتی تھی کہیں میرا وقت برباد نہ ہو جائے کہتے کہتے رونے لگے اور کہنے لگے؛ جب
⬇️
ایسی ماں کے ہم نہیں ہوسکے تو اپنے بیوی اور بچوں کے کیا ہونگے ہم جن کے جسم کے ٹکڑے ہیں، آج ہم ان کو ایسےلوگوں کےحوالےکر آئے جو انکی عادت انکی بیماری، انکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے جب میں ایسی ماں کیلئے کچھ نہیں کر سکتا تو میں کسی اور کیلئے بھلا کیا کر سکتا ہوں
آزادی اگر اتنی
⬇️
پیاری ہے اور ماں اتنی بوجھ ہے تو، میں پوری آزادی دینا چاہتا ہوں
جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جائینگے اسی لیے میں طلاق دینا چاہتا ہوں
ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کے حوالے کرکے اس اولڈ ایج ہوم میں رہوں گا۔ وہاں کم سے کم ماں کیساتھ رہ تو سکتا ہوں اور اگر اتنا سب کچھ
⬇️
کرنے کے باوجود ماں اولڈایج ہوم میں رہنے کیلئےمجبور ہے تو ایک دن مجھے بھی آخر جانا ہی پڑے گا ماں کیساتھ رہتے رہتے عادت بھی ہو جائےگی ماں کیطرح تکلیف تو نہیں ہوگی جتنا بولتے اس سے بھی زیادہ رو رہے تھے
اسی دوران رات 12:30 ہوگئےمیں نے بھابھی کے چیرے کو دیکھا انکے چہرے پچھتاوے کے
⬇️
جذبات سے بھرے ہوئےتھے۔
میں نے ڈرائیور سے کہا؛ ہم لوگ اولڈ ایج ہوم چلیں گے،
بھابی، بچے اور ہم سب اولڈ ایج ہوم پہنچے،
بہت زیادہ گزارش کرنے پر گیٹ کھلا
بھائی صاحب نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑلیئے بولے میری ماں ہے میں اسے لینے آیا ہوں
چوکیدار نےپوچھا کیاکرتے ہو صاحب؟
بھائی صاحب نے کہا
⬇️
میں ایک جج ہوں۔
اس چوکیدار نےکہا”جہاں سارےثبوت سامنے ہیں تو آپ اپنی ماں کیساتھ انصاف نہیں کر پائے اوروں کیساتھ کیا انصاف کرتے ہونگے صاحب“
اتنا کہہ کر ہم لوگوں کو وہیں روک کر وہ اندر چلاگیا
اندر سے ایک عورت آئی جو وارڈن تھی اس نے بڑے زہریلے لہجے میں کہا 2 بجے رات کو آپ لوگ لیجا
⬇️
کر کہیں اسے مار دیں تو میں اللہ کو کیا جواب دونگی؟
میں نے وارڈن سے کہا بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت پچھتاوے میں جی رہے ہیں.
آخر کسی طرح ان کے کمرے میں لے گئی، کمرے کا جو نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔صرف ایک فوٹو جس میں پوری فیملی ہے وہ بھی ماں کے بغل میں جیسے بچے
⬇️
کو سلا رکھا ہے
مجھے دیکھا تو اسے لگا کہیں بات نہ کھل جائے لیکن جب میں نےکہا کہ ہم آپ کو لینے آئے ہیں تو پوری فیملی ایکدوسرے سے لپٹ کر رونے لگی۔ آس پاس کمروں میں اور بھی بزرگ تھے سب جاگ کر باہر آگئے ان کی بھی آنکھیں نم تھیں۔ کچھ دیر بعد چلنے کی تیاری ہوئی، پورے اولڈایج ہوم کے
⬇️
لوگ باہر تک آئے،کسی طرح ہم لوگ اولڈ ہوم کے لوگوں کو چھوڑ پائے،
سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے شاید انہیں بھی کوئی لینے آئے۔
راستے بھر بچے اور بھابی جی تو چپ چاپ رہے مگر ماں اور بھائی صاحب ایکدوسرے کے جذبات کو اپنے پرانے رشتے پر بٹھا رہے تھے گھر آتے آتے 4 بج گئے بھابھی بھی اپنی
⬇️
خوشی کی چابی کہاں ہے یہ سمجھ گئی تھیں۔
میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے آنکھوں میں گھومتے رہے
”ماں صرف ماں ہے“
ماں کے بغیر گھر قبرستان کیطرح ہے
اسکو مرنے سے پہلے نہ ماریں
ماں ہماری طاقت ہے اسے کمزور نہیں ہونے دیں۔
اگر وہ کمزور ہوگئی تو ثقافت کی ریڑھ کمزور
⬇️
ہو جائیگی اور بنا ریڑھ کا سماج کیسا ہوتا ہے یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔
اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ دار میں اسطرح کی کوئی مسئلہ ہو تو انھیں یہ ضرور پڑھوائیں اور اچھی طرح سمجھایں، کچھ بھی کریں لیکن ہمیں جنم دینے والی ماں کو بے گھر، بے سہارا نا ہونے دیں اگر ماں کی آنکھوں سے آنسو
⬇️
گر گئے تو یہ قرض کئی جنموں تک رہے گا۔
یقین مانیں سب ہوگا تمہارے پاس لیکن سکون نہیں ہوگا
سکون صرف ماں کے آنچل میں ہوتا ہے اس آنچل کو کبھی بھی بکھرنے مت دینا۔
طالب دعا 🤲
تحریر کو اوپر ٹائٹل سے ریٹویٹ کریں
مجھے فالو کرکے فالو بیک لیں @Arshe530
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آج سے ٹھیک 1 ہزار 943 سال قبل موجودہ اٹلی کےشہر پومپئی میں اپنے وقت کے سب سے لبرل اور سیکولر لوگ رہا کرتے تھے پومپئی میں زنا اور ہم جنس پرستی اس قدر عام تھی کہ گلیوں بازاروں چوک چوراہوں میں سر عام ہوتا تھا پھر ایک دن ساتھ والے پہاڑ سے لاوا پھٹا اور 6
⬇️
میٹر اونچا بہتا ہوا بلند لاوا زندگی کا آخری نشان تک مٹا گیا۔ انسان تو انسان پورے شہرے سے ایک کتا بھی نا بچا۔ فطرت بعد میں آنے والے انسانوں کیلئے عبرت کا اہتمام کرنا چاہتی تھی تاکہ بعد کے لوگ دیکھیں جانیں اور سیکھیں۔ اصول یہ ہے کہ جو بھی چیز مکمل طور پہ جل جائے راکھ ہو جاتی ہے۔
⬇️
اس شہر کے زیادہ تر لوگ جل کر راکھ ہونے کے بجاۓ جس حالت میں تھے اسی حالت میں رہتی دنیا کیلئے عبرت کی علامت بن گئے کچھ لوگ ایسے بھی جو مرنے کے وقت حالتِ زنا میں تھے اور اسی حالت عبرت کی علامت بن گئے کچھ گھروں میں مقیم تھے کچھ کھانے پینے میں لگے تھے مگر سب کے سب اس لاوے کی لپیٹ
⬇️
نوابزادہ اعظم خان،نواب آف کالا باغ فیملی کےچشم و چراغ تھے، عمران خان کےکلاس فیلو اور جگری یار تھے نوابزادہ اعظم خان اور عمران خان نے یہ دوستی کالج لائف کے بعد بھی خوب نبھائی۔نوابزادہ صاحب عمران خان کو ہر سال اپنے خرچے پر شکار کھیلنے لے جاتے
⬇️
چارعشرے قبل کا واقعہ ہے۔ نوابزادہ اعظم خان نے اپنے جگری یار عمران خان کو شکار پر بلایا شکار کے دوران ہی نوابزادہ صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ عمران اپنے جگری دوست کی لاش جنگل میں ہی چھوڑ کر صحت افزا تفریح کیلئے کسی اور طرف نکل گئے شکار جیسی سرگرمی چھوڑ
⬇️
کر دوست کی لاش کے پاس بیٹھنا، ڈیڈ باڈی کو اسکے گھر تک پہنچانا یا بعدازاں جنازہ پڑھنے جیسے بور کام کیلئےخان صاحب کے پاس وقت نہیں تھا۔
مشہور پنجابیATVکمپیئر دلدار پرویز بھٹی،عمران کے لاڈلے دوستوں میں سرفہرست تھے دلدار بھٹی فوت ہو گئے عمران خان اس روز انکی جنازہ گاہ سے صرف 300 گز
⬇️
حوالاجات کی سلاخوں کےپیچھے سے میں اسےنماز پڑھتا دیکھ رہا تھا وہ 25 ,26سال کاخوبصورت نوجوان قتل کے مقدمے میں دو دن پہلے ہی یہاں لایا گیا تھاچند عدالتی کاروائی کےبعد اسےجیل منتقل کیاجانا تھا اس کےخلاف کیس کافی مضبوط تھا اس لیےگمان غالب تھا کہ ایک دو پیشیوں کے بعد ہی
⬇️
اسے سزائے موت سنا دی جائے گی
میں ایک پولیس والا ہوں اور پہلے دن سے ہی میرا رویہ اور لہجہ اس کے ساتھ کافی سخت رہا تھا لیکن اس کے لبوں پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ وہ مجھے بڑا سمجھتےہوئے ادب سے اور نرم لہجےمیں بات کرتا تھا مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن
⬇️
میں ہی اس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا
اب وہ سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ رہا تھا میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو
دعا کے بعد اسکی نظر مجھ پر پڑی تو اس کے لبوں پر پھر
⬇️
قدیم روم اور عمران نیازی
معلومات اور چھترول ایکساتھ
قدیم روم میں پیشاب پہ ٹیکس اور پیشاب کا دانت صاف کرنے اور کپڑے دھونے کیلئے استعمال
قدیم روم جسے یورپ کے قدیم عروج کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس کے عروج کی حقیقت کیا تھی، وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ وہاں پیشاب ٹوتھ پیسٹ اور صابن کے
⬇️
طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔
Pecunia Non Olet’:
یہ جملہ رومی زبان کا ہے اور اس کا معنی ہے کہ رقم کبھی نہیں ڈوبتی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ رقم کسطرح نہیں ڈوبتی اور ہر طرف سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے تو اس کیلئے آپ کو آج سے دو ہزار سال پیچھے تاریخ روم میں جانا پڑے گا۔ آپ کو
⬇️
معلوم ہوگا کہ یہ جملہ رومی شہنشاہ ویسپاسین کا قول ہے جو70 میں روم کا حکمران تھا۔اسےاپنے شاہی معاملات چلانے کیلئے رقم کی ضرورت تھی اور اس نے پیسہ حاصل کرنے کیلئے ہر چیز پہ ٹیکس لگا دیا۔ اس نے ٹیکس بڑھا دیے خواہ عوام دے سکتی تھی یا نہیں دے سکتی تھی مصر پہ بھی جس پہ اس وقت رومی
⬇️
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب
کالکی اوتار نے دنیا بھر ہلچل مچادی ہے جسمیں بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس کالکی اوتار کا تذکرہ ملتا ہے وہ کوئی اور نہیں آخری رسول محمدﷺ بن عبداﷲ ہی ہیں۔اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا
⬇️
اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگر اس کے مصنف ”پنڈت وید پرکاش“ برہمن ہندو ہیں وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ اور سنسکرت زبان کے ماہر، معروف محقق اسکالر ہیں۔
پنڈت وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور و معروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا۔
⬇️
جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں
برہمن پنڈت ویدپرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ ہندووں کی اہم مذہبی کتب
⬇️
ایک ںچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر
⬇️
میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا:”مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟“
کہنے لگے: بچوں کیلئےکیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع
⬇️
نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس
⬇️