بعض دوست احباب کا سوال ہوتا ہے کہ تم سیاست سے نفرت بھی کرتے ہو اور عمران خان کو سپورٹ بھی کرتے ہو تو انکے لیے میرا جواب 👇
مجھ میں اور خان میں ایک چیز کامن ہے ہم دونوں ہی پاکستان کی بہتری کا سوچتے ہیں اسکے پاس پاور ہے وہ اسے استعمال کرتا ہے میرے پاس سوچ ہے جسے میں قلم کے
زریعے اتراتا ہوں ۔ مجھے واقعی سیاست سے نفرت ہے مجھے خان سے ایک سو ایک مسائل ہیں جو صرف اسکی سیاست سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر میں اسکو سپورٹ کرتا ہوں تو صرف اسلیے کہ اس میں غیرت ایمانی ابھی زندہ ہے وہ۔ہمت رکھتا ہے دشمن کو للکارنے کی اس نے یہ کر کے دیکھایا ہے بس اسی وجہ سے
ان کمی کمین اور گھٹیا لوگوں کو ٹرول کرتا ہوں جو خان کے خلاف ہیں ورنہ۔میری مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے جنگِ دوئم کے بعد کے ایک دیہاتی کی تھی جس کو تھانیدار نے لاک اپ کر دیا اور کئی دن گزرنے کے بعد اس سے پوچھا اوئے تیرا کوئی رشتے دار نہیں تو وہ بولا ہیں تو بڑے لیکن۔میں نہیں چاہتا
کہ وہ یہاں آئیں ۔ تھانیدار نے پوچھا کیوں تو دیہاتی نے کہا اسلیے کہ باہر رہونگا تو حکومت کو پالوں گا اندر رہوں گا تو حکومت مجھے پالے گی نہ خرچہ ہو گا نہ چرچا ہوگا بس یہ ہی وجہ ہے نیازی کو ٹیک دینے کی اسلیے
جیسے قذافی کے بیٹے کی ساری دولت اغیار نے ہتھیا لی تھی اسی طرح شریفوں اور زرداری کو تکلیف ہوئی ہے کہ عمران خان نے یورپ کو کیوں للکارا ہے کیونکہ پاکستان اس دوراہے پر ہے کہ اگر یہ معاملات سنجیدگی کی طرف جاتے ہیں تو سب سے پہلے انہی چوروں کے گلدستوں کی شامت آئے گی
جن کی جائدادیں باہر ہیں ، لندن ، امریکہ ، فرانس یہ سب ان کی رقوم ہڑپ کر جائیں گے یہ منی لانڈرنگ نیٹورک کی لڑائی ہے عمران خان سے اس سب میں استعمال پاکستانیوں کو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس لیے عوام سند رکھے نیا ورلڈ آڈر تیار کھڑا ہے بائیڈن کے آنے کے بعد امریکہ
کی پوزیشن بہت کمزور ہے کیونکہ بائیڈن دوسرا مجھے کیوں نکالا ٹائپ ہے ۔ دوسری جانب روس کھڑا ہے اور اسکے ساتھ چین ہے یہ دو طاقتور ملک پاکستان کے قریب ہیں ۔ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے ناول لکھا تھا کچھ عرصہ قبل اس میں کچھ حالات میں نے سچے درج کیے تھے وہ مجھے مختلف سرچ کی وجہ سے ملے
میں نے کافی سوچا ہے اسکے بارے میں اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ جتنے بھی لوگ اندرونِ پنجاب سے ووٹ لے کر وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے ہیں بزدار نے انکی پی آر ختم کر دی ہے کیونکہ وہ مسکین کام کر رہا ہے اس نے خاموشی سے بہت سے کام سر انجام دئیے
جس کی وجہ سے پرانے کھانگڑوں کو اپنا مستقبل تاریک ہوتا نظر آرہا ہے پنجاب میں ۔ اور حکومتیں بنتی ہی پنجاب سے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بزدار کے بہت مخالف ہیں جن کو اگر اسکے کام بتا بھی دئیے جائیں تو وہ پھر بھی نہیں مانتے حالانکہ دیکھا جائے تو بزدار نے بِلا امتیاز کام کروائے ہیں
شروع میں میں بذات خود بزدار کو ٹارگٹ کر رہا تھا اور اپنے شہر راولپنڈی کے لیے سہولتیں مانگ رہا تھا لیکن اب میرے شہر می۔ کافی کام ہو رہے ہیں خاص کر رِنگ روڈ منصوبہ تو شاندار ہے شہر کے لیے اسکے علاوہ گلیاں اور سڑکیں زیرِ تعمیر ہیں ۔ ٹیوب ویل لگ رہے ہیں مطلب جو ضروری یے وہ ہورہا ہے
ہمارے لوگوں کے دلِ و دماغ میں یہ چیز رچ بس گئی ہے کہ انکے مسئلوں کا حل کونسلر سے لے کر وزیر اعظم تک کے پاس ہے اگر وہ نہیں ہوں گے تو انکے مسائل حل نہیں ہونگے یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جہالت انتہا کو پہنچ چکی ہے اس ریوڑ نما ہجوم کو یہ چیز سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ 👇🏼
کہ آپ کسی کو منتخب کریں یا ناں کریں ریاست پابند ہے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی بھی ادارہ خودکفیل نہیں ہے کیونکہ سسٹم ہی ٹھیک نہیں ہے کرپشن بے انتہا ہے سالوں لوگوں کو ایک گیس کے کینکشن کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں دیوانی کیسوں کی تو بات ہی الگ ہے 👇🏼
نسلیں جوان ہو جاتی ہیں زمینوں کا فیصلہ نہیں ہو سکتا صفائی و ستھرائی یہاں تک کہ کسی چوک میں سگنل خراب ہو جائے تو مہینوں لگ جاتے ہیں اس کو ٹھیک کرنے میں ۔ اوپر سے سیاسی بھرتیاں اور گھوسٹ ملازمین تو اس سب سے خوار پاکستان کی عوام ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی باز نہیں آتی 👇🏼
ہمارے علاقے میں ایک سکول کھلا تھا کسی زمانے میں وہاں کا سسٹم انوکھا تھا مثلاً وہاں نرسری تا میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی اسکول کی فیس ایک ہزار فکس تھی اس اسکول میں بچے خالی ہاتھ جاتے تھے گھر کے کپڑوں میں کوئی کاپی پینسل کتاب کچھ نہیں تھا تو صرف ڈیجیٹل بورڈ ۔
یہ بڑا مشکل کام تھا کیونکہ ہمارے بچوں کو عادت ہے لکھ کر رٹا مار کر یاد کرنے کی تو اس اسکول انتظامیہ نے اسکا حل یہ نکالا کہ ضروری مضمون کے کورس بنائے ایک دن صرف ایک سبجیکٹ یعنی ایک دن انگلش وہ انگلش میں کوئی لٹریچر نہیں پڑھاتے تھے بلکہ وہ انگلش بولنا سیکھاتے تھے
اسی طرح عربی بولنا سیکھاتے تھے ہر دو ماہ بعد وہاں امتحانات ہوتے تھے زبانی جب انگلش بولنا سیکھ جاتا تھا بچہ تو اسے کتاب تھما دیتے لو پڑھو اس میں کیا لکھا ہے تب وہ بچہ فر فر بولتا تھا اور جلدی سمجھ جاتا تھا اسی طرح عربی کے لیے قرآن رکھ دیا جاتا اور کہا جاتا بتاو کیا فرمایا گیا ہے
جھوٹ پھیلانے میں
فحاشی پھیلانے میں
لوگوں کو گمراہ کرنے میں
چند ناعاقبت اندیش لوگ پرائم ٹائم میں کوئی سوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس کو سوشل میڈیا پر موجود سستے دانشور سلبرٹی ہوا دیتے ہیں یوں وہ بات پھیل کر لوگوں کے دماغ میں بیٹھ جاتی ہے 👇
آج کل میڈیا پیپلز پارٹی کی جانب جھک رہا ہے ظاہر سی بات ہے نوٹ دیا گیا ہوگا خالی جیب تو کوئی کسی کی طرفداری نہیں کرتا پاکستان میں ۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے سے ایک بیانیہ سیٹ کیا جا رہا ہے کہ اسٹبلیشمنٹ پیپلز پارٹی کی جانب متوجہ ہو رہی ہے یعنی اگلی بار زرداری آئے گا 👇
اب اس بات کو لے کر سوشل میڈیا کے زبردستی کے سلبرٹی اسٹبلیشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں باقاعدہ لعنتیں بھیج رہے ہیں کئی ایک تو دعوی کر رہے ہیں کہ ہم ٹینکوں کے نیچے نہیں بلکہ ٹینکوں کو الٹ دیں گے
کوئی بھی اس پر غور نہیں کر رہا کہ یہ ایک گیم پلان بھی ہو سکتا ہے خیر سے 👇
ایسی کون سی بات ہے جو شام کو نہیں ہو سکتی ۔ علی نے سوچا اور کہا بس ایسے ہی اتنے دن بعد آپکو دیکھا تو باتیں کرنے کا دل کر رہا ہے ۔ اسکی والدہ نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا یہاں کی آب و ہوا تم کو راس نہیں آئی شاید علی ۔ وہ ہنسا اور کہا اگر آپ صالح کے ساتھ چوبیس گھنٹے گزاریں تو
آپ کو بھی اولاد کے حقوق کی فکر ہو جائے میں تو پھر آپکا بیٹا ہوں ۔ اسکی والدہ مسکرائی اور بولی کہاں ہے وہ علی بولا باہر ہے مولوی صاحب ۔ خیر ماما آپ جائیں شام کو بات کریں گے ۔ وہ وہاں سے چلا آیا ۔ سارا دن خوب گہما گہمی تھی ۔ مردوں کا پنڈال سجا ہوا تھا ۔ وہ سب مصروف تھے
حق داروں کو انکا حق ادا پہلے ادا کیا گیا ۔ وسیع لنگر کا انتظام بھی تھا صالح کے مدرسے کے استاد بھی آئے ہوئے تھے وہ انکے ساتھ ہی مصروف رہا علی دوسرے کاموں میں ہاتھ بٹاتا رہا ۔ شام عصر کے بعد دعا کرائی گئی اور تقریب کا اختتام ہو گیا لوگ گھروں کو جانے لگے ۔ آخر کار سب فارغ ہو گئے