ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی نے ملک میں ادویات میں استعمال ہونے والے مختلف اقسام کے خام مال کی تیاری کے لیے پالیسی وضع کی ہے. پالیسی کے تحت نئی کمپنیوں کو ون ونڈو آپریشن کی سہولت مہیا کی جائے گی. جبکہ مشینری کی درآمد پر 5 سال تک 👇
کسٹمز کی شرح صفر ہوگی. اگست 2020 میں وفاقی کابینہ نے ادویات کی بڑھتی قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے ڈریپ کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ خام مال کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے اقدامات کرے. پاکستان میں فارما سوٹیکل کی صنعت کا حجم 3.4 ارب ڈالر ہے جبکہ برامدی حجم صرف 250 ملین ڈالرز ہے. 👇
اس وقت صرف 16 کمپنیوں کے پاس خام مال کی تیاری کا لائسنس ہے. جو ملکی ضرورت کا صرف 15 فیصد ہی تیار کرپاتی ہیں. جبکہ 85 فیصد ضرورت چین اور بھارت سے درآمد کرکے پوری کی جاتی ہے. اس لئے ملک میں ادویات کی قیمتوں میں استحکام برقرار رکھنا مشکل ہے. متعدد سرمایہ کاروں نے خام مال کی تیاری 👇
میں دلچسپی دکھائی لیکن کاروباری سہولت نہ ہونیکی وجہ سے عملی طور پرکچھ نہیں ہوپارہاتھا. حکومت نے گزشتہ سال تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کے بعد ڈریپ کو موزوں پالیسی تیار کرنیکی ہدایت کی. خام مال کی عالمی مارکیٹ کا حجم 180 بلین ڈالر ہے. 👇
جو اگلے 4 سال میں 250 بلین ڈالر تک پہنچ جاے گا. حکومت اس پالیسی کے تحت نہ صرف خام مال کی ملکی ضرورت پوری کرنا چاہتی ہے بلکہ اگلے 5 سال میں 250 ملین ڈالرز کے برآمدی حجم کو 5 بلین ڈالر تک لے جانا چاہتی ہے.
امید ہے پالیسی سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونگے.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
پاکستان میں بلیک بیری 800 جبکہ بلیو بیری 1500 روپے فی کلو تک فروخت ہوتا ہے. ملکی پیداوار انتہائی کم ہے اس لئے یہ فروٹ کیلی فورنیا سمیت افغانستان اور ایران سے درآمد کرنا پڑتاہے. گلگت بلتستان اور پنجاب کے علاقے اس فروٹ کی پیداوار👇
کے لئے انتہائی موزوں ہیں.بارانی ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ اور پاک گرین لینڈ کارپوریشن مشترکہ طور پر 375 ملین روپے کی لاگت سے بیری کی 2 اقسام بلیو اور بلیک کی پیداوار کو ایکسپورٹ لیول تک لے جانے کیلئے سرگرم ہیں. بارانی گروپ نے GB میں 25 ایکڑ خرید کرکاشت👇
کی تمام ضروریات مکمل کرلی ہیں. پاک گرین لینڈ کے مطابق وہ گزشتہ 6 سال میں پنجاب کی مختلف جگہوں پر تجربات کرچکےہیں اس سلسلے میں 157 ملین روپے سے شروع کئے گئے پراجیکٹ کے بڑے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئےہیں. اب پنجاب حکومت کے تعاون سے منصوبے کو بڑے پیمانے پر بڑھانے جارہے ہیں. مشترکہ 👇
بلوچستان پاکستان کے کل رقبےکا 43 فیصد ہے آبادی 4۔1 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ زمین قابل کاشت ہے لیکن پانی نہ ہونیکی وجہ سے ہر2سال بعد خشک سالی کا سامناکرناپڑتاہے۔ قدرت کی بے شمار نعمتوں کےباوجود لوگ انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔👇
سالانہ 1کروڑ 30 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کے برابربارش ہوتی ہے یہ مقدار دو تربیلا ڈیمز کے برابر ہے۔لیکن اس میں سے صرف37 فیصد پانی محفوظ کرنیکی گنجائش ہے۔ 63 فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں 200 ڈیمز کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔ تاہم منصوبے کو جلد حقیقت کا روپ دینےکے لئے👇
تعداد100 تک محدودکردی گئی۔ کمزور سیاسی اور خراب سیکورٹی حالات کیوجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس منصوبے پر عملی کام آغاز کیا۔ ڈیمز کی تعمیر کو 5 فیز میں تقسیم کیا گیا۔
پہلا فیز 20 ڈیمز پر مشتمل تھا جس پرکام کا آغاز2009 ہوا جو 2015 میں 2.4 ارب روپے کی👇
صدر مملکت نے ورچول تقریب کے ذریعے دنیا کی دوسری بڑی سمارٹ فونز بنانیوالی کمپنی Xiaomi کے مینوفیکچرنگ پلانٹ کا افتتاح کردیا ہے. لاہور میں کوٹ لکھپت کے مقام پر یہ پلانٹ 400 ملین ڈالرز کی لاگت سے مختلف فیزز میں مکمل ہوگا. فیز 1 👇
میں کمپنی ماہانہ 4 لاکھ موبائل بناے گی جسے رواں سال کے اختتام تک ساڑھے 5 لاکھ تک لے جایا جائے گا. جبکہ 2023 سے سالانہ پیداوار 30 لاکھ ہوگی.30 لاکھ میں سے 10 لاکھ سے زائد برآمد کئے جائیں گے. کمپنی نے 3 ہزار پاکستانیوں کو روزگار دیاہے. یہ چینی نیشنل کمپنی اسوقت دنیا کی دوسری بڑی 👇
سمارٹ فون اور 500 بڑی کمپنیوں میں 334 ویں نمبر پر ہے. گزشتہ برس اس نے 19 کروڑ سمارٹ فونز بناے تھے. پاکستان میں اس کمپنی کا آنا نہائت ہی خوشی کا باعث ہے. انشاء اللہ یہ کمپنی میڈ ان پاکستان سمارٹ فونز کی مہم کو چار چاند لگاے گی. موجودہ حکومت نے 2019میں پہلی موبائل پالیسی منظور سے👇
سیمی کنڈکٹر کی عالمی تجارت کاحجم 500 بلین ڈالر سے زائدہے. تائیوان چین جاپان جنوبی کوریا ملائشیا اور امریکہ مینوفیکچرز ہیں. اکیلا تائیوان کل پیداوار کا 80 فیصد بناتا ہے. امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان پر اختلاف کی اصل وجہ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری پر قبضہ رکھناہے👇
کیونکہ دونوں ممالک الیکٹرانک ڈیوائسز کے میجر پروڈیوسر ہیں. جبکہ ہر الیکٹرانک ڈیوائس سیمی کنڈکٹر کی محتاج ہے. افغانستان میں سیمی کنڈکٹر میں استعمال ہونے والے لیتھئم کے پہاڑوں کی گنتی کرنا مشکل ہے. اگر وہاں حالات نارمل ہوجائیں تو افغانستان دنیا کا اگلا تائیوان بن سکتا ہے. چین 👇
اور پاکستان انہی کوششوں میں مصروف ہیں. وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورے میں چینی کمپنی گلوبل سیمی کنڈکٹر کا 40 ملین کی لاگت سے پاکستان میں سیمی کنڈکٹر ٹیسٹنگ سینٹر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ افرادی قوت تیار کرنیکا معاہدہ کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. چونکہ پاکستان بھی موبائل فون 👇
1. چائینہ مشینری انجنئرنگ کارپوریشن حکومتی سطح پر پاکستان میں ایگریکلچرل سائنس و ٹیکنالوجی سینٹر قائم کریگا. جہاں فصلوں کی پیداوار بڑھانےسمیت بیج کوبہتر بنانے پر کام کیا جائےگا. جبکہ اسی کمپنی نے LNG ٹرمینل لگانےبھی میں دلچسپی ظاہر کی ہے👇
2. یہی کمپنی گوادر فری زون میں پیپر اور میٹل کا پراسسنگ اور ری سائیکلنگ پارک قائم کریگی. جو برآمدی مقاصد کیلئے ہوگا. 4.5 بلین ڈالر کا یہ منصوبہ 2 سے 3 سال میں کام شروع کردیگا. 40 ہزار افراد کو روزگار ملےگا.
3. زینگ بینگ گروپ فوجی فرٹیلائزر کے ساتھ ملکر حیوانات اور پولٹری فیڈ👇
کی پیداوار پر کام کریگا. جبکہ مکئی اور سویابین کی پیداوار بڑھانے کیلئے اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے.
4. رائل گروپ 50 ملین ڈالرز کی لاگت سے بڑے پیمانےپر 4 ڈیری فارمز بناےگا. جن میں 80 ہزار بھینسوں سے سالانہ 16 ملین لیٹر دودھ حاصل ہوگا. جبکہ بھینسوں کی بیماریوں پر تحقیق بھی ہوگی.👇
جیوجیکل سروے آف پاکستان نے 1991 میں بتایا کہ تھرپارکر میں 9 ہزار مربع کلومیٹر پر کوئلے کے ذخائر ہیں. حجم 175 ارب ٹن لگایا گیا. جو سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر کے برابر ہیں. یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ اس سے 👇
300سال تک 1 لاکھ میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکتی ہے. یہ دنیا کے 29 ویں بڑے ذخائر ہیں. لیکن حکمرانوں کی نااہلی دیکھئےکہ ہم3000سے زائد MW کے حامل کوئلے کے پلانٹس اور سیمنٹ کی ضرورت پوری کرنیکےلئےسالانہ2 ارب ڈالرکا کوئلہ امپورٹ کرتےہیں. دنیاکی باتوں پر اعتبارکیاکہ ہمارا کوئلہ ناقص ہے👇
بی بی شہید کی بڑی خواہش تھی کہ تھر کے کوئلے کو ٹیسٹ کیا جائے جوحقیقت نہ بن سکی. 2008 میں سندھ کی صوبائی حکومت نے ذخائر کو 12 بلاکس میں تقسیم کیا اور ابتدائی طور پر 4 کی نیلامی کا عمل شروع کیا. 2012 میں جب بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار MW تک پہنچ گیا توسندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے👇