روضہ رسول ﷺ کے بارے میں آپ نے ایسی معلومات نہیں پڑھی ہونگی پڑھ کر شئیر کیجئیے
حرمین شریفین کی انتظامیہ کیجانب سے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں مسجد نبوی اور آپ ﷺ کی قبر مبارک کے بارے میں مکمل معلومات اور وضاحت کی گئی۔
تشریح و توضیح
گزشتہ ساڑھ پانچ صدیوں میں کوئی بھی شخص
⬇️
آپ ﷺ کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں اس کے گرد ایک چار دیواری ہے اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو5دیواروں پر مشتمل ہے یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نےبنوائی
تھی اور اس کے پانچ کونے
⬇️
رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیاہے
یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں لہذا کسی کے ان دیواروں کےاندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔روضہ رسول ﷺ کےاندر
⬇️
سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں
روضہ رسول ﷺ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے اسطرح سلام پیش
⬇️
کرنے والے زائرین اور آنحضورﷺ کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔گزشتہ 1300 سال
⬇️
سے اس پنچ دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا سوائے دو مواقع کے۔ایکبار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔۔مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی
⬇️
جانب ہے بنی پاک ﷺ کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال نما کمرے میں ہے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت ہے یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کیلیے کھولا جاتا ہےاس دروازے سےاندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے اس کے پیچھے ان کی
⬇️
چار پائی(سریر) ہے۔العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہال نما کمرے میں روضہ مبارک کیطرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیااس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں
⬇️
شاہ عبدالعزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اس دیوار کےاطراف تعمیر کی گئی جو91ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب
⬇️
دونوں دیواروں کی لمبائی ملاکر 14 میٹر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لیکر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپﷺ کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا اس کے بعد 881ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہوجانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی، اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ
⬇️
نور الدین ابوالحسن المسعودی مدینہ منورہ میں موجود تھے جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔وہ لکھتے ہیں 14شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طورپر ڈھا دی گئی دیکھاتواندرونی چاردیواری میں بھی دراڑیں پڑی تھیں چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی ہماری آنکھوں کے
⬇️
سامنے اب مقدس حجرہ تھا مجھے داخلے کی سعادت ملی میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا اسکی چاردیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی
⬇️
جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں چاردیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی تینوں سطح زمین کےتقریباً برابر تھیں صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا یہ شاید حضرت عمر(رض) کی قبر تھی قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں
⬇️
جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا
علامہ نورالدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پرمبنی ہےحجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
⬇️
اس دوران حجرے پر موجود چھت کوختم کرکےاسکی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہےاس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیاگیا جسکی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کےعین نیچے واقع ہے
یہ اب معلومات معروف کتاب”وفاء الوفاء با اخبار
⬇️
دار المصطفی ﷺ کے مؤلف نورالدین ابوالحسن المسہ نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں۔
واللہ اعلم باالصواب
(نور الدین ابو الحسن السمہودی نے پوری ڈیٹیل سے لکھا ہے زمین کیسی تھی کس جانب تھی زمین سے کتنی اوپر تھی کیسے بنی ہوئی تھی کتنے کونے تھےاور ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے پینٹنگ سے
⬇️
تصویر بنائی گئی تاکہ لوگ زیارت کر سکیں۔۔ اللہ تعالیٰ تحریر میں کمی بیشی معاف فرامائے۔
تحریر صدقہ جاریہ ہے جسے میں نے آپ تک پہنچا دیا ہے اب دوسروں تک پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔
اوپر ٹائٹل سے ریٹویٹ کریں
مجھے فالو کرکے فالو بیک لیں
طالب دعا @Arshe530
جزاک اللہ۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
باباجی آج بہت غصے میں تھے تمام مریدوں کو دھوپ میں کھڑا کر رکھا تھا اور ہاتھ میں جنات نکالنے والا ڈنڈا پکڑے باری باری سب سے پوچھ رہے تھے کہ بھنگ والے ڈرم کے نیچے آگ کس نے جلائی؟ لیکن کوئی بھی مرید ماننے کو تیار ہی نہ تھا اور نا کوئی کچھ بتا رہا تھا آخر باباجی
⬇️
آستانے کے وسط میں لگے بوہڑ کے درخت کی چھاؤں میں جا بیٹھے اور مریدوں کو بھی پاس آ کر بیٹھنے کو کہا تمام مرید جو کافی دیر سے دھوپ میں کھڑے کھڑے تنگ آگئے تھےجلدی سے باباجی کے اردگرد بیٹھ گئے باباجی نے پاس رکھے مٹکے سے پانی نکال کر پیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد تمام مریدوں سے بولے
⬇️
تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں. ایک بہت بڑے بزرگ تھے اُنہوں نے اپنے حجرے کے سامنے ایک بیری کا درخت لگا رکھا تھا گرمیوں میں لوگ اسکی چھاؤں میں آکر بیٹھتے اور اسکے بیر چُن کر کھاتے، باباجی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوتے انہیں اس درخت سے بے پناہ اُنس ہو گیا تھا وہ بالکل اپنے بچوں کیطرح اس
⬇️
مولوی صاحب ایک دن اپنی زوجہ سے کہنے لگے: ”بَھلیٔے لوکے میرا تو جب موڈ ہوتا ہے جگا لیتا ہوں، تمہارا بھی کبھی مُوڈ رومانٹک ہو تو بتایا کرو“
وہ کہنے لگیں مجھے کہتے ہوئے شرم آتی ہے.
مولوی صاحب نے کہا باہر الماری میں وہ جو ایک ڈبہ پڑا ہے جس دن موڈ ہو
⬇️
عشاء سے پہلے الٹا کر دیا کرنا
دوسرے دن مولوی صاحب عشا کے بعد گھر آئے تو ڈبہ الٹا پڑا تھا، خوشی خوشی کمرے کو گئے
یہ سلسلہ ایک ہفتہ جاری رہا، ہر گزرتے دن ڈبہ الٹا پڑا ہوتا تھا اور مولوی صاحب پچھلے دن سے کم خوشی کے ساتھ کمرے کو روانہ ہو جاتا
⬇️
آٹھویں دن مولوی صاحب عشا کے بعد گھر نہیں آئے۔
زوجہ کو فکر ہوئی تو بچے کو بھیجا کہ مسجد سے ابا کی خیر خبر لاؤ
بچہ گیا اور کہا کہ خیریت ہے آپ گھر نہیں آئے۔
مولوی صاحب نے کہا پہلے گھر جاؤ اور دیکھ آؤ ڈبہ الٹا پڑا ہے یا سیدھا ؟
بچہ دیکھ کر واپس آیا اور بتایا کہ ڈبہ الٹا پڑا ہے۔
⬇️
کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کےکئی پہلوؤں کو چھوا، شام 7 بجے موبائل کی گھنٹی بجی اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی آخر ہوا کیا؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آسکتے ہیں؟
⬇️
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں، بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ماں کدھر ہیں آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے
میں اسے مطمئن کرتے ہوئےکہا 1گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہنچا دیکھا کہ بھائی صاحب (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہیں
بھابی رونا
⬇️
چیخنا کر رہی ہیں؛ 12 سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور 9سال کی بیٹی بھی کچھ کہہ نہیں پارہی.
میں نے بھائی صاحب سے پوچھا آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے
پھر بھابی نےکہا؛یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں
مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں
میں نے کہا یہ
⬇️
آج سے ٹھیک 1 ہزار 943 سال قبل موجودہ اٹلی کےشہر پومپئی میں اپنے وقت کے سب سے لبرل اور سیکولر لوگ رہا کرتے تھے پومپئی میں زنا اور ہم جنس پرستی اس قدر عام تھی کہ گلیوں بازاروں چوک چوراہوں میں سر عام ہوتا تھا پھر ایک دن ساتھ والے پہاڑ سے لاوا پھٹا اور 6
⬇️
میٹر اونچا بہتا ہوا بلند لاوا زندگی کا آخری نشان تک مٹا گیا۔ انسان تو انسان پورے شہرے سے ایک کتا بھی نا بچا۔ فطرت بعد میں آنے والے انسانوں کیلئے عبرت کا اہتمام کرنا چاہتی تھی تاکہ بعد کے لوگ دیکھیں جانیں اور سیکھیں۔ اصول یہ ہے کہ جو بھی چیز مکمل طور پہ جل جائے راکھ ہو جاتی ہے۔
⬇️
اس شہر کے زیادہ تر لوگ جل کر راکھ ہونے کے بجاۓ جس حالت میں تھے اسی حالت میں رہتی دنیا کیلئے عبرت کی علامت بن گئے کچھ لوگ ایسے بھی جو مرنے کے وقت حالتِ زنا میں تھے اور اسی حالت عبرت کی علامت بن گئے کچھ گھروں میں مقیم تھے کچھ کھانے پینے میں لگے تھے مگر سب کے سب اس لاوے کی لپیٹ
⬇️
نوابزادہ اعظم خان،نواب آف کالا باغ فیملی کےچشم و چراغ تھے، عمران خان کےکلاس فیلو اور جگری یار تھے نوابزادہ اعظم خان اور عمران خان نے یہ دوستی کالج لائف کے بعد بھی خوب نبھائی۔نوابزادہ صاحب عمران خان کو ہر سال اپنے خرچے پر شکار کھیلنے لے جاتے
⬇️
چارعشرے قبل کا واقعہ ہے۔ نوابزادہ اعظم خان نے اپنے جگری یار عمران خان کو شکار پر بلایا شکار کے دوران ہی نوابزادہ صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ عمران اپنے جگری دوست کی لاش جنگل میں ہی چھوڑ کر صحت افزا تفریح کیلئے کسی اور طرف نکل گئے شکار جیسی سرگرمی چھوڑ
⬇️
کر دوست کی لاش کے پاس بیٹھنا، ڈیڈ باڈی کو اسکے گھر تک پہنچانا یا بعدازاں جنازہ پڑھنے جیسے بور کام کیلئےخان صاحب کے پاس وقت نہیں تھا۔
مشہور پنجابیATVکمپیئر دلدار پرویز بھٹی،عمران کے لاڈلے دوستوں میں سرفہرست تھے دلدار بھٹی فوت ہو گئے عمران خان اس روز انکی جنازہ گاہ سے صرف 300 گز
⬇️
حوالاجات کی سلاخوں کےپیچھے سے میں اسےنماز پڑھتا دیکھ رہا تھا وہ 25 ,26سال کاخوبصورت نوجوان قتل کے مقدمے میں دو دن پہلے ہی یہاں لایا گیا تھاچند عدالتی کاروائی کےبعد اسےجیل منتقل کیاجانا تھا اس کےخلاف کیس کافی مضبوط تھا اس لیےگمان غالب تھا کہ ایک دو پیشیوں کے بعد ہی
⬇️
اسے سزائے موت سنا دی جائے گی
میں ایک پولیس والا ہوں اور پہلے دن سے ہی میرا رویہ اور لہجہ اس کے ساتھ کافی سخت رہا تھا لیکن اس کے لبوں پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ وہ مجھے بڑا سمجھتےہوئے ادب سے اور نرم لہجےمیں بات کرتا تھا مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن
⬇️
میں ہی اس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا
اب وہ سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ رہا تھا میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو
دعا کے بعد اسکی نظر مجھ پر پڑی تو اس کے لبوں پر پھر
⬇️