کچھ عرصہ سے فیسبک پر ایسی پوسٹس تواتر کے ساتھ دکھ رہی ہیں کہ میں یتیم لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں
دکھ درد کی ماری ایسی لڑکی کی تلاش میں ہوں جس کے ماضی نے اسے توڑ دیا ہو وغیرہ وغیرہ
یہ سب ڈرامے بازی ہے
شکار کے لیے پھیلایا جانے والا جال ہے
اگر اتنی ہی ہمدردی ہے #socialmedia
++
++
تو سوشل میڈیا پر ڈرامہ بازی کرنے سے بہتر ہے یتیم خانے/ دارالامان جائیں
وہاں آپ کی نیکی کی خواہش بھی پوری ہوجائیگی اور اُن یتیم/ بے سہارا لڑکیوں کے نکاح کا انتظام بھی ہوجائے گا
یہ لڑکیاں واقعتاً یتیم اور دکھوں کی ماری ہوتی ہیں
ان کے ماضی نے انہیں واقعی توڑ دیا ہوتا ہے
++
++
فیسبک/ٹیوئٹر پر اگر کوئی حقیقتاََ یہ نیکی کرنا چاہتا ہے تو اپنے اردگرد محلے، علاقے میں نظر دوڑائے تو اسے ایسے لوگ مل جائینگے جو وہ سوشل میڈیا پر تلاش کر رہا ہے
اگر ایسی کوئی پوسٹ/ ٹیوئٹ آپ کو نظر آئے تو اسے دارالامان کا راستہ دکھا دیں
جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے
اسکی جنسی جبلتوں کا مرکز اسکا دماغ بنتا جاتا ہے
جو کام وہ اپنی نوجوانی میں کرنے کاخواہشمند تھا موقع نہ ملنے یا گھبراہٹ کی وجہ سے کر نہیں سکا اب وہ انہیں اپنے دماغ میں کرتا ہے
میں نےاس ناول کو لکھنےکا آغاز 83 سال کی عمر میں کیاتھا #خوشونت_سنگھ
++
++
دو سال کے عرصہ میں مکمل ہوا
چنانچہ اس ناول کا موزوں عنوان یہ ہوسکتا تھا
اک 80 سالہ بوڑھے کے جنسی تصورات
واضح رہے کہ اس ناول کا اک بھی کردار حقیقی نہیں ہے یہ سارے کردار میرے بوڑھے تخیل کی تخلیق ہیں
خوشونت سنگھ نے اس ناول میں اپنی جنسی لحاظ سے "حسرت" کو بیان کیا ہے کہ کس طرح اک بوڑھا شخص "جنسی جذبات" کو "آخیر" تک لے جاتا ہے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے
پڑھنے میں اک مزیدار کتاب ہے
++
بڑھاپے قابو پانے پر دنیا میں بہت کام ہو رہا ہے
بلکہ اک سائنسدان نے تو رضاکارانہ طور پر تجرباتی دوا استعمال کرکے اپنی ظاہری حالت ساٹھ سال کی عمر میں تیس پینتیس سال کی کر بھی لی ہے عقیدہ اور چیز ہے سائنس اور
بڑھاپے پہ فتح پا لینا خوش فہمی نہیں ہے چونکہ عمر کا دورانیہ یورپ میں
++
++
یورپ میں اچھی ہیلتھ کیئر اور مناسب غذا و سہولیات کی فراہمی سے پہلے ہی بڑھایا جا چکا ہے
نہ کر شکوہ ہماری بے سبب کی بد گمانی کا
محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے
ہوا کرتا ہے سب کچھ اے اثرؔ اس کی خدائی میں
کریں دعویٰ خدائی کا صنم ایسا بھی ہوتا ہے
امداد امام اثر #NewProfilePic
++
++
جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے
مگر ہم پر جو ہے تیرا ستم ایسا بھی ہوتا ہے
عدو کے آتے ہی رونق سدھاری تیری محفل کی
معاذ اللہ انساں کا قدم ایسا بھی ہوتا ہے
نہ ہو درد جدائی سے جو واقف اس کو کیا کہیے
ہمیں وہ دیکھ کر کہتے ہیں غم ایسا بھی ہوتا ہے
امداد امام اثر
++
++
ہمیں بزم عدو میں وہ بلاتے ہیں تمنا سے
کرم ایسا بھی ہوتا ہے ستم ایسا بھی ہوتا ہے
ہوا کرتا ہے سب کچھ اے اثرؔ اس کی خدائی میں
کریں دعویٰ خدائی کا صنم ایسا بھی ہوتا ہے
کوئی کُھسرا کوئی ہیجڑا آکھے
آکھے کوئی جنانہ
کَدی کَدی تے منہ نئیں لاندا
ساہنوں کُل گھرانہ
بال پُنے وِچ سہکدے رہنا
اندر لُک لُک وڑنا
کدی کدی تے اپنے سَکے
وِیر کولوں وی ڈرنا
جدوں جوانی دے وِچ پایا
پہلا پیر خدایا
گھر چوں باہر جاکے مینوں
خوف بڑا ای آیا
++
ایدھر اودھر جِدھر ویکھاں
بس اکھاں ای اکھاں
بِٹ بِٹ بِٹ بِٹ تَکدیاں جاون
پَیر جِتھے وی رکھاں
ہر کوئی ایہو چاہندا سی ایہ
بیٹھےمیرے کول
فیر وجاوےکوئی ساڈے
لاگے آکے ڈھول
پہلے مینوں نَچ نَچ دَسے
مگروں کِھڑکِھڑ ہَسے
فیر اچانک ٹُٹ جان میرے
ضبط دے سارے رسے
فیر میں ایہنوں سڑک دے اُتے
+
++
جاچ ٹُرن دی دساں
ایہ فیر اُچی اُچی رووے
تے میں کِھڑ کِھڑ ہساں
چَھڈ حکیما! تینوں نہیں میں
باقی گل سنانی
نہ ای اپنی روح نُوں پِیڑ
پرانی یاد کرانی
پہلے ای ساڈے پِچھے لگا
دھو کے ہَتھ زمانہ
مَت الزام نواں کوئی لاوے
گَھڑ کے ہور بہانہ
کوئی کُھسرا کوئی ہیجڑا آکھے
آکھے کوئی زنانہ
میری سب سے پہلی بغاوت کچن سے شروع ہوئی تھی دیکھتی تھی باورچی خانہ کی پڑچھتی پر تین گلاس، باقی برتنوں سے الگ تھلگ، ہمیشہ اک کونے میں پڑے رہتے تھے
گلاس صرف اس موقعہ پر زیریں چھت سے اتارے جاتے تھے جب والد کے مسلمان دوست آتے تھے ان کو لسی چائے پلانا ہوتی
اس کے بعد
امرتا پریتم
++
++
مانجھ کر پھر وہیں رکھ دئیے جاتے
سو تین گلاسوں کے ساتھ میں بھی چوتھے گلاس کی طرح شامل ہوگئی
ہم چاروں نانی کے ساتھ لڑ پڑے وہ گلاس بھی باقی برتنوں کو نہیں چھو سکتے تھے
میں نے بھی ضد پکڑ لی کہ میں کسی دوسرے برتن میں نہ پانی پیوں گی نہ چائے
نانی ان گلاسوں کو الگ رکھ
امرتا پریتم
++
++
سکتی تھی مگر مجھ کو بھوکا پیاسا نہ رکھ سکتی تھی
بات والد تک پہنچ گئی
والد کو معلوم نہ تھا کہ کوئی گلاس اسطرح علیحدہ رکھے جاتے ہیں
پتہ چلا تو میری بغاوت کامیاب ہوئی
پھر نہ کوئی برتن ہندو رہا نہ مسلمان
اس گھڑی نہ نانی کو معلوم تھا نہ مجھ کو
کہ بڑی ہو کر زندگی کے
امرتا پریتم
++
درست کہ مرد موقع ملے تو دوسری تیسری چوتھی پانچویں وغیرہ خاتون سے متمتع ہونے سے گریز نہیں کرتے
مگر جو سمجھ نہیں سکتا وہ یہ کہ بچوں سے صرف نظر کس لیے
اوسپنسکی روس کے سب سے مہنگے لکھاری تھے
چند ھفتے پہلے اس جہاں سے گئے تب تک کم از کم پانچ لاکھ ڈالر کے
++
ڈالر کے مساوی سالانہ پارہے تھے
مگر ابھی Tv پر دکھا رہے ہیں کہ ان کی اک سگی بیٹی بھی ہے جو انکے جنازے تک میں نہیں پہنچی وہ کوریئر کی سی عام اہلکار ہے
اوسپنسکی کی مہنگی جائیداد تیسری بیوی اور دو لے پالک بیٹیوں کوجائے گی
مگر سگی بیٹی کوکچھ نہیں مل سکےگا
24 ستمبر 2018 #Facebook
++
++
بیٹی سمجھتی ہے کہ اس کا باپ اس کی ماں اور اس سے انتقام لینا چاہتا تھا
مغرب کے بیشتر مردوں اور کچھ عورتوں کا اپنی پہلی اولاد سے رویہ کم از کم مجھے سمجھ نہیں آتا