#Egyptology #Pyramid #Archaeology
شی اوپس/خوفو کا اہرام (غزہ)
Cheops/Khufu Pyramid (Giza)
Circa: 2650 BC
پراسراریت اور حیرت کےگڑھ مصر میں واقع سب سے پہلا اہرام شی اوپس یعنی خوفو کا مقبرہ (Mound) تھا جوصدیوں سےاس آب وگیاہ ویرانےمیں لایخل چیستاں کی طرح ایستادہ، فرعونوں کی عظمت رفتہ
کی انمٹ اورحیرت انگیز دلیل بنا فخر سے کھڑا ھے۔
اس اہرام کو20 سال کےعرصےمیں 100,000مزدوروں نے تعمیرکیا اور یہی وہ اہرام ھے جسے دنیا کے سات عجائبات میں نمبرون شمار کیا جاتا ھے۔
فرعون شی اوپس کا زمانہ حضرت عیسیٰ سے تین ہزار سال بعد کاھے۔ عہدشی اوپس میں مصر کی ابادی 2کروڑ تھی۔ #Egypt
اہرام شی اوپس کی جسامت ہی کسی ماہر مصریات (Egyptologist)، موءرخ بلکہ سیاح کیلئے بھی حیرت و استعجاب کا باعث ھے۔
اہرام شی اوپس کی بلندی485 فٹ ھے۔
بنیاد 13 ایکڑ رقبے پرمحیط ھےجو لندن اور شکاگو کےتقریباً 8مربع بلاکس کے مساوی ھے۔
اس اہرام میں پتھروں کی50 لاکھ سلیں (Blocks) استعمال کیے
گئے ہیں جس میں ہر سال کا وزن 3 ٹن سے نوے ٹن تک ھے۔ چند ایک بلاکس کاوزن 600 ٹن بھی ھے۔
تمام سلیں ایک دوسرے سے اس مہارت سے منسلک ہیں کہ ایک عام بزنس کارڈ بھی اس میں داخل نہیں کیاجاسکتا۔
جب نپولین مصرمیں تھا تو اس نے تخمینہ لگایاکہ ایران کےپتھروں کوکاٹ کرپورے فرانس کےگرد 10 فٹ اونچی
ناقابلِ یقین اہرام کو دنیا بھر کی مشینیں بھی مل کر اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتیں۔
راہداریوں، تدفینی بالوں اور نادریافت شدہ مکانوں اور کمروں کے علاؤہ یہ اہرام ٹھوس پتھروں کا بنا ھوا ھے۔
صحرا میں کونسے دستی اوزار، جناتی سلوں کو تراشنا، نیل سے تیراتے غزہ تک لانا، زرائع نقل و حمل،
جمالی خیز مواد، سپروائزر، مزدور؟
ہزاروں سال قبل اس قدر شاندار آرکیٹیکچر، سائنس، انجینیرنگ، انسانی مہارت وعقل، باریکیاں جاننےکےبعد انسان یہ کہنے پرمجبور ھو جاتاھےکہ "مصرشایدنام ہی دنگ کردینےوالےسلسلوں کاھے".
#IRAN
#archaeology
اردشیر خورے (فیروزآباد، ایران)
Khurrah of Ardashir (Firuzabad, Iran)
224-240 ء
کھرہ یعنی قصر
قصراردشیرجسے "عطش کدہ" اور "Fire Temple" بھی کہاجاتاھے، ایک پہاڑکی ڈھلوان پر واقع، ساسانی سلطنت کےبانی شہنشاہ اردشیر کا محل ھےجو ایران کےجدیدشہر فیروزآباد (قدیم شہرغور)
میں دریائے تنگب کے مغربی کنارے (Western Bank of Tangab River) پر ایک دلکش تالاب کے ساتھ بنایا گیا تھا۔
اردشیرخورے سےاسکا نام تبدیل کرکے "پیروز" رکھ دیا گیا تھا۔ وہی پیروز جسےعربوں نے فتح کے بعد فیروز کہنا شروع کیا۔
گویا اس شہر نےبھی محل کی طرح اپنےکئی نام بدلے۔ زمانہ قدیم کےغورسے
پیروزشاہ، پھر فیروز اور آج کا فیروزآباد۔
پورا کمپلیکس سو میٹر سے زیادہ لمبا اور پچپن میٹر چوڑا تھا۔ یہ محل ایران کے قدیم ترین طرزتعمیر میں شمار کیا جاتا ھے۔
محل جو آج ڈھانچے پر مشتمل ھے، کبھی کئی حصوں پر مشتمل تھا جو ایک تالاب کے ساتھ باغ میں کھلتا تھا جس میں تین گنبد تھے جن کا
#Indology
#Fort
#architecture
جےگڑھ قلعہ (جےپور، راجھستان)
Jaigarh Fort (Jaipur, Rajhastan)
ھندوستان میں قلعوں کامرکزجانےوالاخطہ "راجھستان" لیکن تاریخ کامیدان جنگ بھی۔
جب ایک خطہ جنگ وجدل اورخون ریزی کی طویل تاریخ رکھتاھو وھاں شاندارقلعوں، محلوں اورحویلیوں کا بچ جاناایک کمال ھے۔
ایسا ہی ایک کمال جےپور قلعہ ھےجو ماضی اور حال دونوں کی اذیتوں کی گواہی دیتا ھے۔ اگر اس کے عروج کے زمانےمیں اس کا بھرپور استحصال کیا گیا لیکن آج ایک بار جب اس قلعے میں آ جاتے ہیں تو یہ 21ویں صدی میں بھی مکمل محسوس ھوتاھے۔
پندرھویں صدی میں تعمیر کیےگئے اس قلعے کو "Victory Fort" کے
نام سے بھی جانا جاتا ھے۔
کبھی یہ قلعہ مرکزھوا کرتاتھا، جہاں شاہی خزانہ رکھاجاتاتھا۔ پھر یہ دفاعی نظام کےطور پر کام کرتا رھا۔ اسے 1726 عیسوی میں ساون جئے سنگھ دوم نے تعمیرکیا تھا اور سطح سمندر سے کئی سو فٹ پر بیٹھا ھے۔ تقریباً برقرار قلعہ بڑی بڑی ریت کی دیواروں سے گھراھوا ھے جو 3
#HistoryMatters
#ZionistTerorism
#palestinenakba76
ناکبہ کیا ھے؟
What is Nakba?
کوئی لبرل، گدھ،اسلام دشمن،تنظیم انسانی حقوق، یااسرائیل کاحامی آپ کوکبھی یہ نہیں بتائےگاکہ "ناکبہ" کیاھے؟ نہ ہی "ناکبہ" کی کھل کرحمایت کرےگا۔
عربی الماخذاس لفظ کےاردومعانی ہیں"تباہی" یعنی"Catastrophy"۔
ناکبہ دراصل 1948 میں "اسرائیلی ریاست" کا راستہ ہموار کرنے کیلئے صیہونی فوجی دہشت گردوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ان کی سرزمین سے مٹائے جانے کی مہم کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
دراصل اسرائیلی ریاست کےقیام کا منصوبہ بہت پہلے 1945میں برطانیہ کی یہودیوں کی پشت پناہی کے نتیجے میں وجودمیں آ
چکا تھا۔
برطانیہ اور امریکہ نے ملی بھگت سے55 فصد فلسطینی علاقہ اسرائیل کو اورباقی کا اصل فلسطینیوں کودینے کامنصوبہ بنایا۔
اس منصوبے کو عملہ جامہ پہنانے کیلئے14 مئی 1948 کو "اسرائیلی ریاست" تخلیق کی گئی اوراسرائیلی فورسز نےزبردستی 80% فلسطینیوں کو انکی سرزمین سےبےدخل کرناشروع کیا۔
#Indology
#architecture
#Maharashter
بی بی کا مقبرہ (اورنگ آباد، ریاست مہاراشٹر)
Bibi Ka Maqbara (Aurangabad, Maharashter)
سنگ مرمر سے تراشہ ھوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
تاج محل کی ہوبہو نقل__وہی سنگ مرمری حسن و دلکشی اورجاذبیت
اورنگ آبادمیں (1651-1661) دس سال کے
طویل عرصے میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کےبیٹے شہزادہ اعظم شاہ کی اپنی والدہ دلراس بانو بیگم سے وابستگی کی نشانی کے طور پر تعمیر کردہ "بی بی کا مقبرہ" سے زیادہ حسین یادگار اور کیا ھو سکتی ھے!
یہ مقبرہ آخری یادگاری مقبرہ ھے جو صرف ایک شاہکار ہی نہیں تحقیق کا موضوع بھی ھے۔ اس کا
بارہا موازنہ تاج محل سے کیا جاتا ھے۔ اورنگزیب کی والدہ ممتاز محل کای آخری آرام گاہ یہ مقبرہ "تاج آف دکن" یا "منی تاج محل" کہلاتا ھے۔
تاج محل ھو یابی بی کا مقبرہ دونوں مقبرے اپنے اپنے ادوار کے حکمرانوں کی پسندیدہ بیویوں کیلئے بنائے گئے تھے۔
تعمیر کےمرکزی دروازے کے اوپر موجود نوشتہ
#Pakistan
#Punjab
#Tourism
مری (پنجاب، پاکستان)
ملکہ کوہسار (Queen of Hills)
مری اسلام آباد-کوہالہ ہائی وےN75 کےساتھ، اسلام آبادسےتقریباً30کلومیٹرشمال مشرق میں واقع اصل میں افغان سرحدپر تعینات برطانوی فوجیوں کیلئےایک سینیٹوریم کےطور پرقائم کیاگیاتھا۔
مری کانام 'مڑھی'، "اونچی جگہ"
سےماخوذ ھے. مری کےبارےمیں ایک مشہور روایت یہ بھی ھےکہ اسکانام کنواری مریم کےنام پر رکھاگیا۔
مری ہل سٹیشن میجرجیمزایبٹ(Major Jnes Abbot) نے1847میں دریافت کیا۔اسکی خوبصورتی اوراھمیت جان کر اسکادیوانہ ھونےکےبعد 1850میں پنجاب کےایڈمنسٹریٹر سرہنری لارنس(Sir Henery Montgomery Lawrence)
نے اس کی بنیاد رکھی اور اسی کے دور میں یہاں ترقیاتی کام شروع ھوا۔
جدید مری کی تاریخ تقریبا ساڑھےچار سوسال پر مشتمل ھے۔
انگریز جب 1849 میں ان پہاڑوں کی خوبصورتی کے دیوانے ھوئے اور اسے اپنے قبضے میں کرنے لے خواب دیکھنے لگے لیکن ان کیلئے یہ ایک آسان حدف نا تھا کیونکہ انہیں یہاں شدید
#FactsMatter
#Punjab
#Traitors
(گذشتہ سے پیوستہ)
مخدوم شاہ محمودقریشی (و:1869)
19ویں صدی کےمخدوم شاہ محمود قریشی، جوسابقہ وزیر داخلہ شاہ محمود قریشی (22 جون 1956) کے ہی ھم نام ہیں، ریاست پنجاب کاغدار خاندان ھے اور مٹی سے دشمنی
کےعوض "انعامات" کی ایک طویل
فہرست لیے ھوئے ہیں۔
ملتان کے سرداران جو انگریز حکومت کےسب سے زیادہ وفادار تھےاور ہر ممکنہ حد تک اپنی وفاداری کا اظہار کرنے کیلئے بےچین تھے ان میں سب سےاھم یہی مخدوم شاہ محمودقریشی (و:1869)ء تھے۔
یہ ملتان کےمشہور صوفیاء کرام حضرت بہاؤالدین ذکریا (و:1262) اور شاہ رکن عالم کے مزارات
کے سجادہ نشین تھے۔
انگریزوں کیساتھ مستقل وفاداری میں اس خاندان کا کوئی ثانی نا تھا۔ ان کا کوئی مرید بھی حریت پسندوں کی صف میں غلطی سے بھی شامل نا ھوسکا۔
1857ء کی جنگ آزادی اور بغاوت میں اس خاندان کی "شاندارخدمات" ہیں جیسےاس خاندان نے پولیس اور فوج میں بھرتی کیلئےافراد کو پیش کیا،