#HistoryBuff #Israel #America #Guatemala #Russia
اسرائیل کے حقیقی دوست ممالک کون سے ہیں؟
دو ممالک ایسے تھے جنہوں نے اسرائیل کو اسی دن تسلیم کرلیاجب اس نے 14 مئی 1948 کوآزادی حاصل کی۔
جس دن اسرائیل نے ریاست کا اعلان کیا وہ چھ ماہ تک ایک تلخ خانہ جنگی میں گھر گیا اور یروشلم کوبھوک
خون اور مقبوضہ میں تبدیل کر دیا۔
اس دن کچھ ممالک نے صرف دوستی کی خاطر دنیا کی زبردستی کی یہودی ریاست کو یقین دلایا کہ اگر وہ اپنی دہلیز پر تلخ جنگ کو ختم کر سکتی ھے تو اسے دنیا کے اسٹیج پر جگہ ملے گی۔
لیکن اسرائیل کو ہر غلط، ناجائز اور جبروظلم میں ساتھ دینے والے دو ممالک تھے؛
امریکہ__جو چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل کا ثابت قدم اتحادی اورحامی ھے۔ دلچسپ حقیقت یہ ھے کہ امریکہ نے سب سے پہلے اسرائیل کو دل سے تسلیم کیا۔
اور دوسرا ملک تھا؛
گوئٹے مالا__جس نےاپنے ابتدائی آغاز سےنہ صرف اسرائیل کی تصدیق کی بلکہ اس نےاس دن سےلےکر اب 74سال تک اس چھوٹی یہودی ریاست
کی بھرپور حمایت کی ھے۔
1948 میں اس دن کے بعد سے، اسرائیل نے اقتصادی طور پر ترقی کی ہے اور گوئٹے مالا کے ساتھ دو طرفہ تجارت، بین الاقوامی تعاون، فوجی اور انسانی امداد کے ذریعے احسان واپس کرنے میں کامیاب رہا ھے۔
ان دونوں کے علاؤہ ایک تیسرا ملک بھی اسرائیل کا خیر خواہ تھا؛
سوویت یونین__ دراصل امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد 181 کے حق میں ووٹ دیا جس نے پہلے دن سے ہی اسرائیل کو قانونی حیثیت دی تھی۔ اور یو ایس ایس آر نے جنگ آزادی کے دوران خفیہ طور پر اسرائیلیوں کو مسلح بھی کیا تھا۔
یاد رھے دنیا کےنقشے پر اسرائیل نامی کوئی
ریاست نہیں تھی جبکہ فلسطین کا وجود اسرائیل سے ہزاروں سال پہلے سے ھے
یہ اسرائیل ھے جو فلسطین کو، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے "اسرائیل" میں جبرا تبدیل کرنا چاہتا ھے۔ یورپ دنیا کے نقشے پر فلسطین کاٹ کر اسرائیل تحریر کر چکے ہیں۔
#Church
#Greece
#architecture
پناگیہ چرچ (فولی گینڈروس، یونان)
Church of Panagia (Chora, Folegandros)____1600 CE
فولی گینڈروس میں ایک چٹان پر بنایا گیا زگ زیگ راستہ لیے سفید ملکوتی حسن اوڑھے دوشیزہ مریم کیلئے جزیرے سائیکلیڈز (Cyclades) کا سب سے بڑا چرچ جس کا سفر صدیوں پر محیط ھے۔
یہ چرچ ایک قدیم مندر کی جگہ پر کیا گیا تھا۔
پاونڈہ اسکوائر چورا (Pounda Square Chora) سے پتھر کا ایک ٹیڑھا راستہ تقریباً 15 منٹ کی پیدل سفر میں چرچ تک لے جاتا ھے۔ یہی راستہ اور سفیدی مائل حسن چرچ کو قابل دید اور منفرد بناتا ھے۔ چرچ کی تعمیر کا صحیح سال معلوم نہیں۔
صحن اور چرچ کے
اندرونی حصے میں قدیم نوشتہ، مجسمے اور رنگین پینٹنگز (Frescoes) دیکھے جا سکتے ہیں۔ مندر ایک زمانے میں ایک راہبہ کا ھوا کرتا تھا۔
یہاں 1687 کا ایک سنگ مرمر کا ٹکڑا (ایپیگراف، Epigraph) موجود ھے جو مندر کی تزئین و آرائش کا حوالہ دیتا ھے۔ چرچ نے اپنی موجودہ شکل 1816 کے دوران
#Indology
قلعہ پرتاب گڑھ (راجپوتانہ، مہاراشٹر)
Pratabgarh Fort (Rajputana, #Maharashter)___1656
تاریخ، ثقافت اور فطرت کا بہترین امتزاج اور ساتھ ہی جنگ کا مقام بھی کیونکہ یہ مہاراجہ شیواجی کی بہادری،حکمت اورعقیدت کاگواہ ھے۔
کھڑی پہاڑیوں، گھنے جنگلات، آس پاس وادیوں اور دریاؤں
کےنظارے سے گھرا 15 لاکھ کی خطیر رقم سے تعمیر کردہ قلعہ پرتاپ گڑھ مراٹھا بادشاہ چھترپتی شیواجی کا وہ حکم امتناعی ھے جو الہامی ثابت ھوا۔
قلعے کا مضبوط اور پائیدار ڈھانچہ کسی بھی حملے کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس کے دو حصے تھے: اوپر والا قلعہ اور نیچےوالا قلعہ۔ پہاڑ کی نوک پر بنا اوپری
قلعے میں کئی عمارتیں تھیں جیسے محلات، مندر، سٹور روم اور واچ ٹاور۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر بنایا گیا زیریں قلعے میں کئی گڑھ، دیواریں، دروازے اور توپیں تھیں۔ قلعہ میں فرار کا ایک خفیہ راستہ بھی تھاجس کیوجہ سے ایک قریبی گاؤں کمبھارگھر جاتا تھا۔
پہاڑ کی نوک پر بیٹھی اس تعمیر نےصرف تین سال
#Egyptology
#Archaeology
جنوبی سقارہ کےمقبرے (مصر)
Southern Tomb of Saqqara (#Egypt)
4400سال قدیم__محفوظ،مخفی اور ان چھوئےمقبرے
مصرشاید نام ہی حیران کر دینےوالےسلسلوں کا ھے۔
انہی حیرانیوں میں کائرو میں واقع سقارہ کےیہ مقبرے،یادگاریں یاکمپلیکس کچھ بھی کہ لیں، راہداریوں کا ایک ایسا
سلسلہ ہیں جو بادشاہ کو زندہ کرتاھے اور اس کے حق حکمرانی کی تجدیدکرتا ھے۔
سقارہ کے یہ مقبرے جو دنیا کے قدیم ترین ہتھروں سےبنائے گئے ہیں، 1928میں انگریز ماہر آثار قدیمہ سیسل ملابی فیرتھ کی دریافت ہیں جنہیں بعد "Southern Tomb" کا نام دیاگیا۔
مقبرہ ایک مستطیل پتھر کی عمارت کی شکل ھے۔
اسکی دیواروں کو داخلی اورخارجی راستوں کی شکل میں پتھر کے ساکٹوں کی ایک سیریز سے سجایا گیا ھے جن پر کوبرا کےسروں کا تاج پہنایاگیا ھے جوکہ زمانہ قدیم کے مصری رواجوں میں بادشاہت، رعونت، تحفظ اور طاقت کی علامت ھے۔
مقبرے کی نچلی سطح ایک ریمپ کی طرف ایک داخلی دروازےپر مشتمل ھے جو تدفین
#Indology
#Caves
#Archaeology
کھنڈ گیری اور اودے گیری گوفا (بھونیشور، اڑیسہ)
Khandagiri and Udayagiri Caves (Bhuneshwer, #Odissa)
دنیا کا آٹھویں عجوبہ
انسانی ہاتھ کے بنے ھوئے مصنوعی یک-منزل و دو منزل غار
اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور کے پہاڑیوں پر واقع شاندار، تاریخی اور مذہبی غار
جنہیں دوسری صدی میں عظیم جین بادشاہ کھرویلا نے جین راہبوں اور سنیاسیوں کے رہائشی مقامات کے طور پر تعمیر کیا۔
پہلے یہ غار کاتک اور کٹک (Kataka and Cuttack Caves) کہلاتےتھے۔
غاروں کی اونچائی بالترتیب تقریبا 135فٹ اور 118 فٹ ھے۔ غار دیواروں پرشاندار نقش ونگار کیلئے مشہور ہیں۔
مجموعی
طور پر یہ چٹان سے کٹی ھوئی 33 غاریں ہیں جن میں سے ادے گیری میں 18 اور کھنڈگیری میں 15 ہیں۔
اودےگیری کا مطلب ھے "سورج کی پہاڑی" ۔ انتہائی دلکش غار پر مشتمل یہ عجوبہ جس کی تعمیر پہاڑ کی بنیاد سے شروع ھوتی ھے۔
تمام غاروں پر نمبر درج ہیں اور نام بھی جیسے "رانی گمفا یا ملکہ کا غار"
#Indonesia
#Buddhism
#Temple
بوروبدر مندر (جاوا، انڈونیشیاء)
Borobudur Mandir 🛕(Java, #Indonesia)
کیاصرف سرزمین ھند ہی مندروں کاگڑھ ھے؟
کسی پھول کی مانند کھلا، اہرام مصرسےمشابہت رکھتا، دنیامیں بدھ مت کی سب سےعظیم یادگاروں میں سےایک شاہکار انڈونیشیا کابوروبدر مندرجو ان گنت قدرتی
آفات اوربمباری سہنے کےباوجود صرف جاذبیت ہی نہیں پراسراریت بھی سمیٹےھوئے ھے۔
جاوا کے جزیرے پر واقع سیلیندر خاندان (Sailendra Dynasty) کے حکمرانوں نے 800ء کے لگ بھگ بدھ کی یادگار کے طور پر 75-100 سال کےعرصے میں یہ مندرتعمیر کیا۔
اپنی تکمیل کےایک سوسال بعد ہی مندر ناکارہ ھو گیا تھا۔
مندر کے ڈیزائن کاتصور شاعر، مفکر، اور ماہر تعمیرات گنا دھرم (Gunadharma) نے کیا تھا۔
1814 میں جاوا پر برطانوی لیفٹیننٹ گورنر سرتھامس اسٹامفورڈ ریفلز نےجزیرےکے اندرونی حصےمیں واقع ایک ناقابل یقین پناہ گاہ کی رپورٹس سن کر اس جگہ کو دوبارہ دریافت کیا اور اسےری سٹور کیا۔
بوروبدر مندر
#Indology
#architecture
علائی مینار (دہلی بھارت)
Alai Minar (#Delhi, India)
دہلی کےوسط میں کھڑا ایک کھردرا، بھربھرا اورمختصر ڈھانچہ جوصدیوں سےسیاحوں کو اپنی جانب کھینچےھوئےھے، درحقیقت علاءالدین خلجی کی خواہشات کی ایک نامکمل تصویرمگر مکمل تاریخ ھےجسے 1361عیسوی میں تعمیرکیا گیا تھا
80 فٹ بلند علائی مینار جیسا کہ نام سے عیاں ھے کہ اس نامکمل یادگار کو علاءالدین خلجی نے اپنی فتح کی علامت کے طور پر تعمیر کروایا اور اس لیے تعمیر کروایا کہ اس کے مینار "قطب مینار" سے چار گنا بلند ھونے چاہییں تاکہ ساری دنیا اس شاہکار کو اس کی عظمت، بہادری اور ذوق فن تعمیر سے پہچانے
اور دنیا پر اس کی دھاک بیٹھے۔
لیکن پھر یہ یادگار نامکمل کیسے رہ گئی؟
دراصل سلطان کے خیال کے مطابق یادگار کی تعمیر شروع کی گئی۔ بادشاہ کی خواہش تھی کہ منسلک مسجد قوۃ الاسلام کو اس کے اصل سائز سے چار گنا بڑھایا جائے۔ مسجد کے دونوں طرف ایک داخلی گیٹ وے بنایا گیا۔
علائی مینار کا پہلا