IN MAY 1950, PAKISTAN’S law minister, Jogendar Nath #Mandal, confidentially told an Indian reporter that most Hindus in the new country’s eastern wing felt they had no place in #Pakistan and were determined to leave. “I have asked them to wait for a few weeks more and (1/16)
that I too am prepared to accompany them to India,” he said, the only #Hindu member of Pakistan’s federal cabinet. “It is only a matter of time before the last Hindu reaches #India from East Bengal.” He lamented that “every #Muslim feels that there should be no Hindus (2/16)
left inside Pakistan,” and pointed out that after driving out the Hindus, Pakistan will not be able to live in peace with India. #Mandal had been appointed to Pakistan’s first cabinet in 1947 by the country’s founder, Muhammad Ali #Jinnah, who, through the appointment, (3/16)
sought to signal Pakistan’s commitment to religious pluralism. Pakistan was not even three years old when its law minister voiced the fear that extremist Muslims would not allow religious diversity. Eventually, Mandal left Pakistan and moved to India, around the same (4/16)
time that many prominent Muslims who had initially stayed behind in India chose to move to Pakistan. Over time, Mandal’s dire prediction about Pakistan’s religious minorities proved correct. The proportion of non-Muslims in Pakistan dwindled in subsequent years, and (5/16)
with that, Pakistan moved further toward being an exclusivist Muslim state.
ON OCTOBER 11, 1947, less than two months after Partition, Ahmed Said Khan, the nawab of #Chhatari, wrote with alarm to his friend #Liaquat Ali Khan, prime minister of Pakistan, “in the interest (6/16)
of Muslims of the minority provinces.” The nawab was a prominent Muslim from #Uttar Pradesh (then known as United Provinces), had held senior positions in politics and government, and had also been part of the Muslim League. His letter to Liaquat, who was also from a (7/16)
Muslim-minority province, was meant to warn against declaring “an Islamic government” in Pakistan, as it might create difficulties for the large number of Muslims who stayed on in India. #Nawab Chhatari was moved to write to Liaquat after reading a statement by the (8/16)
premier of Pakistan’s Sindh Province, Ayub Khuhro, declaring his government as Islamic. “If they are going to form theocratic governments in Pakistan there will be every justification for Hindus to form a Hindu Raj in the rest of India,” observed the nawab. He requested (9/16)
that either Liaquat or Jinnah announce clearly “that formation of Governments in Pakistan will be on a secular basis and not on a religious basis.” Nawab Chhatari also asked for a declaration about the protection and rights of minorities in Pakistan; and an expression (10/16)
of disappointment and regret at what happened in #Western and #Eastern#Punjab with an assurance of protection and fair treatment to those who had left their homes and property if they come back to Western Punjab; so that on the basis of reciprocity Muslims in minority (11/16)
provinces may hope to receive the same protection. While pronouncements about the protection of minorities in Pakistan were made by both Jinnah and Liaquat, as well as other Pakistani officials, Nawab Chhatari’s other proposals were not even seriously considered. (12/16)
Opening the possibility of return to non-Muslims who had left Pakistan would have eroded the numerical consolidation that had resulted from the unfortunate Partition riots. Moreover, Liaquat was unwilling to offer unequivocal assurances about Pakistan being a secular (13/16)
state, because that could benefit secular allies of the Congress at the expense of the Muslim League.
The fact of the matter is that Pakistan was not a territorial nation in the traditional sense. Its leaders had to explain its raison d’être, and most found it (14/16)
convenient to do so in religious terms. Once Liaquat Ali Khan was assassinated in October 1951, even the hope of successfully balancing the demands of modernity with calls for an Islamic state diminished. The country was plunged into a power struggle pitting regional (15/16)
politicians against either bureaucrats or generals, with each side invoking religion to enhance its standing and credibility. (16/16)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آپ کسی پوسٹ میں اپنی بیوی یا بیٹی یا کسی دوست کو بھی ٹیگ کر دیں تو صبح تک اُسے پیار بھرے دعووں کے کئی پیغامات اور متعدد فرینڈ ریکوئیسٹس مل چکی ہوتی ہیں۔ ٹیگ کرنے کی وجہ سے فیس بک استعمال کرنے والوں کوتسلی ہو جاتی ہے کہ یہ مصدقہ طور پر فی میل (1/7)
ہی ہے۔ ساتھ ہی اُن کا جذبۂ دوستی اور نیٹ ورکنگ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔
چنانچہ میں تو کبھی کسی فی میل کو ٹیگ یا حتیٰ کہ مینشن بھی نہیں کرتا۔ ایسے ہی دھاوا بولنے والے رویے کے نتیجے میں بہت سی فی میلز ہاتھوں پیروں اور سر کے پیچھے سے لی ہوئی تصاویر بطور ٹیزر پوسٹ کرنے پر (2/7)
مجبور ہیں۔ یا پھر وہ کسی گڑیا اور پھول وغیرہ کی تصویر کی لگاتی اور حتیٰ کہ فرضی نام بھی استعمال کرتی ہیں۔ کیونکہ اُنھیں اپنے کزنز اور رشتے داروں کی جانب سے بھی stalking کا ڈر ہوتا ہے۔
ٹھیک ہے، فیس بک نیٹ ورکنگ کرنے اور لوگوں کے ساتھ رابطے بنانے کے لیے ہی ہے، مگر یار (3/7)
اگر کوئی آپ سے کہے کہ وہ پاکستان یا پنجاب کی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے، اور اردو میں کوئی طبع کتاب تجویز کریں تو آپ کے ذہن میں شاید ہی کوئی کتاب آئے۔ حتیٰ کہ قائد اعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور دیگر رحمۃ اللہوں کے بارے میں کوئی کتاب مشکل سے ملے گی۔ (1/8)
مشاہیر پاکستان، سردار عبدالرب نشتر وغیرہ کی تو بات ہی الگ ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ تاریخ کے اتنے پی ایچ ڈیز کیا صرف گھاس کاٹ رہے ہیں؟ تاریخ کا مضمون یونیورسٹیوں میں کس لیے پڑھایا جاتا ہے؟
انگریزوں نے انتظامی مقاصد کے تحت جو ضلع وار گزیٹیئر مرتب کیے تھے اُن میں مالیات، (2/8)
تاریخ، ذرائع پیداوار، ثقافت، اہم مقامات وغیرہ کے متعلق معلومات درج تھیں۔ حتیٰ کہ پیمانے، اوزان، زیور، محاورے وغیرہ بھی دیے گئے تھے۔ یہ گزیٹیئرز ایک سو سال سے زائد عرصے تک اردو میں دستیاب نہ ہو سکے، اور میں نے 2011ء کے بعد اِنھیں پہلی بار ترجمہ کیا۔
ذاتیں، قبیلے وغیرہ (3/8)
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میں نیا نیا بینکر بنا تھا۔ نوجوان تھا، خون گرم تھا اور اکھڑ پن اس وقت بھی تھا۔ ہمارا بیچ نوجوان ایم بی ایز کا تھا جن کے خلاف رینکرز میں کافی غصہ تھا کہ ہمیں سیدھا ہی اس سکیل میں ہائر کیا گیا تھا جو انہیں برسوں بعد نصیب ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ (1/12)
کچھ ماہ بعد ہی برانچز میں پرانے اور نئے بینکرز کے مسائل گمبھیر ہو گئے۔ ہم لاہور میں تھے، کراچی سے اعلی مینجمنٹ کا ایک وفد کراچی کے بعد ان مسائل کے حل کے لیے لاہور وارد ہوا ۔ سارے لاہور سے ہمارے بیچ میٹس کو علامہ اقبال ٹاؤن مون مارکیٹ کے عقب میں واقع ٹریننگ اکیڈمی بلایا (2/12)
گیا اور ایک لمبا چوڑا سیشن ہوا کہ مسائل سنے جا سکیں ، ان کا حل نکالا جا سکے۔ سیشن کے اختتام سے پہلے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمارے کچھ دوستوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کی جو اعلی عہدیداروں کو کوئی خاص پسند نہ آئی۔ جب بات اس طرف مڑی جہاں برانچ مینیجرز کی (3/12)
قیدی عطیہ بن عوف نے اقرار میں سر ہلادیا۔ملزم کی گردن کو اثبات میں ہلتے دیکھ کر بن قاسم نے کہا:
“ اشاروں کنایوں کی زبان میں ابہام ہوتا ہے۔واضح طور پر کہو کہ تم خلیفہتہ المسلمین ، ولید بن مروان کو اللہ کی جانب سے مسلمانوں کا خلیفہ تسلیم کرتے ہو اور تمام زندگی ان کی اطاعت (1/8)
کروگے اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت جانو گے۔”
عطیہ بن عوف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:
“ میں عطیہ بن عوف ، ولید بن مروان کو خلیفتہ المسلمین تسلیم کرتا ہوں اور ان کی اطاعت کو اپنا فرض سمجھوں گا۔”
عطیہ بن عوف کے کلمات سنُ کر میدان میں جمع سپاہیوں نے داد و تحسین کے نعرے (2/8)
بلند کئے-سپاہیوں کو نعرے لگاتے دیکھ کر عمائدین شہر بھی ان نعروں کے آہنگ میں شامل ہوگئے۔بن قاسم نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو سپاہیوں نے نعرے لگانا بند کردئے۔جب فضا میں سکوت طاری ہوگیا تو بن قاسم نے قیدی عطیہ بن عوف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
“ خلیفتہ المسلمین کی اطاعت کا زبانی (3/8)
پتا نہیں میں سنکی ہوں، یا کوئی اور وجہ ہے۔ لیکن اب ایسی خبروں پر وحشت نہیں بلکہ خوشی ہوتی ہے کہ ہمارا انحطاط اور زوال تیزی سے ہو رہا ہے۔ ویسے یہ کوئی ایسا انحطاط اور زوال بھی نہیں۔ اپنے آرٹ کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں: رقص میں مجرے، آرٹ (1/7)
میں فلیکس ڈیزائن، اداکاری میں مہوش حیات، پینٹنگ میں رابی پیرزادہ اور موسیقی میں علی ظفر وغیرہ سر فہرست ہیں۔ گزشتہ سال ادب میں جن لوگوں کو انعامات دیے ہیں اُن پر بھی غور کر لیں!
اگر چودھری پرویز الٰہی وزیر اور عثمان بزدار اور قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ رہ سکتے ہیں، اگر مراد (2/7)
راس وزیر تعلیم رہ سکتا ہے تو اِس میں کیا قباحت ہے؟ جس جغرافیائی گروہ کے ’مقبول ترین لیڈر‘ عمران خان جیسے ہوں وہاں آپ کیا توقع کریں گے؟ تکلیف تو اُن لوگوں کو ہونی چاہیے جو اِس چیئرمین کے ماتحت کام کرنے پر آمادہ ہیں جن میں سلیمہ ہاشمی بھی شامل ہے اور شاہد محمود ندیم بھی۔ (3/7)
اے میرے اللہ میاں ۔ اے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے، دیکھو میں ایک دکھیاری ماں۔ جس کو اپنے بچوں سمیت قید میں رکھا گیا، جس کے سامنے اس کی جوان بیٹی کا ریپ ہوتا رہا۔ جس کے سامنے جوان بچوں پہ تشدد ہوتا رہا۔ میں ایک دکھیاری ماں تم سے دعائیں مانگتی رہی،
1
حالانکہ میں نے سنا تھا کہ ماں کی دعا فورآ قبول ہوتی ہے، آخر قرآن اٹھایا کہ مقدس کتاب دیکھ کر شاید ظالم کے ہاتھ کانپ جائیں، شاید کوئی زلزلہ آئے اور ظالم دب جائے، شاید سیلاب آئے اور ظالم کو بہا لے جائے ، شاید زمین پھٹے اور ظالم اندر دھنس جائے، لیکن میری دعائیں بھی رائیگاں گئی
2
اور قرآن کے واسطے بھی بے اثر رہے، نہ زلزلہ آیا نہ سیلاب آیا نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا، تو صبر کرلیا، کہ صبر کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں تھا، غربت دیکھی صبر کیا، ذلالت جھیلی صبر کیا، بیٹی کو درندوں نے نوچا میں نے صبر کرلیا، بیٹوں پہ تشدد ہوا میں نے صبر کرلیا،
3