کے ایک گروہ پر مشتمل تھی۔
3000 سال قبل کی ایک بہت بڑی تہذیب اور ایک شاندار جغرافیہ جس کی باقیات آج بھی اناطولیہ اور ایجیئن علاقوں میں موجود ہیں
یہ خطہ ماؤنٹ ترکمین کی طرف سےآنے والی آتش فشاں راکھ سےڈھکا ھوا تھا۔ وادی شہر Afyoneskişehir-Kütahya کے درمیان واقع ھے۔
فریجیئن__ایک قدیم
انڈو_یورپیئن لوگوں کا گروپ جو بعد میں حملہ آوروں اور اناطولیہ کے دوسرے حکمرانوں کی ثقافت میں شامل ھو گیا۔
ھو سکتا ھے کہ وہ غاروں میں سوتےھوں۔ یہ گروپ 3000 سال پہلے اسی جگہ پر رہتا تھا جنہوں نے پتھروں میں مکانات، قلعے اور یادگاریں تراشی تھیں۔ آتش فشاں ٹف چٹان (Tuff Rock) پرھوا اور
پانی کی قوتوں نے اس کی چٹانوں اور پریوں کی چمنیوں کی شاندار زمین کی تزئین کی شکل دی جو اکثر Cappadocia سےملتی جلتی ھے۔ فریجیئن یونانی سے ملتی جلتی ایک زبان بولتےتھے۔
یونانی مورخین کیمطابق تقریباً 1200قبل مسیح میں، ہیٹی سلطنت کے خاتمے پرفریجیان تھریس سے اناطولیہ کی طرف ہجرت کرگئے۔
8ویں صدی قبل مسیح تک فریجیئن سلطنت ابھری جس کادارالحکومت گورڈین میں تھا۔فریجیئن سلطنت نےاپنےمشہوربادشاہ مڈاس کےساتھ اپنےعروج کادن دیکھا۔
اس علاقےمیں سیاحوں کی تعدادزیادہ نہیں لیکن یہ سیاحوں کیلئےاب بھی اچھوتاھے۔یہ ان نایاب جگہوں میں سےایک ھے۔ @threadreaderapp compile it. #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Egyptology #Freemasonry
اوبلیسک (Obelsik)
فرعونیت کی تمام کڑیاں بالآخر مصر سے جا ملتی ہیں۔
شیطان کےپجاریوں (Illuminate) کا وہ مخصوص نشان جو پہلی بار 2300 سال قبل مسیح میں قدیم مصرمیں استعمال ھوناشروع ھوا۔
یک سنگی یہ کوئی عام مینار نہیں۔ یہ تقریبا تمام ممالک میں ہمیں جگہ جگہ نظر
آئے گا کیونکہ اس مذہب کے ماننے والے اب اپنا مکمل وجودرکھتے ہیں۔
پتھر سے بنا، مستطیل نماستون اوبلسک دراصل قدیم مصری مندروں کے داخلی راستوں پر دیوتاؤں کی تعظیم کیلئے کھڑا کیاجاتا تھا۔
مصری اوبلسک پتھر کےایک ٹکڑے سےتراشے جاتے تھے۔اسےاہرام کی چوٹی کی نسبت اس کےمربع یا مستطیل بنیاد پر
چوڑا ھونے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جو اکثر سونے اور چاندی کےمرکب سے ڈھکا ھوتا تھا جسے الیکٹرم کہتے ہیں۔
اوبلیسک کے شافٹ کے چاروں اطراف ہیروگلیفس سے مزین ہیں جن میں خصوصیت سے مذہبی عقیدت شامل ھے جو عام طور پر سورج دیوتا اور حکمرانوں کی یادگار کیلئےمختص تھا۔ قدیم مصرکے شاہی خاندان
#ancient #History
سپرپاورز کا تصور محض دور جدید کی پیداوار نہیں۔ طاقت کا نشہ ازل سےانسان پر سوار رہا ھے اور خود کو دوسرے سے برتر ثابت کرنے کیلئے ہی انسان شوقیہ جنگ و جدل اور خونریزی میں ملوث رہا۔
زمانہ قدیم سے عصر حاضرتک سپر طاقتوں کی دوڑ کھینچاتانی اور اتارچڑھاءو کچھ یوں رہی ھے؛
اسریا (Assyria/موجودہ دور کےعراق، شام اور ترکیہ کے بیشتر علاقوں پر مشتمل)__آٹھویں تا ساتویں صدی قبل مسیح
بےبی لونیا (Babylonia/موجودہ عراق)__ساتویں تاچھٹی صدی قبل مسیح
پرشیا (موجودہ ایران)__چھٹی تا چوتھی صدی قبل مسیح
مقدونیہ (Macedonia/عہد اسکندر اعظم)__چوتھی تاتیسری صدی قبل مسیح
روم (Rome)__دوسری صدی قبل مسیح تاچوتھی عیسوی
امیہ (Umayyad)__ساتویں عیسوی تا آٹھویں عیسوی
منگول سلطنت (Mongol Empire)__تیرہویں عیسوی تاچودھویں عیسوی
سلطنت عثمانیہ (Ottoman Empire)_پندرھویں صدی تاسترھویں صدی
پرتگال__پندرھویں تا سولہویں عیسوی
سپین (ہسپانیہ)__سولہویں تاسترھویں عیسوی
#ancient #Archaeology #Palestine
جیریکو (Jericho)
9000سالہ قبل مسیح کی طویل ترین تاریخ
عربی میں اریحا کہلایاجانے والا شہر جیریکو دراصل فلسطینی شہرھے۔
دنیا بھر میں درجنوں ایسے شہر ہیں جن میں انسان ہزاروں سالوں سے آباد ہیں۔ تاہم جب سب سے قدیم مسلسل آبادشہر کی نشاندہی کرنےکی بات
آتی ھے تو اس کا کوئی سیدھا جواب نہیں ملتا۔
اگر کسی شہر کو گرا دیا جائے، بحال کیا جائے، تھوڑا سا منتقل کیا جائے، اوپر بنایا جائے، دوبارہ گرا دیا جائے، اور دوبارہ تعمیر کیا جائے تو کیا یہ وہی شہرھےیا کوئی نئی ہستی؟
لہذا بہت سی ایسی جگہیں ہیں جوممکنہ طور پر دنیاکےقدیم ترین شہر کاتاج
اپنے سر پر لیے ھوئے ہیں جن میں سے تقریباً سبھی مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں۔
انہی میں سے ایک__جیریکو شہر جو پرانے وقتوں میں ایک بدنام زمانہ جنگ کے لیے جانا جاتا تھا۔ اسے اکثر قدیم ترین شہر ھونے کا سہرا پہنایا جاتا ھے جو اب بھی قائم ھے۔
آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ھے کہ یہ علاقہ
#ancient #History
قدیم ھندوستانی تاریخی مآخذات
(Ancient Hindustani Historical Sources)
اگرھندوستان کی قدیم تاریخ تلاش کی جائےتو تمام موءرخین میں اختلاف ہی نظر آئےگاکیونکہ اس عہدکی کوئی مستندتاریخ ملنامشکل ھے۔
ھندوستان میں تاریخ نویسی کارواج نہیں تھااورجوتاریخ ہمیں رامائن،مہابھارت
ویدوں کے اشلوک کی صورت کی صورت میں مہیا ھے وہ زیادہ تر دیومالائی قصے کہانیوں پر زیادہ مشتمل ھے۔
اس لیے ھندوستان کے بارے میں زیادہ مواد ہمیں سکوں، کتبوں اور پتوں پر درج تحریروں سے ملتا ھے۔ پھرکالی داس کی تحریریں، رومی، یونانی، چینی سیاحوں کی تحریریں جیسے 5ویں صدی کاسیاح فاہیان اور
ہرش کی "ہرش چرت" وغیرہ ہیں۔
اسکو علاؤہ مستند تحریری مآخذات یہ ہیں؛
راج ترنگنی (ترن گینی)__
کشمیری موءرخ کلہن (Kalhana) کی سنسکرت زبان میں کشمیر کی تاریخ پر لکھی گئی یہ کتاب 1184 ق م سے 1148ء تک کا کشمیر بیان کرتی ھے آر اسے ہی ھندوستان کی پہلی مستند تاریخ کی کتاب کا درجہ حاصل ھے۔
#America #HistoryBuff
ایلا ہارپر (امریکہ)_____Camel Girl
1870 to 1921
ایلا ہارپر (Ella Harper) کی چونکادینے والی یہ تصویر 1885 سے 1886 کےلگ بھگ لی گئی تھی۔ اگر اس سےبہت پہلے 1826میں کیمرےاور لینز کاکامیاب تجربہ فرانسیسی Joseph Nicéphore Niépce کرچکاتھا۔
درحقیقت ہارپر ایک انتہائی
غیر معمولی بیماری میں مبتلا تھی جسے"Genital Genu Recurvetum" کہتے ہیں اس بیماری میں گھٹنے مخالف سمتوں میں جھک جاتےہیں۔ نتیجتا مریض کو4ٹانگوں(مانند چوپایہ)چلنا پڑتاھے۔
ہارپر کا کہناھے کہ اسے چاروں چوکوں پر چلنے میں زیادہ آرام دہ محسوس ھوا۔
اپنی اس بیماری کو ہارپر نے کیش کروایا اور
1886 میں ہارپر نےبطور اداکار سرکس میں شمولیت اختیار کی۔ اس نے فی ہفتہ 200 ڈالر کمائےجو آج کی کرنسی میں 6500 کے برابر ھے۔
اس کی ایک سرکس میں شائقین کیلئےجو صرف ہارپر کو دیکھنے آتے تھے، یہ بائیو کارڈ تقسیم کیا گیا جس پہ درج ذیل معلومات درج تھیں؛
"مجھے "Camel Girl" کہاجاتا ھے کیونکہ
#Punjab #ਪੰਜਾਬ #geography
دہلی سلطنت کےدوران پنجاب کتنابڑا تھا؟
لفظ "پنجاب" (پنجاب) فارسی کےدو الفاظ پنج (پنج) کا مجموعہ ھےجس کے معنی پانچ اور آب (آب) کےمعنی ہیں پانی۔
پنجاب" کی اصطلاح قرون وسطی کےدور میں ایک مبہم خطہ کے لیے استعمال ھوتی تھی۔ یہ کوئی سیاسی ادارہ یا ریاست نہیں تھی
جسکی اپنی اچھی طرح سےمتعین سرحدیں تھیں۔
سادہ الفاظ میں پنجاب ایک جغرافیائی اصطلاح ھواکرتی تھی، سیاسی نہیں۔
پنجاب کاعلاقہ سلطان التمش کےدور میں دہلی سلطنت کاحصہ ھواکرتا تھا۔ تاہم اسکےبعد منگول حملوں نے پنجاب کے زیادہ ترحصےکو ان دوطاقتوں کےدرمیان میدان جنگ میں تبدیل کردیا۔
پنجاب کا
بیشتر حصہ اب بھی دہلی سلطنت کے کنٹرول میں تھا، لیکن اس کا کچھ حصہ منگول سلطنت کے کنٹرول میں تھا۔
دہلی سلطنت کے اندر پنجاب ایک متحد صوبہ نہیں تھا۔ پنجاب کا علاقہ، سلطنت دہلی کے دیگر علاقوں کی طرح، چھوٹی انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا گیا تھا جسے اقتا کہا جاتا تھا۔
اقتا کے سیاسی