#Architecture #archives #Portugal
نوسا سنہورا قلعہ (پرتگال)
nossa senhora das graças Fort (Portugal)
اگرچہ "Forte de Nossa Senhora da Graça" کی تعمیر 18ویں صدی کی ھےلیکن گریشا پہاڑی بہت پہلےسے آبادھے۔ قلعہ جسےLippe کی گنتی کاقلعہ بھی کہاجاتا ھے، ایک کھڑی پہاڑی کی چوٹی پرواقع ھے۔
اس پورے دفاعی کمپلیکس کو اس حقیقت پر فخر ھے کہ اسے کبھی بھی دشمن قوتوں نے اپنے قبضے میں نہیں لیا۔
جب مسلح تنازعات میں بارود کااستعمال ھونا شروع ھوا تو پرتگالی سیاست دانوں اور فوجی جوانوں نے محسوس کیا کہ ایلواس شہر (City Elvas) مونٹی ڈی گریشا (Monte de Graça) کےممکنہ حملوں کےسامنے
کتنانازک ھے کیونکہ اسکی سطح سمندر سے 404 میٹر کی بلندی ھے جب کہ اس علاقے میں کیسل آف ایلواس، جواس کاسب سے اونچامقام تھا، سطح سمندر سےصرف 345 میٹربلند تھا۔
اس صورتحال کاسب سے پہلے احساس کرنےوالے فریڈرک ولیم آف شومبرگ-لیپے، کاؤنٹ آف لیپے ( Frederick William of Schaumburg-Lippe) تھے
جنہیں پومبل کے مارکوئس نے انگلستان سے پرتگالی فوج کو منظم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
خود لیپے نےہی قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔جب مسلح تنازعات میں بارود کا استعمال ھونا شروع ھوا تو پرتگالی سیاست دانوں اور فوجیوں نے محسوس کیا کہ ایلواس شہر (City Elvas) مونٹی ڈی گریشا کےممکنہ حملوں کے
سامنے کتنا کمزور ھے۔اس صورت حال سے سب سے پہلے ادراک فیڈریکو شومبرگ-لیپے کوھوا جنہیں مارکوئس ڈی پومبل نے پرتگالی فوج کومنظم کرنے کے لیے انگلستان سے بھیجا تھا، اور خود
لیپے نےہی قلعہ کی تعمیر کاحکم دیاتھا
قلعہ اج بھی نہ صرف تاریخ کاروشن باب ھےبلکہ سیاحوں کی توجہ کامرکزھے۔ #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#HistoryMatters
#ZionistTerorism
#palestinenakba76
ناکبہ کیا ھے؟
What is Nakba?
کوئی لبرل، گدھ،اسلام دشمن،تنظیم انسانی حقوق، یااسرائیل کاحامی آپ کوکبھی یہ نہیں بتائےگاکہ "ناکبہ" کیاھے؟ نہ ہی "ناکبہ" کی کھل کرحمایت کرےگا۔
عربی الماخذاس لفظ کےاردومعانی ہیں"تباہی" یعنی"Catastrophy"۔
ناکبہ دراصل 1948 میں "اسرائیلی ریاست" کا راستہ ہموار کرنے کیلئے صیہونی فوجی دہشت گردوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ان کی سرزمین سے مٹائے جانے کی مہم کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
دراصل اسرائیلی ریاست کےقیام کا منصوبہ بہت پہلے 1945میں برطانیہ کی یہودیوں کی پشت پناہی کے نتیجے میں وجودمیں آ
چکا تھا۔
برطانیہ اور امریکہ نے ملی بھگت سے55 فصد فلسطینی علاقہ اسرائیل کو اورباقی کا اصل فلسطینیوں کودینے کامنصوبہ بنایا۔
اس منصوبے کو عملہ جامہ پہنانے کیلئے14 مئی 1948 کو "اسرائیلی ریاست" تخلیق کی گئی اوراسرائیلی فورسز نےزبردستی 80% فلسطینیوں کو انکی سرزمین سےبےدخل کرناشروع کیا۔
#Indology
#architecture
#Maharashter
بی بی کا مقبرہ (اورنگ آباد، ریاست مہاراشٹر)
Bibi Ka Maqbara (Aurangabad, Maharashter)
سنگ مرمر سے تراشہ ھوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
تاج محل کی ہوبہو نقل__وہی سنگ مرمری حسن و دلکشی اورجاذبیت
اورنگ آبادمیں (1651-1661) دس سال کے
طویل عرصے میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کےبیٹے شہزادہ اعظم شاہ کی اپنی والدہ دلراس بانو بیگم سے وابستگی کی نشانی کے طور پر تعمیر کردہ "بی بی کا مقبرہ" سے زیادہ حسین یادگار اور کیا ھو سکتی ھے!
یہ مقبرہ آخری یادگاری مقبرہ ھے جو صرف ایک شاہکار ہی نہیں تحقیق کا موضوع بھی ھے۔ اس کا
بارہا موازنہ تاج محل سے کیا جاتا ھے۔ اورنگزیب کی والدہ ممتاز محل کای آخری آرام گاہ یہ مقبرہ "تاج آف دکن" یا "منی تاج محل" کہلاتا ھے۔
تاج محل ھو یابی بی کا مقبرہ دونوں مقبرے اپنے اپنے ادوار کے حکمرانوں کی پسندیدہ بیویوں کیلئے بنائے گئے تھے۔
تعمیر کےمرکزی دروازے کے اوپر موجود نوشتہ
#Pakistan
#Punjab
#Tourism
مری (پنجاب، پاکستان)
ملکہ کوہسار (Queen of Hills)
مری اسلام آباد-کوہالہ ہائی وےN75 کےساتھ، اسلام آبادسےتقریباً30کلومیٹرشمال مشرق میں واقع اصل میں افغان سرحدپر تعینات برطانوی فوجیوں کیلئےایک سینیٹوریم کےطور پرقائم کیاگیاتھا۔
مری کانام 'مڑھی'، "اونچی جگہ"
سےماخوذ ھے. مری کےبارےمیں ایک مشہور روایت یہ بھی ھےکہ اسکانام کنواری مریم کےنام پر رکھاگیا۔
مری ہل سٹیشن میجرجیمزایبٹ(Major Jnes Abbot) نے1847میں دریافت کیا۔اسکی خوبصورتی اوراھمیت جان کر اسکادیوانہ ھونےکےبعد 1850میں پنجاب کےایڈمنسٹریٹر سرہنری لارنس(Sir Henery Montgomery Lawrence)
نے اس کی بنیاد رکھی اور اسی کے دور میں یہاں ترقیاتی کام شروع ھوا۔
جدید مری کی تاریخ تقریبا ساڑھےچار سوسال پر مشتمل ھے۔
انگریز جب 1849 میں ان پہاڑوں کی خوبصورتی کے دیوانے ھوئے اور اسے اپنے قبضے میں کرنے لے خواب دیکھنے لگے لیکن ان کیلئے یہ ایک آسان حدف نا تھا کیونکہ انہیں یہاں شدید
#FactsMatter
#Punjab
#Traitors
(گذشتہ سے پیوستہ)
مخدوم شاہ محمودقریشی (و:1869)
19ویں صدی کےمخدوم شاہ محمود قریشی، جوسابقہ وزیر داخلہ شاہ محمود قریشی (22 جون 1956) کے ہی ھم نام ہیں، ریاست پنجاب کاغدار خاندان ھے اور مٹی سے دشمنی
کےعوض "انعامات" کی ایک طویل
فہرست لیے ھوئے ہیں۔
ملتان کے سرداران جو انگریز حکومت کےسب سے زیادہ وفادار تھےاور ہر ممکنہ حد تک اپنی وفاداری کا اظہار کرنے کیلئے بےچین تھے ان میں سب سےاھم یہی مخدوم شاہ محمودقریشی (و:1869)ء تھے۔
یہ ملتان کےمشہور صوفیاء کرام حضرت بہاؤالدین ذکریا (و:1262) اور شاہ رکن عالم کے مزارات
کے سجادہ نشین تھے۔
انگریزوں کیساتھ مستقل وفاداری میں اس خاندان کا کوئی ثانی نا تھا۔ ان کا کوئی مرید بھی حریت پسندوں کی صف میں غلطی سے بھی شامل نا ھوسکا۔
1857ء کی جنگ آزادی اور بغاوت میں اس خاندان کی "شاندارخدمات" ہیں جیسےاس خاندان نے پولیس اور فوج میں بھرتی کیلئےافراد کو پیش کیا،
#LucknowDiaries
#architecture
بڑا امام بارگاہ(لکھنؤ، بھارت)
Bara Imam Bargah (Lucknow, Uttarpardesh)
اہل تشیع کاوہ واحدھندوستانی مرکزجوبارگاہ کم اوردلکش بھول بھلیاں،تنگ راہداریوں اورسیڑھیوں کاایک پیچیدہ نیٹ ورک زیادہ ھے۔لکھنؤکی ایک مشہورکہاوت ھے؛
جس کو نا دےمولا
اسکو دےآصف الدولہ
کے پیچھے وجہ اس یادگار کی تعمیر تھی جسے 1784 میں ایک امدادی منصوبے کے طور پر اس خطہ میں مہلک قحط کی زد میں آنے کے بعد ھوئی تھی۔
اس منصوبےسےکئی ہزار افراد کو روزگار فراہم ھوا۔ 18رویں صدی میں اودھ کےچوتھے نواب آصف الدولہ کا بھارتی ریاست اترپردیش میں تعمیرکردہ ایک تعمیراتی معجزہ اور
اور ایک اہم تاریخی یادگارھے۔
یہ کمپلیکس نما امام بارگاہ دنیاکی ان چند واحدتاریخی و مذہبی عمارات میں سے ایک ھے جو شہتیر یاستونوں کی مدد کےبغیر تعمیر شدہ ھے۔امام باڑہ اپنے عظیم الشان داخلی دروازے کے لیے مشہور ھے جسے رومی دروازہ یا ترکی دروازہ کہاجاتاھے۔ مرکزی ہال، جسے بڑا امام باڑہ
#Indology
#Gujrat
#architecture
لکشمی ولا محل (ودودر، ریاست گجرات)
Lakshmi Vila Palace (Vadodara, Gujrat State)
ھندوستان کی سب سے بڑی شاندار، عام، اور نجی رہائش گاہ (Public Residence) جو بکنگھم پیلس (برطانیہ) سے چار گنا بڑی ھے۔
گائیکواڑ سلطنت کا "لکشمی محل" جسے ریاست بڑودہ کے
مہاراجہ سیاجی راؤ گائیکواڑ III (Sayaji Rao Gaekwad III) نے 1890 میں بنایا۔
یہ شاندارلکشمی ولا جس کےمرکزی معمار کااعزاز میجرچارلس مینٹ کو حاصل تھا، آج بھی یہ ودودر کے شاہی خاندان کےزیر استعمال رہائش گاہ ھے۔
500 ایکڑپر پھیلا لکشمی ولا 60 لاکھ روپےکی لاگت سے19ویں صدی کے انڈو-سراسینک
پنپنے کے مکمل تھروٹل میں بنایا گیا تھا۔
یہ گجرات کے سب سے متاثر کن مہاراجہ کے عہد کا محل ھے۔ اس کا وسیع اندرونی حصہ آج بھی پچی کاری، فانوس اور فن پاروں کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں اور فن کا ایک انتہائی متاثر کن مجموعہ ھے۔
مشہورمصور راجہ روی ورما کی پینٹنگز جو بڑودہ کے اس وقت کے مہاراجہ