مجھے ایک ایسی خاتون کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا جو "Uber" کی گاڑی چلاتی تھی۔ میرے بہت شش و پنج میں تھا جب میں نے اسے کال کی بہرحال وہ مجھے لینے کے لئے پہنچی تو میں نے اس سے پوچھا ----
"میں آگے بیٹھوں یا پیچھے "
تو اس نے کہا آگے بیٹھ جائیں ۔
میں پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گیا۔ کچھ خاموشی کے بعد اس نے بات شروع کی تو کہنے لگی کہ
"آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے پوچھا اور پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گئے۔ ہمارے معاشرے میں مرد مجبور عورت کا
فائدہ اٹھاتے ہیں "
وہ مجھے بتانے لگی کہ اکثر لوگ جو میرے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہیں تو جب میں گئیر لگاتی ہوں تو وہ مجھے جان بوجھ کر کہنی سے چھونے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ
میں جب Ride ختم کر کے گھر جاتی ہوں تو وہ مجھے راتوں کو کال کرتے ہیں تو پھر مجھے مجبوراً اکثر کسٹمرز کے نمبر بلاک کرنے پڑتے ہیں ۔
عورت کیوں سب کچھ نہیں کر سکتی ۔ وہ ڈاکٹر ، ٹیچر، انجینئر، نرس ، شاپکیپر،
سیلزگرل ، ڈرائیور، آیا،لوگوں کے گھروں میں صفائی کی ملازمت کرتی ہے تو اس کے راستے میں اتنی رکاوٹیں کیوں کھڑی کر دی جاتی ہیں ۔ معاشرہ اسے عزت اور تحفظ کے ساتھ روزگار کیوں نہیں کرنے کی اجازت
دیتا۔ اس کی بھی تو کوئی گھریلو مجبوری ہو سکتی ہے۔???
لوگ اپنی ٹھرک کو کنٹرول کیوں نہیں کرتے، اپنی بیویوں پر پورا کیوں نہیں کرتے، کیا انکی بہنیں، بیٹیاں نہیں ہیں???
سمیرا نے اپنے Uber Driver بننے کی مجھے اپنی روداد سنائی کہ اس کے والد
تقریبا اندھے ہو چکے ہیں اور اسکی والدہ ایک گھر میں کام کرتی ہیں-
اوبر میں آنے سے پہلے اس نے ڈرائیونگ سیکھی لیکن اس کے پاس اپنی گاڑی خریدے کے پیسے نہیں تھے سو اس نے تنخواہ پر کسی کی گاڑی چلانا شروع کر
دی۔ وہ ایک کمرے کے گھر میں رہتی ہے اور اکثر گھر کا کرایہ دینے اور بہن،بھائیوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اسے 14 گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے.
یہ کہانی ہمارے لئے inspiration ہے ایک لڑکی اپنی مرضی یا کسی مجبوری کی حالت میں کام کرتی ہے تو
ہمیں چاہیے کہ اس کی Privacy کا خیال رکھیں۔ اپنی تنقید اور ٹھرک کو کنٹرول میں رکھاکر اس کو آرام دہ اور تحفظ والا ماحول دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کی مشکلات سے نبردآزما ہو سکے بجائے اس کے
کہ ہم اسے ہراساں کر کے اسکی جاب کو مزید مشکل بنا دیں۔
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
سلطان_صلاح_الدین_ایوبی_رح کو جب مصر کا گورنر مقرر کیا گیا تو آپ جب مصر تشریف لائے تو کہا گیا: حضور آپ بڑی لمبی مسافت سے تشریف لائے ہیں پہلے آرام کر لیں۔
سلطان ایوبی رح نے جواب دیا:
’’میرے سر پر جو دستار رکھ دی گئی ہے
میں اس کے اہل نہ تھا۔ اس دستار نے میرا آرام اور میری نیند ختم کر دی ہے۔ کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچے نہیں لے چلیں گے جہاں میرے فرائض میرا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔
کیا حضور کام سے پہلے طعام پسند نہیں کریں گے؟‘‘۔
سلطان کے نائب نے تڑنگے قوی ہیکل گارڈز دونوں اطراف کھڑے تھے۔ سلطان انکو دیکھ کر مسکرا اٹھے لیکن اگلے ہی لمحے وہ خوشی زائل ہو گئی جب وہاں چار نوجوان لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں لئے کھڑی تھیں۔ انھوں نے سلطان کے قدموں
اپنے والد صاحب کے سامنے دوپٹہ لینا نہیں سیکھا تو میرا خیال ہے کہ یہ سب ڈگریاں اور سب سندیں بے معنی ہے
اور اگر آپ نیچے کومنٹس پڑھیں تو آپ کو سب مبارک باد دینے والے نظر آئیں گے
کیا کسی نے مذمت کی کہ ممبر پارلیمنٹ کی بیٹی والد کے سامنے دوپٹہ لینا چاہیے
تاکہ وہ دوسروں کے لئے بھی سبق ہو اور نصیحت بھی
نہیں بھائی نہیں بڑے لوگوں میں ہمیں کوئی برائی نظر نہیں ہم تو صرف اپنے جیسے لوگوں پر ہی تنقید کر سکتے ہیں سوشل میڈیا پراسلامی قانون نافذ کرنے کے لیے شور مچا سکتے ہیں لیکن عملی قدم ہم نے
نہیں اٹھانا میں تو صرف تحریری شائع کرتا رہتا ہوں اور ان میں جو تصویریں ہوتی ہیں وہ بھی فرضی ہوتی ہیں جن سے میرا لینا دینا نہیں ہوتا اگر ابھی میں ایسے کسی تحریر کے ساتھ تصویر لگا لو جس میں لڑکی نے پردہ نہ کیا ہو تو نیچے مجھے درس دینے والے ہزاروں لوگ ہوں گے لیکن
ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص
اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر
پہنچے، وہ زانی شخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
دُنیا اپنی روانگی میں مسلسل چل رہی ہو گی کہ اچانک ایک زور دار آواز سے سب کچھ فنا ہوجائے گا سوائے ربِ العزت کے، پھر دوسری بار آواز آئے گی اور ساری کائنات اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کر ننگے بدن، ننگے پاؤں میدانِ محشر کی طرف
دوڑیں گے، جو شام کے علاقے کی طرف سجایا جائے گا۔
ہر انسان اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے اٹھے گا، ہر ایک کو دو فرشتے پکڑیں گے اور میدانِ محشر میں لے جائیں گے۔ سب میدانِ محشر میں پہنچیں گے، سورج ایک میل کے فاصلے سے تپش پھینک رہا ہوگا۔ سب لوگ
اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔
پچاس ہزار سال کا یہ ایک دن بہت سخت ہو گا۔لوگوں کی حالت ایک نشہ کئے ہوئے شخص کی طرح ہو گی۔
ہر نبی اپنا حوض لگا کر اپنی اپنی اُمت کو پانی پلائے گا۔ نبی کریم ﷺ بھی اپنی اُمت کو سوائے کافروں،
یہ ہیں وہ تین سائنس دان جنہوں نے ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کی دریافت کی اور لاکھوں لوگوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے اور لیور کینسر میں مبتلا ہونے سے بچا لیا۔ان تینوں کو اس سال نوبل پرائز ونر قرار دیا گیاہے۔ہماری اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں
اڑنے والی گاڑیاں بنائی جا رہی ہیں، وہاں آج بھی لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ بیماری ایسی چیز ہے کہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی لیکن دوا اور چارہ جوئی انسان کے اختیار میں دی گئی ہے۔میں دنیا میں سب سے زیادہ سائنس دانوں کی قدر کرتی ہوں،
خاص طور پر وہ جو بیماری پر کام کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگیاں تیاگ دیتے ہیں، کمروں میں بند رہتے ہیں، کتابیں کھاتے پیتے، اور علم کی عبادت کرتے ہیں۔انہیں انسٹا، فیس بک، فیشن، ہوٹلنگ سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا، انہیں بس انسانیت