ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص
اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر
پہنچے، وہ زانی شخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔
تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے
تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کی جا چکی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانی چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ
عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے عیاشی اور بار بار مواقع ملنا قدرت کا اسکو گمراہی میں ہی ڈالے رکھنا مقصد تھا۔۔
ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے
دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔
میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔
کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔
کتنے ہی مرد و خواتین کتنی ہی بار گھٹیا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مرد و عورت اسے اپنی جیت کا نام دیتے ہیں ۔
اور اگلی بار ایک نیا شکار ہاتھ میں ہوتا ہے۔۔
پہلی بار گناہ ہر دل زور زور سے دھڑکے گا آپکا، دماغ غیر شعوری سگنل دے گا۔ ایک
ٹیس اٹھے گی ذہن میں۔ جسم لاغر ہونے لگے گا ، کانپنے لگے گا
یہ وہ وقت ہوگا جس ایمان جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، چلا رہا ہوتا ہے کہ دور ہٹو، باز رہو۔
مگر دوسری بار یہ شدت کم ہو جائے گی۔ اور پھر ختم۔
پھر انسان مست رہتا ہے۔ اور خوش بھی۔
مگر افسوس کہ اوپر والا اس سے اپنا تعلق قطع کر لیتا ہے۔۔
گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا اور آسان بھی، مگر یاد رکھیے سچ کا راستہ دشوار ہوتا ہے اس میں بے شمار تکلیفیں ہونگی، آزمائشیں، مصیبتیں سب ہونگی حیوان بننا آسان ھے انسان بننا بہت مشکل ۔
کسی زمین میں گندم خود بخود نہیں اگ آتی۔ آگائی جاتی ہے۔ محنت کی جاتی ہے، خیال کیا جاتا ہے، حفاظت کی جاتی ہے تب جا کے پھل ملتا ہے مگر کسی زمین میں جھاڑیاں، غیر ضروری گھاس پھوس ، کانٹے دار پودے خود ہی اگتے ہیں۔ ان پہ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، وہ خود ہی اگتی
ہیں اور کچھ ہی دنوں میں پوری زمین کو لپیٹ میں لیکر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے۔۔
اسی طرح بالکل آپکے دل کی زمین ہے جہاں گناہوں کا تصور از خود پیدا ہوگا۔ اور بڑھے گا۔ مگر نیکیوں کے لیے گناہوں سے بچنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔۔ دشواریوں سے گذرنا ہوگا۔۔
خدارا اس زنا کی لعنت سے بچیں ۔ اس میں ملوث ہونا کوئی کمال نہیں،
بچنا کمال ہے۔۔ باز رہنا کمال ہے۔ سوچیے ، نکلیے اس گناہ سے
کیوں حیا کا اٹھ جانا۔ ایمان اٹھ جانے کی نشانی ہے۔ نشانی ہے اس بات کی کہ
اندھیری قبر میں بہت برا ہونے والا ہے۔
خدا ہم سب کو ہدایت دے۔۔
آمین
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
سلطان_صلاح_الدین_ایوبی_رح کو جب مصر کا گورنر مقرر کیا گیا تو آپ جب مصر تشریف لائے تو کہا گیا: حضور آپ بڑی لمبی مسافت سے تشریف لائے ہیں پہلے آرام کر لیں۔
سلطان ایوبی رح نے جواب دیا:
’’میرے سر پر جو دستار رکھ دی گئی ہے
میں اس کے اہل نہ تھا۔ اس دستار نے میرا آرام اور میری نیند ختم کر دی ہے۔ کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچے نہیں لے چلیں گے جہاں میرے فرائض میرا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔
کیا حضور کام سے پہلے طعام پسند نہیں کریں گے؟‘‘۔
سلطان کے نائب نے تڑنگے قوی ہیکل گارڈز دونوں اطراف کھڑے تھے۔ سلطان انکو دیکھ کر مسکرا اٹھے لیکن اگلے ہی لمحے وہ خوشی زائل ہو گئی جب وہاں چار نوجوان لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں لئے کھڑی تھیں۔ انھوں نے سلطان کے قدموں
اپنے والد صاحب کے سامنے دوپٹہ لینا نہیں سیکھا تو میرا خیال ہے کہ یہ سب ڈگریاں اور سب سندیں بے معنی ہے
اور اگر آپ نیچے کومنٹس پڑھیں تو آپ کو سب مبارک باد دینے والے نظر آئیں گے
کیا کسی نے مذمت کی کہ ممبر پارلیمنٹ کی بیٹی والد کے سامنے دوپٹہ لینا چاہیے
تاکہ وہ دوسروں کے لئے بھی سبق ہو اور نصیحت بھی
نہیں بھائی نہیں بڑے لوگوں میں ہمیں کوئی برائی نظر نہیں ہم تو صرف اپنے جیسے لوگوں پر ہی تنقید کر سکتے ہیں سوشل میڈیا پراسلامی قانون نافذ کرنے کے لیے شور مچا سکتے ہیں لیکن عملی قدم ہم نے
نہیں اٹھانا میں تو صرف تحریری شائع کرتا رہتا ہوں اور ان میں جو تصویریں ہوتی ہیں وہ بھی فرضی ہوتی ہیں جن سے میرا لینا دینا نہیں ہوتا اگر ابھی میں ایسے کسی تحریر کے ساتھ تصویر لگا لو جس میں لڑکی نے پردہ نہ کیا ہو تو نیچے مجھے درس دینے والے ہزاروں لوگ ہوں گے لیکن
مجھے ایک ایسی خاتون کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا جو "Uber" کی گاڑی چلاتی تھی۔ میرے بہت شش و پنج میں تھا جب میں نے اسے کال کی بہرحال وہ مجھے لینے کے لئے پہنچی تو میں نے اس سے پوچھا ----
"میں آگے بیٹھوں یا پیچھے "
تو اس نے کہا آگے بیٹھ جائیں ۔
میں پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گیا۔ کچھ خاموشی کے بعد اس نے بات شروع کی تو کہنے لگی کہ
"آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے پوچھا اور پوچھنے کے باوجود پیچھے بیٹھ گئے۔ ہمارے معاشرے میں مرد مجبور عورت کا
فائدہ اٹھاتے ہیں "
وہ مجھے بتانے لگی کہ اکثر لوگ جو میرے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہیں تو جب میں گئیر لگاتی ہوں تو وہ مجھے جان بوجھ کر کہنی سے چھونے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ
دُنیا اپنی روانگی میں مسلسل چل رہی ہو گی کہ اچانک ایک زور دار آواز سے سب کچھ فنا ہوجائے گا سوائے ربِ العزت کے، پھر دوسری بار آواز آئے گی اور ساری کائنات اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کر ننگے بدن، ننگے پاؤں میدانِ محشر کی طرف
دوڑیں گے، جو شام کے علاقے کی طرف سجایا جائے گا۔
ہر انسان اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے اٹھے گا، ہر ایک کو دو فرشتے پکڑیں گے اور میدانِ محشر میں لے جائیں گے۔ سب میدانِ محشر میں پہنچیں گے، سورج ایک میل کے فاصلے سے تپش پھینک رہا ہوگا۔ سب لوگ
اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔
پچاس ہزار سال کا یہ ایک دن بہت سخت ہو گا۔لوگوں کی حالت ایک نشہ کئے ہوئے شخص کی طرح ہو گی۔
ہر نبی اپنا حوض لگا کر اپنی اپنی اُمت کو پانی پلائے گا۔ نبی کریم ﷺ بھی اپنی اُمت کو سوائے کافروں،
یہ ہیں وہ تین سائنس دان جنہوں نے ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کی دریافت کی اور لاکھوں لوگوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے اور لیور کینسر میں مبتلا ہونے سے بچا لیا۔ان تینوں کو اس سال نوبل پرائز ونر قرار دیا گیاہے۔ہماری اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں
اڑنے والی گاڑیاں بنائی جا رہی ہیں، وہاں آج بھی لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ بیماری ایسی چیز ہے کہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی لیکن دوا اور چارہ جوئی انسان کے اختیار میں دی گئی ہے۔میں دنیا میں سب سے زیادہ سائنس دانوں کی قدر کرتی ہوں،
خاص طور پر وہ جو بیماری پر کام کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگیاں تیاگ دیتے ہیں، کمروں میں بند رہتے ہیں، کتابیں کھاتے پیتے، اور علم کی عبادت کرتے ہیں۔انہیں انسٹا، فیس بک، فیشن، ہوٹلنگ سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا، انہیں بس انسانیت