پانی کہاں مرتا ھے
پاکستان کے مذہبی ملک ہونے کو جب پسماندگی کیوجہ بتایا جاتا ھے تو کچھ دوست اس پہ یہ کہہ کر اعتراض کرتے ہیں کہ "اسرائیل بھی تو مذہب کی بنیاد پہ قائم ہوا ھے وہ کیوں ترقی کیجانب گامزن ھے اسلیے ہمیں پاکستان کی مذہبی شکل ہوتے ہوئے ترقی کی امید رکھنی چاہیے"
لیکن
حقیقت یہ نہیں ھے اسرائیل یہودیت کے نفاذ کے لیے قائم نہیں ہوا یہودی نسل کے بچاو کے لیے یا انہیں وطن دینے کے لیے قائم ہوا ھے جبکہ اسکے برعکس پاکستان مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے لیے قائم کیا گیا اور اسے جناح صاحب نے اسلام کی تجربہ گاہ کہا اسلیے اسکے آئین میں مذہب داخل ھے جو
اسکی پسماندگی کیوجہ ھے اس بات کو ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں
یووال نوح ہراری اسرائیلی ھے یہودی بھی ھے اسکی انسانی ارتقاء پہ لکھی کتاب کو عالمی شہرت نصیب ہوئی یووال یہودی ہوتے ہوئے اس کتاب میں آدم و حوا کے رواجی مذہبی عقیدے کے خلاف جا کر ارتقائی علم کے سائنسدانوں کی
ریسرچ کو بنیاد بنا کر انسانی ارتقاء پہ بحث کرتا ھے اور مذہبی عقیدے کی نفی کرتا ھے لیکن اسرائیلی حکومت یا ریاست اسکی کتاب کو نظریہء اسرائیل یا یہودیت کے خلاف قرار دے کر ضبط نہیں کرتی اسرائیلی مذہبی طبقہ اسکا جینا حرام نہیں کرتا اسے لکھنے کی آزادی میسر ھے یووال ہم جنس پرست ھے
اسرائیل کو اسکی ذاتی زندگی سے بھی غرض نہیں
لیکن اسکے برعکس پاکستانی درسگاہوں میں نظریہء ارتقاء کا مذاق اڑایا جاتا ھے جو جدید سائنس کی ریڑھ کی ہڈی ھے آپ اس مثال کو ہر پاکستانی شعبہء زندگی میں لیجائیں مذہب و ریاست کا ملاپ آپکو تباہیاں مچاتا دکھائی دے گا تعلیم ،عورت کی سماجی
حیثیت، یا سیاست ہر جگہ مذہب کو جدید نظریات کو قبول کرنے سے انکار کے لیے بطور حیلہ استعمال کیا جا رہا ھے اور مستفید ہونے والے طبقات اسے اپنی بالادستی کے لیے برتتے نظر آتے ہیں پاکستانی اصطبلشمنٹ کیجانب سے مخالف سیاسی قوتوں کے خلاف دھرم کے نام پہ چلائی جانے والی تحریکیں اور
مولویوں کو دی جانے والی سپورٹ عقلمند کو اشارے کے لیے کافی ہونی چاہیئیں سماجی معاملات میں جنسی تعلیم جو ضرورت بن چکی کی مخالفت اور عورت کی آزادی کو محدود رکھنے کے لیے اسکا استعمال بھی عام نظر آتا ھے جدید دنیا کی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں دھرم کو انسان کی ذاتی زندگی تک محدود
کرنا ہو گا اور مجھے یقین ھے کہ یہ کام پاکستان کے ہوتے ممکن نہیں ھے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
برصغیر میں تین ہی فرقے ہیں اُتر پردیشوی الگ پٹھانوی الگ اور پنجابوی، یہ تین الگ الگ مسلک ہیں، پنجاب کا وہابی سرحد اور اترپردیش کے وہابی سے مختلف المزاج ہوگا، پنجاب کا دیوبندی، بریلوی، شیعہ بھی سرحد و اترپردیش کے
دیوبندی،بریلوی، شیعہ سے مختلف مزاج رکھتا ہوگا، عقائد بدلنے سے مزاج نہیں بدلتے عرب چودہ صدیاں قبل بھی لونڈیاں غلام رکھنا پسند کرتے تھے آج بھی کرتے ہیں عقیدہ انکا کچھ نہیں بگاڑ سکا، پختون صدیوں پہلے بھی امرد پرست، سطحی العقل تھے آج بھی ویسے ہی ہیں عقیدہ انکا کچھ نہیں بگاڑا سکا،
اسی طرح اُترپردیش کا مزاج پنجابیوں کے مزاج سے بہت مختلف ہے
چلیں کچھ کھول کر بیان کردیتے ہیں بریلویت اور دیوبندیت کا مسئلہ یہ ہے کہ انکے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک صرف دو ایم بی کی ہے اب اتنی چھوٹی سپیس میں چیدہ چیدہ چیزیں ہی سیو ہوپاتی ہے اُترپردیش کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اس خطے نے
آٹھ پنجابی مزدور ہی اغواء ہوئے ہیں کونسا طوفان آگیا؟ چند دنوں میں انکی لاشوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر بھی نشر ہو جائیں گی، اچھا البتہ اگر ان آٹھ پنجابی مزدوروں کی جگہ آٹھ امریکی ٹورسٹ اغواء ہوئے ہوتے تو ریاست میں وزیراعظم سے لے کر محافظِ اعظم تک سب انکی بازیابی کے لیے تن من دھن
کی بازی لگا دیتے یہ بھی نہیں تو اگر آٹھ پخ پخے یا بلوچ پنجاب میں اغواء ہوجاتے تو پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے چوبیس گھنٹے میں انکو پنجاب کی ساتویں تہہ سے بھی برآمد کرلیا جاتا، اور پریشان نا ہوں اختر مینگل کہ جس کا بھائی بلوچ ملیٹنٹ تنظیم چلاتا ہے وہی اختر مینگل ملتان میں
کئی مرتبہ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کو بلوچستان میں شامل کرنے کے لیے جلوس کرچکا ہے، یہ پنجاب ہے اسے ریاست پاکستان نے تین روٹھے ہوئے بھائیوں کو راضی رکھنے کے لیے گدھے کے کردار کے طور پر رکھا ہوا ہے ملک بنانا ہے پنجاب توڑ دو ملک بچانا ہے پنجاب توڑ دو دوسرے صوبے راضی کرنے ہیں
لال مسجد میں کوئی ظلم نہیں ہوا تھا لال مسجد کے دیوبندیوں نے حاکم کے خلاف خروج کیا تھا دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستان کے دارلحکومت میں اکٹھا کیے تھے تا کہ اس ملک پر سعودیہ کے غلاموں کی حکومت آجائے لیکن جب آپ لال مسجد کے حامیوں سے یہی بات کریں گے تو وہ عجیب و غریب دنیا جہان کی
تاویلیں اور دلیلیں لائیں گے کہ وہ مظلوم تھے ان پر ظلم ہوا دوسری طرف اسی لال مسجد گروپ اور اس قبیل کے سبھی چمونوں کی کھُلی رائے واقعہ کربلا کے بارے میں یہ ہے
کہ آقا حسینؑ نعوذباللہ باغی تھے کیونکہ انہوں نے حاکم کے خلاف خروج کیا تھا اس لیے واقعہ کربلا سے یزید پر کوئی بار نہیں
یزید آج بھی جنت کے تمام پیکجز کا اتنا ہی حقدار ہے جتنا کوئی دوسرا مسلمان، حالانکہ حقیقت میں اگر حسینؑ باغی تھے تو حضرت امیر معاویہ بھی باغی تھے کیونکہ انہوں نے خلیفہ کے ساتھ جنگ کی لیکن یہ بات کرنے سے زبان تھتھلانے لگتی ہے اور اموی فوجوں سے آج کے دن بھی ڈر لگنے لگتا ہے
بریانی کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ان سالن والے اُبلے چاولوں کے ساتھ شروع میں آپ کسی بھی علاقے کا نام لگا سکتے ہیں جیسے ممبئی بریانی، حیدرآبادی بریانی، سندھی بریانی وغیرہ یعنی ممبئی بریانی ممبئی میں حیدرآبادی بریانی حیدرآباد میں اور سندھی بریانی سندھ میں ایجاد ہوئی ؟
کیا یہ مذاق ہے؟
اب آئیں پشاور کڑاہی کی طرف تو پشاوری کڑاہی کیوں؟ کابُلی کڑاہی، یا چارسدہ کڑاہی، یا قندھاری کڑاہی کیوں نہیں؟ کیا افغانی پٹھان کڑاہی نہیں کھاتے ؟ اب اگر پشاور کی بات کریں تو یہ تو خاص طور پر پٹھانوں کا آبائی علاقہ تک نہیں ہے بلکہ یہ پنجابی علاقہ ہے اگر مصالحوں
❞بـــــہــــاولـــپـــــور آزاد ریــــاســـــت تــــھــــی❝
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک تحریر لکھی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ برصغیر میں کوئی بھی ریاست آزاد نہیں تھی بلکہ یہ سب پرِنسلی سٹیٹس تھیں جو کہ برطانوی راج کے زیر سایہ اس کے دست و بازو کے طور پر کام کرتی تھیں اس بات پر
چند احباب نے یہ سوال کیا کہ آپ کے اس دعوے کی دلیل کیا ہے حالانکہ یہ دعویٰ نا تھا نا ہی کوئی ڈھکی چھپی بات تھی بلکہ یہ بالکل زندہ حقیقت ہے کہ برصغیر کی تمام پرِنسلی سٹیٹس برطانوی راج کی کٹ پُتلی حکومتیں تھیں البتہ دلیل کے طور پر میں ریاست بہاولپور کے برطانوی حکومت کے ساتھ ہوئے
معاہدے کی نقل جو کہ برطانوی راج میں
Treaties Engagements And Sanads Relating to India And Neighbouring Countries
Vol. I: Punjab, Punjab States And Delhi
نامی برطانوی رپورٹ میں شائع ہوئی پوسٹ میں دے رہا ہوں یہ معاھدہ 1838 میں نواب آف بہاولپور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان طے
زیادہ کلپنے کی ضرورت نہیں پنجاب 1849ء میں، 1901ء میں، پھر 1947ء میں برطانوی سامراج نے ہی توڑا تھا اب پھر پنجاب کو برطانوی سامراج ہی توڑنا چاہتا ہے جن کو آپ اپنا حکمران سمجھتے ہیں یہ حقیقت میں برطانیہ کے بغل بچے ہیں، پنجاب توڑنے کے بعد انکے بہت سے پلان کامیاب ہونے والے ہیں 1947ء
میں بھی پیروں، وڈیروں، گدّی نشینوں نے پنجاب توڑنے کی راہ ہموار کی تھی اب پھر یہی لوگ پنجاب توڑیں گے، جب انکو ضرورت ہوئی کہ پاکستان میں اب انکا مستقبل تاریک ہے تو یہ پاکستان بھی توڑیں گے، اسٹیبلشمنٹ اس خواب میں مبتلا ہے کہ پنجاب توڑنے سے پاکستان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے بلوچ،
سندھی اور پٹھان محرومی کا رونا نہیں روئیں گے جبکہ یہ انکا وہم ہے جنوبی پنجاب سندھ و بلوچستان سے بھی زیادہ جہالت، قبضہ گیری، لا قانونیت، ریاست کو بلیک میل کرنے اور مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ بنے گا، اس نئے صوبے کی اشرافیہ بلوچ، اور پٹھان ہوں گے جو دہشت گرد ڈیرہ بگٹی یا باجوڑ میں