رسولﷺ پاک کے زمانے میں ایک غیر مسلم نے اسلام قبول کیا تو اس سے پوچھا گیا کے اسلام کی کس بات نے تجھے متاثر کیا
تو وہ بولا کہ صرف ایک واقعہ میری ہدایت کا سبب بن گیا
کہا مجلس رسول صلہ اللہ علیہ وسلم لگی ہوئی تھی لوگوں کا ہجوم تھا
ایک شخص نے عرض کی حضور میرے لیے دعا کر دیں
👇
میرا بچہ کئی دنوں سے مل نہیںرہا مل جائے
قبل اس کے کہ حضور کے ہاتھ اٹھتے ایک شخص مجلس موجود تھا کھڑا ہو گیا حضور میں ابھی ابھی فلاں باغ سے گزر کر آیا ہوں
اس کا بچہ وہاں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا.باپ نے جب سنا کے میرا بچہ فلاں باغ میں ہے تو اس نے دوڑ لگا دی
👇
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو روکو واپس بلاو
اس نے کہا حضور آپ جانتے ہیں کے ایک باپ کے جذبات کیا ہوتے ہیں
کہا اچھی طرح سے آگاہ ہوں لیکن تمہیں بلایا ہے بلانے کا بھی ایک مقصد ہے. اس نے کہا جی حضور ارشاد فرمائیں
کہا جب باغ جاؤ بچوں کے ساتھ اپنے بچے کو کھیلتا ہوا دیکھ
👇
لو تو بیٹا بیٹا کہہ کر آوازیں نا دینے لگ جانا
جو نام رکھا ہے اس نام سے پکارنا کہا حضور میرا بیٹا ہے اگر میں بیٹا کہ کر بلاؤں تو ہرج بھی کیا ہے
فرمایا تم کئی دنوں کے بچھڑے ہو تمہارے لہجے میں بلا کا رس ہو گا
اور تم نہیں جانتے کے کھیلنے والوں میں کوئی یتیم بھی ہو
اور جب تم
👇
اپنے بیٹے کو بیٹا کہہ کر پکارو گے اتنا میٹھا لہجہ ہو گا تو اس کے دل پر چوٹ لگے گی اور کہے گا کاش آج میرا بھی باپ ہوتا مجھے بیٹا کہ کر پکارتا.فرمایا یہ شوق گھر جا کر پورا کرنا
آپ نے فرمایا کسی بیوہ کے سامنے اپنی بیوی سے پیار نہ کرو ،
غریب کے سامنے اپنی دولت کی نمائش کرنے سے
👇
روکا گیا
حضور صل اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کے اپنے گوشت کی خوشبو سے اپنے ہمسائے کو تنگ نا کرو
اس غیر مسلم نے کہا کے حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم کے اس واقعے نے کے کسی یتیم کے سامنے اپنے بیٹے کو بیٹا کہہ کر نا پکاروا
اس نے مجھے بتایا کے اسلام کیا ہے
سیدنا کریم ﷺ
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ سوال اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ..
پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ میرا رب جن بندوں کو زیادہ چاہتا ہے ان کے بارے میں تو اس نے آیتیں اتاریں ہیں سو میں قرآنِ مجید کھول کر بیٹھ گیا...
میں نے ڈھونڈا تو پہلی آیت ملی
”وہ متقین سے محبت کرتا ہے“ مجھے ملال
👇
ہوا مجھ میں تو نام کا بھی تقوی نہیں پھر میں نے آگے پڑھا کہ وہ ” صابرین “ کو محبوب رکھتا ہے...
مجھے اپنے بے صبرا ہونے پر شدید افسوس ہوا..
مزید آگےبڑھا تو جانا " اللہ مجاھدین“ ( کوشش کرنے والے سے محبت کرتاہے....
میں نے جانا کہ میں کم ہمت و حوصل والا ہوں ..
👇
پھر پڑ ھا کہ وہ احسان یعنی نیک اعمال کرنے والوں کو پسند کرتا ہے....
مگر میں اس سے بھی بہت دور رہا ہوں!
پھر میں نےاپنی تلاش ترک کرنے کا فیصلہ کیا اس ڈر سے کہ اب شاید میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں جس کے باعث اللہ مجھ سے محبت کرے...
👇
محمد کریم مصر کا حکمران تھا اچانک فرانس نے مصر پہ حملہ کر دیا نپولین فرانس کا بادشاہ تھا محمد کریم اپنے ملک کے لیئے جتنا لڑ سکتا تھا لڑا لیکن بدقسمتی سے فرانس نے اس کو ہرا دیا اور مصر پر قبضہ کر لیا نپولین بونا پارٹ کے فوجیوں نے محمد کریم کو زنجیروں میں
👇
جکڑ کر اس کے سامنے پیش کر دیا نپولین نے کہا تم نے میرے بہت سے فوجی مار دیئے لیکن جس دلیری اور بہادری سے تم نے اپنا ملک بچانے کی کوشش کی ھے میں تمہیں ایک موقعہ دینا چاہتا ہوں تم نے جتنے میرے فوجی مارے ہیں ان کا فدیہ دے دو میں تمہیں چھوڑ دوں گا فرانس کے فوجی محمد کریم کو
👇
زنجیروں میں جکڑ کر مصر کے بڑے بڑے تاجروں کے پاس لے گئے محمد کریم کا خیال تھا کہ وہ اس کی بھرپور مدد کریں گے کیونکہ اس نے ان کی آزادی کے لیئے ایک طویل جنگ لڑی تھی لیکن مصر کے تاجروں نے اس سے منہ پھیر لیا اور فدیہ کے لیئے رقم دینے سے انکار کر دیا شام کو جب محمد کریم کو نپولین
👇
1976 میں جب مصر کے صدر انوارالسادات نے امریکی صدر کی آفیشل سیرگاہ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کامعاہدہ کیا تھا۔ تب اُسے بھی امن کی طرف ایک بڑی پیش رفت اور فلسطینیوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے قربانی قرار دیا گیا تھا۔ امت کے غدار اُس وقت بھی اُس تاریخی
👇
خباثت کی سنگینی کے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے۔ تب مصر کے ایک ہسپتال میں کینسر سے لڑتے لڑتے نڈھال ہو جانے والے ناتواں شاعر “امل دنقل” کی ایک چیخ گونجی تھی۔ “اَمل ابو القاسم دنقل” کی بستر مرگ پر لکھی نظم “لا تصالح” (صلح مت کرنا) نے عربوں کو..
👇
جھنجوڑ ڈالا تھا۔ بلاد عرب میں “لا تصالح” فلسطین کا نوحہ بن کر بچے بچے کی زبان پر آ گئی۔ ایک نظم نے تمام اخبارات اور ریڈیو پراپیگنڈے پر بھاری پڑ گئی۔ مصر میں سادات کے خلاف بغاوت پر مشکل سے قابو پایا گیا۔ انوار السادات قابل نفرت ٹھہرا اور قتل ہو کر بھی نفرین کا مستحق رہا۔
👇
خلافت کے عظیم ترین منصب پرفائزہونے کے باوجودصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی سادگی اورانکسارکایہ عالم تھا کہ ہمیشہ خدمتِ خلق میں مشغول ومنہمک رہاکرتے،خوداپنے ہاتھوں سے بلاجھجک دوسروں کے روزمرہ کے کام کاج کردیاکرتے،بیکسوں کی دستگیری اور
👇
ضرورتمندوں کی خبرگیری کوانہوں نے تاحیات اپنا شیوہ وشعاربنائے رکھا۔
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران میں ان کے معمولات کا جائزہ لیا کرتاتھا۔ وہ اکثر فجر کی نماز ادا کرنے جے بعد شہر سے باہر نکل جاتے اور سورج طلوع ہونے
👇
کیساتھ واپس آتے مجھے تجسس ہوا چنانچہ ایک روز میں خاموشی سے ان کے پیچھے ہولیا،وہ ایک ویران جھونپڑی کی طرف جا رہے تھے وہاں پہنچنے کے بعدوہ اس معمولی سی جھونپڑی میں داخل ہوگئے، اورپھرکچھ وقت گذرنے کے بعدوہاں سے نکلے اور واپس مدینہ شہرکی طرف چل دئیے…تب میں نے سوچاکہ میں بھی
👇
گزرے زمانے میں ایک شخص ایک گاؤں میں رھتا تھا جو خوب دل لگا کر باقائدگی کیساتھ پنچ گانہ نماز باجماعت پڑھتا تھا اس لئے لوگ اس کو محنت مزدوری کے لئے نہیں بلاتے تھے۔ شکایت یہ تھی کہ ھر گھڑی مسجد کی دوڑ لگاتا رھتا ھے۔
ایک بار زمیندار کے گھر شادی تھی۔ کام کرنے والے کم پڑ گئے تو
👇
اس کو بھی بلا لیا۔ اس نے اس شرط پر آمادگی ظائر کی کہ نماز باجماعت ھی پڑھونگا۔ زمیندار صاحب آمادہ ھو گئے۔ کام جب ختم ھوا تو اس کی مزدوری دس پیسے بنی۔ زمیندار صاحب نے اس کو چونی دی جو سولہ پیسے کی ھوتی تھی۔ وہ غریب بہت خوش ھوا۔ سر شام دکان پر پہنچا۔ گھر کی ضرورت کا سامان لیا۔
👇
ماں کے لئے گڑ بھی لیا تاکہ وہ اپنی پسند کا حلوہ بنا دے۔ دکاندار نے کہا کہ بارہ پیسے ھو گئے۔ اس غریب نے پلے سے کھول کر چونی دی۔ دکاندار نے چراغ کی رشنی میں دیکھا ، پرکھا اور چونی اس کی جھولی میں پھینک دی اور غصہ میں بولا: "ھر دم مسجد کی دوڑ لگاتے ھو اور
👇
“And [mention] Ayyub, when he called to his Lord, ‘Indeed, adversity has touched me, and you are the Most Merciful of the merciful. So We responded to him and removed what afflicted him of adversity.
👇
And We gave him [back] his family and the like thereof with them as mercy from Us and a reminder for the worshippers [of Allah ].’” (Surah al-Anbiya, 21:83-84)
👇