بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے بڑا جنازہ ڈکٹیٹر ضیاءالرحمان کا تھا جس نے ریڈیو پر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا اور کچھ عرصہ بعد مجیب الرحمان کو خفیہ طور پر فیملی سمیت قتل کروا کر مارشل لاء لگا دیا تھا یہ بات شاید اکثریت نہیں جانتی کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان پر
ضیاء الحق اور بنگلہ دیش پر ضیاءالرحمان نے مارشل لاء لگایا تھا ضیاء پاکستانی نے بھٹو کو پھانسی دلوائی اور ضیاء بنگالی نے مجیب کو قتل کروایا ویسے ضیاء بنگالی جنگ 71 کا ہیرو سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کراچی میں پلا بڑھا تھا اور مغربی پاکستانیوں کی سوچ کو بہت اچھے سے سمجھتا تھا سنا ہے
ضیاء پاکستانی کا ڈومیسائل کے پی کے کا تھا خیر ضیاء پاکستانی بھی ہیرو ہی تھا کیونکہ انکا جنازہ بھی پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا اور اس حساب سے وہ قائداعظمؒ, فاطمہ جناحؒ, اور لیاقت علی خان سے بھی بڑے جنازے والے صاحب قرار پائے جیسے حضرت ایوب خان رحمتہ اللہ علیہ
فاطمہ جناح سے زیادہ ووٹ لینے والے قرار پائے کہتے ہیں اسکندر مرزا کو یحیٰ خان نے پاکستان میں دفن نہیں ہونے دیا تھا کیا پتا اسکا جنازہ بھی کافی بڑا ہوتا کیونکہ بھٹو شہید صاحب نے اسکندر مرزا کے بارے میں کہا تھا "آپ کا نام جناح سے بھی اوپر لکھا جائے گا" اور کیوں نہیں یہ
اسکندر مرزا ہی تو تھے جنہوں نے لیاقت علی خان کو راضی کیا تھا کہ موسٹ جونئیر جرنیل ایوب خان کو موسٹ سینئیر جرنیلوں پر فوقیت دے کر اسے آرمی چیف بنا دو ویسے لیاقت علی خان پہلے ایک سینئیر ترین جرنیل کو آرمی چیف لگا چکے تھے لیکن شاید اسکندر مرزا سے مشورہ نہیں کیا تھا اس
لیے وہ سینئیر ترین جرنیل امریکہ میں ایک کورس کے دوران حادثاتی موت واقع ہونے سے وفات پا گئے اور پھر لیاقت علی خان نے بنگالی نواب سے مشورہ کرلیا انگریز دور میں اسکندر مرزا انگریز کے نمائندے کے طور پر سرحد میں بنوں اور مردان وغیرہ میں حاکم تھے شاید اسی لیے انہوں نے کسی بنگالی
جرنیل کی بجائے پٹھان جرنیل کو آگے لانے کا سوچا ہوگا خیر بات جنازے کی ہورہی تھی اسکندر مرزا کی موت کے بعد انکی لاش آریہ مہر یعنی رضا شاہ پہلوی نے ایران میں منگوا کر وہاں جنازہ کروایا تھا کہتے ہیں بہت سارے لوگ اس کے جنازے میں شریک تھے شاید اس لیے کہ وہ سید تھا یا پھر اس لیے کہ
مالک مووی کا وہ ڈائلوگ سونے کے پانی سے لکھنے والا ہے,
"شاید یہ کسی کا انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی آئے گا اور سب کچھ ٹھیک کردے گا"
ماسٹر کا بیٹا پوچھتا ہے: "کون آئے گا"؟
ماسٹر: | کوئی نہیں آئے گا,.
جس دن عوام نے سمجھ لیا کہ اس ملک کو ٹھیک کرنے کے کوئی
آخری امید نہیں اسے ٹھیک کرنے کے لیے سب کچھ ٹھیک کرنا پڑے گا اس دن یہ ملک خودکار طریقے سے سدھرنا شروع ہو جائے گا
دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ ایسے حکمران لائے جائیں جو ہم عوام سے بھی زیادہ اچھے ہوں یعنی جو محب وطن ہوں ذہین ہوں خوددار ہوں نظریہ پاکستان کے رکھوالے ہوں بے ایمانی کو کفر
سمجھتے ہوں ملا اور لبرل کو اپنی حد کراس نا کرنے دیتے ہوں پاکباز ہوں غیرت مند ہو اسلام کے بنیادی نظریے کو سمجھتے ہوں گزرے ہوئے بادشاہوں کی بجائے خلفائے راشدین کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہوں اقلیتیوں کو کیڑے مکوڑوں کی بجائے اپنے ملک کا برابر کا حصے دار سمجھتے ہوں لبرل اداروں کی ترویج
٭پاکستان کے پہلے وزیراعظم ٭
"خان لیاقت علی خان"
کی زندگی کے کچھ دلچسپ پہلو ...!!
خان صاحب کا تعلق بھارت کے ضلع كرنال سے تھا اور وہ اپنے علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار اور نواب تھے۔ لیکن انہوں نے تقسیم ہند کے بعد نا صرف اپنی ساری زمین اور جائیداد چھوڑ دی بلکہ انہوں نے
پاکستان آ کر اُس جائیداد کے عوض کوئی کلیم بھی جمع نہی کروایا، خان لیاقت علی خان کے پاس پاکستان میں ایک انچ زمین کوئی ذاتی بنک اکاؤنٹ اور کوئی کاروبار نہی تھا۔ خان صاحب کے پاس دو اچکن، تین پتلونیں، اور بوسکی کی ایک قمیض تھی اور اُن کی پتلونوں پر بھی پیوند لگے ہوتے تھے وہ اپنی
پتلونوں کے پیوندوں کو ہمیشہ اپنی اچکن کے پیچھے چھپا لیتے تھے۔ 16 اکتوبر 1951 کو جب راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان شہید ہوئے تو اُن کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لیجائی گئی تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے اچکن کے نیچے نا صرف پھٹی ہوئی بنیان پہنی رکھی
#garrisonstate
چھٹی قسط
انگریز کو نمایاں خدمات فراہم کرنے کی ایک نمایاں مثال شاہ پور کے مٹھہ ٹوانوں نے قائم کی انکے بڑے ، ملک صاحب خان بہادر کو نو ہزار ایکڑ زمین کالڑے میں دی گئی اور تاحیات بارہ سو کی جاگیر سے نوازا گیا کیونکہ اس نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریز سرکار کی مدد کی
تھی انعام ملنے پہ خان بہادر نے ذاتی نہر کھدوائی اور علاقے کا بڑا وڈیرہ بن گیا 1879 میں خان بہادر کی موت واقع ہوئی تو اسکا بیٹا عمر حیات خان ٹوانہ ابھی نابالغ تھا اسکے بڑے ہونے تک court of wards نے اسکی ساری جاگیر کی دیکھ بھال کی اور عمر حیات کے بڑے ہونے پر اسکے حوالے کی 1903
میں عمر حیات خان کو اٹھارہویں ٹوانہ لانسرز میں اعزازی لیفٹیننٹ بنا دیا گیا تین سال بعد اسے پنجاب کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا 1910 میں اسے وائسرائے کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا اور ساتھ ہی ذیلدار اور مجسٹريٹ کا اعزازی عہدہ بخشا گیا اسی کے
میاں محمد بخشؒ کی یہ دو نظمیں اُس دور کا کمال نقشہ کھینچتی ہیں اس میں آپکو پنجاب میں اُس وقت بھی پنجابیوں کا پنجابی زبان کے ساتھ سوتیلے رویے کا اندازہ ہوگا اس میں کشمیر، لاہور، پشاور کا بھی ذکر ہے(کیونکہ اُس دور میں کشمیر لاہور پشاور ایک ہی مُلک پنجاب کے مختلف علاقے تھے پھر
انگریز نے۹۴۸۱ میں کشمیر پنجاب کی ایک اور ریاست جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا اور ۱۰۹۱ میں پنجاب کے پانچ ڈویژنوں کو توڑ کر لارڈ کروژن نے صوبہ سرحد بنا دیا)نیز اس نظم میں جہلم اور میرپور کا بھی ذکر ہے اور میاں صاحبؒ نے اُس دور میں پنجابیوں کے اپنی زبان کے ساتھ منفی رویے کا
#garrisonstate
پانچویں قسط
دیہی فوجی اشرافیہ اور انگریز حکومت کے مابین چپقلش
انگریز نے ان قوموں کو راضی رکھنے کے لیے بعض اوقات سر بھی جھکایا جیسا کہ لینڈ ایکٹ منظور ہونے کے موقع پہ ہوا انگریز فوج کی زیادہ تر بھرتی دیہی علاقوں سے ہو رہی تھی اسلیے انگریز بہرصورت اس طبقے کو اسی
حالت پہ قائم رکھنا اور انہیں شہری تہذیب اور شہری ذہنیت سے دور رکھنا چاہتا تھا اسی لیے جب دیہات کے لوگوں نے معاشی تنگی کے باعث اپنی زمینیں شہری لوگوں کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کیں تو انگریز کو یہ بات ناگوار گزری اسکے سدباب کے لیے انگریز نے 1900 میں انتقال اراضی کا قانون پاس کیا
جسکے تحت غیر کسان نسلوں کو زمین کی فروخت ممنوع قرار پائی یہی صورتحال دیہی فوجی طبقے کے لیے قائم کردہ چناب کالونیوں میں بھی دیکھنے کو ملی آغاز میں یہ کالونیاں بڑی منظم اور صاف ستھری تھیں اور انکی ملکیت ایک ہی طبقے یعنی دیہی فوجی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن جب یہاں اراضی کی