مالک مووی کا وہ ڈائلوگ سونے کے پانی سے لکھنے والا ہے,
"شاید یہ کسی کا انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی آئے گا اور سب کچھ ٹھیک کردے گا"
ماسٹر کا بیٹا پوچھتا ہے: "کون آئے گا"؟
ماسٹر: | کوئی نہیں آئے گا,.
جس دن عوام نے سمجھ لیا کہ اس ملک کو ٹھیک کرنے کے کوئی
آخری امید نہیں اسے ٹھیک کرنے کے لیے سب کچھ ٹھیک کرنا پڑے گا اس دن یہ ملک خودکار طریقے سے سدھرنا شروع ہو جائے گا
دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ ایسے حکمران لائے جائیں جو ہم عوام سے بھی زیادہ اچھے ہوں یعنی جو محب وطن ہوں ذہین ہوں خوددار ہوں نظریہ پاکستان کے رکھوالے ہوں بے ایمانی کو کفر
سمجھتے ہوں ملا اور لبرل کو اپنی حد کراس نا کرنے دیتے ہوں پاکباز ہوں غیرت مند ہو اسلام کے بنیادی نظریے کو سمجھتے ہوں گزرے ہوئے بادشاہوں کی بجائے خلفائے راشدین کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہوں اقلیتیوں کو کیڑے مکوڑوں کی بجائے اپنے ملک کا برابر کا حصے دار سمجھتے ہوں لبرل اداروں کی ترویج
کی بجائے حقیقی اخلاق کے داعی ہوں اور سب سے بڑھ کر قوم کو سچے تفاخر میں مبتلا کرنے والے ہوں,
دوسرا طریقہ: موچی 10 روپے میں جو جوتا سی کر دے اسے اس نیت سے سیئے کہ صاحب جوتا کو دوبارہ اسے سلونے کے لیے نا آنا پڑے, سکول ماسٹر سرکار سے جو فیس بچوں کو پڑھانے کے لیے لے اسے ہی اپنا
حقیقی رزق سمجھے اور صرف اس لیے بچوں کو کم نا پڑھائے کہ میں نے ٹیوشن سے ماہانہ ایک لاکھ یا دو لاکھ ضرور کمانا ہے, ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی کو اپنی نفلی عبادت سمجھے اور سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کا علاج صرف اس وجہ سے جان بوجھ کر کوتاہی نا کرے کہ یہ لوگ میرے
پرائیویٹ کلینک پر مجھے لاکھوں روپے سے نوازیں نیز میڈسین کمپنیز سے ٹیوٹا کرولا گاڑی لے کر غیر معیاری دوائیاں نسخوں پر نا لکھے, جرنیلوں کی نیت ہو کہ سویلین بھی اسی ملک کی مخلوق ہیں اور ہمارے جیسے ہی لوگ ہیں یہ بھی ہمارے جیسے ہی محب وطن بن سکتے ہیں اگر ان کی حقیقی تربیت کی جائے,
وکیل کی نیت ہو کہ میں نے صرف سچ بول کر کمائی کرنی ہے وکیل کے منشی کی نیت ہو کہ میں نے صرف وکیل سے ہی تنخواہ لینی ہے اشٹام فروش کو پتا ہو کہ میں نے صرف اشٹام فروخت کرکے ہی روزی کمانی ہے اوتھ آفیسر کو پتا ہوکہ میرا دستخط اس لیے معتبر ہے کہ میں حکومت کا ملازم ہوں اور میرا رزق صرف
اللہ کے ذمے ہے, ڈومیسایل بنانے والے آفیسر کی نیت ہوکہ میں نے صرف 100 روپے سرکاری فیس ہی وصول کرنی ہے, پاسپورٹ آفس کے آفیسر کی نیت ہو کہ میں نے صرف وہی تنخواہ لینی ہے جو میرا حق ہے نا کہ باہر بیٹھے ہوئے ایجنٹ سے ساز باز کرکے عوام کو ذلیل کرکے پیسہ کمانا ہے, بنک لون دینے والے افسر
کی نیت ہو کہ میں نے صرف حق دار کو قرضہ پاس کرنا ہے نا کہ لاکھوں لے کر صرف علاقے کے مگر مچھ زمینداروں کو قرضہ دینا ہے, اکاؤنٹ آفس والے بیوروکریٹ کو پتا ہو کہ اکاؤنٹ میں ڈنڈی مار کر سیاستدانوں کو کروڑوں کا فائدہ پہنچا کر کرپشن کرنے سے میں ملک کا بیڑا غرق کررہا ہوں ٹریفک وارڈن کی
نیت ہو کہ میری ڈیوٹی صرف قانون نافذ کرنا ہے نا کہ دیہاڑی لگانا, تھانے میں بیٹھے انسپکٹر کو پتا ہو کہ وہ عوام کا ملازم ہے سیاستدان کا نہیں, پولیس والے عام سپاہی کی نیت ہو کہ میرا کام جرائم کی روک تھام ہے نا کہ حرام خوری, بلڈر یا مستری کی نیت ہو کہ میرا اصل رزق محنت کی کمائی ہے ھڈ
حرامی کرکے کمایا گیا پیسہ نہیں, ریڑھی بان کی نیت ہو کہ تازہ فروٹ دکھا کر داغی فروٹ فروخت کرنے سے اس کا محل کبھی نہیں بنے گا, حکیم کو پتا ہو کہ لوگوں کو مردانہ کمزوری کے ڈر میں مبتلا کرکے کمایا گیا پیسہ طوائف کی کمائی کی طرح ہے, اخبارات کے ماالکان کی نیت ہو کہ ہم نے قوم کی تربیت
کرنی ہے اور سچ عوام تک پہنچانا ہے نا کہ صرف حکومتوں کے کاسہ لیس بننا ہے, میڈیا ہاؤسز کو پتا ہو کہ ان کا کام قومی مفاد کا تحفظ ہے نا کہ ذاتی مفاد کا, غرض ہر ہر بندے کو سدھرنا پڑے گا جو کہ نا تو اتنا آسان ہے اور نا ہی بغیر قانون کے ڈر کے ممکن ہے, اس لیے آجا کر بات یہیں ختم ہوتی ہے
کہ ہم اپنے سے بہتر حکمران ڈھونڈھنا شروع کردیں, اس مقصد کے لیے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم اس وقت ہر شعبہ زندگی میں اپنا خدا جائز یا ناجائز کسی بھی طریقے سے دولت کے حصول کو بنا چکے ہیں, اس کے بعد اجتماعی توبہ کرکے خود کو ٹھیک کرنے کی نیت کے ساتھ ملک کو ٹھیک کرنے کی نیت کر
لیں اور ایسے لوگوں کو آگے لائیں جو ہم پر ایک سخت قانون نافذ کریں اور صحیح معنوں میں ہمارے ملک کو کرپشستان سے پاکستان بنائیں,..
٭پاکستان کے پہلے وزیراعظم ٭
"خان لیاقت علی خان"
کی زندگی کے کچھ دلچسپ پہلو ...!!
خان صاحب کا تعلق بھارت کے ضلع كرنال سے تھا اور وہ اپنے علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار اور نواب تھے۔ لیکن انہوں نے تقسیم ہند کے بعد نا صرف اپنی ساری زمین اور جائیداد چھوڑ دی بلکہ انہوں نے
پاکستان آ کر اُس جائیداد کے عوض کوئی کلیم بھی جمع نہی کروایا، خان لیاقت علی خان کے پاس پاکستان میں ایک انچ زمین کوئی ذاتی بنک اکاؤنٹ اور کوئی کاروبار نہی تھا۔ خان صاحب کے پاس دو اچکن، تین پتلونیں، اور بوسکی کی ایک قمیض تھی اور اُن کی پتلونوں پر بھی پیوند لگے ہوتے تھے وہ اپنی
پتلونوں کے پیوندوں کو ہمیشہ اپنی اچکن کے پیچھے چھپا لیتے تھے۔ 16 اکتوبر 1951 کو جب راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان شہید ہوئے تو اُن کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لیجائی گئی تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے اچکن کے نیچے نا صرف پھٹی ہوئی بنیان پہنی رکھی
بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے بڑا جنازہ ڈکٹیٹر ضیاءالرحمان کا تھا جس نے ریڈیو پر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا اور کچھ عرصہ بعد مجیب الرحمان کو خفیہ طور پر فیملی سمیت قتل کروا کر مارشل لاء لگا دیا تھا یہ بات شاید اکثریت نہیں جانتی کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان پر
ضیاء الحق اور بنگلہ دیش پر ضیاءالرحمان نے مارشل لاء لگایا تھا ضیاء پاکستانی نے بھٹو کو پھانسی دلوائی اور ضیاء بنگالی نے مجیب کو قتل کروایا ویسے ضیاء بنگالی جنگ 71 کا ہیرو سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کراچی میں پلا بڑھا تھا اور مغربی پاکستانیوں کی سوچ کو بہت اچھے سے سمجھتا تھا سنا ہے
ضیاء پاکستانی کا ڈومیسائل کے پی کے کا تھا خیر ضیاء پاکستانی بھی ہیرو ہی تھا کیونکہ انکا جنازہ بھی پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا اور اس حساب سے وہ قائداعظمؒ, فاطمہ جناحؒ, اور لیاقت علی خان سے بھی بڑے جنازے والے صاحب قرار پائے جیسے حضرت ایوب خان رحمتہ اللہ علیہ
#garrisonstate
چھٹی قسط
انگریز کو نمایاں خدمات فراہم کرنے کی ایک نمایاں مثال شاہ پور کے مٹھہ ٹوانوں نے قائم کی انکے بڑے ، ملک صاحب خان بہادر کو نو ہزار ایکڑ زمین کالڑے میں دی گئی اور تاحیات بارہ سو کی جاگیر سے نوازا گیا کیونکہ اس نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریز سرکار کی مدد کی
تھی انعام ملنے پہ خان بہادر نے ذاتی نہر کھدوائی اور علاقے کا بڑا وڈیرہ بن گیا 1879 میں خان بہادر کی موت واقع ہوئی تو اسکا بیٹا عمر حیات خان ٹوانہ ابھی نابالغ تھا اسکے بڑے ہونے تک court of wards نے اسکی ساری جاگیر کی دیکھ بھال کی اور عمر حیات کے بڑے ہونے پر اسکے حوالے کی 1903
میں عمر حیات خان کو اٹھارہویں ٹوانہ لانسرز میں اعزازی لیفٹیننٹ بنا دیا گیا تین سال بعد اسے پنجاب کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا 1910 میں اسے وائسرائے کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا اور ساتھ ہی ذیلدار اور مجسٹريٹ کا اعزازی عہدہ بخشا گیا اسی کے
میاں محمد بخشؒ کی یہ دو نظمیں اُس دور کا کمال نقشہ کھینچتی ہیں اس میں آپکو پنجاب میں اُس وقت بھی پنجابیوں کا پنجابی زبان کے ساتھ سوتیلے رویے کا اندازہ ہوگا اس میں کشمیر، لاہور، پشاور کا بھی ذکر ہے(کیونکہ اُس دور میں کشمیر لاہور پشاور ایک ہی مُلک پنجاب کے مختلف علاقے تھے پھر
انگریز نے۹۴۸۱ میں کشمیر پنجاب کی ایک اور ریاست جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا اور ۱۰۹۱ میں پنجاب کے پانچ ڈویژنوں کو توڑ کر لارڈ کروژن نے صوبہ سرحد بنا دیا)نیز اس نظم میں جہلم اور میرپور کا بھی ذکر ہے اور میاں صاحبؒ نے اُس دور میں پنجابیوں کے اپنی زبان کے ساتھ منفی رویے کا
#garrisonstate
پانچویں قسط
دیہی فوجی اشرافیہ اور انگریز حکومت کے مابین چپقلش
انگریز نے ان قوموں کو راضی رکھنے کے لیے بعض اوقات سر بھی جھکایا جیسا کہ لینڈ ایکٹ منظور ہونے کے موقع پہ ہوا انگریز فوج کی زیادہ تر بھرتی دیہی علاقوں سے ہو رہی تھی اسلیے انگریز بہرصورت اس طبقے کو اسی
حالت پہ قائم رکھنا اور انہیں شہری تہذیب اور شہری ذہنیت سے دور رکھنا چاہتا تھا اسی لیے جب دیہات کے لوگوں نے معاشی تنگی کے باعث اپنی زمینیں شہری لوگوں کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کیں تو انگریز کو یہ بات ناگوار گزری اسکے سدباب کے لیے انگریز نے 1900 میں انتقال اراضی کا قانون پاس کیا
جسکے تحت غیر کسان نسلوں کو زمین کی فروخت ممنوع قرار پائی یہی صورتحال دیہی فوجی طبقے کے لیے قائم کردہ چناب کالونیوں میں بھی دیکھنے کو ملی آغاز میں یہ کالونیاں بڑی منظم اور صاف ستھری تھیں اور انکی ملکیت ایک ہی طبقے یعنی دیہی فوجی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن جب یہاں اراضی کی