ایک مسلم گھرانے کی بہو کے یہاں ماشاء اللہ خوشی آنے والی تھی۔
شادی سے پہلے ہی انکی ساس نے کہہ دیا تھا کہ نوکری تو بہو کو کرنی پڑے گی کیونکہ میری بیٹیاں اور بڑی بہو بھی نوکری کرتی ہیں۔ شادی کی 15دن کی چھٹیوں کے بعد ہی کپڑے دھونے کی ذمے داری بہو پر ڈال دی گئی۔⬇️
گھر میں تین نندیں تھیں جو شادی کے انتظار میں بوڑھی اور چڑچڑی ہوچکی تھیں، ایک جیٹھ، ان کی بیوی اور چار بچے تھے۔ ساس، سسر، بیوی اور اس کا شوہر۔ گویا 13؍لوگوں کے اندر باہر کے سب کپڑے دھونا بہو کے ذمے داری تھی۔ بڑی بہو کھانا پکاتی تھیں، ایک نند صفائی کرتیں، ایک برتن دھوتیں،⬇️
اور سب سے بڑی نند بیمار تھیں، پہلے کپڑے دھوتی تھیں اب اُن پر سے ہر ذمے داری ہٹالی گئی تھی۔
تو بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے کچھ فروٹ وغیرہ لادیا کریں، ان دنوں میں ذرا صحت بنے گی، میری تنخواہ تو آپ کی امی لے لیتی ہیں، بس یہ کہنا تھا کہ شوہر نے ایک طوفان برپا کردیا کہ:⬇️
میری امی کو غاصب کہہ رہی ہو! گھر کا ہر فرد اُنکو اپنی تنخواہ دیتا ہے، تمہیں اعتراض ہے تو گھر چھوڑ دو، جو گھر کے سب لوگ کھاتے ہیں تمہیں وہی ملے گا، تم کہیں کی رانی نہیں ہو اپنی اوقات میں رہو۔
گھر میں وہی تیز مرچوں کا بھرپور تیل والا کھانا بنتا جسے دیکھ کر ہی اس کو الٹی ہونے لگتی⬇️
رفتہ رفتہ اسکی خوراک کم ہونے لگی۔ ایک بار دودھ پینے کی کوشش کی تو ساس نے یاد دلایا کہ تمہارے میکے میں تمہیں کیا نصیب تھا جو یہاں نخرے دکھا رہی ہو! بہر حال آفس میں باس کی ڈانٹ کھاتے، گھر میں ساس اور میاں کے طعنے سنتے، مختصرترین غذا کے ساتھ بہو نے 3؍پاؤنڈ کے ایک بچے کو جنم دے دیا⬇️
جسکا نام بھی ساس نے رکھا۔ بچہ شروع سے ہی انتہائی ناتواں اور کمزور تھا۔
ادھر ایک اسرائیلی گھرانے کی بہو تھی، اُس کے گھر خوشی آنے والی تھی۔ اس کو روز صبح ایک ادارے میں جانا پڑتا جہاں اسے 3؍گھنٹے تک ریاضی کی مشقیں کرائی جاتیں تا کہ بچہ ذہین پیدا ہو، اس کے بعد وہ گھر آکر مچھلی سے⬇️
بنا اپنا دوپہر کا کھانا کھاتی۔ شام میں بادام، دودھ، کھجور اور دیگر پھل و غیرہ کھاتی، رات میں بیف، دالیں و غیرہ۔ دن میں کم از کم دو گھنٹے سکون حاصل کرنے کے لیے موسیقی سنتی۔ سرکاری طور پر اس کو وظیفہ دیا جارہا تھا تا کہ وہ ایک صحت مند یہودی کو پیدا کرسکے۔⬇️
اسکی ساس اور شوہر کا رویہ بھی نہایت مثبت تھا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہو جو نوبل پرائز حاصل کرے۔ 80 فیصد یہودی ہی ہمیشہ سے نوبیل پرائز حاصل کرتے آئے ہیں۔
آخر کار یہودی بہو کے یہاں8 پاؤنڈ کا بچہ پیدا ہوا۔ اس کی ماں بھی بہت صحت مند تھی اور بچے کو بہترین⬇️
ابتدائی غذائیں دے رہی تھی۔ تین سال کی عمر میں اسے نشانہ بازی، تیراندازی اور دوڑ کی مشقیں شروع کرادی گئی تا کہ یکسوئی اور فیصلہ سازی کا عنصر پیدا ہو۔ بچے کو بہت اخلاق و تہذیب بھی سکھایا جاتا، اس کے سامنے کوئی اونچی آواز میں آپس میں بھی بات نہ کرتا۔ ایک دن بچہ بہت حیران ہوا،⬇️
اسکے ماں باپ ہر مہمان کی بہت تواضع کرتے تھے، مگر ایک بھارتی مہمان جب سگریٹ پینے لگا تو بچے کے والد نے اُس سے کہا کہ: آپ گھر سے باہر جا کر سگریٹ پئیں۔ مہمان نے کہا کہ: سگریٹ کی 80 فیصد فیکٹریاں یہودیوں کی ہی ہیں۔ تو بچے کے والد نے جواب دیا کہ: ہاں۔ وہ ہمارا بزنس ہے⬇️
مگر یہودی اسموکنگ نہیں کرتے، جیسے کہ ہم تمام دنیا کے بچوں کو کارٹوں نیٹ ورک اور ڈزنی ورلڈ دکھاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو ہم تیراندازی، گھڑ سواری، تیراکی اور ریاضی سکھاتے ہیں، ہمارے اسرائیلی بچے کیلی فورنیا کے بچوں سے ذہنی استعداد میں کئی سال آگے ہیں، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ⬇️
ہم کو کس بچے کے ڈاکٹر یا سائنٹسٹ بنانا ہے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں مستقبل میں اپنے کتنے بچوں کو بزنس مین یا انجینئر یا سیاست دان بنانا ہے، ہر ایک کی اسی حساب سے ساری زندگی ٹریننگ ہوتی ہے
وہ یہودی بچہ جب چھٹی جماعت میں گیا، تو اسے پراجیکٹ دیا گیا کہ 3 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری⬇️
سے10 ہزار ڈالر کما کر دکھائے۔ اسے تیسری جماعت سے کاروباری حساب کتاب پڑھایا جارہا تھا، مگر وہ صرف 8 ہزار ڈالر ہی کماسکا۔ اس ناکامی پر اسے کاروباری ریاضی کی ایکسٹرا کلاسیں لینا پڑیں، اور ساتویں جماعت میں وہ اسکول کے فراہم کردہ 5 ہزار ڈالر سے 15 ہزار ڈالر کمانے میں کامیاب ہوگیا۔⬇️
اب وہ ایک پکا یہودی بن چکا تھا، اب وہ جو چاہے مضمون اپنے ہائی اسکول کیلیے منتخب کرتا، مگر صرف سائنسی مضامین کی اجازت تھی اور اس نے نیوکلیئر فزکس کا انتخاب کیا یہ وہ سال تھا جب بچہ نے زندگی میں پہلی بار چپس، پیپسی اور چاکلیٹ چکھے، کیونکہ ساری کچرا خوراک یہودی بچوں کو منع ہوتی ہے⬇️
اس بچے کا بھی یہ پہلا اور آخری تجربہ رہا اور اس کو ماں باپ سے بہت ڈانٹ پڑی۔ اب وہ پھر سے جیب میں کھجور اور بادام رکھتا، جو ٹافیوں اور الم غلم سے بدرجہا بہتر تھیں۔
جب بچہ تعلیم سے فارغ ہوا تو اس کے والد نے اسے نیویارک کے ایک ادارے میں بھیجا۔ صدیوں کے سودخور یہودی اس ادارے میں⬇️
یہودی بچوں کو بلاسود قرضے فراہم کرتے تھے تا کہ یہودی بچے اپنے ہنر و تعلیم کے مطابق کاروبار کا آغاز کریں، نہ کہ نوکریاں ڈھونڈتے پھریں۔ پڑھائی تک یہ سوچ کر نہ کریں کہ نوکری مل جائے، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کوئی نیا کار و بار کریں،یہودی بچے اپنی طلب کے مطابق⬇️
قرضہ مل گیا، اس نے اسرائیل میں ایک لیبارٹری کھولی جہاں اسکے سب سائنس دان دوست بھی اسکے ساتھ مل گئے۔ اس کے بعد جدید ٹیکنالوجی سے ان لوگوں نے وہ، وہ ہتھیار بنائے کہ دنیا کا ہر ملک اسرائیل سے ڈرنے لگا۔
ادھر مسلم بہو کے نوکری پر جانے کے بعد دادی کے لیے بچے کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا⬇️
بس چپس، ٹافیاں اور دیگر الم غلم دے کر اس کو بہلا پھسلا کر رکھتیں۔ انہی چیزوں سے اس کا پیٹ اتنا بھر جاتا کہ وہ کھانا کھا ہی نہ پاتا، کھاتا بھی تو مرچوں اور تیل کی بھاری مقدار، اس کا پیٹ آئے روز گڑبڑ کردیتی اور وہ کبھی صحت پکڑ ہی نہ پایا۔ بہو آتے ہی واشنگ مشین لگاتی⬇️
اور کپڑے دھونے میں جٹ جاتی۔ رات کو فارغ ہوتی تو کھانا کھاتے ہی سوجاتی۔ بچے کو ماں کا پیار اور تربیت مل ہی نہ پائی، تربیت بس یہ ملی کہ دادا، دادی کو مارتے،
تایا تائی کو مارتے، اور ابو امی کو مارتے۔
پانچ سال کا ہوا تو ایک قریبی اسکول میں داخل کرادیا گیا کہ محلے کے بچوں کے ساتھ⬇️
ہی جائے گا اور آئے گا۔ ماں باپ کی عدم توجہی کی بنا پر بچے کی کارکردگی انتہائی خراب تھی، روز ابو دھنک کر رکھ دیتے کہ پڑھتا کیوں نہیں! لیکن کبھی اس کو لے کر نہیں بیٹھے کہ آؤ جی تمہیں میں پڑھاتا ہوں۔ بڑی مشکل سے میٹرک پاس کیا۔ اپنی ماں سے جب اپنی مشکل کہنا چاہتا،⬇️
اُنکو کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا۔ پھرپھیوں نے تو بے دام غلام سمجھ لیا تھا۔ ماں کی غیرموجودگی میں سارے کام بچے سے ہی لیتیں۔ اب اسکے پاس پڑھائی کا کیا وقت رہ جاتا! انٹر میں آرٹس لیا، پھر بی اے کیا۔ اب ساری دنیا میں نوکری کے لیے جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہے۔ ماں بوڑھی اور بیمار ہوگئی ہے⬇️
مگر اس کا شوہر اس کا علاج کروانے کے بجائے دوسری شادی کرچکا ہے۔
قارئین! ہم نے ایک مسلم خاندان اور ایک اسرائیلی خاندان کا تقابلی جائزہ پیش کیا، تا کہ سمجھ سکیں کہ اسرائیلی دنیا پر کیوں حکومت کررہے ہیں، اور مسلمان کیوں زوال کا شکار ہیں۔ ایک اسرائیلی بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی⬇️
تربیت پانا شروع کردیتا ہے جبکہ ایک مسلمان بچہ ہونے سے پہلے ہی تناؤ کی کیفیات سے آشنا ہوجاتا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کامیاب کون ہوگا، یہودی یا مسلمان؟
آپ غور کریں کہ یہودی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ چل رہے ہیں اور وہ اپنی نسلوں کی ایسی ٹھوس تربیت کرتے ہیں کہ ہر آنے والی⬇️
نسل، پچھلی نسل کا ایجنڈا لے کر آگے بڑھتی ہے، کسی نسل پر بھی ان کی حکمت عملی میں خلا نہیں پیدا ہونے پاتا۔ کوئی بچہ اپنے آبا ؤ اجداد کی حکمت عملی سے اختلاف نہیں کرتا، اور یہودیوں کے منصوبے صدیوں تک بغیر کسی مشکل کے جاری رہتے ہیں۔
جب کہ ہم اول تو ایسی قیادت سے محروم ہیں⬇️
جو منصوبے بنائے اور اپنی نسلوں کی اس کے مطابق تربیت کرے، دوسرے ہم ذاتی سطح پر بھی صرف یہ سوچ کر اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں کہ بس زیادہ سے زیادہ پیسے کمالے۔ ہم کبھی قومی اور امت کے نقطہ نظر سے اپنے بچوں کو تیار نہیں کرتے، جس کا خمیازہ آج امتِ مسلمہ بھگت رہی ہے۔
یہودیوں کی ایک اور خوبی جو اُن کی ترقی کی ضمانت ہے، یہ ہے کہ وہ ایک دوسے کا راستہ نہیں کاٹتے، بلکہ ایک یہودی دوسرے یہودی کی مدد کرتا ہے۔ ساری دنیا کو انہوں نے سود در سود کے چکر میں پھنسایا ہوا ہے، مگر ایک یہودی جب دوسرے یہودی کو قرض دیتا ہے تو ایک پیسے کا بھی سود نہیں لیتا،
چاہے کتنے عرصے میں رقم کی واپسی ہو۔ یہودی خاندان جو اسرائیل میں بستے ہیں، ان میں طلاق کی شرح صرف ۳ فیصد ہے، وہ بھی صرف شوبز و غیرہ سے وابستہ لوگوں میں، عام یہودی خاندانوں میں طلاق ممکن ہی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک مضبوط قوم کے لیے سب سے پہلے مضبوط خاندان ضروری ہے تا کہ
بچوں کی تربیت عمدہ انداز میں ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا بھر کو ڈراموں اور فلموں کے ذریعے طلاق کی تربیت دے رہے ہیں، مَردوں کی تفریح کے اتنے ذرائع پیدا کردیے گئے ہیں کہ ان کو گھروں میں دلچسپی محسوس ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ خاندان کو ایک اَن چاہا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں جو ان کی آزادی
اور تفریح کی راہ میں رکاوٹ ہے، اور پھر آخر کار بچوں کی جنت اجڑ جاتی ہے، یہ بچے کسی ماموں یا خالہ کے گھر ساری زندگی یہ سنتے ہوئے گزار دیتے ہیں کہ ’’نکلو ہمارے گھر سے‘‘، یا ’’برے باپ کی بری اولاد‘‘۔
یہودی اپنے بچوں کو اپنی تمام مذہبی کتب اور مذہبی رسومات از بر کرادیتے ہیں۔
اگر ان کا عقیدہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں تھا کہ وہ آئیں گے تو دنیا میں یہودی کی حکومت قائم ہوگی۔ تو آج بھی وہ نہ صرف ایک مسیح کا انتظار کررہے ہیں بلکہ ان کا بچہ بچہ دجال مسیح کی آمد کا میدان تیار کررہا ہے۔ شام کی تباہی بھی دجال کی آمد کی نشانی ہے جسے وہ دل لگا کر
پورا کررہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی، مصر، مدینہ، عراق اور تمام عرب ممالک گریٹر اسرائیل کا وہ نقشہ ہیں جن کی فتح کے بعد ہی دجال آسکے گا اور تمام دنیا کو یہودیوں کی جاگیر بنادے گا۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ یہودی اتنے متحد اور ذہین ہیں کہ اب بھی تمام دنیا پر بلاواسطہ انہی کا
قبضہ ہے، وہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے، اور عرب حکمران خدا کو خوش کرنے سے زیادہ یہودیوں کو خوش کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
قارئین! میری یہودیوں سے کوئی ذاتی دشمنی تو ہے نہیں، مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو وہ جس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں وہ ناقابلِ برداشت ہے،
تاہم یہ بات صحیح ہے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر عمل کریں تو ان کی سازشیں کچھ نہیں کرسکتیں۔ اب یہودی بھی ہے، تو وہ اس وقت تک ہمارے اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک ہم میں سے کوئی اس کا راز دار ساتھی نہ بنے، اس کے ایجنڈے کو مسلمانوں میں نہ پھیلائے۔ تو پھر غلطی کس کی ہے؟
براہ مہربانی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں امام مہدی اور حضرت عیسی کی فوجوں میں شامل ہونا ہے، ان کو ایمان کی لَو دیں۔ اس سوچ کے ساتھ ان کی تربیت نہ کریں کہ یہ بس کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کسی یہودی کے ملازم بن جائیں۔
رواں سالوں میں معلومت کی آگہی کے دو سب سے بڑے دروازے کتب اور اخبارات آخری ہچکیاں لے کر موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ شاید یہ کبھی مکمل طور پر مر تو نہ سکیں لیکن یہ موت سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر یعنی کوما کی حالت میں جا رہے ہیں۔⬇️
ہم سب ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ کتب اور اخبارات بینی تو شروع دن سے ہی ایک مسئلہ رہا لیکن یہ سب بھی تیزی سے انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہا ہے۔ ادھر انٹرنیٹ کا سب سے بڑا میدان سوشل میڈیا ہے جہاں علم کم اور معلومات زیادہ ہیں اور ان میں بھی جعلی اطلاعات⬇️
یا فیک نیوز کی بھرمار۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں انسانی سوچ کا تعین باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی اگر سوچ پر قابو پالیں تو آپ انسان پر قابو پالیتے ہیں۔ تو یہ سوچ پر قابو پانے کا ہتھیار ہے۔ جانتے ہیں کیسے؟
دراصل کمپیوٹر سکڑ کر موبائل فون میں آچکے ہیں⬇️
قدیم چینیوں نے تاتاریوں کے حملوں سے بچنے کیلئے
دیوار چین بنا لی،اس عظیم دیوار کو بنانے کے دوران 10 لاکھ مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،بیس سے تیس فٹ اونچی اور پندرہ سو میل پر پھیلی یہ دیوار بنانے چین کو زمانے لگ گئے بالآخر معلوم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تعمیر معرض وجود میں⬇️
آئی، دیوار چین بن گئی.
کیا چین بیرونی حملوں سے محفوظ ہوا؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس دیوار کو بنانے کے بعد پہلے 100 سال میں تاتاریوں نے تین بار چین میں گھس کر چین کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی اور اس سے بھی بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ تاتاریوں کو ایک بار بھی دیوار چین کو⬇️
پھلانگنے یا توڑنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی،جانتے ہو کیوں؟ اس لئے کہ ہر بار بیرونی دشمن کے لئے دروازے اور کنڈیاں اندر سے کھلیں، تاتاریوں نے محافظوں کو خریدا ، ملک کے اندر غدار پیدا کئے.
قدیم چینیوں نے اپنی تمام توانائیاں اور وسائل دیوار بنانے میں لگا دیے لیکن یہ بھول گئے کہ⬇️
*تین فطری قوانین جو کڑوے تو ہیں لیکن حق ہیں*
*پہلا قانون فطرت:*
اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔⬇️
یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔
*دوسرا قانون فطرت:*
جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔ ۔ ۔
* خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
* عالم "علم" بانٹتا ہے۔⬇️
* دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔
*تیسرا قانون فطرت:*
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لئے کہ۔ ۔ ۔
* کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔⬇️
✍️ننھی دکان😥
میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔۔۔
اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔⬇️
میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہی دیتا۔ جس کی وجہ سے روزانہ اپنی⬇️
اسکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔۔۔۔
ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا تو اچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکاندار اپنی⬇️
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟😂
یہ کہانی ہماری ملکی سیاست پر کتنی فٹ بیٹھتی ہے۔
مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کرکے خود کو بادشاہ سلامت یا بہت بڑا حاکم اعلی سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی⬇️
کیوجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اسکی سمجھ میں نہ آئے۔ اسکی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحبزادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔⬇️
یہ حضرت بھی ساتھ ہو لئے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحبزادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ⬇️
#SayNoToIsrael
عالمی سازش اور پاکستان
گو کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں،مگر تاریخ کے پہیوں نے انکو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے،دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ1947-48ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر ابھرے۔⬇️
کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلی سات دہائیوں سے نہ صرف امن عالم کیلئے خطرہ ہیں، بلکہ مسلم دنیا کیلئے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں خون خرابہ ہو یا بھارت،پاکستان مخاصمت ، یا مغربی ایشیا میں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران، ترکی، سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش،⬇️
اس سبھی کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے چھپے بیٹھے ہیں۔ لہذا دنیا اگر ان دو مسائل کو باہمی افہام و تفہیم ، فریقین کی رضامندی اور ان خطوں میں رہنے والے عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے ، تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔⬇️