ایک معلوماتی تحریر
Please Follow @firdousjamal100

رواں سالوں میں معلومت کی آگہی کے دو سب سے بڑے دروازے کتب اور اخبارات آخری ہچکیاں لے کر موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ شاید یہ کبھی مکمل طور پر مر تو نہ سکیں لیکن یہ موت سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر یعنی کوما کی حالت میں جا رہے ہیں۔⬇️
ہم سب ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ کتب اور اخبارات بینی تو شروع دن سے ہی ایک مسئلہ رہا لیکن یہ سب بھی تیزی سے انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہا ہے۔ ادھر انٹرنیٹ کا سب سے بڑا میدان سوشل میڈیا ہے جہاں علم کم اور معلومات زیادہ ہیں اور ان میں بھی جعلی اطلاعات⬇️
یا فیک نیوز کی بھرمار۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں انسانی سوچ کا تعین باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی اگر سوچ پر قابو پالیں تو آپ انسان پر قابو پالیتے ہیں۔ تو یہ سوچ پر قابو پانے کا ہتھیار ہے۔ جانتے ہیں کیسے؟
دراصل کمپیوٹر سکڑ کر موبائل فون میں آچکے ہیں⬇️
اور آپ کے زیر استعمال موبائل فون اور انٹرنیٹ پر استعمال کی جانے والی مختلف اپلیکیشنز سے آپ کی پسند ناپسند، سیاسی، مذہبی رجحانات، میل ملاپ دوستیاں، دشمنیاں، محبت نفرت سب جانچا جا سکتا ہے۔ یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ آپ روزانہ جاتے کہاں ہیں اور کس کس سے ملتے ہیں؟⬇️
یہ سب کچھ آپ خود اپنی جیب میں موجود انٹرنیٹ سے لیس موبائل فون کے ذریعے, ٹیکنالوجی کی متعلقہ کمپنیوں کو بتا رہے ہیں۔ اپنی مکمل رضا اور خوشی کے ساتھ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تمام معاملات انسان کی ذاتی زندگی کے غیر علانیہ راز تھے جو اب ٹیکنالوجی انٹرنیٹ پر افشا کر دیتی ہے۔⬇️
کسی بھی فرد یا گروہ کے بارے میں اوپر بیان کی گئی تمام معلومات انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا کے تجزیے کے بعدحاصل کرنے کی تکنیک میں مصنوعی
Artificial Intelligence
ذہانت یا آرٹیفیشیل انٹیلیجنس شامل ہے یعنی معاشرے کی بنیادی اکائی‘ انسان کے بارے میں معلومات روزانہ کی بنیاد⬇️
پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس ڈیٹا کی صورت منتقل ہو رہی ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، اس وقت دنیا میں سب سے بڑا انٹیلی جنس ڈیٹا کسی خفیہ ادارے کے پاس نہیں بلکہ ان ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس ہے جن کے صارفین دنیا بھر میں اربوں کی تعداد میں پہنچ چکے ہیں۔ ظاہر ہے⬇️
ان کمپنیوں میں فیس بک، گوگل، ٹویٹر اور وٹس ایپ وغیرہ سرفہرست ہیں۔ مصنوعی انٹیلی جنس صرف کسی خطے، ملک، معاشرے یا گروہ کےبارے میں مخصوص معلومات کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ہی نہیں بلکہ ان معلومات کی بنیاد پر افراد کے رجحانات کو تبدیل کرنے کے طریقہ کار کو بھی کہا جاتا ہے۔⬇️
اسی لئے اب ریاستوں کی توجہ کا اصل مرکز مصنوعی
انٹیلی جنس ہے کیونکہ یہ بیک وقت آپ کو معلومات سے بھرپور ڈیٹا اور ذہنی رجحانات بدلنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ شرط صرف یہ کہ متعلقہ فرد یا گروہ کے پاس انٹرنیٹ پر کام کرتا ایک موبائل کنکشن ہو۔ ابتدا میں انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا نے⬇️
سال 2011میں مصر میں تبدیلی کو یقینی بنایا تو سال 2016میں ترکی میں فوجی بغاوت کچلنے میں منتخب صدر طیب اردوان کی مدد بھی کی لیکن مصنوعی انٹیلی جنس کی اصل طاقت کو سب سے پہلے روس نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔اس حوالے سے امریکہ میں ہونے والے سال 2016کے انتخابات کی مثال⬇️
ہی لے لیجئے۔ امریکہ میں عام تاثر یہی ہے کہ روس نے امریکی انتخابات میں مبینہ مداخلت کی اور ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار
ہیلری کلنٹن کے بارے میں اسی مصنوعی انٹیلی جنس کے ذریعے ووٹروں کے رجحانات تبدیل کر دیئے،⬇️
نتیجے میں ٹرمپ امریکی صدر بن بیٹھے۔ امریکی انتخابی نظام میں غیر ملکی مداخلت کے الزامات نے شدت پکڑی تو امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشنز یعنی ایف بی آئی کے طویل عرصہ تک سربراہ رہنے والے رابرٹ میولر کو اس معاملے کی تحقیقات سونپی گئیں۔ میولر نے اپنی تحقیقات⬇️
میں ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کے ساتھ کسی گٹھ جوڑ کو تو مسترد کر دیا لیکن انتخابات میں روسی مداخلت کی کوشش کا انکشاف کیا۔ یہ دنیا کے بظاہر سب سے طاقتور ملک کی طرف سے مصنوعی انٹیلی جنس کے میدان میں روسی برتری کا اعتراف بھی تھا۔امریکہ کی مثال سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اب طاقت کا توازن⬇️
اسی کے حق میں ہوگا جس کے کنٹرول میں سوشل میڈیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ہونگی۔ یہ کمپنیاں چاہیں تو کسی بھی وقت کسی کے حق یا مخالفت میں بازی پلٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے ان کمپنیوں سے ڈیٹا اور مصنوعی انٹیلی جنس کی سب سے بڑی صارف ریاستیں یا امیر ترین لوگ ہی ہوں گے۔⬇️
سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اظہار کی طاقت دی ہے اور بہت سے مسائل بھی حل کیے ہیں مگر اس نے دور بیٹھے لوگوں کو ہمارے نزدیک اور قریب بیٹھوں کو دور بھی کر دیا ہے۔ شخصی اور انفرادی جذبات کی مدوجزر اپنی جگہ اس پلیٹ فارم نے سب سے بڑا نقصان جمہوری معاشروں کو پہنچایا ہے۔
جہاں عقل و خرد⬇️
اور دلیل کی دستک ہوتی تھی، وہاں مصنوعی انٹیلی جنس نے اشتعال اور نفرت کو ہوا دے ڈالی ہے۔رواں صدی کی دوسری دم توڑتی دہائی بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں مصنوعی انٹیلی جنس دراصل انسانوں پر کنٹرول کے ایک نئے دورکا آغاز ہے
ڈیٹا پر مبنی مصنوعی انٹیلیجنس نے دنیا میں
اگر کسی کو سب سے زیادہ⬇️
نقصان پہنچایا ہے تو وہ صدیوں کے ارتقا کے بعد وجود میں آنے والے طرزِ حکمرانی کو پہنچایا ہے اور چند سیاسی مفادات کی خاطر انسانوں کے درمیان نفرت کو مزید ہوا دی ہے۔ ممکن ہے ارتقا اس مسئلے کو حل کر ڈالے مگر آج یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے⬇️
اور ہم سب اس کھیل کا حصہ ہیں وہ بھی ایسے مصنوعی انداز میں کہ ہمیں خود اس کا پتا نہیں۔ یہی ڈیٹا اور مصنوعی انٹیلی جنس کی طاقت ہے اور ہم سب اس کا ایندھن ہیں۔ (اعزاز سید)

دوستوں آج ابھی کی تازہ خبروں میں انڈیا کے انٹیلیجنس ادارے را کی ہمارے ملک پاکستان کے خلاف دشمنی کی⬇️
خفیہ سرگرمیوں کا انکشاف ایک غیر ملکی زرائع ابلاغ کے ذریعے ہوا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر ان دشمنوں کی 5فتھ جینریشل وار کو کس حد تک سمجھ کر کنٹرول کر سکتے ہیں جبکہ اندرونی حالات میں ہمارے ملک میں اپوزیشن جماعتوں کا طرز عمل کس حد تک دشمنوں کی سازشوں⬇️
کو پایائے تکمیل پر پہنچانے کا ایجینڈا مکمل کررہا ہے
اس تحریر کا اصل مقصد یہ بتانا مقصود ہے کہ جدید ٹیکنولوجی سے مزین زرائع ابلاغ کے ہتھیاروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے کس طرح کسی بھی ملک کی سیاست اور اسکی سالمیت کی تقدیرپر قابو کیا جا سکتا ہے۔🔄
#مارخورز
#محبت_مافیا
#نماز_راہ_نجات_ہے
عزیز دوست فردوس بھائی،
انڈیا کی سوشل میڈیا پر سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے۔🇵🇰💞

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Anwar Ahmad Khan

Anwar Ahmad Khan Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @AAK1958

10 Dec
ایک سبق آموز تحریر

ایک مسلم گھرانے کی بہو کے یہاں ماشاء اللہ خوشی آنے والی تھی۔
شادی سے پہلے ہی انکی ساس نے کہہ دیا تھا کہ نوکری تو بہو کو کرنی پڑے گی کیونکہ میری بیٹیاں اور بڑی بہو بھی نوکری کرتی ہیں۔ شادی کی 15دن کی چھٹیوں کے بعد ہی کپڑے دھونے کی ذمے داری بہو پر ڈال دی گئی۔⬇️
گھر میں تین نندیں تھیں جو شادی کے انتظار میں بوڑھی اور چڑچڑی ہوچکی تھیں، ایک جیٹھ، ان کی بیوی اور چار بچے تھے۔ ساس، سسر، بیوی اور اس کا شوہر۔ گویا 13؍لوگوں کے اندر باہر کے سب کپڑے دھونا بہو کے ذمے داری تھی۔ بڑی بہو کھانا پکاتی تھیں، ایک نند صفائی کرتیں، ایک برتن دھوتیں،⬇️
اور سب سے بڑی نند بیمار تھیں، پہلے کپڑے دھوتی تھیں اب اُن پر سے ہر ذمے داری ہٹالی گئی تھی۔
تو بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے کچھ فروٹ وغیرہ لادیا کریں، ان دنوں میں ذرا صحت بنے گی، میری تنخواہ تو آپ کی امی لے لیتی ہیں، بس یہ کہنا تھا کہ شوہر نے ایک طوفان برپا کردیا کہ:⬇️
Read 35 tweets
10 Dec
قدیم چینیوں نے تاتاریوں کے حملوں سے بچنے کیلئے
دیوار چین بنا لی،اس عظیم دیوار کو بنانے کے دوران 10 لاکھ مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،بیس سے تیس فٹ اونچی اور پندرہ سو میل پر پھیلی یہ دیوار بنانے چین کو زمانے لگ گئے بالآخر معلوم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تعمیر معرض وجود میں⬇️
آئی، دیوار چین بن گئی.
کیا چین بیرونی حملوں سے محفوظ ہوا؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس دیوار کو بنانے کے بعد پہلے 100 سال میں تاتاریوں نے تین بار چین میں گھس کر چین کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی اور اس سے بھی بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ تاتاریوں کو ایک بار بھی دیوار چین کو⬇️
پھلانگنے یا توڑنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی،جانتے ہو کیوں؟ اس لئے کہ ہر بار بیرونی دشمن کے لئے دروازے اور کنڈیاں اندر سے کھلیں، تاتاریوں نے محافظوں کو خریدا ، ملک کے اندر غدار پیدا کئے.
قدیم چینیوں نے اپنی تمام توانائیاں اور وسائل دیوار بنانے میں لگا دیے لیکن یہ بھول گئے کہ⬇️
Read 6 tweets
3 Dec
*تین فطری قوانین جو کڑوے تو ہیں لیکن حق ہیں*
*پہلا قانون فطرت:*
اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔⬇️
یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔
*دوسرا قانون فطرت:*
جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔ ۔ ۔
* خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
* عالم "علم" بانٹتا ہے۔⬇️
* دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔
*تیسرا قانون فطرت:*
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لئے کہ۔ ۔ ۔
* کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔⬇️
Read 5 tweets
3 Dec
✍️ننھی دکان😥
میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔۔۔
اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔⬇️
میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہی دیتا۔ جس کی وجہ سے روزانہ اپنی⬇️
اسکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔۔۔۔
ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا تو اچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکاندار اپنی⬇️
Read 18 tweets
30 Nov
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟​😂
یہ کہانی ہماری ملکی سیاست پر کتنی فٹ بیٹھتی ہے۔
مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کرکے خود کو بادشاہ سلامت یا بہت بڑا حاکم اعلی سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی⬇️
کیوجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اسکی سمجھ میں نہ آئے۔ اسکی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحبزادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔⬇️
یہ حضرت بھی ساتھ ہو لئے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحبزادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ⬇️
Read 8 tweets
29 Nov
#SayNoToIsrael
عالمی سازش اور پاکستان
گو کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں،مگر تاریخ کے پہیوں نے انکو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے،دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ1947-48ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر ابھرے۔⬇️
کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلی سات دہائیوں سے نہ صرف امن عالم کیلئے خطرہ ہیں، بلکہ مسلم دنیا کیلئے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں خون خرابہ ہو یا بھارت،پاکستان مخاصمت ، یا مغربی ایشیا میں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران، ترکی، سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش،⬇️
اس سبھی کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے چھپے بیٹھے ہیں۔ لہذا دنیا اگر ان دو مسائل کو باہمی افہام و تفہیم ، فریقین کی رضامندی اور ان خطوں میں رہنے والے عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے ، تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔⬇️
Read 33 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!