یہ ملک میری ملکیت ہے اور میں اس کا آزاد شہری ہوں۔ یہ ملک پاکستان میری دھرتی، میری ماں ہے اور میں اس کا شہری، اس کا سپوت ہوں۔ یہ ملک، یہ آزادی مجھے یوں ہی خیرات میں نہیں ملی ہے۔ اس آزاد رقبے کے حصول کےلئے میرے آجداد کا خون،
پسینہ بہا ہے۔ اس کی زرے زرے، چپے چپے، رگ رگ اور نس نس میں میرے اسلاف کا خون دوڑ رہا ہے اور اس میں میرا پسینہ بہہ رہا ہے۔ میرے آجداد نے اپنا خون بہا کر اس کو آزادی دلوائی تھی اور اب میں اپنا پسینہ خرچ کرکے اس کو تعمیر کر رہا ہوں۔ اس ملک کےلئے اور اس کی آزادی کے لئے میری جدوجہد،
میری قربانیوں اور میری محنت و تکلیفوں کی داستان طویل ہے اتنی طویل کہ کوئی پوری زندگی خرچ کرے تب بھی یہ داستان مکمل نہیں سن سکتا۔
میری ماؤں، میری بہنوں نے اس کے حصول و آزادی کےلئے آبروں کی قربانیاں دی ہیں۔ اپنے سینوں سے آنچل اتار کر اس کا پرچم تخلیق کیا ہے۔ میرے بزرگوں نے
اسکی تخلیق کے لئے اپنے تن کا گوشت، جسم کی ہڈیاں اور رگوں کے خون کا عطیہ دیا ہے۔ یہ ملک مجھے تب حاصل ہوا ہے اور میں تبھی اس میں آزاد ہوں ہے۔ یہ سب مفت میری جھولی میں نہیں آگرا ہے میں اپنے پیچھے لمبی اور کھٹن تاریخ رکھتا ہوں۔ اس ملک کے وجود اور میری آزاد سانسوں کے پیچھے کیا کہانی
ہے اور کیسے کیسے دلدوز افسانے ہیں یہ میں ہی جانتا ہوں۔
میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے اس کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنے جسم و جاں سے کتنا پسینہ خرچ کیا ہے، کتنی توانائیاں اور کتنی حرارتیں خرچ کئے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں اس کی حفاظت اور استحکام کےلئے کب سے لڑ رہا ہوں،
اپنا کتنا خون بہا چکا ہوں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں اس کی نظریات، مقاصد اور معنوں کی تحفظ کےلئے کتنی ذہنی و زبانی صلاحیتیں خرچ کر چکا ہوں۔ میں قطعا اس دھرتی سے غافل نہیں ہوں کیونکہ میں اس کا مالک ہوں اور یہ میری ملکیت ہے۔
جب کہ میں مالک ہوں اس زمین کا اور اس وطن کی تخلیق و تعمیر میں نے کی ہے،تو
پھر آج میں کیوں اس میں محروم ہوں،
عزت،روزگار،انصاف اور مقام سے محروم۔۔۔
مجھے کیوں عوام کا نام دے کر لوٹا، نوچا جا رہا ہے۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ برسوں سے مجھے بےدردی سے لوٹا جارہا ہے۔
میرا خون، پسینہ چوسا جارہاہے
اور مجھے ننگا،بھوکا رکھ کر
میرے نوالے ان کے کتوں اور گھوڑوں کو کھلایا جارہا ہے۔
میری حسرتوں اور خوابوں کے قبرستان پر
ان کے شیش محل تعمیر کئے جا رہے ہیں۔
ان کے اللوں،تللوں کے خرچ میں اٹھا رہا ہوں۔
ان کے موٹے گردنوں اور پھیلے توندوں کو میں پال رہا ہوں
اور میں ہی ووٹ کی پرچی سے انہیں اقتدار و طاقت کی کرسیوں پر متمکن کر رہا ہوں۔
جب میں انہیں طاقت و اختیار بخشتا ہوں
تو قانون کا شکنجہ میری گردن میں کس کر
مجھے انصاف و آزادی سے محروم رکھاجا رہا ہے۔
میں نے انہیں جاہ و حشمت،طاقت و اختیار، عزت و آزادی بخشی ہے۔
یہ ملک بناکر دیا ہے اور اسکی حفاظت بھی کر رہا ہوں۔
اس کی تعمیر بھی اور اسکی تزئین و آرائش بھی۔
میں ہی اس کا حقیقی شہری ہوں اور اس کا مالک بھی
میرے بغیر وہ کچھ بھی نہیں
اور میں ان کے بغیر بھی پاکستان کا شہری اور پاکستان کا مالک ہوں۔ پاکستان زندہ باد منقول: 29/12/2016 🇵🇰
(@AAK1958)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دنیا کا واحد گناہ جہالت ھے۔📕✍️
ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ھوا "شیوانا" (قبل از اسلام کے ایران کا ایک مفکر) کے پاس آیا اور کہنے لگا. "میری ماں نے فیصلہ کیا ھے کہ معبد کے کاھن کے کہنے پر عظیم بت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے. آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں.."⬇️
شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ھے کہ عورت نے بچی کے ھاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ھیں اور چھری ھاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رھی ھے. بہت سے لوگ اس عورت کے گرد جمع تھے اور بُت خانے کا کاھن بڑے فخر سے بت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رھا تھا⬇️
شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ھے اور وہ بار بار اُسکو گلے لگا کر والہانہ چوم رھی ھے مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاھتی ھے.⬇️
قوم کو قائد اعظم کی یوم پیدائش مبارک: 💐🇵🇰
قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ دلچسپ واقعات
1۔مسلمانوں کے عظیم لیڈر اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ قیام پاکستان کے بعدگورنر جنرل کی حیثیت سے ملک چلا رہے تھے، #JinnahWasRight ⬇️🇵🇰
ایک دن برطانیہ کے سفیر نے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آج پاکستان کے ائیرپورٹ پہنچ رہا ہے آپ انہیں لینے ائرپورٹ جایئے گا ،قائداعظم نے انتہائی دبدبے سے فرمایاآپکے بادشاہ کے بھائی کو ائرپورٹ لینے چلا جاؤں گا لیکن ایک شرط پر کے کل جب میرا بھائی برطانیہ جائےگا تو آپ کا بادشاہ⬇️
جاراج اسکو لینے ائرپورٹ جائے گا ، یہ سن کر سفیر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ۔
2۔ ایک دفعہ قائداعظم کے ملازم نے وزیٹنگ کارڈ آپکے سامنے رکھا کے یہ شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے ، اس کارڈ پر انکے بھائی کا نام لکھا تھا اور ساتھ میں تعارف میں لکھا تھا برادر آف محمد علی جناح ، یہ پڑھتے ہی⬇️
استاد سے استادی ، بیگم کو مہنگی پڑ گئ 🤣🤣🤣
ماسٹر اسکول سے تھک کر گھر واپس آئے اور کھانا کھانے بیٹھ گیے۔
کھاتے کھاتے اپنی بیوی کو بتایا کہ
"کھانا اچھا نہیں ہے ، کوئی ذائقہ نہیں آرہا ہے۔"
بیوی اپنی برائی کا بدلہ لینے کے لئے اٹھی اور کوویڈ ہیلپ لائن کو فون کیا اور⬇️
ایمبولینس کو بلایا۔
اور کہا..
"ان کو کھانے کا ذائقہ نہیں آ رہا ہے .."
ایمبولینس ماسٹر کو کوویڈ ہسپتال لے گئی اور انہیں قرنطین کردیا۔
اس طرح بیوی نے اس کا بدلہ لیا۔
*اب کہانی میں ایک نیا موڑ*⬇️
دوسری طرف ، ماسٹر صاحب سے یہ پوچھا گیا کہ
"آپ کے ساتھ کس کس کا رابطہ ہوا؟"
ماسٹر نے بالکل سکون سے کہا ..
- میری بیوی
- میرے سسر
- میری ساس
- میرا سالا
- میری سالی
- میرا ساڑھو
اب یہ سارے لوگ بھی کوویڈ ہسپتال کے بستر پر بیٹھے ہوئے ماسٹر صاحب کو گھوررہے ہیں۔⬇️
21 گرام کی روح اور ہماری خواہشیں
یہ تحریر ضرور پڑھیں @NawazSharifMNS@MaryamNShari@AAliZardari @BBhuttoZardari
وہ انسانی روح کا وزن معلوم کرنا چاہتا تھا، اس نے نیو یارک کے چند ڈاکٹروں کو ساتھ ملایا اور مختلف طریقے وضع کرنا شروع کر دئیے، یہ لوگ بالآخر ایک طریقے پر متفق ہو گئے⬇️
ڈاکٹر ڈنکن میک ڈوگل ، نزع کے شکار لوگوں کو شیشے کے باکس میں رکھ دیتے تھے‘ مریض کی ناک میں آکسیجن کی چھوٹی سی نلکی لگا دی جاتی تھی اور باکس کو انتہائی حساس ترازو پر رکھ دیا جاتا تھا‘
ڈاکٹر باکس پر نظریں جما کر کھڑے ہو جاتے تھے‘
مریض آخری ہچکی لیتا تھا‘⬇️
اس کی جان نکلتی تھی اور ترازو کے ہندسوں میں تھوڑی سی کمی آ جاتی تھی‘
ڈاکٹر یہ کمی نوٹ کر لیتے تھے‘
ان لوگوں نے پانچ سال میں بارہ سو تجربات کئے‘
2004ء کے آخر میں ٹیم نے اعلان کیا”
انسانی روح کا وزن 67 گرام ہوتا ہے“
ٹیم نے اپنی تھیوری کے جواز میں 12 سو انتقال شدہ لوگوں⬇️
رواں سالوں میں معلومت کی آگہی کے دو سب سے بڑے دروازے کتب اور اخبارات آخری ہچکیاں لے کر موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ شاید یہ کبھی مکمل طور پر مر تو نہ سکیں لیکن یہ موت سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر یعنی کوما کی حالت میں جا رہے ہیں۔⬇️
ہم سب ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ کتب اور اخبارات بینی تو شروع دن سے ہی ایک مسئلہ رہا لیکن یہ سب بھی تیزی سے انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہا ہے۔ ادھر انٹرنیٹ کا سب سے بڑا میدان سوشل میڈیا ہے جہاں علم کم اور معلومات زیادہ ہیں اور ان میں بھی جعلی اطلاعات⬇️
یا فیک نیوز کی بھرمار۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں انسانی سوچ کا تعین باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی اگر سوچ پر قابو پالیں تو آپ انسان پر قابو پالیتے ہیں۔ تو یہ سوچ پر قابو پانے کا ہتھیار ہے۔ جانتے ہیں کیسے؟
دراصل کمپیوٹر سکڑ کر موبائل فون میں آچکے ہیں⬇️