لوہڑی کا تہوار مشرقی و مغربی پنجاب، راجستھان، ہریانہ اور دلی میں منایا جاتا ہے، یوں تو یہ تہوار سردیوں کی راتوں کو انجوائے کرنے اور مل جل کر بیٹھنے کے لئے ہے اور ہزاروں سال سے منایا جاتا ہے مگر اس تہوار سے ایک واقعہ یو ں بھی منسوب ہے کہ مغل بادشاہ، شہنشاہ جلال الدین اکبر کے
اہل کار نے خوبصورت ہندو لڑکی کو اغوا کرکے حرم میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا، دلا بھٹی جو اس وقت کا باغی تھا کو اطلاع ملی تو وہ لڑکی کو جنگل میں اپنی پناہ گاہ میں لے گیا ، وہاں ایک ہندو لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کی، اس شادی میں نہ لڑکی کے ماں باپ تھے اور نہ پنڈت یا ہندو گرو، دلے نے
خود آگ جلائی، خود ہی باپ بن کر کنہیا دان کیا اور خود ہی پنڈت بنا، دلے نے لڑکی کو ایک سیر شکر اور تلوں کا تحفہ دیا، مسلمان دلے بھٹی کو شادی کے منتر نہیں آتے تھے سو پھیروں کے دوران یہ پڑھنا شروع کیا، جسے لوہڑی کا گیت کہتے ہیں
مگھی (مکر سنکرانتی)، 13 جنوری سے ایک رات پہلے
مگھی – مکر سنکرانتی اگلے دن منائی جاتی ہے
سندر مں درئیے (خوبصورت لڑکی ) تیرا کون وچارا (تمہارے متعلق کون سوچتا ہے؟ ) دلّا بھٹی والا ( بھٹی قبیلے کا دلا ) دلے دھی وہائ (دلے نے بیٹی کی شادی کی ) سیر شکر پائی (اسے ایک سیر شکر دی ) کڑی دا لال پٹاکا (لڑکی نے سرخ کپڑے پہن رکھے ہیں )
کڑی دا سالو پاٹا (لڑکی کی شال پھٹی ہوئی ہے ) پنجابی مسلمان، ہندو اور سکھ پورا سال لوہڑی کا انتظار کرتے ہیں، لوہڑی والے دن بچے لوہڑی گاتے ہوئے گھر گھر جاتے ہیں اور ٹافیاں، مٹھائیاں اور پیسے لیتے ہیں، شام کے وقت آگ کے گرد دلے بھٹی کی یاد میں لوہڑی کے گیت گائے جاتے ہیں ،
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
سِگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘ آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جُون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، اِنکا
کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔ آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل
کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ آپ کِسی سے بھی گُفتگو کر کے دیکھ لیں، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں شامِل ہوں گی۔ آپ مذہبی
جدوں تسیں کسی معذور بچے دے ماں پیو بن دے او تے کائنات 360 ڈگری اینگل تے تہاڈے واسطے بدل جاندی اے حیاتی دے او پکھ سامنے آندے نیں جیہڑے تسیں پہلاں نئیں ویکھے ہوندے پہلا سوال ایہ سامنے آندا اے کہ ایدا مستقبل کی ھووے گا؟ ایہ پڑھ سکے گا یا کوئی ہنر سکھ سکے گا جے پڑھ لوے تے کی روزگار
لبھ سکے گا ؟ جے روزگار لبھ جاوے تے کی ایدا ویاہ ہو سکے گا ؟ تے جے بچہ کسے عضو توں محروم اے مثلاً ٹرن پھرن توں لاچار اے تے سمسیا ھور گمبھیر ہو جاندی اے فیر اک قپامت ورگی سوچ سر تے آ کھلوندی اے کہ ساڈے بعد ایہدی دیکھ بھال کون کرے گا ؟ کاش ایہ ساڈے جیوندے جی مر جاوے حالانکہ ایہ
دعا منگنا وی ماں پیو لئی اک مشکل امر اے
معاملہ محض کسے معذور بال دے جمن تے ہی منحصر نئیں کوئی وی وڈا حادثہ حیاتی دا رخ بدلن دی صلاحیت رکھدا ایس حوالے نال ویکھیا جاوے تے حیاتی اک نہایت عجیب شے وے پر ایہ وی حقیقت اے کہ حیاتی نامعلوم دے خوف سہارے وی نہیں بتائی جا سکدی حیاتی گزارن
میرا اک سوال ھے کہ جیسے ہم نے کتابوں میں پڑھا ھوا ہے کہ 1947ء میں برصغیر کی جو تقسیم ہوئی اس میں انڈیا نے پاکستان کا حصہ نہیں دیا تھا چلو مان لیا ھموھ ھندو تھے اس نا انصافی کر گئے....
لیکن سوچنے والی بات ہی ھے کہ کیا ہم بنگلادیش کو اس کا حصہ دیا ؟؟
اب تو دونوں طرف مسلمان تھے.++
تو کیا یہاں انصاف ہوا تھا کہ نہیں ؟؟
اگر نہیں ہوا تو کتابوں میں یہ بھی لکھا جائے کہ جیسے انڈیا والوں نے نا انصافی کی اسی طرح مملکت نے بھی بنگلادیش کے ساتھ نا انصافی کی
کیا آپکو پتا ہے کہ ماضی کی جنگیں کیسی ھوا کرتی تھیں ؟ گولی یا بم سے مرنا کچھ اور ہے ،،،، اور جب ایک وحشی حملہ آور گروہ ،اپنے ہاتھوں میں تیز دار والی کلہاڑیاں ، چھرے اور تلواریں لیکر آتا تھا تو وہ سب سے پہلے آبادی کا گھیراؤ کرتا تھا ،
اور جو نوجوان مرد، انکو روکنے کی کوشش کرتے تو انکے بازو ، سینہ ،گردن پر گہری ضرب کاری کرتے تھے تاکہ وہ دفاع کے قابل نہ ره سکیں ،،،،،،،،،،،،، اکثر صبح ہونے سے قبل حملہ کیا جاتا تھا اور پوری بستی کے لڑ سکنے والے مردوں کے بچوں اور عورتوں کو پکڑ لیتے تھے تاکہ کوئی مدافعت نہ کر سکے
،،،، پھر بچے کھچے مردوں کے ہاتھ پیچھے باندھ دیا کرتے . ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اب ہر آدمی سے پوچھ کر مال طلب کیا جاتا ،،،،،،، کچھ لوگوں کو سب کے سامنے بیدردی سے قتل کیا جاتا ، تاکہ سب لوگوں کو دہشت زدہ کیا جائے ،،،،، اس طرح وہ ہر لوٹی جا سکنے والی اشیا کا خود ہی بتا دیا
71 میں جس بنگالی نسل نے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے اور بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔۔اس نے آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مستقبل پر مہر لگا دی تھی۔۔۔۔۔ان لوگوں نے جب یہ دیکھ لیا تھا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔۔۔۔انہیں کالونی بنا لیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
اور طاقتور ایسٹیبلیشمینٹ ان پر حکومت کر رہی ہے تو انہوں نے بجا طور پر اپنے مطالبات بلیک اینڈ وائٹ میں پیش کر دئیے اور ان مطالبات کے مسترد ہونے پر آذادی لینے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نسل نے یہ نہیں سوچا کہ ہم جنگجو نہیں۔۔۔۔۔۔ہمارے پاس بندوقیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ہمارے قد چھوٹے ہیں۔۔۔۔۔۔
رنگ سانولے ہیں۔۔۔۔۔دھوتی پہنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کا مطلب لاالااللہ ہے۔۔۔۔۔دو قومی نظریہ۔۔۔۔۔۔اور رمضان کی 27 ۔۔۔فلاں کے خواب اور ان کی تعبیر۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ان سب چیزوں کی بتی بنائی اور مغربی پاکستان والوں سے کہا۔۔۔۔۔۔۔وہاں ڈال لو۔۔۔جہاں یہ فٹ بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بنگالی اردو کو امی ماننے پہ کسی صورت آمادہ نہ ہوئے تو لہور و کراچی کے اردو مافیا نے نئی چال چلی ملاں عبدالحق عرف بابائے اردو اسلام کا جھنڈا لیکر بنگال پہنچ گیا اور بنگالیوں کو "عربی" رسم الخط میں بنگالی لکھنے کی تلقین کی جانے لگی اور اردو مافیا کے
معروف براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری نے ریڈیو نشریات میں ایسی بنگالی متعارف کروائی جو عربی و فارسی اصطلاحات سے بھری تھی دونوں کے خلاف شدید ردعمل آیا زیڈ اے بخاری تو بذریعہ اردو اسلام نافذ کرنے سے باز آ گیا البتہ ملاں عبدالحق کو چین نا پڑا اسکا مقصد بنگالیوں کو عربی رسم الخط کے
ذریعے اردو کے فارسی رسم الخط سے متعارف کرواتے ہوئے اردو تک لانا تھا سترہ ایسے اسکول کھولے گئے جہاں بنگالی زبان عربی رسم الخط میں سکھائی جاتی تھی اردوابیوں کی عقلیں اتنی پست تھیں کہ یہ چول دیوناگری کو ہندو اور فارسی رسم الخط کو اسلامی کہتے تھے اس دوران ایک اور تماشا ہوا ایک