جدوں تسیں کسی معذور بچے دے ماں پیو بن دے او تے کائنات 360 ڈگری اینگل تے تہاڈے واسطے بدل جاندی اے حیاتی دے او پکھ سامنے آندے نیں جیہڑے تسیں پہلاں نئیں ویکھے ہوندے پہلا سوال ایہ سامنے آندا اے کہ ایدا مستقبل کی ھووے گا؟ ایہ پڑھ سکے گا یا کوئی ہنر سکھ سکے گا جے پڑھ لوے تے کی روزگار
لبھ سکے گا ؟ جے روزگار لبھ جاوے تے کی ایدا ویاہ ہو سکے گا ؟ تے جے بچہ کسے عضو توں محروم اے مثلاً ٹرن پھرن توں لاچار اے تے سمسیا ھور گمبھیر ہو جاندی اے فیر اک قپامت ورگی سوچ سر تے آ کھلوندی اے کہ ساڈے بعد ایہدی دیکھ بھال کون کرے گا ؟ کاش ایہ ساڈے جیوندے جی مر جاوے حالانکہ ایہ
دعا منگنا وی ماں پیو لئی اک مشکل امر اے
معاملہ محض کسے معذور بال دے جمن تے ہی منحصر نئیں کوئی وی وڈا حادثہ حیاتی دا رخ بدلن دی صلاحیت رکھدا ایس حوالے نال ویکھیا جاوے تے حیاتی اک نہایت عجیب شے وے پر ایہ وی حقیقت اے کہ حیاتی نامعلوم دے خوف سہارے وی نہیں بتائی جا سکدی حیاتی گزارن
واسطے حیاتی تے یقین رکھنا وی ضروری اے ایس پکھ نال ویکھیا جاوے تے حیاتی اگرچہ اک جھوٹھ اے پر اینو جھوٹھ سمجھ کے گزاریاں ایہ نئیں گزردی اپنو سچ سمجھ کے امید نال ہی گزارنا پیندا اے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اچھا یہ بات بھی نہیں، معاملہ تو تب خراب ہوا جب اوریجنیلٹی(اصلیت) پر بناوٹ(نقلیت) افضلیت حاصل کر گئی پنجاب یا پنجابیت یا پنجابی زبان ہماری وہ اصل تھی جس پر اُتر پردیش کی بناوٹی تہذیب اور زبان کو افضل قرار دیا گیا لیکن فارسی و عربی ملی ہندی کی گود میں جا بیٹھنا تو ابھی کل
کی بات ہے اس سے بہت پہلے یہی نسلیں ایک لمبا عرصہ فارسی زبان کو مقدس قرار دے کر اسکی گود کی گرماہٹ انجوائے کرتی رہیں، ترکستان و وسط ایشیاء میں بھی ایسا ہی ہوا اور پنجاب و ہند میں اب تک ہوتا جا رہا ہے کیونکہ پنجاب کی اشرافیہ خود بھی غیر پنجابی النسل ہونے کے باعث پنجاب سے
جذباتی لگاؤ نا رکھتی تھی یہ وہی اشرافیہ تھی جو یا تو خود صدیوں تک غیر پنجابی حملہ آوروں کے تخریبی عمل کا حصہ رہی تھی یا پھر اس عمل سے متاثر ہوکر خود کو غیر پنجابی النسل بنا بیٹھی تھی اس نقلیت کے پیچھے دو مزید وجوہات یہ تھیں کہ تاتاری و ترک و افغان خانہ بدوش تہذیبوں کے
سِگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘ آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جُون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، اِنکا
کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔ آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل
کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ آپ کِسی سے بھی گُفتگو کر کے دیکھ لیں، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں شامِل ہوں گی۔ آپ مذہبی
میرا اک سوال ھے کہ جیسے ہم نے کتابوں میں پڑھا ھوا ہے کہ 1947ء میں برصغیر کی جو تقسیم ہوئی اس میں انڈیا نے پاکستان کا حصہ نہیں دیا تھا چلو مان لیا ھموھ ھندو تھے اس نا انصافی کر گئے....
لیکن سوچنے والی بات ہی ھے کہ کیا ہم بنگلادیش کو اس کا حصہ دیا ؟؟
اب تو دونوں طرف مسلمان تھے.++
تو کیا یہاں انصاف ہوا تھا کہ نہیں ؟؟
اگر نہیں ہوا تو کتابوں میں یہ بھی لکھا جائے کہ جیسے انڈیا والوں نے نا انصافی کی اسی طرح مملکت نے بھی بنگلادیش کے ساتھ نا انصافی کی
لوہڑی کا تہوار مشرقی و مغربی پنجاب، راجستھان، ہریانہ اور دلی میں منایا جاتا ہے، یوں تو یہ تہوار سردیوں کی راتوں کو انجوائے کرنے اور مل جل کر بیٹھنے کے لئے ہے اور ہزاروں سال سے منایا جاتا ہے مگر اس تہوار سے ایک واقعہ یو ں بھی منسوب ہے کہ مغل بادشاہ، شہنشاہ جلال الدین اکبر کے
اہل کار نے خوبصورت ہندو لڑکی کو اغوا کرکے حرم میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا، دلا بھٹی جو اس وقت کا باغی تھا کو اطلاع ملی تو وہ لڑکی کو جنگل میں اپنی پناہ گاہ میں لے گیا ، وہاں ایک ہندو لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کی، اس شادی میں نہ لڑکی کے ماں باپ تھے اور نہ پنڈت یا ہندو گرو، دلے نے
خود آگ جلائی، خود ہی باپ بن کر کنہیا دان کیا اور خود ہی پنڈت بنا، دلے نے لڑکی کو ایک سیر شکر اور تلوں کا تحفہ دیا، مسلمان دلے بھٹی کو شادی کے منتر نہیں آتے تھے سو پھیروں کے دوران یہ پڑھنا شروع کیا، جسے لوہڑی کا گیت کہتے ہیں
کیا آپکو پتا ہے کہ ماضی کی جنگیں کیسی ھوا کرتی تھیں ؟ گولی یا بم سے مرنا کچھ اور ہے ،،،، اور جب ایک وحشی حملہ آور گروہ ،اپنے ہاتھوں میں تیز دار والی کلہاڑیاں ، چھرے اور تلواریں لیکر آتا تھا تو وہ سب سے پہلے آبادی کا گھیراؤ کرتا تھا ،
اور جو نوجوان مرد، انکو روکنے کی کوشش کرتے تو انکے بازو ، سینہ ،گردن پر گہری ضرب کاری کرتے تھے تاکہ وہ دفاع کے قابل نہ ره سکیں ،،،،،،،،،،،،، اکثر صبح ہونے سے قبل حملہ کیا جاتا تھا اور پوری بستی کے لڑ سکنے والے مردوں کے بچوں اور عورتوں کو پکڑ لیتے تھے تاکہ کوئی مدافعت نہ کر سکے
،،،، پھر بچے کھچے مردوں کے ہاتھ پیچھے باندھ دیا کرتے . ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اب ہر آدمی سے پوچھ کر مال طلب کیا جاتا ،،،،،،، کچھ لوگوں کو سب کے سامنے بیدردی سے قتل کیا جاتا ، تاکہ سب لوگوں کو دہشت زدہ کیا جائے ،،،،، اس طرح وہ ہر لوٹی جا سکنے والی اشیا کا خود ہی بتا دیا
71 میں جس بنگالی نسل نے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے اور بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔۔اس نے آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مستقبل پر مہر لگا دی تھی۔۔۔۔۔ان لوگوں نے جب یہ دیکھ لیا تھا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔۔۔۔انہیں کالونی بنا لیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
اور طاقتور ایسٹیبلیشمینٹ ان پر حکومت کر رہی ہے تو انہوں نے بجا طور پر اپنے مطالبات بلیک اینڈ وائٹ میں پیش کر دئیے اور ان مطالبات کے مسترد ہونے پر آذادی لینے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نسل نے یہ نہیں سوچا کہ ہم جنگجو نہیں۔۔۔۔۔۔ہمارے پاس بندوقیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ہمارے قد چھوٹے ہیں۔۔۔۔۔۔
رنگ سانولے ہیں۔۔۔۔۔دھوتی پہنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کا مطلب لاالااللہ ہے۔۔۔۔۔دو قومی نظریہ۔۔۔۔۔۔اور رمضان کی 27 ۔۔۔فلاں کے خواب اور ان کی تعبیر۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ان سب چیزوں کی بتی بنائی اور مغربی پاکستان والوں سے کہا۔۔۔۔۔۔۔وہاں ڈال لو۔۔۔جہاں یہ فٹ بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔