اسنے آپ کی شادی کا پیغام مسترد کردیا؟ اتنی ہمت اس گھٹیا عورت کی؟ وہ آپ کو جنسی تسکین دینے کو نا کہہ کے اپنے حق کا استعمال کرتی ہے؟ اوہ ، اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ آپ کی نازک مردانہ انا کو داغدار کردے! #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence#AcidAttacks
ایک عورت کو اپنے اس بھرم اور اعتماد پہ کہ اس کے جسم اور زندگی پر اسے کوئی حق حاصل ہے اسکی کڑی سزا ملتی ہے۔ پدرشاہی تشدد کے پاس ایک سے زیادہ ہتھیار موجود ہیں جن میں سے ایک ہتھیار تیزاب سے حملہ کرنا ہے۔
جس کا مقصد ہدف کو جسمانی طور پر تکلیف دینے اور جذباتی طور پر ہمیشہ کے لئے داغدار بنانا ہے۔
پچھلے ایک سال کے دوران ، ہم نے دیکھا ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی پر تیزاب صرف اس لئے پھینکا کہ اس نے اس مرد کی جانب سے غلاموں کی طرح کے سلوک کو قبول کرنے سے انکار کیا..
لڑکے ان لڑکیوں پر تیزاب پھینک رہے ہیں جن سے وہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن پیغام مسترد کرنے کی جرات کی گئی ، اور مدرسہ کہ ایک معلم جس نے اپنے کم عمر طالب علموں پر تیزاب پھینکا جب انہوں نے اسکی جنسی پیشرفت سے انکار کیا۔ ملک بھر میں تیزاب حملوں میں کمی کے دعوؤں کے باوجود ،
یہ حملے جاری ہیں اور تیزاب کی فروخت خطرناک حد تک چل رہی ہے حالانکہ اس پر پابندی عائد کرنے والا قانون بھی موجود ہے۔
قانون سازی کو مؤثر بنانے کیلئے ہمیں پدرشاہانہ رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا جو پسماندہ افراد ، خاص طور پر خواتین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
ہمیں مردوں اور لڑکوں کی وہ سوچ بدلنی ہوگی جوعورتوں اور ان کے جسموں کے بارے میں ہے: یعنی خواتین انکی ملکیت ہیں ، ان کے ساتھ کھیلنا ، انکا وجود مسمار کرنا ، یا تباہ کرنا انکا حق ہے۔ اس کے ساتھ ہی ، یہ سوچ کہ عورت کے چہرے کو بگاڑ دینے سے اس کی زندگی کا رخ الٹ جاتا ہے۔
اس کے مستقبل ،تعلیم، کیریئر یا شادی کے امکانات کو برباد کیا جا سکتا ہے (شادی کو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین کے وجود کا بنیادی مقصد سمجھا جاتا ہے)۔ یہی چیز ہے جو مردوں کو اس طرح کے انتہائی جرائم انجام دینے کی سوچ اور ہمت دیتی ہے
اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ روایتی خوبصورتی کے معیار کے ذریعہ خواتین کی قدر کی وضاحت کرنا کتنا نقصان دہ ہے۔
ہم تیزاب کے حملوں کے تمام متاثرین اور پسماندگان سے محبت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں آپ کیساتھ انصاف کیا جائے۔
آپ نے ایک نہایت تکلیف دہ عمل کے بعد باہمت اور احسن طریقے سے زندگی گزاری ہے ، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ آپ کووہ مقام اور احترام دینے کے لئے بہتر بنایا جاسکے جس کے آپ مستحق ہیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
بچے کسی بھی معاشرے کا سب سے زیادہ کمزور اور حساس ترین طبقہ ہیں ، اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں جس حد تک بچوں سے زیادتی عام ہے ہم بچوں کے تحفظ میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence#ChildProtection
بچوں کے ساتھ بدسلوکی بہت سی شکلیں لیتی ہے مثلاً جسمانی ، جنسی اور جذباتی ۔ بچوں سے جسمانی زیادتی میں بچوں کی مشقت، جبری مشقت اور بچوں کو مارنے (یا تشدد) کا عمل شامل ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بڑوں کی جانب سے ان کو "تادیب" دینے کی آڑ میں عام ہے۔
جنسی زیادتی میں بچوں کی شادیوں سے لے کر بچوں کی فحش تصویریں یا وڈیو بنانا جنسی زیادتی ، ریپ اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم شامل ہیں۔ جذباتی طور پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی سب سے عام شکل ہے -اس میں زبانی زیادتی ، انہیں نظرانداز کرنے ، پیار کو روکنے ۔۔
Child abuse takes many forms, which can be broadly categorized as physical, sexual, & emotional. Physical child abuse includes child labour & hitting (or physically harming) children - which is a common practice employed by parents under the guise of "disciplining" them.
Sexual child abuse spans from child marriages to child pornography and sexual assault. Emotional child abuse, which is the most common form of child abuse globally, can refer to a wide range of behaviors such as verbal abuse, emotional neglect, withholding of affection...
بلوچ خواتین: وہ پاکستان کے سب سے کم ترقی یافتہ صوبے سے ہیں ، جہاں نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں خواتین کی دوران زچگی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اسکے باوجود وہ جراࣿت ، استقامت اور طاقت کی علامت کے طور پر اسطرح ابھری ہیں... #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence
جس کا تصور کچھ دہائیوں پہلے شاید کسی نے کیا ہو۔
بلوچ خواتین، ایک ایسے طویل تنازعہ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی ہر طرح کی خلاف ورزی ہوتی آئی ہے ، وہ اپنی جدوجہد کے ذریعے بلوچستان میں انسانی حقوق کی دیرینہ جدوجہد کا چہرہ بن کہ سامنے آئی ہیں۔
گمشدہ افراد کی رہائی کے لئے جدوجہد ہو یا یونیورسٹی کیمپس میں جنسی ہراسانی کے خاتمے کے لئے ، بلوچ خواتین کو اپنے ہی صوبہ میں پائی جانے والی ناانصافیوں کی طرف عالمی توجہ دلانے کے لئے تمام تر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکام کی طرف سے توجہ نہ دینے کے باوجود ،
They come from the most underdeveloped province of Pakistan, with the highest female mortality rate - not just in the country, but in the whole world. Yet they have emerged as epitomes of resilience, perseverance... #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence#SaluteBalochWomen
& strength, that no one would've imagined a few decades ago.
Baloch women, the victims & survivors of a long conflict that has resulted in all kinds of human rights violations, have through their activism become the face of a longstanding human rights struggle in Balochistan.
Be it the struggle for release of missing persons or an end to sexual harassment at university campuses, Baloch women have faced all hardships to bring global attention to the injustices that prevail in their homeland.
She rejected your proposal? What a bitch. She exercised her right to say no to your unsolicited sexual advances? Oh, how dare she tarnish your fragile male ego like this! #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence#AcidAttacks
She must be punished for having the audacity to believe that she has any rights over her body and life. And how will she be punished? Well, the patriarchy has multiple weapons to make it happen, one of which is the horrific phenomenon of acid attacks.
Acid attacks are among the most brutal and gruesome forms of patriarchal violence that aim to leave the target physically hurt and emotionally scarred forever.
During the last one year, we have seen men throwing acid on their wives for refusing to be treated like their slaves...
اس سال ہماری A-Z مہم پدرشاہی تشدد کے بارے میں ہے۔ ہم پدرشاہی تشدد کو زبانی ، جذباتی ، جسمانی ، جنسی اور معاشی تشدد کی مختلف شکلوں سے تعبیر کرتے ہیں جو خواتین ، غیر صنفی افراد اور خواجہ سراؤں کے خلاف برپا ہوتا ہے۔ #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence#patriarchykapendamic
ہم سمجھتے ہیں کہ اجتماعی تشدد نظامی اور ساختی ہے ، اور معاشروں ، ثقافتوں ، اداروں اور ریاست کے توسط سے یہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ تشدد اکثر سرمایہ داری ، منافرت ، اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ لہذا ہم ان سب عوامل کے خاتمہ کو اپنی جدوجہد کا حصہ سمجھتے ہیں۔۔
اور یقین کرتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جو ہماری جدوجہد کو ایک دوسرے سے منسلک اور باہم جڑی ہوئی بناتی ہے۔