بچے کسی بھی معاشرے کا سب سے زیادہ کمزور اور حساس ترین طبقہ ہیں ، اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں جس حد تک بچوں سے زیادتی عام ہے ہم بچوں کے تحفظ میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence#ChildProtection
بچوں کے ساتھ بدسلوکی بہت سی شکلیں لیتی ہے مثلاً جسمانی ، جنسی اور جذباتی ۔ بچوں سے جسمانی زیادتی میں بچوں کی مشقت، جبری مشقت اور بچوں کو مارنے (یا تشدد) کا عمل شامل ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بڑوں کی جانب سے ان کو "تادیب" دینے کی آڑ میں عام ہے۔
جنسی زیادتی میں بچوں کی شادیوں سے لے کر بچوں کی فحش تصویریں یا وڈیو بنانا جنسی زیادتی ، ریپ اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم شامل ہیں۔ جذباتی طور پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی سب سے عام شکل ہے -اس میں زبانی زیادتی ، انہیں نظرانداز کرنے ، پیار کو روکنے ۔۔
یا بچوں کو کسی اور کی جسمانی یا جذباتی زیادتی کا گواہ بنانا شامل ہیں۔
گھروں اور مدارس کے اندر بچوں کے جنسی استحصال کا رجحان عام ہے وہ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں جو بچوں کی تحفظ کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ بچوں کی حفاظت پر کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق ۔۔
پاکستان میں ایک دن میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 12 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوتے ہے۔ جبکہ متعدد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ پورے ملک میں بچوں کی شادیاں بھی عام ہیں۔ بچوں کی شادیوں کے تازہ واقعات میں قومی اسمبلی کے 64 سالہ میمبر کی ایک 14 سالہ بچی کے ساتھ شادی ہے۔
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہونے کے علاوہ ، یہ چائلڈ میرج سے متعلق قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔
اگرچہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں ( بجا طور پر) بہت زیادہ غم و غصہ پایا جاتا ہے ، لیکن یہ واقعات کو روکنے کے لئے کافی کام نہیں ہیں۔
بچوں کے تحفظ یا چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے ہونے کے باوجود سندھ میں بچوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی عام ہے اور ہمارے پاس بچوں کے تحفظ کے مراکز یا پناہ گاہیں تک نہیں ہیں۔ زیادتی کے متاثرین بچوں کی مناسب طور پر بحالی کے ہمیں اپنے اداروں اور قوانین کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔
ایک معاشرے کی حیثیت سے ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی فلاح اور بھلائی کیلئے بیرونی عوامل کی ضرورت ہی پیدا نہ ہو - جو صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال ، محبت اور بنیادی حقوق (تعلیم کے حق سمیت) گھر میں ہی میسر ہوں۔
اسی کے ساتھ ساتھ ، اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ بچوں کی حفاظت کے لئے اسکولوں اور گھروں میں جنسی تعلیم کے ذریعے محفوظ اور غیر محفوظ لمس یا رویوں کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
Enforced disappearances: Since 2017, we have heard gruesome stories and seen heartbreaking protests by families of missing persons in multiple cities in Sindh. Sindhi women, the kin of most of these missing.. #AuratMarch#StopEnforcedDisappearances#AtoZofPatriarchalViolence
persons have been at the forefront of the protest movement with regular sit-ins in Larkana, Hyderabad, Khairpur, Mirpurkhas, Ghotki, Badin, & Kandhkot districts. The press clubs have turned into another unfortunate home for these protestors as they stay there...
sometimes on hunger strikes, & demand the return of their loved ones along with the due legal process to be followed for their cases. These women have not only raised voices for their own but have also invited & provided a platform to the Shia, Baloch and Urdu-speaking Sindhi..
ایک اندازے کے مطابق 93 فیصد پاکستانی خواتین نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کے جنسی تشدد کا تجربہ کیا ہے۔ یہاں جنسی ہراسانی کی اطلاع دینا بھی ایک مسئلہ ہے کے دینے والا کسی قسم کے انصاف کی امید۔۔ #AuratMarch2021#Metoo#patriarchykapendamic
نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہ عدلیہ سے رکھتا ہے - مجموعی طور پر معاشرے کے ذریعہ اکثر متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کو منظم انداز سے خاموش کردیا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ معاملات اکثر رجسڑر نہیں ہوتے کیونکہ ہراسانی سے متاثرہ افراد کو مزید نشانہ بنایا جاتا ہے..
انھیں شرمندہ کیا جاتا ہے ، اور "معاشرتی مجرم" کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جب کہ ساتھ ہی وہ قانونی چارہ جوئی کے اخراجات اٹھا رہے ہوتے ہیں اور قانونی لڑائی بھی لڑرہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، قصور ہمیشہ مجرم کی بجائے متاثرہ بچ فرد کے سر پہ تھوپا جاتا ہے۔
It is estimated that 93% of Pakistani women have experienced some form of sexual violence in their lifetime. And, there remains a stigma around reporting harassment here owing to the fact that the victim-.. #AuratMarch2021#PatriarchyKaPandemic#MeToo
survivors and their families are often silenced by the criminal justice system - including police, legislature and judiciary - & by society as a whole.
Consequently, these cases often go unregistered because victim-survivors are gaslighted, victim-blamed, slut-shamed..
& risk developing the status of “social pariahs” whilst fighting an uphill battle; the financial legal costs are another hurdle in & of themselves. The guilt is, unfortunately, always associated with the victim-survivor rather than the perpetrator.
Child abuse takes many forms, which can be broadly categorized as physical, sexual, & emotional. Physical child abuse includes child labour & hitting (or physically harming) children - which is a common practice employed by parents under the guise of "disciplining" them.
Sexual child abuse spans from child marriages to child pornography and sexual assault. Emotional child abuse, which is the most common form of child abuse globally, can refer to a wide range of behaviors such as verbal abuse, emotional neglect, withholding of affection...
بلوچ خواتین: وہ پاکستان کے سب سے کم ترقی یافتہ صوبے سے ہیں ، جہاں نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں خواتین کی دوران زچگی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اسکے باوجود وہ جراࣿت ، استقامت اور طاقت کی علامت کے طور پر اسطرح ابھری ہیں... #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence
جس کا تصور کچھ دہائیوں پہلے شاید کسی نے کیا ہو۔
بلوچ خواتین، ایک ایسے طویل تنازعہ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی ہر طرح کی خلاف ورزی ہوتی آئی ہے ، وہ اپنی جدوجہد کے ذریعے بلوچستان میں انسانی حقوق کی دیرینہ جدوجہد کا چہرہ بن کہ سامنے آئی ہیں۔
گمشدہ افراد کی رہائی کے لئے جدوجہد ہو یا یونیورسٹی کیمپس میں جنسی ہراسانی کے خاتمے کے لئے ، بلوچ خواتین کو اپنے ہی صوبہ میں پائی جانے والی ناانصافیوں کی طرف عالمی توجہ دلانے کے لئے تمام تر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکام کی طرف سے توجہ نہ دینے کے باوجود ،
They come from the most underdeveloped province of Pakistan, with the highest female mortality rate - not just in the country, but in the whole world. Yet they have emerged as epitomes of resilience, perseverance... #AuratMarch2021#AtoZofPatriarchalViolence#SaluteBalochWomen
& strength, that no one would've imagined a few decades ago.
Baloch women, the victims & survivors of a long conflict that has resulted in all kinds of human rights violations, have through their activism become the face of a longstanding human rights struggle in Balochistan.
Be it the struggle for release of missing persons or an end to sexual harassment at university campuses, Baloch women have faced all hardships to bring global attention to the injustices that prevail in their homeland.