2017 کے بعد سے ، ہم نے سندھ کے متعدد شہروں بشمول کراچی، حیدرآباد ، خیرپور ، میرپورخاص ، لاڑکانہ، گھوٹکی ، بدین ، اور کندھکوٹ اضلاع میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے مسلسل مظاہرے دیکھے ہیں۔ #AuratMarch2021#PatriarchyKaPandemic
ان دھرنوں میں سندھی خواتین جو ان میں سے بیشتر لاپتہ افراد کی لواحقین ہیں ، احتجاجی تحریک میں سب سے آگے رہی ہیں۔مختلف پریس کلب ان مظاہرین کے ایک اور بدقسمت گھر میں تبدیل ہوگئے ہیں جیسے کہ وہ وہاں قیام کرتے ہیں ۔ بعض اوقات بھوک ہڑتالوں پر اپنے پیاروں کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں اور
یہ کہ ان کے معاملات پر مناسب قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ان خواتین نے نہ صرف اپنوں کے لئے آواز اٹھائی ہے بلکہ شیعہ ، بلوچ اور اردو بولنے والے سندھی لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو بھی دعوت دی اور ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔
ہراساں کرنے اور مستقل نگرانی کا سامنا کرنے کے باوجود ،
ان خواتین نے لاپتہ افراد کی واپسی کے لئے جدوجہد جاری رکھی ہے۔ انہوں نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس سمیت ان کو خاموش کرنے کی کوششوں کا سامنا کیا ہے۔ پولیس کی کارروائی میں مزاحمت کرنے والی ان خواتین کی وہ تصاویر جن میں وہ ریاست کے ایجنٹوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ دیکھ رہی ہیں
اس جدوجہد اور جرات کی گواہ بن گئی ہیں۔ اس سال کے آغاز میں سندھ لاپتہ افراد کے لواحقین نے، جس میں خواتین اور بچے شامل تھے ، کراچی سے راولپنڈی تک پیدل ہی لانگ مارچ شروع کیا تھا ، لیکن پنجاب کے مضافات میں پہنچنے تو ، ان کو داخلے سے روکا گیا اور انہیں جسمانی طور پر پامال کیا گیا تھا
ان کی پرامن طور پر احتجاج کرنے اور ملک بھر میں آزاد نقل وحرکت کی آزادی پہ یہ پابندی اور غیر معقول نظربندی نے انہیں رہائی کے بعد حیدرآباد اور کراچی واپس آنے پر مجبور کیا۔ لیکن انہوں نے ہار ماننے سے انکار کرتے ہوئے یہاں بھی دھرنا جاری رکھا۔
اگرچہ بہت سے سندھی لاپتہ افراد
سیاسی کارکن ہیں ، لیکن ان میں متعدد افراد اساتذہ ، طلباء ، انسانی حقوق کے کارکن یا سرکاری اہلکار بھی ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ غائب ہونے والوں میں سیاسی کارکنوں کے بچے بھی شامل ہیں۔ دوسروں کی طرح ، ان بچوں کو بھی چھاپوں کے دوران اٹھایا گیا تھا اور بلا قانونی جواز رکھا گیا تھا ،
جبکہ ان کے اہل خانہ کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئیں ۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکام تمام لاپتہ افراد کو واپس کریں اور سول سوسائٹی اور متاثرین کے اہل خانہ کی مشاورت سے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا وعدہ پورا کریں۔ حکومت کو جبری گمشدگی سے تحفظ کے بین الاقوامی
کنونشن کی بھی توثیق کرنی چاہئے اور لاپتہ افراد کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے کارکنوں کو ہراساں کرنا اور دھمکانا بند کرنا چاہئے۔ ہم ان خواتین کے عزم اور انکی جدوجہد کیلئے بھی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ، ایک ایسی جدوجہد جس کو ایک ریاست ایک پدرشاہانہ تنظیم کی طرح کا سلوک کر رہی ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
جيڪي اتي مسلسل بک هڙتالن تي ويهڻ سان گڏوگڏ پنهنجي پيارن جي ڪيسن جي پيروي ڪندي قانوني طريقي سان گڏ پنهنجن پيارن جي واپسي جو مطالبو ڪن ٿيون. انهن عورتن نه رڳو پنهنجي لاءِ آواز بلند ڪيو آهي پر شيعه ، بلوچ ۽ اردو ڳالهائيندڙ سنڌي گم ٿيل ماڻهن جي خاندانن کي به دعوت ڏيندي
One of the oft-repeated talking points by our government officials is that religious minorities enjoy complete freedom in the country. But reality can be different. If you ask religious minorities - particularly Christians & Hindus -
what their biggest problems are, the first answer is always going to be the forced conversions of underage girls & women from their communities.
Voluntary religious conversion, which is recognised as a human right, is a one-sided affair here; it involves force & usually entails
child marriages whereby only religious minorities are seen to be converting - thus proving the extent of how 'voluntary' they are. Although there are girls who choose to willingly convert & boldly testify the same in court, most of the ones who've been forced to convert also..
We were repressed; our bodies violated; our voices squashed. And, so, a future without oppression we envisaged: for ourselves, & for everyone else out there who has had to bear the brunt of similar or..
different forms of oppression - which includes our oppressors, too.
You denied us the right to speak, to breathe freely, to walk, & to exist as human beings (rather than objects) with basic respect. We were forcefully pushed to the ground only to get back up again collectively.
Again. And again. And here we are now, standing shoulder to shoulder, ready to show you exactly what you're so afraid of & have always been - i.e. our strength & might in spite of your injustices.
Join us on 8th March as we continue to take on the patriarchy..
Enforced disappearances: Since 2017, we have heard gruesome stories and seen heartbreaking protests by families of missing persons in multiple cities in Sindh. Sindhi women, the kin of most of these missing.. #AuratMarch#StopEnforcedDisappearances#AtoZofPatriarchalViolence
persons have been at the forefront of the protest movement with regular sit-ins in Larkana, Hyderabad, Khairpur, Mirpurkhas, Ghotki, Badin, & Kandhkot districts. The press clubs have turned into another unfortunate home for these protestors as they stay there...
sometimes on hunger strikes, & demand the return of their loved ones along with the due legal process to be followed for their cases. These women have not only raised voices for their own but have also invited & provided a platform to the Shia, Baloch and Urdu-speaking Sindhi..
ایک اندازے کے مطابق 93 فیصد پاکستانی خواتین نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کے جنسی تشدد کا تجربہ کیا ہے۔ یہاں جنسی ہراسانی کی اطلاع دینا بھی ایک مسئلہ ہے کے دینے والا کسی قسم کے انصاف کی امید۔۔ #AuratMarch2021#Metoo#patriarchykapendamic
نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہ عدلیہ سے رکھتا ہے - مجموعی طور پر معاشرے کے ذریعہ اکثر متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کو منظم انداز سے خاموش کردیا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ معاملات اکثر رجسڑر نہیں ہوتے کیونکہ ہراسانی سے متاثرہ افراد کو مزید نشانہ بنایا جاتا ہے..
انھیں شرمندہ کیا جاتا ہے ، اور "معاشرتی مجرم" کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جب کہ ساتھ ہی وہ قانونی چارہ جوئی کے اخراجات اٹھا رہے ہوتے ہیں اور قانونی لڑائی بھی لڑرہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، قصور ہمیشہ مجرم کی بجائے متاثرہ بچ فرد کے سر پہ تھوپا جاتا ہے۔
It is estimated that 93% of Pakistani women have experienced some form of sexual violence in their lifetime. And, there remains a stigma around reporting harassment here owing to the fact that the victim-.. #AuratMarch2021#PatriarchyKaPandemic#MeToo
survivors and their families are often silenced by the criminal justice system - including police, legislature and judiciary - & by society as a whole.
Consequently, these cases often go unregistered because victim-survivors are gaslighted, victim-blamed, slut-shamed..
& risk developing the status of “social pariahs” whilst fighting an uphill battle; the financial legal costs are another hurdle in & of themselves. The guilt is, unfortunately, always associated with the victim-survivor rather than the perpetrator.