@JainVihar
ھدایت کے ضابطے
وہ دارالعلوم دیوبند کے قریب میں ایک محلے میں ایک امیر ھندو گھرانے میں پیدا ھوا تھا اور ھندوؤں کے اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا تھا جو سورج کی پوجا کرتے ھیں بچپن گزرا تو جوانی شروع ھوئی بچپن کی طرح اس کی جوانی بھی نرالی تھی وہ ایک ھمدرد اور دیالو نوجوان تھا
ھر دم ھر وقت کسی کی مدد کو تیار مذھبی تعصب سے بالاتر محلے کی سب خواتین کو ماسی کہتا ان کے کام کرتا جوانی سے اس کا معمول تھا کہ وہ صبح دارالعلوم کے کنوئیں پر سورج طلوع ھونے سے تھوڑا پہلے آتا پانی نکال کر اشنان کرتا اور پھر پشت سورج کی طرف کر کے اپنے سائے کی گردن پر نظر جما کر
گھنٹوں کھڑا رھتا اور پھر اپنا جاپ ختم کر کے چلا جاتا نہ اس نے کبھی دارالعلوم کے مہتمم سے کوئی ربط ضبط بڑھانے کی کوشش کی اور نہ کبھی انہوں نے اسے کنوئیں پر نہانے اور مدرسے کے ایک کونے میں اپنی عبادت کرنے سے روکا وقت گزرتا رھا مہتم فوت ھو گئے اور نظم و نسق ان کے فرزند کے ھاتھ آیا
ادھر سوریا مہاراج بھی اب عمر کے اخری دور میں داخل ھو چکے تھے مگر معمولات میں کوئی ناغہ نہیں تھا آج بادل بنے ھوئے تھے اور سوریا مہاراج اشنان کر کے سورج کا انتظار کر رھے تھے مگر بادل سورج کو دبوچے بیٹھے تھے پتہ نہیں تقدیر کو سوریا مہاراج پر ترس آیا یا خود ان کا موڈ مسلمان مولوی کو
چھیڑنے کا بن گیا وہ مہتمم صاحب کے پاس جا کھڑے ھوئے جو اس وقت کیکر سے مسواک کاٹ رھے تھے مہاراج نہ تو آپ کے پرشوں نے ھمیں مسلمان بنانے کی کوئی کوشش کی اور نہ ھی آپ ھمیں جنت میں بھیجنے کی کوشش کرتے ھو سوریا جی نے مذاق کے انداز میں مہتمم صاحب کو چھیڑا علامہ نے پلٹ کر سوریا جی کو
دیکھا اور ان کا ھاتھ پکڑے پکڑے اپنے دفتر میں لے آئے آپ سنایئے آج ھمارے نصیب کیسے جاگے آپ نے ھمیں وقت کیسے دے دیا آپ جناب تو کسی کو لفٹ ھی نہیں کراتے علامہ نے مسکراتے ھوئے کہا دیکھو بھئ تم میرے بچوں کے سمان ھو مجھے غچہ دینے کی کوشش مت کرو سوال پہلے میں نے کیا ھے جواب بھی میرا حق
بنتا ھے آخر تم لوگ ساری دنیا کو مسلمان بنانے بستر اٹھائے پھرتے ھو بھیا میں تمہارے پڑوس میں عمر پوری کر چلا ھوں مجھے کسی نے ایک بار جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ میاں تم بھی مسلمان بننا چاھتے ھو یا نہیں میاں سنا ھے پڑوسی کے تو بڑے حق حقوق ھوتے ھیں اسلام میں چلو ھمیں پڑوسی کا حق ھی
دے دیتے سوریا جی کی بات نے علامہ کو سنجیدہ کر دیا وہ بڑی متانت سے بولے سوریا جی میرے والد مرحوم کی جان نکلنے سے پہلے وصیت آپ کے لئے ھی تھی وہ فرماتے تھے یہ سوریا جنتی آدمی ھے اس میں ساری عادتیں اللہ کی پسندیدہ ھیں بس تھوڑا کاغذی کام باقی ھے یہ اندر سے مسلمان ھے اللہ کی رحمت اس
پر ٹوٹ پڑنے کو تیار ھے بس تم اس لمحے کے لئے تیار رھنا جب سوریا جی میں رب کی جوت جاگے گی اس وقت انہیں سنبھالنا تمہاری ذمہ داری ھے علامہ کی بات سن کر سوریا جی ھکا بکا رہ گئے اچھا جی تو علامہ مرحوم بہت پہنچی ھوئی ھستی تھے ھمیں خبر بھی نہیں لگنے دی اور ھمیں پڑھتے رھے خیر علامہ
نے پوچھا سوریا جی آج آپ جاپ نہیں کر رھے بیٹا تمہیں معلوم ھے سورج نظر نہ آئے تو اپنا جاپ رہ جاتا ھے اچھا سوریا جی کبھی آپ آتے ھیں تو سورج دستیاب نہیں ھوتا کبھی سورج ھوتا ھے تو آپ بیمار ھوتے ھیں نہیں آتے آج آپ دونوں موجود ھیں مگر ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے یہ درمیان میں اڑچن کون
ڈال دیتا ھے بادل سوریا جی نے بڑے آئستہ سے کہا اچھا سورج ایک ھلکے بھلکے بادل کے آگے مجبور ھو گیا یا کسی اور ھستی نے جو سورج سے طاقتور ھے اپنے حکم سے ایک اڑچن کھڑی کر دی اور سورج مہاراج آگ اگلنے کے باوجود مجبور ھو گئے سوریا جی خاموش رھے اچھا سوریا جی کبھی ایسا ھوا کہ آپ کے ناغے سے
ناخوش ھو کر سورج نے بھی غصے سے اگلے دن ناغہ کر دیا ھو اور طلوع ھونے سے انکار کر دیا ھو ایسا کیسے ھو سکتا ھے سوریا جی نے پلٹ کر سوال داغ دیا ایسا کیوں نہیں ھو سکتا کیا سورج دیوتا کو غصہ نہیں آتا یا اسے آپ کے ناغے کی خبر نہیں ھوتی علامہ نے نرمی سے گفتگو کو جاری رکھا غصہ بھی آتا ھے
اور اس غصے سے پناہ کے لئے ھی ھم اس کی پوجا کرتے ھیں اور انہیں ھماری پوجا کی خبر بھی ھوتی ھے مگر کیا مگر علامہ نے بات کو جاری رکھا مگر سورج دیوتا مجبور ھے کہ وہ طلوع ھو وہ اپنی مرضی سے طلوع غروب نہیں ھو سکتا سوریا جی نے ایک سوچتی ھوئی شکل کے ساتھ جواب دیا مہاراج اگر دیوتا بھی
مجبور ھوتے ھیں تو پھر ھماری مجبوریاں کیسے دور کریں گے ایک مجبور دوسرے مجبور کی کیا مدد کر سکتا ھے کیوں نہ اسے مجبور کرنے والے سے ھی رجوع کر لیا جائے جو اسے طلوع و غروب کرتا ھے بادل بھیج کر اس کی دھوپ کو لپیٹ دیتا ھے سوریا جی چپ رھے علامہ نے بات جاری رکھتے ھوئے کہا سوریا جی آپ کے
پاس چھٹی کرنے کا اختیار اور ارادہ ھے سورج کے پاس نہ چھٹی کا ارادہ ھے اور نہ ھی اختیار ھے سوریا جی مہاراج آپ کو پتہ ھے کہ اسی ارادے اور اختیار کی بنیاد پر تمام کائناتی قوتوں کو کہا گیا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو اس کی بڑائی تسلیم کرو آج کائنات میں خالق نے پہلی صاحبِ ارادہ
صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کی ھے الله کے بعد ارادے کی مالک ایک ھستی پیدا کی گئ اور کائنات اور اس کے نظم و نسق میں کار فرما قوتوں کو اس آدم کے قدموں میں ڈال دیا ،جس آدم کی پشت میں آپ بھی تھے سوریا جی اور میں بھی تھا آپ نے آج تک اس ارادے کو استعمال نہیں فرمایا اپنے شرف کو استعمال نہیں
کیا اسے ویسے کا ویسا ھی رب کے پاس لے کر چلے جاؤ گے سوریا جی اور پھر اسے کیا منہ دکھاؤ گے اس سجدے کی قیمت تو چکاتے جاؤ جو اس اختیار کے صدقے فرشتوں سے کرایا تھا سوریا جی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے تھے
علامہ پہ بھی جلال اور جمال کی دونوں صفات کا غلبہ تھا کبھی ایک آرھی
تھی تو کبھی دوسری لگتا تھا انہوں نے اپنے پرشوں کی بات پلے باندھ کر خوب تیاری کر رکھی تھی سوریا جی کے استقبال کی سوریا جی آپ بہت نیک انسان ھیں ھم سب نے آپ کو بچپن سے دیکھا ھوا ھے شاید کہ مسلمانوں میں بھی آپ سا ھمدرد سخی اور خداترس انسان پوری بستی میں نہیں مگر سوریا جی پیپر ورک تو
کرنا پڑے گا دل کے دروازے کا تالا اندر سے کھلتا ھے اللہ نے سنت بنا رکھی ھے اس نے نبیوں کے باپ بیٹوں اور بیویوں کو بھی ھدایت نہیں دی جب تک کہ انہوں نے دل کا دروازہ نہیں کھولا کسی کے گھر بغیر چاہے جانے سے اللہ نے منع فرمایا ھےاس کا حکم ھے اسی گھر میں جاؤ جس گھر کا مالک انس محبت سے
تمہیں بلائے پھر وہ آپ کے اندر بغیر انس کے بغیر آپ کے بلائے کیسے آ جائے گا اس کی رحمت کا سمندر آپ کی چارپائی کے گرد چکر کاٹتا رھتا ھے سوریا جی بس ذرا دل کی کھڑکی کھول کے دیکھو وہ کیسے اندر آتا ھے سوریا جی اٹھ کر چلے تو لگتا تھا کہ وہ زمین پر نہیں پانی پر چل رھے ھیں زمین ان کے پاؤں
تلے سے کھسک گئ تھی وہ رات قیامت کی رات تھی دل میں گداز پیدا ھونا تھا کہ رحمت کی جھڑی شروع ھو گئ سوریا جی ساری رات رو رو کر معافیاں مانگتے رھے وہ ڈر رھے تھے کہ وہ صبح سے پہلے کہیں مر نہ جائیں کہیں پیپر ورک ادھورا نہ رہ جائے انہوں نے اللہ سے اپنی ساری نیکیوں کے عوض صبح تک جینے کی
مہلت مانگ لی آج انہین زندگی کی قدر آ گئ تھی صبح ابھی مدرسہ کھلنے کا وقت نہیں ھوا تھا کہ سوریا جی مہتمم کے گھر کے دروازے پر دستک دے رھے تھے دروازہ علامہ نے خود کھولا لگتا تھا وہ اسی بات کی توقع رکھتے تھے سوریا جی کی کیفیت سے لگتا تھا کہ جیسے ان کا پورا وجود بول رھا ھے مگر زبان
جواب دے گئ ہے علامہ نے ان کا ھاتھ پکڑا اور اپنی بیٹھک میں لے گئے سوریا جی کو چارپائی پر بٹھا کر وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گئے اور گویا ھوئے سوریا جی مہاراج اپ کچھ بھی مت بولیئے زبان کو بند رھنے دیجئے آج خود اللہ آپ کے وجود کو پڑھ رھا ھے وہ آپ کی دعوت قبول کر کے آپ کے دل میں آبیٹھا
ھےسوریا جی میں اسی کے احترام میں آپ کے قدموں میں بیٹھا ھوں زارو قطار روتے سوریا جی کو انہوں نے خوب رونے دیا وہ جانتے تھے ھر مسلمان ھونے والا پیدا ھونے والے بچے کی طرح روتا ھوا مسلمان ھوتا ھے اور یہ صحت کی علامت ھے،جان کی صحت کی بھی اور ایمان کی صحت کی بھی پھر اپنے ساتھ ناشتہ
کروایا اور پھر مدرسے کے تمام طلباء کے سامنے اسلام قبول کرایا گیا عبداللہ نام منتخب کیا گیا اور اسلام قبول کرنے کے ھفتہ دس دن بعد عبداللہ بس ایک بخار میں ھی اللہ کو پیارے ھو گئے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ھوئے علامہ دوست محمد قریشی فرماتے ھیں عبداللہ بھائی کے جنازے پر لگتا تھا
پورا دیوبند امڈ پڑا ھے ایک تو وہ خود ایک انسان دوست شخصیت تھے بلا تفریق مذھب و مسلک ھر ایک کے کام آنے والے اوپر سے جو اکرام مسلمانوں نے خاص کر دارالعلوم کے طلبا نے ان کا کیا اس نے ھندوؤں کے دلوں میں بھی گداز بھر دیا طلبا ان کی چارپائی کو کندھا دینے ٹوٹے پڑتے تھے جنازہ شروع ھوا
تو اعلان ھوا کہ جنازے میں تاخیر کی جائے کئی ھندو بھی مسلمان ھو کر جنازے میں شرکت چاھتے ھیں شیخ الجامعہ نے کہا کہ جو مسلمان ھونا چاھتے ھیں وہ صفوں میں کھڑے ھی ھمارے پیچھے شہادتین دہرا لیں باقی کام بعد میں ھوتے رھیں گے بہت سارے ھندوؤں نے جب شہادتین کا ورد شروع کیا تو جن کی نیت
شاید مسلمان ھونے کی نہ بھی تھی وہ بھی جذبات میں بہہ گئے سیکڑوں لوگ مسلمان ھوئے اس کے علاوہ ان کے ھندو رشتے داروں کو بھی جنازے میں کھڑا ھونے سے نہیں روکا گیا
قیامت کے فیصلے دنیا میں مت کریں
اللہ تعالیٰ سے ڈرا ڈرا کر اس کے ساتھ تعلق کو نفرت کی حد تک لے جانا عذاب قبر کی جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر مسلمانوں کی نیندیں حرام کر دینا اور ذرا ذرا سی خطا پر کروڑوں سال کی سزائیں سنانے والوں کا علاج یہ بابا ہی ہے جس نے مرنے پر ایسے خوشی کا اظہار
کیا ہے جیسے لوگ بچے کی پیدائش پر کرتے ہیں ہم اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں پھر جب اس کی طرف جاتے ہیں تو خوشی منانے میں کیا حرج ہےانا للہ وانا الیہ کا پیغام کیا ہے اللہ نے کیوں فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں یہ مت کہیں کہ یہ
سنت نہیں یہ واقعی سنت نہیں نہ رسول صلوات و سلام نے کیا اور نہ اس کی تلقین فرمائی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا وہ تصور بھی تو نہیں دیا جو مولویوں نے دیا ہے گویا اللہ پاک تنور گرم کیئے بیٹھا ہے اور ذرا ذرا سی خطا پر پکڑ کر تندور میں جھونک رہا ہے
خطرناک عورت
سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہاساتھ ہی قریب بیٹھے نوجوانوں کی ٹولی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو ہنس کردیکھا
اللہ بخشے اسے بہت اچھی عورت تھیبنا ناراض ہوئےبغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیامسکراہٹیں سمٹیںایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی کیا نہیں بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے کہتے تو ٹھیک ہی ہیں وہ عورت واقعی
بہت خطرناک تھی.اور حقیقتا میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے نوجوان جوشیلے انداز میں بولا
میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا میں تو اس سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی پرسکون جواب جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا ایسی عورتوں
ہالی ووڈ کے مشہور اداکار سلویسٹر سٹالون نے صرف 25 ڈالر میں اپنا عزیز کتا ایک شرابی کو بیچ دیا تھا یہ سٹالون کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا وہ بے گھر تھا اس کی جیب خالی تھی اُس کے پاس کام نہ تھا وہ اپنے کتے کو کیا خود کو بھی نہیں کھلا پا رہا تھا
بات سلویسٹر سٹالون کے دکھ بیان کرنے
کی نہیں بلکہ زندگی کیلئے طے کئے ہوئے آپ کے سکرپٹ کی ہے کیونکہ سٹالون نے تب لیجنڈ باکسر محمد علی اور چک ویپنر کا میچ دیکھا اور اس نے راکی کا سکرپٹ لکھ لیا یہ سکرپٹ لے کر وہ فلم پروڈیوسرز کے پاس بس ایک ڈیمانڈ کے ساتھ گیا اس سکرپٹ میں مجھے ہیرو کاسٹ کر لو سکرپٹ بہت اچھا تھا اسے
سوا لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ ڈالرز تک کی آفر ہوئی لیکن کوئی اسے ہیرو لینے کو تیار نہیں تھا سٹالون نے ہر آفر کا خالی جیب انکار کیا ڈیمانڈ ایک ہی تھی ہیرو تو میں ہی ہوں گا آخر ایک فلم ساز نے اسے 35 ہزار ڈالر اور ہیرو کا کردار آفر کیا اور یہ بلاک بسٹر فلم بن گئی اس شرابی سے سٹالون نے
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا قابلیت پوچھی گئ کہا سیاسی ہوں (عربی میں سیاسی افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں) بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی اسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا لیا جو
حال ہی میں فوت ھو چکا تھا چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا اس نے کہا نسلی نہیں ھے بادشاہ کو تعجب ھوا اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا اس نے بتایا گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی یہ ایک گائے کا دودھ پی کر
اس کے ساتھ پلا ھے مسئول کو بلایا گیا تم کو کیسے پتا چلا اصیل نہیں ھے اس نے کہا جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا مسئول کے گھر اناج گھی بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور