نظر کا دھوکہ

جیسے جیسے میلے کا دن قریب آ رہا تھا اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔ کبھی بکری، کبھی کتا ، کبھی سانپ ، آدھی لڑکی آدھا جانور۔۔۔ وہ یہ سب بن بن کر وہ آدھی لڑکی بھی کہا ں رہی تھی۔ گھنٹوں ایک ہی جگہ اکڑوں بیٹھے رہنا قبر میں زندہ لیٹے رہنے سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔
1
بچے اسے دیکھ کر خوش ہوتے۔ مگر وہاں صرف بچے تو نہیں ہوتے ہیں۔ جوان اوباش لڑکے بڑی عمر کے ہوس زدہ بھوکے مرد بھی ہوتے ہیں۔ لڑکے آوازیں کستے اشارے کرتے مرد للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ میلے میں اور بھی کئی کھیل تماشے ہوتے ہیں۔ یہ سب مرد وہاں بھی جاتے ہیں
2
مگر وہاں حرکت تو ہے۔ کم از کم انسان ہل تو سکتا ہے کسی سے بات تو کر سکتا ہے مسکرا تو سکتا ہے محض قبر میں بیٹھےیہ سب عذاب تو نہیں سہنا پڑتا۔ گھنٹوں بیٹھے رہنے کی ذہنی اذیت سے بچنے کے لئے وہ کبھی کبھی ارد گرد سے لا تعلق ہو کر جاگتے جاگتےسپنے دیکھنے لگ جاتی۔
3
اپنی پسند کے چہرے یا منظر کو سوچنا شروع کر دیتی۔ اے پتہ ہی نہ چلتا وقت کب گزر جاتا ۔ کون آیا کون گیا کون کیا کہہ کر گزرا اسے کوئی ہوش نہ ہوتی۔ اگر وقت گزارنے کا یہ گر اسکے ہاتھ نہ آیا ہوتا تو وہ سب چھوڑ بھاگ گئی ہوتی ورنہ پاگل تو ضرور ہو جاتی۔
4
ایک روز خیر دین نے اعلان کر دیا اس بار لومڑی ہوگئی اب لوگ بکری کتے کو دیکھ دیکھ کر تھک گئے ہیں۔

فیکے نے پوچھا ابالومڑی میں کیا ہے؟

فیکے پتر !بکری ممیانے لگتی ہے اس لئے صرف لومڑی ہی چاہیے وہ چپ چاپ کھڑی رہے گی۔لومڑی ملی تو جایئں گے ورنہ اس بار میلے پر جا کر خوار نہیں ہونا
5
یہ کہہ کر وہ لومڑی ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوا۔ کئی دن گزر گئے نا لومڑی پکڑ میں آئی نہ ہی کرایے ادھار پر مل سکی۔خیر دین کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی اور بلو کے دل کوسکون ملتا جا رہا تھا کہ اس باہر میلے کے عذاب سے جان چھٹ جائے گی۔

بلو خیر دین کی لڑکی۔۔اس کو بارواں سال لگ گیا تھا
6
قدرت نے غریبوں کے گھربھولے سے گوری چٹی کھلے ہاتھ پیر تھیکے نین نقش والی بلو رانی پیدا کر دی تھی۔

بلو اور اس کی ماں شیداں جو لومڑی کے نا ملنے پر خوش تھے کہ اچانک میلے سے دو روز پہلے خیر دین مہنگے دام دے کر لومڑی خرید لایا۔
7
خیر دین نے گھر میں پیر رکھتے ہیں لاوڈسپیکر پر آواز لگانے جیسے آوازیں لگانے شروع کر دی۔۔۔ دیکھو لومڑی کے دھڑ والی لڑکی دیکھو۔۔۔ وہ بہت خوش تھا اور فیکے کو کہہ دیا کہ پتر چل سامان باندھنا شروع کر، تنبو، قناتیں ، میز، کرسیاں، پردے سب رکھ اس بار بڑی دیہاڑی لگائیں گے۔
8
یہ سن بلو کا دل ڈوب گیا اور وہ کمرے میں جا بیٹھی۔ اس کو پتھر بن کے بیٹھنے کا سوچ سوچ کر ہی چیخیں مار کر رونے کا دل کرنے لگا۔

شیداں یہ دیکھ بولی اس بار بلو نہیں جائے گی۔
"کیوں کیا ہوا ہے اس بار اسکو"۔

کچھ شرم کر خیر دینا وہ بڑی ہوگئی ہے۔
"ایک ہی سال میں"؟
9
"ہاں ایک ہی سال میں ۔ لڑکیاں تو کھبنیاں ہوتی ہیں کب بڑی ہوتی ہیں پتا ہی نہیں چلتا۔ اب وہ نہیں جائے گی"۔ ۔ شیداں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
"تو اپنی بک بک بند کر اور اسکے کپڑے لتے تیار کر"
"اب اسکا جانا ٹھیک نہیں تھوڑا خیال کرو"
"کچھ نہیں ہوتا"
10
"میں اسکو اکیلا نہیں جانے دوں گی، میں اسکا خیال رکھوں گی"
"سن رہے ہو فیکے ۔۔ یہ اسکا خیال رکھے گی جیسے ہم اس کے کچھ نہیں۔ باپ بھائی سے زیادہ کون خیال رکھ سکتا ہے۔"
"جوان لڑکی کا اس کی ماں سے زیادہ کوئی اور خیال نہیں رکھ سکتا"
"کیا اس کا خیال نہیں رکھا آج تک ہم نے"۔
11
فیکا بولا"کسی نے اس کا کچھ اتار لیا کیا"
"تو چپ رہ فیکے"۔۔ شیداں غرائی۔
بس کہہ دیا وہ نہیں جائے گی اکیلی ۔ تم دونوں باپ بیٹا شرم کرو بیٹی کی کمائی کھاتے ہو۔ جاو کوئی اور کام کرو۔
"شرم کس بات کی ۔۔۔ محنت کرتے ہیں تماشا دیکھاتے ہیں"۔
12
"اس دھوکے میں مت رہنا کہ لوگ تماشا دیکھنے آتے ہیں وہ تمھاری بیٹی کا چاند سا مکھڑا میلا کرنے آتے ہیں"
"دیکھنے سے میلا ہوتا ہے تو ہو جانے دو۔ساتھ تھوڑی ہی لئے جاتے ہیں اس کو"
بکواس بند کر فیکے جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہو"
"اچھا ماں تول کے لے جایئں گے تو تول کر واپس لے لینا"
13
"شرم کرو ۔۔ غیرت بھی کسی چیز کا نام ہے"
"شرم کس بات کی۔۔۔۔لڑکی کا چہرہ۔۔ لومڑی کا دھڑ۔۔۔ صرف نظر کا ہی تو دھوکہ ہے۔ " فیکا بولا۔
"فیکے تو چپ کر۔ اچھا شیداں جانے دے۔ حفاظت سے لے جائیں گے اور وعدہ رہا اگلی بار کچھ اور کام کر لیں گے۔ اب جانے دے"
14
شیداں نے مارے باندھے بلو کا چھوٹا موٹا سامان باندھا۔ شدید گرمی کے دن اور پہروں پردوں کے درمیاں کا حبس اور گرمی سوچ کر شیداں نے اس کے لئے کرتی بھی سی ڈالی۔ سارا سامان باندھا گیا اور وہ چاروں منہ اندھیرے نکل کھڑے ہوئے۔ بلو، فیکا ، خیر دین اور لومڑی۔
پہلے روز بہت رش رہا۔
15
بچوں اور خواتین کا دن تھا مگر اچھے خاصے مرد بھی تھے۔ ہلکے پھلکے بادل چھائے رہے موسم خوشگوار رہا۔ ٹکٹیں رات گئے تک بکتی رہیں۔ ابا خوش تھا دونوں وقت اچھا کھانا کھلایا۔
اگلے روز سارا دن خوب بارش ہوتی رہی۔ وہ خوش تھی آج میلے میں کسی نے نہیں آنا۔ سارے میں پانی جمع ہوگیا تھا.
16
مگر اس سے اگلے روز سورج سوا نیزے پر آگیا اور حبس جان نکالنے لگ گیا۔ آج آخر ی دن تھا اور صرف مردوں کے لئے مخصوص تھا۔ دن کے آغاز پر ہی لوگوں کا رش امڈ آیا۔ ہجوم موت کے کنویں، ٹھیڑ، سرکس ، کشتی ہر جگہ پر موجود تھا مگر خیر دین صبح سے ہاتھ ہر ہاتھ دھر ے بیٹھا تھا۔
17
"فیکے یار لگتا ہے اب لوگوں کو آدھے دھڑ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تیری ماں ٹھیک کہتی ہے کچھ اور سوچنا پڑے گا" خیر دین کو لومڑی پر لگائی رقم ڈوبتی نظر آنے لگی۔

"ابا پرسوں تو بہت رش رہا۔"
"وہ بچوں کا دن تھا ۔۔ بڑوں اب اس سے نہیں بہلتے"
18
یہ کہہ کر خیر دین ٹکٹ گھر سے نکلا کہ کچھ دیر میلہ ہی گھوم آئے۔

وہ گھنٹہ بھر پھرتا رہا واپس آ کر دیکھتا ہے کہ رش پڑا ہوا ہے۔
"فیکے یہ کیا ہوا۔"

"ابا تو ٹکٹ گھر سنبھال میں اندر جا کر دیکھتا ہوں۔ اندر اور لوگوں کی جگہ نہیں بچی ۔ میں انکو باہر نکالتا ہوں"
19
خیر دین نے دیکھا فیکا جن کو باہر نکال رہا تھا وہ دوبارہ آکر ٹکٹ خرید رہے تھے ۔ یہاں تک کہ زندگی میں پہلی بار لائن لگ گئی۔
"فیکے باہر آ"

۔۔۔۔
فیکا مسکراتا ہوا باہر آیا ۔۔۔" فیکے یہ کیا ماجرا ہے "
"کچھ نہیں ابا گرمی اور حبس بڑھ گئی ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ سب نظر کا دھوکہ ہے"
20
"ابا تو ٹکٹیں بیچ ۔ میں اندر سنبھالتا ہوں"
"فیکے گرمی؟۔۔ تو اندر کونسی برف پڑ رہی ہے ؟"
"ابا چھوڑ ٹکٹیں بیچ بس" یہ کہہ کر فیکا اندر چلا گیا

خیر دین سے صبر نہ ہوا۔مچان سے اترا اور تنبو کے اندر چلا گیا۔ اند ر پاوں رکھنے کی جگہ بھی نہیں تھا۔ سانس تھا کہ لینا مشکل ہو رہا تھا۔
21
ہجوم چیرتا آگے بڑھا ۔ غور سے دیکھا کہ بلو ہجوم سے تو بے نیاز ہے مگر کیا اپنے کرتے سے بھی بے نیاز ہے۔
اس کوسمجھنے میں چند کمحے لگے کہ لوگ کس چیز کو دیکھ رہے ہیں۔
گرمی اور حبس سے بلو کی کرتی بدن سے چپک کر اس کی جلد رنگ کی ہو گئی ہے۔
22
شاید صرف چہرہ نظر آنے اور گرمی کی غرض سے اس نے نیچے بھی کچھ پہنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ مگر اس پر پڑا پردہ کھسک گیا تھا اور لومڑی سے ساتھ ساتھ لڑکی کا اوپر کا دھڑ بھی صاف نظر آ رہا تھا

خیر دین غصہ سے باہر نکلا کہ فیکے کو پردہ ٹھیک کرنے کو کہے اور کچھ دیر کو تماشہ بند کردے۔
23
مگر تماشائیوں کی لمبی ہوتی قطار دیکھ کر وہ پھر ٹکٹیں بیچنے لگ گیا۔
@threadreaderapp

please compile

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

8 May
لاہور کے میوزک سینٹر: بکھری سنہری ، مد بھری یادیں

میں اس نسل سے ہوں جو ستر کی دہائی میں پیدا ہوئی جس نے زمانے کے بہت سے اتار چڑھاو بہت ہی کم عرصے میں دیکھے ۔ جس نےاپنے بہت سے دل و جاں سے جمع شدہ اثاثے کاڑ کباڑ بنتے دیکھے ہیں۔ انہیں میں ایک اثاثہ میوزک کیسٹس کاتھا۔
کیسٹس دو طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ عمومی طور پر بہت سے کمپنیاں تھیں جو کیسٹس ریلیز کرتیں۔ 20 روپے کی پری ریکاڈیڈ کیسٹ مل جاتی تھی۔ سونک ، ایگل ، ہیرا اور ایسی کئی میوزک کمپنیاں بینکا گیت مالا، جھنکار والیم اور ایسے لا تعداد نمبر انڈین اور پاکستانی فلموں کے ریلیز ہوتے۔
شالیمار EMI, MHV اور لوک ورثا غزل گائیگی اور کلاسیکل میوزک کے لئے مشہور تھے۔

لیکن صاحب ذوق حضرات پری ریکارڈیڈ کی بجائے اپنی کلیکشن خود تیار کرواتے یا ان میوزک سینٹرز کا رخ کرتے جن کا میں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں۔ یقیناً آپ میں سے بہت سے حضرات کے لیے یہ تھریڈ یادوں کو تازہ کر دے گا
Read 14 tweets
10 Apr
سینگ اور سرگم

عجیب وغریب بچے پیدا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ مگر ریاست کے کسی دور دراز مقام پر بغیر کانوں کے ایک بچے کی پیدائش پر بادشاہ کا پریشان ہونا نہ قابلِ فہم بات تھی۔

اگلے ہی روز وزیر نے ایک اور ایسے ہی بغیر کانوں کے بچے کی پیدائش کی اطلاع دی تو بادشاہ ٹھٹھکا۔
1
کیا یہ محض اتفاق تھا؟
بادشاہ کو کسی غریب کے گھر ایسے بچے کی پیدائش سے کیا لینا مگر پریشانی یہ تھی کہ مدتوں اور بہت سی دعاوں منتوں کے بعد ملکہ کی گود ہری ہوئی تھی اور بادشاہ کو ولی عہد ملنے والا تھا۔ اگر وہ بھی ایسا ہی پیدا ہوا تو۔۔۔ پھر؟ بادشاہ کو سوچ کر جھرجھری آگئی۔
2
پھر ایسی خبریں روز کا معمول بننا شروع ہوگئی تو بادشا ہ نے اجلاس طلب کر لیا۔ کوئی وزیر مشیر پیر فقیر ان واقعات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ شاہی طبیب نے ملکہ کے لئے کچھ ادویات اور پرہیز بتائے مگر وجہ بتانے سے وہ بھی قاصر رہا۔ بادشاہ کا آرام و سکون غارت ہو گیا۔
3
Read 20 tweets
27 Mar
اگر آپ ایک حساس دل و روح کے مالک ہیں تو یہ کہانی آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی منشا یاد کا ایک شاہکار۔۔۔آپ کے لئے اختصار کے ساتھ۔

راستے بند ہیں!

مجھے سمجھ نہیں آتی وہ میلے پر لینے کیا آ یا جب اسکی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔
اس سے سوال پوچھوں تو وہ عجیب سا جواب دیتا ہے
1
"میں میلے میں نہیں آیا۔۔ میلہ خود میرے چاروں طرف لگ گیا ہے۔ اور میں اس میں کھو گیا ہوں واپسی کا راستہ ڈھونڈوں تو بھی نہیں ملتا"

مجھے اس کی بات پر یقین ہے۔ ویسے بھی میں اس کی نگہداشت پرمعمور ہوں اس کی حفاظت میرا ذمہ ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں اس کی حفاظت پر کس نے معمور کیا ہے
2
بس مجھے اس کے ساتھ رہنا ہے اور بھٹکنے سے بچانا ہے۔

وہ انتہائی ندیدہ آدمی ہے۔کسی کھانے کی دکان پراس کے قدم زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔ گھنٹوں کھڑا رہے گا۔ صبح پوڑیوں والے کی کڑاہی کے سر پر کتنی دیر کھڑا جھلستا رہا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیب میں کچھ نہیں ہے
3
Read 16 tweets
24 Mar
شکوہ جواب ِ شکوہ

پنجابی زبان میں اپنی طرز کی ایک الگ چیز!

سید قاسم شاہ

#پنجابی_ماں_بولی
Read 4 tweets
20 Mar
سارنگی

میرے اندر ایک کھلبلی سی مچ گئی۔
میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں لطیف جذبات سرد پڑ جاتے ہیں ۔ آدمی کے اندر کا بیل تھک کر تھان پر بیٹھا جگالی کر رہا ہوتا ہے۔ اسے صرف ٹھوکروں سے نہیں اٹھا یا جا سکتا ، تابڑ توڑ ڈنڈے برسانے پڑتے ہیں۔

یہی کچھ میرا حال ہے۔

1
اس کی موت کی خبر مجھ پر تابڑ توڑ ڈنڈوں کی طرح برس رہی تھی

سر پر رکھا دھرتی بوجھ اتار کر پیچھے دیکھو تو سوائے تیز مٹی کے جھکڑوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر اس میں بھی کچھ چہرے ایسے ہیں جو ابھی دھندلائے نہیں۔کچھ کانوں میں رس گھولتی آوازیں ہیں انہیں میں ایک آواز اسکی ہے۔

2
میں شہر میں رہتا تھا زیادہ عرصہ وہیں پلا پڑھا۔ ہاں گرمیوں کی چھٹیوں میں گاوں دو تین مہینے ماں کے پاس گزار آتا۔ایسی ہی گرمیاں تھیں جب گاوں میں ہمسائیوں میں شادی تھی۔ ساری رات گیت گائے جاتے۔ خوشی کے گیت ۔ گانے والی تھک جاتیں تو سب بے سرا ہو جاتا۔
3
Read 23 tweets
22 Feb
Inside the last matriarchy in Europe
وسعتِ قلب، توانا ہاتھ۔۔۔ یور پ کی آخری نسواں حکمرانی

انسانی تمدن اور تہذیب اپنے اندر اتنی متنوع ہے کہ خود انسانی عقل و مشاہدہ اسکا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

آئیے آپ کو ایک ایسے معاشرے اور تہذیب کا احوال بتاتے ہیں جسے یورپ کی
آخری نسواں حکمرانی Inside the last Matriarchy in Europe کہا جاتا ہے۔

بالٹک سمندر میں جزائر پر شتمل شمالی یورپ کا ایک ملک ایسٹونیہ کا ایک جزیرہ "کہنو" کہلاتا ہے۔ رقبہ تقریباً 16 مربع کلو میٹر اور آبادی 600 نفوس پر مشتعمل ہے۔ بیشتر نوجوان نسل شہروں کو ہجرت کر چکی ۔
اس جزیرے کے رہن سہن کی خاص با ت یہاں کی ادھیڑ عمر خواتین ہیں جو جزیرے پر عملاً اور کلّی حکمرانی کرتی ہیں۔

تمام مرد ماہی گیری سے وابستہ ہیں اور زیادہ تر سمندر میں ہوتے ہیں انکی غیر موجودگی میں جزیرے کا انتظام و نسق خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔ کھیتی باڑی ہو کہ گلہ بانی،
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(