کُچھ مہینے پہلے ایک دوست کے والد نے مجھے اپنے گھر بلایا اور کہنے لگے "بیٹا میری بیٹی کا فلاں جگہ سے رشتہ آیا یے اور وہ لوگ ماشاءاللہ اچھے کھاتے پیتے عزت دار گھرانے کے لوگ ہیں، اور وہ لڑکا آپ کی پہچان کا ہے، مجھے بتاؤ وہ لڑکا کیسا ہے کیا میری بیٹی کے لیۓ وہ لڑکا بہتر ثابت ہوگا"؟
میں نے لڑکے کا نام سنا تو اسی وقت نفی میں سر ہلادیا کہ نہیں انکل وہاں شادی مناسب نہیں، اس لڑکے میں بہت زیادہ خامیاں ہیں آپ کی بیٹی خوش نہیں رہ سکے گی۔
انکل نے مسکرا کر کہا، "ٹھیک ہے بیٹا بس یہی معلوم کرنا تھا" اسکے بعد مجھے کچن سے مچھلی کی خوشبو آنا بند ہوگئی اور ایک کپ
چاۓ پی کر میں واپس آگیا۔
کچھ دن بعد مجھے اسی دوست کی طرف سے بہن منگنی کا دعوت نامہ ملا، کارڈ میں نام پڑھ کر حیران ہوگیا کہ یہ تو وہی لڑکا ہے جس کے لیۓ میں نے انکل کو منع کیا تھا، بہرحال منگنی کی تقاریب میں ویسے ہی شرکت نہیں کرتا چاہے دو نیک ترین انسانوں کی ہی کیوں نا ہو۔
بہرحال منگنی کے بعد انکل سے ملاقات کی اور مبارکباد دی، انکل نے خوشی خوشی مبارک باد وصول کی اور کہنے لگے، بیٹا! آپ کی باتوں پر غور کیا لیکن پھر میں نے سوچا کہ خامیوں سے کونسا انسان پاک ہے ؟ اس لڑکے میں چند خامیاں ہیں لیکن اسکے والدین بہت اچھے ہیں، ماشاءاللہ کھاتے پیتے گھرانے
کے ہیں، بڑا گھر یے، لڑکے کا اپنا کاروبار ہے اپنی گاڑی ہے اور اللہ سے امید ہے کہ شادی کے بعد لڑکے میں اچھایئاں آجایئں گی، اور تو اور میرے دوستوں نے بھی تعریف کی کہ آپ کی بیٹی رانی کی طرح رہے گی، گاڑیوں میں گھومے گی۔"
انکل کی بات سنتا رہا، مسکراتا رہا، آخر میں
اس امید کے ساتھ دعا دے کر واپس آگیا کہ انکل کی تمام باتیں سچ ثابت ہوجائیں۔
شادی کا دن آگیا، لڑکے والے خوب دھوم دھام سے ہلہ گلہ کرتے ہوۓ برات لیکر آۓ، لڑکی والوں نے بھی شادی کے لیۓ بڑا اہتمام کیا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ انکل نے 3 لاکھ روپے ادھار
لیۓ ہیں تاکہ بیٹی کی شادی کے معاملات خیر و عافیت سے نمنٹ جایئں، یقینن وہ 3 لاکھ لینے کے لیۓ بھی انکل کو لوگوں کے آگے طرح طرح کی منتیں کرنی پڑی ہونگی، خیر رات 12 بجے رخصتی ہوگئ اور لڑکی سسرال پہنچ گئ۔
14 ماہ بعد آج صبح مجھے کہیں سے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کو طلاق ہوچکی ہے، ایک
ننھا پھول ساتھ لیے اپنے گھر عدت میں بیٹھی ہے۔
یہ سن کر جیسے پیروں تلے زمین نکل گئ ہو، آسمان میرے سر پر آگرا ہو، میں نے آفس سے جلدی کام نمٹایا اور اسی دوست کے پاس چلا گیا، معلوم کرنے پر دوست کہنے لگا کہ "اس لڑکے کا باہر کی خواتین کے ساتھ تعلق تھا،
پوری پوری رات باہر رہتا تھا، بیوی وجہ پوچھتی تو بری طرح جھڑک دیتا، ڈانٹتا اور گالیاں دیتا تھا، بعض اوقات مارتا بھی تھا، جب حالات حد سے زیادہ خراب ہوۓ تو بہن نے بھی سامنے سے جواب دینا شروع کردیا جھگڑے اور زیادہ بڑھتے گۓ اور نتیجہ لڑکے نے فورن طلاق دے دی"۔ میرے پاس کہنے کو
الفاظ نہیں تھے، دعایئں دے کر واپس آگیا۔
میں اکثر کہتا آیا ہوں رشتہ کرنے میں دین دیکھو، اللہ کے احکامات پڑھو، رسول اللہﷺ کی ہدایات پڑھو، کبھی رسوائ نہیں ہوگی، ایک بیٹی جس کو اتنی پیار و محبت سے پال پوس کر بڑا کیا، ہمیشہ سے اسکے ناز و نخرے اٹھاۓ، اور ایک پل میں بغیر سوچے سمجھے
کسی مالدار جانور کے کھوٹے سے باندھ دیا کہ پیسے والا ہے بیٹی خوش رہے گی اللہ کی قسم تباہ کردینے والی سوچ ہے۔
میں اکثر اپنی تحاریر میں لکھتا ہوں کہ سٹیٹس دیکھ کر رشتے مت کرنا، دینداری دیکھ کر رشتے کرنا تمہاری اولادیں تمہیں مرنے کے بعد بھی دعایئں دیں
اور اگر ہم اسی طرح ہاۓ سٹیٹس، اچھی پوسٹ، اپنا بزنس، اپنی گاڑی، بڑا گھر، والی باتیں کرتے رہے تو جاؤ جا کر دیکھو معاشرے میں طلاقوں کی شرح کس قدر تیزی سے بڑھتی جارہی ہے، گھروں کے گھر اجڑ چکے ہیں، میں کہتا ہوں یہ میاں بیوی کی بربادی نہیں نسلوں کی بربادی ہے۔
خدارا رشتے کرنے میں صرف دین دیکھو، اخلاق دیکھو، رشتے کرنے میں اللہ کے احکامات پڑھو، رشتے کرنے میں رسول اللہﷺ کی ہدایات پڑھو۔
رشتے کرنے میں رسول اللہﷺ کی ہدایات پڑھو۔کہ
رشتے کرنے میں رسول اللہﷺ کی ہدایات پڑھو۔
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے۔
ملالہ یوسف زئی اور اس کے باپ ضیا الدین کے حوالے سےبہت کچھ ایسا ہے جو آپ کو ضرور جاننا چاہئے ۔۔
ملالہ کی (نام نہاد) کتاب " I am Malala" دراصل کرسٹینا لیمب نامی جرنلسٹ نےلکھی جس کی اصل وجۂ شہرت پاکستان اور پاک فوج کی مخالفت ہے اور اس پر حکومت
پاکستان کی جانب سے پابندی ہے۔
صرف چند باتوں کی نشان دہی سے آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایک پندرہ یا سولہ برس کی بچی اتنا منظم اور مربوط فساد کا حامل پروپیگنڈہ ہر گز تیار نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کا اسلوب تحریر اتنا پختہ ہو سکتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک تجربہ کار شرپسند اور
مفسد ذہن ہے اور باقاعدہ سوچی سمجھی سازش ۔جس پر خود ملالہ یقین رکھتی ہے۔ اس کتاب میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
سلمان رشدی کی گستاخانہ کتاب " شیطانی آیات" کے بارے میں لکھتی ہے کہ " اس کے والد کے خیال میں وہ آزادی اظہار ہے"
اس کتاب میں قرآن مجید پر تنقید کی گئی
ایک دور دراز کے گاؤں میں
جولاہا رہتا تھا۔ قسمت سے اس کی شادی ہو گئی۔ بیوی نے چولہا چوکا سنبھالا تو اسے گھی شکر لگا کر روٹی پکا کر دی۔ جولاہے نے جی بھر کر کھائی اور اپنے ہاتھ اپنے بازو سے پونچھ لئے اور کمر سیدھی کرنے کو دو گھڑی لیٹ گیا۔ گرمیوں کا موسم تھا، مکھیوں نے
بازو پر یلغار کر دی۔ جولاہے نے جھلا کر بازو پر ایک ہاتھ جو مارا تو بہت سی مکھیاں وہیں ڈھیر ہو گئیں۔ گنیں تو تیس نکلیں۔ جولاہے نے سر اونچا کیا اور اپنی نئی نویلی دلہن پر رعب جماتے ہوئے کہا ”دیکھی میری بہادری؟ ایک ہی وار میں تیس کے تیس دشمن ڈھیر کر دیے۔ آئندہ سے مجھے تیس مار خان
کہہ کر بلایا کرنا“۔ بیوی نے جواب دیا کہ ”میں تو کہہ دوں مگر سارا گاؤں تمہاری سات نسلوں سے واقف ہے، وہ تمہیں کیوں خان مانے گا؟ “
فیصلہ ہوا کہ گاؤں چھوڑ کر کسی دور دراز علاقے میں جایا جائے جہاں کوئی جولاہے کو جانتا نہ ہو اور وہاں تیس مار خان بن کر رہا جائے۔ کالے کوسوں دور کے ایک
خاتون اول محترمہ بشری عمران نے لاہور میں " شیخ ابوالحسن شازلی صوفی ازم سائنس و ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر" کا افتتاح کر دیا ہے ۔ یہ سینٹر ملک کی معروف جی سی یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں قائم کیا جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر 100 ملین روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے
ساتھ اس کا علماء کرام ، صوفی ازم پر کام کرنیوالے سکالرز اور مذہبی و خانقاہی اداروں سے اشتراک ہوگا جبکہ طلباء کو سکالرشپس کی مد میں بھی خطیر رقوم فراہم کی جائیں گیں۔ خاتون اول کے وژن کے مطابق ریسرچ سینٹرز کا دائرہ کار پنجاب بھر میں بڑھایا جائے گا اور صوبے میں ریسرچ سینٹر
تک ریموٹ رسائی دی جائے گی تاکہ لوگ گھر بیٹھے اس سے مستفید ہوسکیں۔ اس سلسلہ میں سکالر شپ کیلئے راہنمائی کی غرض سے ہائر ایجوکیشن کے تعاون سے آن لائن رہنمائی مرکز پورٹل بھی قائم کیا جائے گا۔
یہ ایک خبر جبکہ دوسری جانب آج کی ہی دو مزید خبریں بھی پڑھ لیں ، پشاور میں صوبہ
آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس " پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی
آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم 2020 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
جاپان میں معاشرتی علوم " پڑھائی" نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔
جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل
#فوجی_دماغ
میرے والد صاحب 1971ء سے 1984ء تک پاکستان ائیر فورس بیس میں خطیب رہے، اس زمانے میں ہر سال بیس پر "سیرت کانفرنس" منعقد ہوتی، غالباََ 1980ء میں سیرت کانفرنس ہونے لگی تو سرکاری اجلاس میں طے کیا جانے لگا کہ بیس کے باہر سے کس بڑے عالم کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا
👇
جائے، والد صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا جو منظور کر لیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ڈائس پر مولانا اور بیس کمانڈر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، بیس کمانڈر نے مولانا سے اظہار تشکر کے طور پر کہدیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بہت بڑے عالم اور شیخ الحدیث ہیں،
👇
مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ ہماری دعوت پریہاں تشریف لائے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے فرمایا، مجھے بھی یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے، باقی سچ یہ ہے کہ میں کوئی بڑا عالم یا شیخ الحدیث نہیں ہوں بلکہ ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔
کانفرنس کے اگلے روز بیس کمانڈر نے والد صاحب کو طلب کر
👇
کسی شہر مین ایک رقاصہ رہتی تھی، جسے ٹھیک سے ناچنا نہیں آتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز اسے کسی دوسرے شہر جانا پڑا۔ اس شہر میں اس نے اپنے آپ کو ایک نامور رقاصہ مشہور کردیا۔ رقاصہ کو دعوت دی گئی۔ اس کے رقص سے محظوظ اور لطف اندوز ہونے کے لیے شہر کے شوقین اکھٹا ہوئے۔ وہ ٹھیک سے
ناچنا تو جانتی نہیں تھی، مرتی کیا نہ کرتی۔ ناچنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور ناچار ناچنا شروع کیا، مگر ناچ نہ سکی۔ اپنے عیب کو چھپانے اور جھینپ مٹانے کے لیے اس نے کہا، ٹھیک سے ناچوں تو کیسے؟ یہ آنگن ٹیڑھا ہے۔ اس پر کسی نے فقرہ کسا، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔”
کہاوت کا مطلب ہے "نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نہ ہوسکنا۔” یہ مثل اس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے یا اس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر الزام رکھے۔
اس کی زندہ مثال کپتان اور اس کی حکومت ہے جو لگ بھگ تین سال پورے کرنے کو ہے