ایک دور دراز کے گاؤں میں
جولاہا رہتا تھا۔ قسمت سے اس کی شادی ہو گئی۔ بیوی نے چولہا چوکا سنبھالا تو اسے گھی شکر لگا کر روٹی پکا کر دی۔ جولاہے نے جی بھر کر کھائی اور اپنے ہاتھ اپنے بازو سے پونچھ لئے اور کمر سیدھی کرنے کو دو گھڑی لیٹ گیا۔ گرمیوں کا موسم تھا، مکھیوں نے
بازو پر یلغار کر دی۔ جولاہے نے جھلا کر بازو پر ایک ہاتھ جو مارا تو بہت سی مکھیاں وہیں ڈھیر ہو گئیں۔ گنیں تو تیس نکلیں۔ جولاہے نے سر اونچا کیا اور اپنی نئی نویلی دلہن پر رعب جماتے ہوئے کہا ”دیکھی میری بہادری؟ ایک ہی وار میں تیس کے تیس دشمن ڈھیر کر دیے۔ آئندہ سے مجھے تیس مار خان
کہہ کر بلایا کرنا“۔ بیوی نے جواب دیا کہ ”میں تو کہہ دوں مگر سارا گاؤں تمہاری سات نسلوں سے واقف ہے، وہ تمہیں کیوں خان مانے گا؟ “
فیصلہ ہوا کہ گاؤں چھوڑ کر کسی دور دراز علاقے میں جایا جائے جہاں کوئی جولاہے کو جانتا نہ ہو اور وہاں تیس مار خان بن کر رہا جائے۔ کالے کوسوں دور کے ایک
شہر میں پہنچ کر تیس مار خان نے ملازمت تلاش کرنی شروع کی۔ پتہ چلا کہ راجہ کی فوج میں بھرتی ہو رہی ہے۔ تیس مار خان ادھر پہنچے۔ داروغہ نے نام پوچھا تو کہنے لگے کہ ”میں تیس مار خان ہوں، ایک وار میں تیس دشمنوں کو ڈھیر کرنے والا بہادر تیس مار خان“۔
داروغہ بہت متاثر ہوا اور راجہ کو خبر
کی کہ ایک بلوان آیا ہے جو ایک وار میں ہی تیس دشمنوں کو مردار کر دیتا ہے۔ راجہ بے تاب ہوا اور ایسے بہادر کی زیارت کرنے کو اسے دربار میں بلا لیا اور اس کی خوب تکریم کی۔ یہ دیکھ کر اس کے پرانے درباری حسد کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے راجہ کو کہا کہ ”شکر ہے کہ ایسا بڑا سورما آپ کے دربار
میں آیا ہے۔ اب یہ ضرور ان سات خونخوار ڈاکوؤں سے ہماری پرجا کو نجات دلائے گا جو پہاڑوں میں مسافروں کو قتل کر کے ان کا مال لوٹ لیتے ہیں“۔ راجہ کو یہ آئیڈیا پسند آیا اور اس نے تیس مار خان کو ساتوں پہاڑی ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنے کا حکم دیا۔
تیس مار خان نہایت پریشانی کے عالم میں
گھر واپس پہنچا اور بیوی کو کہا کہ چلو بھاگ چلتے ہیں اس سے پہلے کہ میں جان سے جاؤں۔ بیگم تیس مار خان نے اسے تسلی دلاسہ دیا اور سات میٹھے پراٹھے زہر ملا کر پکا دیے اور تیس مار خان کو کہا کہ پہاڑوں پر جاؤ اور کچھ مال اور یہ پراٹھے ایک گٹھڑی میں باندھ لو۔ ڈاکو آئیں تو دور سے
ہی ان کو دیکھ کر گٹھڑی پھِینک کر بھاگ جانا اور چھپ کر ان کو دیکھتے رہنا۔
تیس مار خان نے یہی کیا۔ ڈاکوؤں نے اسے گٹھڑی پھینک کر بھاگتے دیکھا تو رک کر گٹھڑی کھولی اور اس میں مال دولت دیکھ کر اسے آپس میں بانٹنے لگے۔ سامان کے ساتھ بندھے سات میٹھے پراٹھے دیکھ کر ان کی
بھوک کھل گئی۔ سب نے ایک ایک پراٹھا کھایا اور سب وہیں ڈھیر ہو گئے۔ تیس مار خان چھپ کر انہیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے ان کا مال دولت اور ہتھیار اپنی گٹھڑی میں باندھے اور راجہ کے دربار میں آ کر اس کے سامنے ڈھیر کر ڈالے۔
راجہ یہ مال دیکھ کر خوش ہوا لیکن پھر اس
نے دیکھا کہ ہتھیار تو کل سات تھے۔ اس نے پوچھا کہ خان صاحب، آپ کے ہتھیار کہاں ہیں؟ تیس مار خان نے فخر سے سر بلند کر کے کہا ”مجھے پتہ چلا تھا کہ وہ صرف سات ہیں۔ بیس تیس جنے ہوتے تو میں ہتھیار لے کر ان کے مقابلے پر نکلتا۔ میں تو ایک وار سے ہی تیس کو مار ڈالتا ہوں۔ صرف
سات دشمنوں کو مارنے کے لئے تو میرے ہاتھ ہی کافی ہیں“۔ راجہ بہت متاثر ہوا اور تیس مار خان کو اس نے اپنی فوج کا سپہ سالار بنا دیا۔
تیس مار خان کی یہ تکریم دیکھ کر درباری مزید حسد میں مبتلا ہوئے۔ کہنے لگے کہ ایک آدم خور شیر نے قریبی گاؤں میں اودھم مچایا ہوا ہے۔ کوئی
اسے مار نہیں سکا اور وہ درجنوں آدمی کھا گیا ہے۔ اسے تو صرف تیس مار خان جیسا جیدار ہی قابو کر سکتا ہے۔ راجہ نے سوچا اور حکم دیا کہ تیس مار خان کو گاؤں کی حویلی میں پہنچایا جائے۔
تیس مار خان اور اس کی بیوی گاؤں پہنچے ہی تھے کہ موسلا دھار مینہ برسنے لگا۔
وہ ہبڑ تبڑ میں کمرے میں گھسے ہی تھے کہ دروازہ کھلا پا کر شیر بھی حویلی میں آن پہنچا۔ تیس مار خان نے دروازے کی جھری سے دیکھا کہ باہر صحن میں شیر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اونچی آواز میں بولے ”تلوار پکڑاؤ، میں ابھِی جا کر اس شیر کی بوٹی بوٹی کرتا ہوں“۔ بیوی کہنے لگی کہ
”ٹھہریں خان صاحب، اس اندھیری رات میں شیر بہت خطرناک ہو گا“۔ تیس مار خان بنکارے ”شیر سے میں کیا ڈرتا ہوں۔ ایسے سو شیر مار چکا ہوں۔ مجھے ڈر تو ٹپکے کا ہے۔ چھت سے ٹپ ٹپ ٹپکا گر رہا ہے مجھے اس کا خوف ہے، ایسے ہزار شیروں کو یہ ٹپکا کھا جاتا ہے“۔
شیر ڈر گیا کہ یہ ٹپکا نہ جانے کیا بلا ہے جو ہزار شیروں سے بڑھ کر خطرناک ہے۔ وہ ڈر کر سٹور میں چھپ گیا تاکہ ٹپکے سے بچ سکے۔ تیس مار خان نے یہ دیکھتے ہی دوڑ لگائی اور باہر سے سٹور کا دروازہ بند کر دیا۔ اگلی صبح اس نے راجہ کو پیغام بھیجا کہ اس نے شیر کو زندہ پکڑ لیا ہے۔
راجہ صاحب اپنی سپاہ کے ساتھ آئے تو واقعی کوٹھڑی میں شیر بند تھا۔ انہوں نے تیس مار خان سے پوچھا کہ ”کن ہتھیاروں سے تم نے شیر کا مقابلہ کیا ہے؟ “
تیس مار خان نے مونچھوں کو تاؤ دے کر فرمایا ”ہتھیار کیسے؟ کیا ایک آدم خور شیر کو قابو کرنے کے لئے بھی ہتھیار کی ضرورت
ہوتی ہے؟ میں نے اسے دونوں کانوں سے پکڑا، کاندھے پر لادا اور ادھر کوٹھڑی میں بند کر دیا“۔ شیر کو سپاہی پنجرے میں بند کر کے شہر کی طرف چلے اور آگے آگے ہاتھِی پر راجہ اور تیس مار خان سوار تھے۔
پرانے درباری یہ دیکھ کر خوب جلے اور انہوں نے پڑوس کے دشمن راجہ سے ساز باز
کر کے اسے ملک پر حملہ کرنے کو راضی کر لیا۔ راجہ کو دشمن کے حملے کی خبر ملی تو اس نے تیس مار خان کو حکم دیا کہ وہ فوج لے کر جائے اور دشمن کا مقابلہ کرے۔ تیس مار خان گھر پہنچا اور بیگم تیس مار خان کو کہنے لگا کہ ”میں تو زندگی بھر گھوڑے پر نہیں بیٹھا۔
بہتر یہی ہے کہ ہم بھاگ چلیں۔ “ بیگم تیس مار خان نے اسے تسلی دلاسہ دیا اور کہا کہ تم اپنے پاؤں گھوڑے کی رکابوں سے باندھ لینا اور یوں تم گھوڑے سے نہیں گرو گے۔ جب حملہ شروع ہو تو اپنا گھوڑا تیز بھگا کر وہاں سے نکل جانا۔ سب یہی سمجھیں گے کہ تم دشمنوں پر حملہ کر رہے ہو۔
اگر تمہاری فوج جنگ جیت گئی تو واپس فوج میں مل جانا، ہار گئے تو جان بچا کر بھاگ جانا“۔
تیس مار خان نے ایسا ہی کیا۔ سپاہیوں کو رکابوں سے پاؤں باندھنے کا حکم دیا تو وہ ہکے بکے رہ گئے۔ تیس مار خان نے ان کی حیرت دیکھ کر کہا ”دشمن کو دیکھتے ہی میں طیش میں دیوانہ ہو
جاتا ہوں اور گھوڑا میری رفتار کا ساتھ نہیں دے پاتا۔ اس لئے گھوڑے کے ساتھ پاؤں باندھنا ضروری ہے“۔ سپاہی نے پیر باندھ کر یہ سوچا کہ اب خان صاحب خود سے گھوڑے کو ایڑ تو لگا نہیں سکتے، اور گھوڑے کی پشت پر ایک قمچی پوری قوت سے جما دی تاکہ وہ تیس مار خان صاحب کی
رفتار کا ساتھ دے سکے۔
گھوڑا تیر کی طرح صفوں سے نکلا اور دشمن کی طرف دوڑا۔ خود کو تن تنہا دشمن کی طرف جاتے دیکھ کر تیس مار خان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ایک درخت کے نیچے سے گزرتے ہوئے انہوں نے گھبرا کر اس کی شاخ کو مضبوطی سے پکڑا اور لٹکنے کی کوشش کی
مگر بھول گئے کہ پیر گھوڑے سے بندھے ہیں۔ درخت کی جڑ کو دیمک کھا چکی تھی، وہ اکھڑ کر ان کے سر پر آن گرا۔ گھوڑا درخت سمیت ان کو لے کر دشمن کی صفوں کی طرف برق رفتاری سے بڑھا۔ دشمنوں نے دھول کا ایک بادل انتہائی تیز رفتاری سے اپنی طرف بڑھتے دیکھا اور جب دھول چھٹی تو
یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے کہ ایک درخت تیر کی مانند ان کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ وہ خوف سے کانپنے لگے کہ کوئی جادوگر ان پر حملہ کر رہا ہے اور اس کے جادو سے درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ کر ان پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ انہوں نے حواس باختہ ہو کر
ہتھیار پھینکے اور
میدانِ جنگ سے فرار ہو گئے۔
تیس مار خان دشمن کو تن تنہا شکست فاش دے کر واپس پلٹے تو راجہ نے قلعے سے باہر نکل کر ان کا خود استقبال کیا اور ان کو انعام میں نوبت اور ہاتھی عطا کیے۔ ایسا جیدار شخص بھلا کس نے دیکھا تھا جو تن تنہا ایک لشکر کو شکست دینے پر قادر تھا۔
اور درباری بھی اب تیس مار خان کی بہادری ماننے پر مجبور ہو گئے۔ راجہ نے تیس مار خان کے رتبے میں مزید اضافہ کیا اور اسے وزیر اعظم بنا دیا۔ یوں سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
تو بات یہ ہے کہ کئی ہیرو بازو کی بجائے زبان کے زور سے ہی تیس مار خان بن جاتے ہیں اور
دنیا ان سے امپریس ہوئی پھرتی ہے۔
تحریر: عدنان کاکڑ
بدقسمتی سے ایسا ہی ایک تیس مار خان آج کل ہمارے اوپر وزیراعظم نصب کر دیا گیا ہے جو باتوں سے ہی دنیا کو فتح کر سکتا ہے۔
🤐
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ملالہ یوسف زئی اور اس کے باپ ضیا الدین کے حوالے سےبہت کچھ ایسا ہے جو آپ کو ضرور جاننا چاہئے ۔۔
ملالہ کی (نام نہاد) کتاب " I am Malala" دراصل کرسٹینا لیمب نامی جرنلسٹ نےلکھی جس کی اصل وجۂ شہرت پاکستان اور پاک فوج کی مخالفت ہے اور اس پر حکومت
پاکستان کی جانب سے پابندی ہے۔
صرف چند باتوں کی نشان دہی سے آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایک پندرہ یا سولہ برس کی بچی اتنا منظم اور مربوط فساد کا حامل پروپیگنڈہ ہر گز تیار نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کا اسلوب تحریر اتنا پختہ ہو سکتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک تجربہ کار شرپسند اور
مفسد ذہن ہے اور باقاعدہ سوچی سمجھی سازش ۔جس پر خود ملالہ یقین رکھتی ہے۔ اس کتاب میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
سلمان رشدی کی گستاخانہ کتاب " شیطانی آیات" کے بارے میں لکھتی ہے کہ " اس کے والد کے خیال میں وہ آزادی اظہار ہے"
اس کتاب میں قرآن مجید پر تنقید کی گئی
کُچھ مہینے پہلے ایک دوست کے والد نے مجھے اپنے گھر بلایا اور کہنے لگے "بیٹا میری بیٹی کا فلاں جگہ سے رشتہ آیا یے اور وہ لوگ ماشاءاللہ اچھے کھاتے پیتے عزت دار گھرانے کے لوگ ہیں، اور وہ لڑکا آپ کی پہچان کا ہے، مجھے بتاؤ وہ لڑکا کیسا ہے کیا میری بیٹی کے لیۓ وہ لڑکا بہتر ثابت ہوگا"؟
میں نے لڑکے کا نام سنا تو اسی وقت نفی میں سر ہلادیا کہ نہیں انکل وہاں شادی مناسب نہیں، اس لڑکے میں بہت زیادہ خامیاں ہیں آپ کی بیٹی خوش نہیں رہ سکے گی۔
انکل نے مسکرا کر کہا، "ٹھیک ہے بیٹا بس یہی معلوم کرنا تھا" اسکے بعد مجھے کچن سے مچھلی کی خوشبو آنا بند ہوگئی اور ایک کپ
چاۓ پی کر میں واپس آگیا۔
کچھ دن بعد مجھے اسی دوست کی طرف سے بہن منگنی کا دعوت نامہ ملا، کارڈ میں نام پڑھ کر حیران ہوگیا کہ یہ تو وہی لڑکا ہے جس کے لیۓ میں نے انکل کو منع کیا تھا، بہرحال منگنی کی تقاریب میں ویسے ہی شرکت نہیں کرتا چاہے دو نیک ترین انسانوں کی ہی کیوں نا ہو۔
خاتون اول محترمہ بشری عمران نے لاہور میں " شیخ ابوالحسن شازلی صوفی ازم سائنس و ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر" کا افتتاح کر دیا ہے ۔ یہ سینٹر ملک کی معروف جی سی یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں قائم کیا جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر 100 ملین روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے
ساتھ اس کا علماء کرام ، صوفی ازم پر کام کرنیوالے سکالرز اور مذہبی و خانقاہی اداروں سے اشتراک ہوگا جبکہ طلباء کو سکالرشپس کی مد میں بھی خطیر رقوم فراہم کی جائیں گیں۔ خاتون اول کے وژن کے مطابق ریسرچ سینٹرز کا دائرہ کار پنجاب بھر میں بڑھایا جائے گا اور صوبے میں ریسرچ سینٹر
تک ریموٹ رسائی دی جائے گی تاکہ لوگ گھر بیٹھے اس سے مستفید ہوسکیں۔ اس سلسلہ میں سکالر شپ کیلئے راہنمائی کی غرض سے ہائر ایجوکیشن کے تعاون سے آن لائن رہنمائی مرکز پورٹل بھی قائم کیا جائے گا۔
یہ ایک خبر جبکہ دوسری جانب آج کی ہی دو مزید خبریں بھی پڑھ لیں ، پشاور میں صوبہ
آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس " پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی
آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم 2020 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
جاپان میں معاشرتی علوم " پڑھائی" نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔
جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل
#فوجی_دماغ
میرے والد صاحب 1971ء سے 1984ء تک پاکستان ائیر فورس بیس میں خطیب رہے، اس زمانے میں ہر سال بیس پر "سیرت کانفرنس" منعقد ہوتی، غالباََ 1980ء میں سیرت کانفرنس ہونے لگی تو سرکاری اجلاس میں طے کیا جانے لگا کہ بیس کے باہر سے کس بڑے عالم کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا
👇
جائے، والد صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا جو منظور کر لیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ڈائس پر مولانا اور بیس کمانڈر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، بیس کمانڈر نے مولانا سے اظہار تشکر کے طور پر کہدیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بہت بڑے عالم اور شیخ الحدیث ہیں،
👇
مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ ہماری دعوت پریہاں تشریف لائے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے فرمایا، مجھے بھی یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے، باقی سچ یہ ہے کہ میں کوئی بڑا عالم یا شیخ الحدیث نہیں ہوں بلکہ ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔
کانفرنس کے اگلے روز بیس کمانڈر نے والد صاحب کو طلب کر
👇
کسی شہر مین ایک رقاصہ رہتی تھی، جسے ٹھیک سے ناچنا نہیں آتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز اسے کسی دوسرے شہر جانا پڑا۔ اس شہر میں اس نے اپنے آپ کو ایک نامور رقاصہ مشہور کردیا۔ رقاصہ کو دعوت دی گئی۔ اس کے رقص سے محظوظ اور لطف اندوز ہونے کے لیے شہر کے شوقین اکھٹا ہوئے۔ وہ ٹھیک سے
ناچنا تو جانتی نہیں تھی، مرتی کیا نہ کرتی۔ ناچنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور ناچار ناچنا شروع کیا، مگر ناچ نہ سکی۔ اپنے عیب کو چھپانے اور جھینپ مٹانے کے لیے اس نے کہا، ٹھیک سے ناچوں تو کیسے؟ یہ آنگن ٹیڑھا ہے۔ اس پر کسی نے فقرہ کسا، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔”
کہاوت کا مطلب ہے "نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نہ ہوسکنا۔” یہ مثل اس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے یا اس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر الزام رکھے۔
اس کی زندہ مثال کپتان اور اس کی حکومت ہے جو لگ بھگ تین سال پورے کرنے کو ہے