حضرت ابوالکلام کہتے ہیں کہ ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کرینگے لیکن انہوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج سکول میں میرا
دن کیسا گزرا مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن۔۔۔۔۔۔۔اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی میرے والد نے کہا کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے
میں پوچھ ہی لیا کہ۔۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا ؟ انہوں نے پیار سے مجھے جواب دیا ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہے۔۔۔۔۔۔۔میرے بچے یہ دُنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری
پڑی ہے میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرنا
ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔
مکمل تحریریں پڑھنے اور مکمل کاپی کرنےکیلئےفیسبک پیج لائک اور فالو کرلیں👇
صور کیا ہے؟
حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "وہ ایک بیل کا بہت بڑا سینگھ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کا نبی بنا کر مبعوث فرمایا کہ اس صور کے ہر دائرے کی لمبائی اور چوڑائی زمین و آسمان کہ برابر ہے اس صور میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا۔
ایک دفعہ صور میں پھونکا جائے گا گھبراہٹ کے لیے۔دوسری مرتبہ صور میں پھونکا جائے گا بے ہوشی کے لیے۔تیسری مرتبہ جب صور پھونکا جائے گا تو سب بے ہوش اور مدہوش کو اٹھانے کے لیے ہو گا۔جب اللہ تعالی پہلی مرتبہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم کریں
گے تو جتنے لوگ زمین و آسمان میں ہوں گے سب کہ سب گھبرا جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا"و یوم ینفع فی الصور ففزع من فی السموت و من فی الارض"اور اس دن کہ جب صور میں پھونکا جائے گا تو جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب پریشان ہو جائیں گے۔یعنی جو
لکھنو شہر میں ایک نائی کو ہر ایک کی نمازِ جنازہ میں شریک ہونے کی عادت تھی وہ اپنا اوزاروں والا باکس اٹھائے شہر بھر گھومتے رہتے جہاں کہیں اُنہیں معلوم ہوتا کہ کسی کا نمازِ جنازہ ہونے والا ہےوہ اپنا باکس کسی دکان پررکھ کر اُس کے جنازے میں شرکت کے لئے پہنچ جاتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ
اُنہیں کئی میل پیدل چل کر شہر کے کسی کونے میں نماز جنازہ پڑھنے جانا پڑتا لیکن انہوں نے کبھی اِسے زحمت نہیں سمجھا اور پورے خلوص دل کے ساتھ شریک ہوتے۔۔۔۔۔۔۔ایک دِن اُنکے پہچان کے کسی دکاندار نے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ تم بہت سے مرحوم کو تو جانتے تک
نہیں ہو اِس کے باوجود اِس قدر ذوق و شوق سے نمازِ جنازہ پڑھنے جاتے ہو؟جب کہ یہ فرض کفایہ ہے ہر ایک کے لئے پڑھنا لازمی نہیں۔۔۔۔۔۔۔اُنہوں نے یقین بھرے لہجے سے کہا میں محض اِس لئے شریک ہوتا ہوں کہ کیا خبر "اللّٰہ" میرے جنازے میں بھی برکت عطا کر دیں اور میرے جنازے
شفیق بلخیؒ اور حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کے درمیان سچی دوستی تھی ایک مرتبہ شفیق بلخیؒ اپنے دوست ابراہیم بن ادہمؒ کے پاس آئے اور کہا کہ میں ایک تجارتی سفر پر جا رہا ہو سوچا کہ جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کر لوں کیوں کہ شاید سفر میں مجھے کئ مہینے لگ جائیں۔۔۔۔۔۔ لیکن شفیق بلخیؒ کچھ دنوں
میں ہی واپس لوٹ آئے جب حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے انھیں مسجد میں دیکھا تو آپ حیرت سے پوچھ بیٹھے کیوں شفیق ! تم اتنے جلدی لوٹ آئے؟۔۔۔۔۔۔۔حضرت شفیق بلخیؒ نے جواب دیا حضرت صفر کے دوران میں نے راستے میں ایک حیرت انگیز منظر دیکھا اور الٹے پاوں
ہی گھر لوٹ آیا ہوا یوں کہ میں ایک غیر آباد جگہ پہنچا وہیں میں نے آرام کے لیے پڑاو ڈالا۔۔۔۔۔۔۔اچانک میری نظر ایک پرندے پر پڑی جو نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ اڑ سکتا تھا مجھے اُس کو دیکھ کر ترس آیا میں نے سوچا کہ اس ویران جگہ پر یہ پرندہ اپنی خوراک کیسے پاتا ہوگا میں اسی
ایک بار ایک تاجر غلاموں کی منڈی میں گیا تو اسے ایک ترک بچہ بہت پسند آیا اور اسے تاجر نے فوراً خرید لیا۔ تاجر نے بچے سے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے۔ لڑکے نے جواب دیا : جناب میں اپنا نام بتا کر اپنے نام کی توہین نہیں کرنا چاہتا ۔ میں غلام ہوں اس لئے آپ جس نام سے پکاریں گے وہی
میرا نام ہوگا ۔ تاجر کو اس جواب پر حیرت ہوئی لیکن اسے یہ بات پسند بھی آئی کہ بچے میں عزت نفس کا احساس باقی ہے۔تاجر نے اس بچے پر خاص توجہ دی اور اسکی تعلیم اور تربیت کا انتظام کیا ۔
بچے نے بہت جلد تیر اندازی، تلوار بازی اور شہسواری میں ایسی مہارت حاصل
کی کہ خود تاجر حیران رہ گیا ۔ غزنی کا بادشاہ شہاب الدین غوری ایک بار گھوڑوں کی دوڑ کا مقابلہ دیکھ رہا تھا ۔ تاجر اپنے غلام کو لے کر اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ حضور میرے اس غلام کو گھڑ سواری میں کوئی نہیں ہرا سکتا ۔
بادشاہ نے مسکرا کے لڑکے سے پوچھا :
حضرت بلال حبشیؓ
اتنی شدّت کا عشق مصطفیٰ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ان کے دل کو عطاء کیا گیا۔ نصیب دیکھیں۔ عشق دیکھیں۔ اور محبوب بھی دیکھیں۔ اللّه اللّه ❤ کس قدر ظلم ڈھائے گئے،تپتی ریت پر رسی سے باندھ کر گھسیٹا گیا۔ جلتے کوئلوں پر لٹایا گیا، گلے میں رسی ڈال کر کھینچا گیا،
لیکن جس دل میں عشق مصطفیٰ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی شمع جل جاۓ، تو کیسے ممکن کہ دنیاوی مظالم اسے پیچھے کر سکیں۔ سوچئے تو سہی کس قدر دل افروز نظارہ ہوگا جب آقا کریم صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے حکم دیا ہوگا۔ بلال اذان دو، بلال نے اذان دی ہوگی اور ہر عاشق
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا سینہ اللّه، احد احد کے نور سے بھر گیا ہوگا۔
کیا پرکیف نظارہ ہوگا جب کہا ہوگا اشھد ان محمّد رسول اللّه اور حضرت محمّد رسول اللّه بلالؓ کے برابر کھڑے ہوں گے اس قدر عشق کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہر جگہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے
حضرتِ اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور نبی پاک صل اللہُ علیہ وسلم کى زیارت نہیں کر سکے لیکن دل میں حسرت بہت تھى کے حضور کا دیدار کر لوں بوڑھى ماں تھیں اور انھی کى خدمت آپ کو حضور کے دیدار سے روکے ہوئے تھى ادھر حضور ﷺ یمن کى طرف رُخ کر کے کہا کرتے تھے کے مجھے یمن سے اپنے
یار کى خوشبو آ رہی ہے ایک صحابی نے کہا حضور آپ اُس سے اتنا پیار کرتے ہیں اور وہ ہے کہ آپ سے ملنے بھى نہیں آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اُس کى بوڑھى اور نابینا ماں ہے جس کی اویس بہت خدمت کرتا ہے اور اپنی بوڑھی ماں کو وہ تنہا چھوڑ کر نہیں آ سکتا۔
آپ ﷺ نے حضرت
عمرؓ اورحضرت علیؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے دورمیں ایک شخص آئے گا جس کا نام ہو گا اویس بن عامر، قد ہو گا درمیانہ، رنگ ہو گا کالا، اور جسم پر ایک سفید داغ ہو گا۔ جب وہ آئے توتم دونوں نے اس سے دعا کرانا کیونکہ اویس نے ماں کی ایسی خدمت کی ہے جب بھی